Monday, January 31, 2011

معاملہ صرف پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کا ہے!...نقش خیال…عرفان صدیق

                                

دوہرے قتل کے الزام میں گرفتار امریکی، ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے تناؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ کیا یہ تناؤ دونوں ممالک کے درمیان تصادم کی شکل اختیار کرسکتا ہے؟ کیا امریکہ اپنے ایک شہری کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے؟ کیا دنیا کی سب سے طاقتور اور خون آشام ریاست، اسے پاکستان کو ایک سبق سکھانے کا جواز بنا سکتی ہے؟کیا پاکستان ہمہ پہلو دباؤ کا مقابلہ کرسکے گا؟ کیا وفاقی حکومت پورے عزم کے ساتھ حکومت پنجا ب کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی؟
ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی یہ ہے کہ قتل کی یہ واردات لاہور میں ہوئی۔ معاملہ پنجاب اور شہباز شریف سے آپڑا۔ اگر یہ واقعہ اسلام آباد یا وفاقی حکومت کے براہ راست زیر اثر علاقے میں پیش آیا ہوتا تو صورت حال قطعی مختلف ہوتی۔ میں یہ بات کسی بدگمانی یا قیاس آرائی نہیں، ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ گزشتہ برس ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے دو سفارتکار اسلام آباد کے ایک ناکے پر پکڑے گئے۔ ان کے پاس ہینڈ گرنیڈز، جدید ترین رائفلیں اور اسلحہ کی ایک کھیپ تھی۔ تھانہ سیکریٹریٹ میں ایف آئی آر کے بجائے ایک عمومی نوعیت کی شکایت درج ہوئی۔امریکی سفارتخانے کے ایک ملازم سنی کرسٹوفر نے معاملے میں براہ راست مداخلت کی۔ خبروں سے اندازہ ہوا کہ شاید ایک بڑا اسکینڈل سامنے آنے کو ہے کہ ڈنمارک، امریکیوں کو ممنوعہ اسلحہ کی فراہمی کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن دو دنوں کے اندر اندر مطلع صاف ہوگیا۔ نہ کوئی مقدمہ درج ہوا، نہ تحقیق و تفتیش ہوئی نہ بات آگے بڑھی۔ اسلام آباد کے حکمرانوں نے گوروں کی خوشنودی خاطر کے لئے سب کچھ قالین کے نیچے چھپا دیا۔
یہ جون 2009ء کا ذکر ہے۔ پشاور سے آنے والی ایک ڈبل کیبن گاڑی کو اسلام آباد کی گولڑہ چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ گاڑی رکنے کے بجائے تیزی سے کروٹ بدل کر آگے گزر گئی۔ پولیس نے اسے مشکوک خیال کرتے ہوئے اگلی چیک پوسٹ کو خبردار کردیا۔ جی نائن فور کے خیبر چوک پر گاڑی روک لی گئی۔ گاڑی سے تین امریکن برآمد ہوئے۔ انکے نام جیفری، جیفڈک اور جیمز بل بتائے گئے۔ بینڈک نامی ڈرائیور بھی امریکی تھا۔ ان سب نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور چہروں پر داڑھیاں تھیں۔ ان سے چار ایم ۔4 ، مشین گنیں اور چار نائن ایم ایم کے پسٹل برآمد ہوئے۔ فوراً پولیس کے حکام بالا اور سرکار کو آگاہ کیا گیا۔ فرمان جاری ہوا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ رخصت کردو۔ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ باز پرس کی نوبت آئی نہ یہ پتہ چل سکا کہ افغانوں جیسا حلیہ رکھنے والے یہ اسلحہ بردار امریکی کس مشن پر تھے۔
یہ 5اگست 2009ء کا ذکر ہے۔ اسلام آباد پولیس کا انسپکٹر حاکم خان، اپنی بیوی کے ہمراہ ، اپنی گاڑی میں سوار امریکی سفارت خانے کے قریب بنی چیک پوسٹ کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ ایک امریکی اہلکار جان آرسو نے گاڑی روک لی۔ وہ میاں بیوی کو بڑا بھلا کہنے اور گالیاں دینے لگا۔ پولیس انسپکٹر نے کہا…”آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ایک پبلک شاہراہ پر گاڑیاں روک کر چیک کرتے پھرو؟“ امریکی نے اپنی کمر سے پسٹل نکالا اور انسپکٹر پر تانتے ہوئے کہا ”میں کچھ بھی کرسکتا ہوں“۔ انسپکٹر حاکم خان نے واقعے کی باقاعدہ رپورٹ اپنے حکام بالا کو دی لیکن کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اس واقعے کے صرف ایک ہفتہ بعد، 12اگست 2009ء کو سفارتی انکلیو میں رہنے والا ایک نوجوان، اپنے دو دوستوں کے ہمراہ سوزوکی گاڑی میں امریکی سفارت خانے کے سامنے والی سڑک سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک امریکی جوڑا واک کررہا تھا۔ امریکی جوڑے نے کار روک کر لڑکوں سے تلخ کلامی کی۔ اس کی گاڑی کا سائیڈ مرر توڑ دیا۔ انہیں گالیاں دیں۔ تینوں نوجوانوں نے اس رویے پر احتجاج کیا۔ اس پر امریکیوں نے انہیں قریبی چیک پوسٹ پرموجود امریکی سیکورٹی گارڈز کے حوالے کردیا۔ وہ چالیس منٹ تک غیر قانونی حراست میں رکھے گئے۔ انہیں اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ کبھی اس سڑک پر گاڑی نہیں چلائیں گے۔ کوئی شکایت، کوئی ایف آئی آر نہ کٹی۔
اس واقعے کہ دو ہفتے بعد 26اگست 2009ء کو دو امریکیوں نے شیل پٹرول پمپ سپر مارکیٹ کے مالک محسن بخاری کی گاڑی روک لی۔ معاملہ شاید ڈرائیونگ میں کسی بے احتیاطی کا تھا۔ امریکیوں نے تلخ کلامی کی۔ محسن بخاری کو پکڑ کر اس کے پٹرول پمپ لے آئے۔امریکی سفارتخانے کا ایک سیکورٹی اہلکار بھی وہاں پہنچ گیا۔ دیر تک خوف و ہراس کی کیفیت کے بعد محسن بخاری کی گلو خلاصی ہوئی۔ محسن پیپلزپارٹی کے سینیٹر نیر بخاری کا قریبی عزیز ہے لیکن معاملہ وہیں ٹھپ کردیا گیا۔
دو دن بعد 28اگست 2009ء کو کشمیر ہائی وے پر پشاور موڑ کے قریب اسلام آباد پولیس نے دو گاڑیوں کو روکا۔ ایک پراڈو تھی اور دوسری ڈبل کیبن۔ ان میں چار امریکن تشریف فرما تھے۔ چاروں کے پاس ایم۔4 رائفلیں تھیں اور ایمونیشن بھی۔ دونوں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس جعلی تھیں۔ چاروں نے بتایا کہ وہ امریکی فوجی ہیں۔ ان کے پاس اسلحے کا کوئی لائسنس تھا نہ سفارتخانے کا کوئی اجازت نامہ۔ ایک افغان باشندہ احمداللہ بھی ان کے ہمراہ تھا۔جس نے بتایا کہ وہ امریکی سفارت خانے میں قیام پذیر ہے۔ پولیس اہلکاروں نے اسلام آباد کے بڑوں کو اطلاع کی اور معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔
اور یہ جون 2010 ء کا ذکر ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والا گیری بروکس فاکنر نامی ایک شخص چترال سے گرفتار ہوا۔ اس کی تلاشی لی گئی۔ ایک پسٹل، ایک خنجر، چالیس انچ لمبی تلوار اور اندھیرے میں دیکھنے والی خصوصی عینک برآمد ہوئی۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ برس کے دوران وہ سات بار پاکستان آچکا ہے۔ تمام حقائق اسلام آباد کے حاکموں کے علم میں لائے گئے۔ حکم صادر ہوا کہ شہنشاہ عالم پناہ کی بارگاہ اقدس سے تعلق رکھنے والے معزز مہمان کو عزت و احترام کے ساتھ امریکی سفارتخانے پہنچا دیا جائے۔
یہ اور اس طرح کے درجنوں دوسرے واقعات نے امریکیوں کے حوصلے بڑھا دیئے۔ جعلی پلیٹوں والی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر جدید اسلحہ سمیت مٹر گشت کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اسلام آباد ان کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ سیکڑوں مکانات اب ان کی تحویل میں ہیں اور وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرگزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی ہوئی کہ وہ لاہور میں پکڑا گیا۔ آن واحد میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کو خبر دی گئی۔ ہدایت دو ٹوک اور واضح تھی…”مجھے قاتل کے نام اور قومیت سے کوئی غرض نہیں۔ اسے گرفتار کرو اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر قتل کا باضابطہ مقدمہ درج کرو۔ اسلام آباد یا کہیں سے بھی کوئی دباؤ آئے تو مجھے بتاؤ۔ اسی شام شہباز مقتولین کے گھروں میں پہنچے اور کہا۔ کسی پاکستانی کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ اگلے دن امریکی سفیر نے میاں نواز شریف کو فون کرکے واقعے پرمعذرت کی اور کہا۔ ریمنڈ ایک سفارتکار ہے ۔ اسے چھوڑ دیا جائے ۔ ہم امریکہ میں اس پر مقدمہ چلائیں گے“۔ نواز شریف نے مختصر سا جواب دیا۔ ایکسی لینسی! پوری پاکستانی قوم رنج و غم میں مبتلا ہے۔ معاملہ عدالتوں تک جاچکا ہے۔ آپ ہمارے نظام قانون و انصاف پر اعتماد کریں اور قانون کو اپنا راستہ لینے دیں۔
اگر ریمنڈ یہی کچھ اسلام آباد وفاقی حکومت کے حلقہ اثر میں کرتا تو وہ گرفتار ہوتا نہ مقدمہ چلتا۔ کم از کم ماضی کی وارداتیں یہی بتاتی ہیں۔ اب بھی خطرہ ہے کہ وفاقی حکومت یا دفتر خارجہ قانونی عمل پر اثر اندازنہ ہوں۔ انہیں چاہئے کہ سیاست سے بے نیاز ہو کہ اس معاملے کو قومی حوالے اور پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ حکومت پنجاب کا بھرپور ساتھ دیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے موقف اور حکمت عملی میں بال برابر فرق نہیں ہونا چاہئے کہ یہ صرف پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کا معاملہ ہے

Woman Has Worm In Eyebal


Woman Has Worm In Eyeball

Diagonal View | Myspace Video

LOVE TO HUMANITY

The Clone Wars: "Overlords"

The Clone Wars: January 2011

Khabar Naak 30th January 2011

Front Line 30th January 2011

Darling - 30th jan 2011

hasb e haal - 30th jan 2011

front line - 30th jan 2011

In Session - 30th jan 2011

The Case of Raymond Davis


 
 

The Case of Raymond Davis

NadeemMalik | 2011 at 9:24 pm | Categories: CURRENT AFFAIRS | URL: http://wp.me/p28Dn-da

The Case of Raymond Davis

NADEEM MALIK Facebook Twitter.com

NADEEM MALIK پاکستان کا کہناہے کہ ریمنڈڈیوس کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اس لئے اس پر کوئی تبصرہ یارائے نہیں دی جاسکتی ،عدالت جوبھی فیصلہ کرے گی اس کا احترام کیا جائے گا. امریکی سفارتخانے نے ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ریمنڈڈیوس کی گرفتاری غیر قانونی اورویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے

safe_image.php?d=83007fd09a9a58efe19a745a89d99fbd&w=130&h=130&url=http%3A%2F%2Fi.ytimg.com%2Fvi%2F9MtBmyMgKOo%2F0.jpg

The (Very) Strange Case of Raymond Davis

Adil Najam
Strangely, the more we get to know about the case of Raymond Davis (linked with a US firm http://hyperion-protective.com/index.html), the less we seem to know. Even more strangely, the fact that the entire incident happened in broad daylight and in front of dozens of witnesses seems is itself confusing the facts rather than adding clarity. Moreover, it seems that no one seems to want to get much clarity either; although different parties may want different parts of the story to ‘disappear.’ The incident was rather eerie and disturbing to begin with; and it continues to become more so.

Here is what one does know. Raymond Davis, a staff member of the US Consulate in Lahore shot two Pakistani men dead on Thursday in a crowded part of Lahore (Mozang Chowk), according to him in self-defense. A US Consulate vehicle that rushed in to ‘rescue’ Mr. David then ran over a third person, who also died. A murder case was then registered against Raymond Davis, who was handed into police custody. A case has also been registered against the driver of the US Consulate vehicle that ran over a third person, but the driver has not yet been apprehended. After a fair deal of scrambling by both US and Pakistani officials on what to do or say, the positions of both have now started becoming clear and they have taken the stance that is usually taken in such cases: the US is asking that Raymond Davis, as a diplomatic functionary, should be handed back to them; Pakistan seems to be responding that the matter is sub judice and should take its course.
Beyond that, there are more questions than answers. For most part, these questions fall into three categories: (1) Questions about who is Raymond Davis? (2) Questions about exactly what happened at Mozang, Lahore? (3) Questions about what should happen now ?
On the first question, earliest reports suggested that Raymond Davis was a “technical adviser” and a “consular” official. More recently, US Embassy officials have described him as a “functionary” of the Embassy assigned to the US Consulate in Lahore and carrying a US Diplomatic passport. Reportedly he was hired at the US Consulate in Lahore as a security contractor from a Florida-based firm Hyperion Protective Consultants. All of this has material relevance to whether he would enjoy diplomatic immunity or not, but even more because of the apprehensions of many Pakistanis that he could be linked to the CIA or to the infamous firm Blackwater (later renamed XE Services).
And that leads squarely to the second question: what exactly was happening at Mozang? Very much in line with the immediate knee-jerk reaction of many Pakistanis, an early commentary by Jeff Stein in The Washington Post seemed to suggest rather fancifully that the shootout could have been a“Spy rendezvous gone bad?” That would be a conspiracy theory, but not an entirely implausible one. Mozang is not a part of town that you would expect too many foreigners, let alone a US official, visiting; and certainly not in what was reportedly a rented private vehicle. And while Pakistan today is clearly an unsafe place, the question of just why an Embassy official was carrying a firearm be wished away. On the other hand, however, Mr. Davis claims that he shot in self defense as the two men on the motorcycle were trying to rob him at gun point. Anyone who knows Pakistan knows all too well that this, too, is entirely possible. TV footage and reports coming immediately after the incident showed one of the young men lying dead with a revolver and wearing an ammunition belt. And certainly, the question of why at least one of the two young men on the motorcycle was carrying a loaded firearm cannot be wished away just because he had “dushmani.” Indeed, serious questions need to be asked about just who the two young men on the motorcycle were, just as they need to be asked about who Raymond Davis is. There just seem to be too many unnecessary weapons in too much proximity in this story. All of the many explanations that are floating around are very disturbing, but also very plausible. Which is exactly why this story is even more dangerous if left unresolved.
Finally, the third question – which is now getting the most attention – about what should happen now. Much is being made – maybe too much –about the Vienna Convention and its implications for diplomatic immunity. Familiar diplomatic games about the minutia of vocabulary are being played and will in most likelihood result in all too familiar results. That is exactly what one would expect in any such situation anywhere. But this is not ‘any‘ situation’; and this is not ‘anywhere‘. This is about US-Pakistan relations: there is just about nothing that the US can say or do which Pakistanis are likely to believe, and there is just about nothing that Pakistan can say or do which Americans are likely to trust. Which is why getting stuck in the intricacies of the Vienna Convention of 1963 is the exact wrong place to get stuck. This is a time for public diplomacy: certainly from the US and maybe even from Pakistan. It is not in America’s interest to be seen to be standing in the way of justice and due process. And it is not in Pakistan’s interest to be seen to conducting a flawed process of justice. There are too many people on the extreme in both countries who will not and cannot to change their opinion and apprehensions about the other. But there are even more people in both countries who could all too easily be swayed to the extremes on distrust if this delicate case is not handled with clarity and transparency by both countries. Doing so will probably bring with it more than just a little diplomatic embarrassment. Not doing so can only bring worse in the tinderbox that is US-Pakistan relations.
By way of background, the foundation for this principle was laid down in the Vienna Convention on Diplomatic Relations, 1961, which is considered the most important international agreement on diplomatic immunity. The relevant part of Article 31 of this Convention sets out the immunity of a diplomatic agent from the criminal jurisdiction of the country in which the diplomatic agent is working. A diplomatic agent has been defined in Article 1 of the convention as the head of the mission or a member of the diplomatic staff of the mission which includes administrative, technical and service staff of the mission.

Lahore shootout: Spy rendezvous gone bad?

By Jeff Stein
A senior former U.S. diplomatic security agent suggested Thursday that the American involved in a fatal shootout in Lahore, Pakistan, was the victim of a spy meeting gone awry, not the target of a robbery or car-jacking attempt.
"It looks like an informant meet gone bad more than a car-jacking attempt,” said Fred Burton, a former deputy chief of the U.S. Diplomatic Security Service’s counter-terrorism division.
Early reports were sketchy. Many said the American, identified in the Pakistani press variously as Raymond David, or just “Davis,” had shot two armed men on a motorcycle “in self defense” as they approached his car in a robbery attempt. As the American sped away, another Pakistani on a motorcycle was killed, according to the reports.
[SATURDAY UDATE: Embassy officials have identified the man as Raymond A. Davis. A senior U.S. official quoted by The Post said Davis was a "permanent diplomat" who was assigned to the U.S. Embassy in Islamabad as a security officer, a role the official described as "a guy who is in the protection of people."]
A Lahore police official earlier told The Post that “another U.S. vehicle was traveling with the sedan and that the American then fled the scene in that car. As it sped away, it hit a motorcyclist, killing him.”
Pakistan's GEO TV broadcast a photo of a broad-faced, 40-something man in a plaid shirt sitting in the back of a police car, who it identified as the American involved in the shootout.
According to Burton, who worked on several major terrorism cases in the 1980s and 1990s, the incident showed that David “had outstanding situational awareness to recognize the attack unfolding and shoot the other men.”
“It shows a high degree of firearms discipline and training,” Burton added. “Either the consulate employee's route was compromised by terrorist or criminal surveillance, or it's feasible he was set up in some sort of double-agent operation, if this wasn't a criminal motive.”
David was quickly apprehended and surrendered a Beretta pistol and three cell phones, according to local reports quoting police. He remains in custody.
No immediate explanation was given for David’s presence in Lahore’s Qartaba Chowk area, a mixed commercial and residential where two major roads meet.
“Even if U.S. officials are cleared of wrongdoing,” The Post correspondents reported, “the incident could be explosive in a nation where anti-American sentiment is strong. Some Pakistani news channels covering the episode raised the possibility that the Americans involved were employees of Blackwater, an American security contractor, now known as Xe Services, that is widely viewed in Pakistan as a sort of mercenary agency.”

0:45Add to
NadeemMal...
shim.gif
کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟...نقش خیال…عرفان صدیقی
dot.jpg
shim.gif
shim.gif
لاہور کے عین قلب میں ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی کی طرف سے تین پاکستانیوں کا قتل ، اس پاکستان کی ایک تصویر ہے جس کی نقش گری نائن الیون کے فوراً بعد ہوئی، جس میں ایک سیاہ رو ڈکٹیٹر نے رنگ بھرا اور جو آج لوح پاکستان پر یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی ہے۔یہ شرمناک حقیقت اب تک کوئی راز نہیں رہی کہ پچھلے کئی برس سے پاکستان عالمی اوباشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ سفید فام گرگے طرح طرح کے ناموں سے جانے کیا کیا کچھ کر رہے ہیں۔ریمنڈ ڈیوس کون ہے؟ اس کا اصل نام کیا ہے؟وہ کس مشن پر یہاں آیا ہوا ہے؟ نو بار اس کی یہاں آمد ورفت کے مقاصد کیا ہیں؟ اردو اور پشتو میں اس کی مہارت کس طرف اشارا کرتی ہے ؟امریکی سی آئی اے سے اس کا کیا ناتا ہے؟ سی۔ آئی ۔اے سے اس کا تعلق کیا ہے؟ بلیک واٹرز کا وہ کیا لگتا ہے؟ ان سب باتوں کو ایک آدھ دن کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی ریاست میں کتنا کس بل ہے؟ قانون کے اندر کتنی توانائی ہے؟ پاکستان کے حکمرانوں میں کتنی سکت ہے ؟ انصاف کی کارفرمائی کا کیا عالم ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ اتنی مقبول حکومت ایک امریکی گورے کے ساتھ وہ سلوک روا رکھ سکتی ہے جس کا نشانہ ہر روز سینکڑوں ہزاروں پاکستانیوں کو بناتی ہے ؟
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان روایتی معنی ومفہوم کے مطابق ایک ایسی ریاست رہ گیا ہے جسے آزاد وخود مختار کہاجا سکے ؟ جس کی حاکمیت اعلیٰ محفوظ ہو؟ جس کے فیصلے اس کے اپنے اختیار میں ہوں؟ جو اپنے اہداف و مقاصد اپنی منزلوں اور اپنے راستوں کا تعین خود کر سکے؟جس کی پالیسیاں اس کی اپنی ٹیکسال میں ،ڈھل رہی ہوں؟ جو قومی خودی کا کوئی اثاثہ رکھتا ہو؟ جس کی تجوری میں قومی غیرت و حمیت کی کوئی پونجی محفوظ ہو؟
جو نہیں مانتے تھے انہوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور جو اب بھی نہیں مان رہے وہ کل تسلیم کر لیں گے کہ امریکی کروسیڈ نے کسی اور کا کچھ بگاڑا یا نہیں؟ہمیں بے بال و پر کر گیا۔ تب ملک کی باگ ڈور ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھ میں تھی۔ ایسا ڈکٹیٹر جس کے ساتھ صدر کلنٹن نے ہاتھ ملانے اور تصویر بنوانے سے انکار کر دیا تھا ۔ ایک راندہ درگاہ شخص جسے اپنا آپ منوانے اور اپنا تحکم قائم کرنے کے لئے کسی عالمی بیساکھی کی ضرورت تھی۔ وہ ہنسی خوشی کسی بھی پرشکوہ شاہی بگھی کا گھوڑا بننے اور پے در پے چابک کھانے کے لئے تیار تھا ۔ جب ایک امریکی اہلکار نے اسے فون کر کے سات مطالبات کی فہرست سنائی تو اس کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ یہ اس کے لئے اپنا آپ منوانے اور امریکی کروسیڈ کے ذریعے ایک عالمی مسلم کش مہم کا حصہ بننے کا سنہری موقع تھا۔ فون بند کرنے سے قبل اس نے ساتوں مطالبات تسلیم کر لئے۔ خود امریکی دانتوں تلے انگلی داب کر رہ گئے کہ انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا ۔ مشرف، قومی مفادات ، آزادی ، خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ کے احساس سے دستکش ہو کر امریکی کروسیڈ کی تھاپ پر رقص کرتا رہا۔ امریکی اسے پچکارتے رہے، اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے اور اسکے بالوں میں کنگھی کرتے رہے۔ ڈکٹیٹر کی آرائش و زیبائش کے ان کم نصیب دنوں میں پاکستان یتیم بچے کی طرف رلتا رہا۔ اس کے ہوائی اڈے ،اسکی بندرگاہیں، اس کی تنصیبات ، اس کی فضائیں، اس کی انٹیلی جینس پر اس کی حساس معلومات، سب کچھ امریکیوں کے سامنے لذت آفریں دستر خوان کی طرح پھیلا دیا گیا ۔ فوج بے بس تھی کہ یہ سب کچھ خود فوج کا سربراہ کر رہا تھا۔ پارلیمینٹ تھی ہی نہیں۔ جب بن گئی تو کنیز کی طرح گردن جھکا کر ڈکٹیٹر کے حضور دست بستہ کھڑی ہو گئی۔ آج بڑے بڑے دعوے کرنے والی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے حصہ دسترخوانی اور تسکین شکم کی قیمت پر مشرف کی مجرمانہ وطن فروشی میں پوری طرح شریک تھیں۔
یہی وہ نامسعود گھڑی تھی جب امریکیوں نے اپنے تئیں پاکستان کو اپنی جاگیر کا درجہ دے دیا۔ مشرف نے اپنی سرپرستی اور اپنے اقتدار کی ضمانت پر امریکیوں کو پاکستان کے طول و عرض میں کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دی۔ ایک آزاد ریاست کے طور پر ہمارا کوئی بھرم رہا نہ وقار۔یہاں تک کہ نہایت حساس معاملات بھی پردہ داری اور رازداری کے غلاف میں نہ رہے۔ ڈرون حملے پاکستانیت پر کھلے حملے تھے جن کی اجازت دے دی گئی۔ کتنی ہی لیپا پوتی کر لی جائے یہ انتہا کی حیا باختہ حقیقت درودیوار پر کندہ ہو کر رہ گئی ہے کہ امریکی ڈرونز ،ہمارے ہوائی اڈوں سے ایندھن لیتے ، ہمارے ہوائی اڈوں سے پرواز کرتے، ہمارے ائر ٹریفک کنٹرول سے راہنمائی حاصل کرتے،ہماری بستیوں پہ میزائل گراتے اور ہمارے لوگوں کو خاک و خون میں نہلا کر پھر سے ہمارے ہی کسی آشیانے میں جابیٹھتے ہیں۔ اب تک ہزاروں پاکستانی اس سفاکی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان کے کوئی نام ہیں، نہ پتے نہ شناخت، جنگلوں میں آوارہ پھرتی بھیڑ بکریاں تھیں جو بھسم ہو گئیں۔
فروری2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والا جمہوری نظام ،امریکی غلامی میں جکڑے اسی مکروہ بندوبست کی کوکھ سے طلوع ہوا جس کے سر پر اب بھی پرویز مشرف بیٹھا ہوا تھا۔ مقام افسوس ہے کہ اس ضمن میں پارلیمینٹ کی قراردادیں بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئیں۔ کوئی شعوری کوشش کی ہی نہیں گئی کہ اگر نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ سے تعاون ناگزیر ہے تو بھی اپنے قومی مفادات اور آزادی و خود مختاری کی واضح حدود کا تعین کر لیا جائے اور امریکیوں پہ بھی واضح کر دیا جائے کہ اب یہاں فرد واحد کی نہیں، عوامی جذبہ و احساس کے پاسبان نمائندوں کی حکومت ہے لیکن جو کچھ ہوا، اس کے برعکس تھا۔آنے والوں نے جانے والے سے بھی زیادہ وفا شعاری اور اطاعت گزاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے تمام معاملات میں امریکہ کو ایک ”سٹیک ہولڈر“ کا درجہ دے دیا جائے جس کے لئے کوئی موضوع بھی شجر ممنوعہ نہیں رہا ہے ۔
1980کی دہائی میں بھی کم وبیش ایک عشرے تک افغانستان میں ایک بڑا معرکہ لڑا جاتا رہا۔ پاکستان اس معرکے کا بنیادی کردار تھا۔ امریکہ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ اس معرکے میں شریک تھا لیکن ضیاء الحق نے کبھی امریکیوں کو ایک حد سے آگے نہ آنے دیا۔ ایک امریکی سفیر نے بالا بالا پشاور کا سفر اختیار کیا تو جنرل ضیاء کے حکم پر اسے رستے میں روک لیا گیا۔ جنرل نے خود فون کر کے کہا۔ “ ایکسی لینسی ، اپنی حد میں رہنا خود آپ کے مفاد میں ہوگا۔ “ کچھ غیر ملکی کہوٹہ کوجانے والی سڑک پہ جا نکلے تو انہیں ایسا سبق سکھایا گیا کہ ان کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گیا۔
ریمنڈ ڈیوس نے کھلے بندوں قتل کی واردات کی ہے لیکن ہمارا قانون اندھا نہیں۔ وہ گورے، کالے اور سانولے کی تمیز رکھتا ہے۔ لگتا ہے کہ اس کی تمام تر ہمدردیاں مقتول کے بجائے قاتل کے ساتھ ہوں گی۔ پاکستان کے دارالحکومت ،اسلام آباد میں امریکیوں نے کم و بیش تین وارداتوں میں قانون کے پرخچے اڑائے۔ پاکستانیوں کو زدو کوب کیا ۔ کوئی مقدمہ تک درج نہیں ہوا۔ چترال سے ایک امریکی جاسوس، آلات اور ہتھیاروں سمیت پکڑا گیا۔ اسے بصد احترام امریکہ روانہ کر دیا گیا ۔ ریمنڈڈیوس کے حوالے سے بھی اسلام آباد متحرک ہو چکا ہے۔ ساری کوششوں کا محور گورے ملزم کو بچانا ہے۔ ایک کہانی ہے کہ بگرام میں دبلی پتلی نحیف و نزار سی لڑکی نے امریکی کمانڈو سے بھاری رائفل چھین کر گولی چلادی۔ اس گولی سے کوئی مرا نہ زخمی ہوا۔ لیکن بگرام میں ہونے والی مبینہ واردات کا مقدمہ امریکہ میں چلا اور وہ لڑکی نیویارک کی ایک اذیت گاہ میں پڑی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ امریکی جاسوس نے کھلے بندوں دن دہاڑے شہریوں کو قتل کیا لیکن وہ بچ جائے گا اس لئے کہ سات سمندر پار سے آئے گورے کا نام ریمنڈ ڈیوس ہے اور پاکستان کی بیٹی کے شناختی کارڈ پر عافیہ صدیقی لکھا ہے۔
لاہور… ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل رانا بختیار نے کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا اقدام سیلف ڈیفنس نہیں تھا،جنیوا کنونشن کے تحت صرف اس سفارتکار کو استثنیٰحاصل ہے جو سرکاری ڈیوٹی پر ہو۔لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا بختیار کا کہنا تھا کہ گولیاں اگر پیچھے سے لگیں تو یہ سیلف ڈیفنس نہیں ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس سفارتکار نہیں،یہ وزٹ ویزے پر پاکستان میں تھا۔اس کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔
12-30-1899_110005_l.gif
امریکی حکومت نے تین نوجوانوں کو قتل کرنے والے اپنے شہری کو واپس مانگا تو کوئی سیاستدان نہیں بولا: الطاف حسین ایم کیو ایم

Management Need to Change Thought

Change In Teunas

Rozne Devar se

Bhutto Our Pakistan Ayaz Meer

Karachi Issue

سیاسی کشمکش کا سال



پاکستان میں سال دو ہزار دس حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے درمیان کشمکش کا سال قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس کشمکش کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی کبھی پوری رفتار سے تو کبھی دھکوں کےساتھ کسی نہ کسی طرح چلتی ہی رہی۔
سال کا آغاز ہی عدلیہ اور پیپلز پارٹی کی حکومت کےدرمیان محاذ آرائی سے ہوا۔ ایسا لگا کہ حکومت اور عدلیہ کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئی ہیں۔
پیپلز پارٹی کو سٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا بھی رہا اور پیپلز پارٹی کے قائدین یہ الزام عائد کرتے رہے کہ کچھ خفیہ ہاتھ ان کی حکومت گرانے کی سازش کررہے ہیں۔صدر زرداری نے دھواں دھار خطاب کیے اور خفیہ ایجنسیوں کا نام لیے بغیر ان کے خوب لتے لیے اور ایک نیوز گروپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
وسط اپریل میں اقوام متحدہ نے بینظیر بھٹو قتل کیس کی رپورٹ جاری کی جس نے نہ صرف ملٹری اور سول بیوروکریسی کی چولیں ہلا کر رکھ دیں بلکہ پیپلز پارٹی حکومت کے لیے ایک ایسی سیاسی آزمائش کھڑی کر ڈالی جس سےگزرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
سال کا آغاز ہی عدلیہ اور پیپلز پارٹی کی حکومت کےدرمیان محاذ آرائی سے ہوا
آزمائش تھی ان اعلٰی فوجی اور پولیس افسروں کے خلاف کارروائی جنہیں پاکستان کی نام نہاد سٹیبلشمنٹ کی ناک کا بال سمجھا جاتا ہے۔
ان بااثر افراد کے خلاف پیپلز پارٹی کی حکومت پر سب سے زیادہ دباؤ اسی کی پارٹی کارکنوں کا ہے۔ حکومت نے اب چند پولیس افسروں کو حراست میں لے لیا ہے لیکن یہ معمہ اس برس بھی حل طلب رہے گا کہ حقیقت میں بےنظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں۔
اپریل میں اٹھارویں ترمیم منظور کر لی گئی لیکن نواز شریف نے صدر زرداری کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیدیا۔
اسی سال آرمی چیف پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی تو مبصرین نے کہاکہ حقیقت میں صدرآصف زرداری کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔
یہ سال ضمنی انتخابات کا سال بھی رہا۔ جعلی ڈگری سکینڈلز کا چرچا بھی رہا اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی متعدداراکین اسمبلی اپنی نشستوں سے محروم ہوئے ۔
جمشید دستی جعلی ڈگری کی وجہ سے نا اہل ہوئے اور دوبارہ الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچے
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی موجودگی میں ایک دوسرے سے انتخابی میدان میں پنجہ آزمائی بھی کی اور عدلیہ نےجس رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہل قرار دیا تھا وہ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر دوبارہ منتخب ہوئے۔
صدر آصف زرداری نے ان کے انتخاب پر کہا کہ جمشید دستی کو عوام نے منتخب کر کے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور جمشید دستی کو نااہل قرار دینے والوں کے ساتھ نہیں ہیں۔
نواز شریف نے لاہور سے ضمنی انتخاب لڑنے کا فیصلہ آخری لمحوں پر مؤخر کیا اور کہا گیا کہ نواز شریف نے چونکہ ایک معاہدے کے تحت دس برس سیاست سے باہر رہنے کا وعدہ کر رکھا ہے اس لیے وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ شریف خاندان ہمیشہ ایسے کسی معاہدے کی تردید کرتا ہے تاہم اسی برس نواز شریف پر سیاسی پابندی کے یہ نام نہاد دس برس بھی پورے ہو گئے ہیں۔
سال دو ہزار دس کا ایک بڑاواقعہ وہ سیلاب تھا جس نے ملک کے چاروں صوبوں میں کروڑوں افراد کو بے گھر کیا تھا۔ یہ معاملہ بھی بڑی جماعتوں کی پوائنٹ سکورنگ بن گیا۔
نواز شریف نے صدر زرداری کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں میں چپقلش ہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہوئی صدر آصف زرداری کے عین موقع پر برطانیہ اور فرانس کے دوروں کو تنقید کانشانہ بنایا گیا جبکہ امدادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی بیان بازی بھی ہوئی۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پنجاب میں صدر آصف زرداری کا سیاسی نمائندہ ہونے کا کردار بھرپور نبھایا اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کو سخت وقت دیا۔
عمران خان کی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی چھوٹے بڑے سیاسی احتجاج کرتی رہی ہیں لیکن ملکی سیاست پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑا۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ قاف کا بٹوارہ ہوا ایک نئی ہم خیال مسلم لیگ وجود میں آئی جس نے باقی چھوٹی مسلم لیگوں کا ایک نیا اتحاد بنایا۔مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔ اسی برس صدر مشرف نے اپنی پارٹی کا اعلان کیا انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک چلتی رہی البتہ بلوچ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے انہیں سختی سے کچلنے کی کوشش کرتے رہے،سوات میں امن کے بعد خیبر پختوانخواہ کا قومی سیاست میں حصہ ڈرون حملوں پر ردعمل تک محدود رہاہے دوسرے چھوٹے موٹے اختلافات کبھی اتحاد کے خاتمہ تک نہیں پہنچے۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں روٹھنے منانے کا سلسلہ جاری رہا
کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ٹارگٹ کلنگ، زمینوں کے قبضے سمیت مختلف معاملات پر چپقلش چلتی رہی۔
ایم کیو ایم کے اراکین سندھ اسمبلی،وفاقی و صوبائی وزراء اجلاسوں کے بائیکاٹ کرتے رہے اور آخر کار اختتام دسمبر پر وفاقی کابینہ سے الگ ہوئے۔علیحدگی کی ایک وجہ صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کا وہ خطاب بھی بنا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ میں گرفتار ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ایک خاص سیاسی جماعت سے ہے۔
ایم کیو ایم کی علیحدگی سے پہلے مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام بھی کابینہ سے الگ ہو چکی تھی کیونکہ حج کے دوران ہونے والی مبینہ کرپشن کے الزامات کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سیعد کاظمی کو وزارت سے فارغ کیا تو ساتھ ہی ساتھ ان پر الزامات عائد کرنے والے جے یوآئی کے وفاقی وزیر، اعظم سواتی کو بھی برطرف کر دیا گیا۔
سال کے اختتام پر پارلیمان نے انیسویں ترمیم پاس کی۔ یہ کسی جمہوری حکومت کی طرف سے عدلیہ کے حکم پر آئین میں ترمیم کی پہلی مثال ہے۔ وزیراعظم نے ایک سال میں دو ترامیم کی منظوری کو پارلیمان کی بڑی کامیابی قرار دیا۔
نئے سال کے آغاز پر ہی وزیراعظم کو اپوزیشن کا در کھٹکھٹانا پڑا ہے
سنہ دو ہزار دس کا اختتام حکومت کے دو اہم اتحادیوں کی علیحدگی پر ہوا اور اسی لیے دو ہزار گیارہ کے آغاز پر ہی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپوزیشن کے در کے چکر لگاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے پیپلز پارٹی کے شدید ترین مخالف مسلم لیگ قاف کے چودھری بردران سے ملاقات کی ہے تو دوسری جانب وہ مسلم لیگ نون کے شریف بردران سے رابطے میں ہیں۔
اس ساری صورتحال میں سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت کی ہچکولے کھاتی گاڑی کے لیے سنہ دو ہزارگیارہ زیادہ کڑا امتحان ثا

حکومت کے پاس اب کیا راستے ہیں؟



حکومت کو سادہ اکثریت کے لیے کم از کم 172 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم حکمران اتحاد سے جمیعت علماء اسلام (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ کی علحیدگی کے بعد اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھنے کے بعد اقتداری کھیل میں مسلم لیگ (ق) اور ان کے اندر سلیم سیف اللہ کی سربراہی میں قائم فارورڈ بلاک کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
صدرِ پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پہلے تو مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ قرار دیا تھا لیکن آج کل ان کا مسلم لیگ (ق) کے ساتھ تواتر سے رابطہ رہتا ہے۔
اگر مسلم لیگ (ق) جس کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق تقریباً پچاس اراکین قومی اسمبلی ہیں وہ حکومت سے نہیں بھی ملتے تو دوسرا آپشن مسلم لیگ (ق) کے اندر پہلے سے قائم فارورڈ بلاک کو ساتھ ملانے سے حکومت اپنی عددی اکثریت برقرار رکھ سکتی ہے۔
کیونکہ پیپلز پارٹی کو تین سو بیالیس اراکین کے ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے کم از کم 172 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔
ایسے میں پیپلز پارٹی (ایک سو ستائیس ) عوامی نینشل پارٹی (تیرہ) اور فاٹا سمیت آزاد اراکین (پندرہ )، مسلم لیگ فنکشنل (پانچ) ، نیشنل پیپیپلز پارٹی، پیپلز پارٹی (شیرپاؤ) اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن کی حمایت کے ساتھ حکومتی اتحاد کو ایک سو تریسٹھ اراکین کی حمایت حاصل ہوگی۔
مسلم لیگ (ن) کے موقف سے متحدہ قومی موومنٹ اور جمیعت علماء اسلام (ف) کو بڑا جھٹکہ لگا ہے۔ اب تو انہیں شاید پیپلز پارٹی کی حکومت سے علحیدہ ہونے کے ’گناہ بے لذت‘ کی کوئی قیمت بھی چکانی پڑے کیونکہ انہوں نے پورے کے چکر میں آدھا بھی کھویا ہے۔
جب کہ مولانا فضل الرحمٰن کے اپوزیشن میں جانے کی وجہ سے ان کے مخالف جمیعت علماء اسلام نظریاتی گروپ کے واحد رکن مولوی عصمت اللہ بھی حکومت کی حمایت کرسکتے ہیں اور ایسے میں پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت برقرار رکھنے کے لیے محض آٹھ اراکین کی مزید حمایت درکار ہوگی جو وہ مسلم لیگ (ق) کے فارورڈ بلاک کی حمایت سے پوری کر سکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) میں سلیم سیف اللہ کی سربراہی میں قائم ہونے والے فارورڈ بلاک میں آٹھ اراکین قومی اسمبلی اور پانچ سینیٹر شامل ہیں۔اس گروپ کے سینیٹر ہارون اختر کہہ چکے ہیں کہ وہ جمہوری نظام کو بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ووٹ دیں گے۔
پیپلز پارٹی کے پاس تیسرا آپشن چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں قائم مسلم لیگ (ق) کو ساتھ ملانے کا ہے۔ ان کی جماعت میں شامل پیپلز پارٹی کے ہم خیال اراکین جس میں بہادر خان سیہڑ، ریاض پیرزادہ، میر احمدان بگٹی، علی محمد مہر، رضا حیات ہراج اور دیگر شامل ہیں وہ گجرات کے چوہدریوں کو حمایت کے لیے راضی کرسکتے ہیں۔
ویسے بھی مسلم لیگ (ق) جس کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پچاس اراکین قومی اسمبلی ہیں (بشمول آٹھ فارورڈ بلاک کے) ان کے موجودہ حالات یا مستقبل کے سیاسی مفادات مسلم لیگ (ن) سے زیادہ پیپلز پارٹی کے ساتھ وابسطہ ہیں۔
بالفرض اگر چوہدری شجاعت کی مسلم لیگ (ق) پیپلز پارٹی سے نہیں بھی ملتی ہے تو اس صورت میں مسلم لیگ (ق) کے چیف وہپ میاں ریاض پیرزادہ سمیت کم از کم چھ سے آٹھ اراکین پیپلز پارٹی کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ چند روز قبل ہی ریاض پیرزادہ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے جمیعت علماء اسلام (ف) کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم کی تبدیلی کی بات کیوں کی ہے۔
سیاسی حلقوں میں مولانا فضل الرحمٰن اور متحدہ قومی موومنٹ کے ماضی کی سیاسی قلابازیوں کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ دونوں جماعتیں اقتدار کے ‘سوئمنگ پول’ کو چھوڑنے والی نہیں ہیں۔ ہاں البتہ اگر انہیں یقین ہوگیا کہ کوئی تبدیلی ناگزیر ہے تو پھر وہ اقتداری کشتی سے بیچ سمندر میں چھلانگ لگانے کے بھی ماہر ہیں۔
لیکن فی الوقت صورتحال ایسی نظر نہیں آتی کیونکہ بظاہر نہ ‘خفیہ فرشتے’ سرگرم ہیں اور نہ ہی حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) اپنی سب سے بڑی سیاسی حریف جماعت حکمران پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے موڈ میں ہے۔ جس کی اہم وجوہات خراب تر اندرونی ملکی حالات اور بیرونی صورتحال ہے۔ اس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے افراتفری، بلوچستان میں بغاوت، بد ترین اقتصادی صورتحال اور مہنگائی، امریکہ اور فوج کے ساتھ ورکنگ رلیشن شپ بھی شامل ہے۔
پیر کو لاہور میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ملاقات کی ہے جنہوں نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایسے موقف سے متحدہ قومی موومنٹ اور جمیعت علماء اسلام (ف) کو بڑا جھٹکہ لگا ہے۔ اب تو انہیں شاید پیپلز پارٹی کی حکومت سے علحیدہ ہونے کے ’گناہ بے لذت‘ کی کوئی قیمت بھی چکانی پڑے کیونکہ انہوں نے پورے کے چکر میں آدھا ب

’دیر تک ڈیسک پر بیٹھنا مضرِ صحت ہے


ایک تحقیق کے مطابق کام کے دوران اپنی ڈیسک سے اٹھنا کمر کو کم رکھنے اور دل کے لیے مفید ہے۔
آسٹریلیا کی کوئنزلینڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اپنی ڈیسک سے کھڑے ہو جانا، ادھر اُدھر پھرنا یا سیڑھیاں اترنا چڑھنا چاہے ایک ہی منٹ کے لیے کیوں نہ ہو صحت کے لیے اچھا ہے۔
تحقیق کے سربراہ کے مطابق تحقیق میں یہ معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اپنی میز پر زیادہ دیر تک بیٹھے رہتے ہیں ان کی کمر موٹی ہوتی ہے اور ایچ ڈی ایل کولیسٹرول جو کہ صحت کے لیے مفید ہوتا ہے وہ بھی کم ہوتا ہے۔
’تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ اگر آپ ایک منٹ کے لیے صرف کھڑے ہو جائیں تو وہ بھی صحت کے لیے اچھا ہے۔ یہ اچھا ہو گا اگر زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے کو گریز کیا جائے اور کچھ دیر بعد اپنی جگہ سے اٹھنے کو دفاتر میں ماحول کا حصہ بنا لیا جائے۔ اور کچھ دیر کے لیے اٹھنے سے کام میں حرج بھی نہیں ہو گا۔‘
اس تحقیق کے لیے 4757 افراد کی معلومات اکٹھی کی گئیں جن کی عمریں بیس سال یا اس سے زائد تھیں۔
اس تحقیق میں حصہ لینے والے افراد نے ایک چھوٹا سا آلہ پہنا جس سے پیدل اور بھاگنے کی ورزش کی نگرانی کی گئی۔ ان افراد کی کمر کاسائز لیا گیا، بلڈ پریشر، کولیسٹرول لیول بھی لیا گیا۔
اس تحقیق پر برطانوی ہارٹ فاؤنڈیشن کی ایک سینیئر نرس ایمی تھامسن کا کہنا ہے ’اگر آپ دفتر میں ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ آپ ای میل کی بجائے خود اس شخص کی ڈیسک پر جائیں اور پیغام دیں اور لفٹ کی بجائے سیڑھیاں استعمال کریں۔

    The Pages of Histery




                                            Daily Express
                                           

    Fear




                                                

    Sunday, January 30, 2011

    Anxiety Hypnosis - Hypnosis and fire relieving anxiety

    How You Can Enhance Your Energy And Be

    Tags: Cleansing, Full Body Cleanse, Increaing Your Energy
    Posted in anxiety | No Comments »

    retweet


    We all would like to feel younger, to feel more animated, and to feel a whole lot happier. The problem now is, how do we do it? One way is through cleansing, so glance at this Master Cleanse Secrets Review to get an idea of how. Exercise and good eating habits could also help you feel a good deal healthier. These activities could also keep you in high spirits.

    12/15/2010 San Francisco, CA – Jean Javert is a raw food expert with his own natural store in San Francisco. He says, “Eating better will go a long way for making you feel in good health. How you seem is gonna be plagued by what you put into your body.” Javert was also one of the people in attendance at the launch of the web page – http://jadereviews.com/health-and-fitness/weight-loss-guide-reviews/master-cleanse-secrets-review/. It deals with detoxification and how it can enable you to feel healthier overall.

    One of the first stuff you really have to do is understand why you aren’t feeling as good as you could be. What is that is leaving you exhausted or sad? What is making you feel older than you really are? What is draining your energy? More often than not, something in your way of life is going to be the reason. You are likely bogged down by work or by some other factor. Determine what it is and do something regarding it.

    Another thing you really have to do is to introduce exercise into your life. Jog, run, take your dog for a walk or even just spend time playing with your children in the playrground. Get your heart-rate up and get some oxygen circulating in your body. Also, get some daylight and get your self warmed by the rays of the sunlight. Sunlight is significant in the synthesis of Vitamin D and this vitamin is known to be instrumental for your happiness. Just be sure you avoid harsh noon light and that you use sunscreen.

    You also have to be sure that you eat better. Get more green vegetables in your diet. Pick the high-fiber preference whenever you can. Eat adequately and do not take more or less than what you need. Guarantee that you keep yourself fit moisturized. You will be getting vitamins and minerals from what you consume. Leafy green veggies, for example, are not only gonna help cleanse the colon, but it may even carry a lot of essential vitamins.

    A full body cleanse could also be a good idea to use a product similar to Master Cleanse. This is gonna help flush out toxins in your body. Also, make sure that you really are getting enough laughter in your life. Stress is going, healthy, stressful and how do you suppose to feel joyous when you really are always stressed?

    The Master Cleanse Secrets Review is a great start if you are searching for a way to start feeling healthier. Also, always keep in mind how significant exercise is. Be sure that you get enough sunlight and laughter in your everday life. Surround yourself with the things that make you truly happy. Soon enough you’ll find yourself more animated and you will feel significantly younger.

    LOVE TO HUMANITY: D-bate - 29th january 2011

    LOVE TO HUMANITY: D-bate - 29th january 2011

    Cheshme Tmasha Amjad Islam Amjad

                                                        

    Sasarti Drone Attack Abdul Qader Hasan

                                                     Daily Express
                                     

    In Se Daro Javaid Choudri

                                         Daily Express

                                     

    چیف جسٹس کا عدالتی احکام پر عملدرآمد، سپریم کورٹ میں کنٹریکٹ پر تعینات 2 ڈپٹی رجسٹرار فارغ کرنے کا حکم


    اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ نے کنٹریکٹ افسران کو عہدوں سے فارغ کرنے کے حوالے سے فیصلے پر اپنے ادارے سے ہی عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے اور ابتدائی مرحلہ میں سپریم کورٹ کے لاہور اور کراچی رجسٹری برانچوں میں کنٹریکٹ پر تعینات دو ڈپٹی رجسٹرار فارغ کر رہے ہیں ان میں کراچی کے ڈپٹی رجسٹرار ارجن رام تلریجہ اور لاہور سپریم کورٹ کے رجسٹری برانچ کے ڈپٹی رجسٹرار پرویز احمد شامل تھے جن کو ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر تعینات کیا گیا تھا جبکہ سپریم کورٹ کے کنٹریکٹ پر تعینات رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور ڈاکٹر فقیر حسین سے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکرٹری کا چارج واپس لے لیا ہے اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے جوائنٹ سیکرٹری شیخ حبیب الرحمان کو ترقی دیتے ہوئے سیکرٹری کا چارج سونپ دیا ہے۔ ڈاکٹر فقیر حسین کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر رجسٹرار کے عہدے کا چارج دیا گیا ہے سپریم کورٹ کے حج اسکینڈل کیس میں کنٹریکٹ افسران کے فیصلے کے حوالے سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بتایا گیا کہ اس فیصلے کا اطلاق سپریم کورٹ کے افسران پر بھی ہوتا ہے تو مجاز اتھارٹی نے مندرجہ ذیل احکامات جاری کر دیئے۔چیف جسٹس نے ہدایت کی ہے کہ دونوں ڈپٹی رجسٹرار کو رولز کے تحت ایک ماہ کا نوٹس دیتے ہوئے فارغ کر دیا جائے اور ان دونوں آسامیوں پر حقدار اسسٹنٹ رجسٹرارز کے ناموں کی فہرستیں پیش کی جائیں جبکہ رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی رجسٹرار کے عہدے پر تعیناتی رولز کے مطابق ہے ان کی تعیناتی سے دوسرے افسران کی ترقی کی راہ میں رُکاوٹ پیدا نہیں ہوتی اس لئے ڈاکٹر فقیر حسین رجسٹرار کے عہدے پر کام جاری رکھیں گے

    کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ

    یونس کے عوام کی طرف سے ملک میں طویل دورِ آمریت، غربت و افلاس میں ہونے والے تشویشناک اضافے اور حکمرانوں کی طرف سے عوامی مشکلات و مسائل کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہونے والے زبردست مظاہروں نے مراکش، یمن اردن کے بعد مصر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مصری عوام نے صدر حسنی مبارک سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق صدارتی محل کے گھیراؤ کے دوران پولیس تشدد سے 20 افراد ہلاک ہو گئے جس کے بعد ملک بھر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ صدر نے حکومت کو برطرف کر دیا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی قسم کی سیاسی تبدیلی کے لئے مذاکرات کا عمل ضروری ہے لیکن ان کا خطاب بھی مظاہروں پر قابو نہ پا سکا اب تک 900 سے زائد افراد کے زخمی ہونے اور اس سے بھی زیادہ کو گرفتار کرنے کی خبریں منظر عام پر آ چکی ہیں اور ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ کا عمل جاری ہے۔
    بلاشبہ کسی بھی جمہوری ملک میں کوئی بھی سیاسی تبدیلی آئین اور قانون کے ذریعے ہی ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اکثر و بیشتر مسلمان ممالک میں ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے حکمران خود آئین و قانون کی پاسداری نہیں کرتے اور مختلف طریقوں سے دنیا کو آئین و قانون کی پاسداری کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں سابق صدر مشرف نے 9 سال تک یہی طرز عمل اختیار کئے رکھا اور تیونس، مراکش، مصر، شام، اردن اور یمن میں بھی حکمرانوں کا طرز عمل ایسا ہی رہا۔ مصر میں حسنی مبارک کم و بیش 22 سال سے ایوان اقتدار میں بیٹھے ہیں اس سے پہلے صدر انوار السادات ، جمال عبدالناصر کے بعد طویل عرصہ تک اقتدار میں رہے ان کے انجام سے بھی ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج مصری عوام کا ردعمل اس کا عملی ثبوت ہے ہمارے حکمرانوں سمیت دوسرے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو اس صورت حال کا غور سے جائزہ لینے کے بعد اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ صرف عوام کو پرامن رہنے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا مشورہ دینا کافی نہیں۔ مصر کے عوام حسنی مبارک کے 22 سالہ دور اقتدار میں جس طرح دباؤ کا شکار رہے اس نے آخرکار انہیں سراپا احتجاج بن کر باہر نکلنے اور ایوان صدر کا گھیراؤ کرنے پر مجبور کر دیا ۔ اس سے پہلے تیونس کے عوام کے ردعمل نے ملک کے حکمران اور اس کے پورے خاندان کو ملک سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ مصر نے اسرائیل ، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کر کے انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیا لیکن مصری حکمران یہ بھول گئے کہ ان کے ان آئیڈیل ملکوں میں تو ہر چار پانچ سال بعد آئین و قانون کے مطابق حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ۔حکمرانوں کو بہرحال عوام کی امنگوں کا احساس کرنا ہو گا ۔سابق صدر مشرف نے 9سال کے طویل عرصہ تک زیادہ کام پاکستانی عوام کی بجائے اپنے مغربی ممالک کی خوشنودی کے لئے کئے۔ اسی لئے مشرف کو ملک چھوڑنا پڑا اور اب مصر کے عوام بھی صدر حسنی مبارک سے یہی مطالبہ کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ طاقت کا غلط استعمال اور عوام کے مسائل کو نظر انداز کرنا ہے۔
    ہم اپنے ان کالموں میں حکمرانوں سے مسلسل کہتے چلے آ رہے ہیں کہ آپ محض باتوں، زبانی کلامی دعووں، الفاظ کے گورکھ دھندے اور شعبدہ بازی سے عوام کوبہلانے کی کوشش نہ کریں قوم کے اصل مسائل کو سمجھیں۔ یہ اچھا نہیں کہ آپ گرانی، اقربا پروری، لاقانونیت، خوفناک کرپشن، بے روزگاری پر قابو پانے کی بجائے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اپنے چہیتوں اور منظور نظر افراد کو مسلط کریں۔ پاکستان سٹیل ملز کے علاوہ بے شمار دوسرے اداروں میں یہی ہوتارہا۔ کراچی میں بدامنی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور حکمرانوں کی ساری کوشش اپنے اقتدار کو قائم رکھنے تک محدود ہے جبکہ عوام کو ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گیس و بجلی کے بحران سے ہزاروں صنعتی ادارے بند اور لاکھوں غریب بے روزگار ہو گئے ہیں۔ غربت و افلاس اور فاقہ کشی سے تنگ آئے ہوئے والدین اپنے بچے فروخت کرنے اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ صوبہ پختونخوا میں بھی بدامنی نے ناگفتہ بہ صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ بلوچستان میں بدامنی بڑھتی جارہی ہے۔ ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے تین سال میں غیرملکی قرضے 50 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ وہی تین سال کا عرصہ ہے جب اقتدار موجودہ حکمرانوں کے ہاتھ میں رہا ۔اب لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف حالات کو سدھارنے کا دعویٰ کریں یا کوئی اور ۔ لیکن حکمران اور سارے سیاستدان غریب عوام کے دل کی آواز سنیں اور ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں ۔ الفاظ کی شعبدہ بازی بہت ہو چکی۔ ایسی باتوں کا وقت گزر گیا۔ غریب عوام کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے ،گرانی نے ان کی کمر زمین سے لگا دی ہے دو سو روپے روزانہ کمانے والا ایک محنت کش 170 روپے کلو گھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ان تلخ حقائق کا اولین تقاضا یہ ہے کہ حکمران اپنی عیاشیاں ترک کر دیں اور خود کو ایک عام آدمی کی جگہ رکھ کر اس کے مسائل اور مشکلات کا احساس کریں۔ اگر حکمرانوں نے اصلاح احوال کی کوئی موثر کوشش نہ کی الفاظ کی شعبدہ بازی نہ چھوڑی تو حالات مصر اور تیونس، سے بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر جائیں گے اور پھر صورت حال پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔ اب تو کئی سیاسی لیڈر کہہ رہے ہیں کہ انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے جو بڑے بڑوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔

    امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو برطانوی رکن پارلیمنٹ کا مشورہ
    برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت بااثر ممبر پارلیمنٹ روری اسٹیورٹ نے جیو کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ وہ ا فغانستان کے خونریزتنازع کو حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ۔افغانستان میں امریکی مشن اپنا راستہ کھو چکا ہے کیونکہ اس کے سامنے سیاسی سمجھوتے کی کوئی پالیسی موجود ہے نہ اسے اپنی حدود کا کوئی اندازہ ہے۔ اس لئے اسے یہاں اپنی فوج کا کردار کم کرنا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ مغربی دارالحکومتوں میں افغانستان ،طالبان اور القاعدہ کے مسئلے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان سے کسی مغربی ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں، اسی تناظر میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے موازنے کو حماقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور حقیقی سول سوسائٹی پر مشتمل ایک بڑا اور مثالی ملک ہے اس لئے ان دونوں ممالک تقابل کرنا زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔اکیسویں صدی میں برطانیہ کے75سب زیادہ موثر لوگوں میں شمار ہونے اور38سال کی عمر میں پوری اسلامی دنیا کی سیاست پر دسترس حاصل کرلینے والے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن موصوف کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دیا جانے والا یہ مشورہ مبنی برحقیقت اور بہت بروقت ہے اور ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کی اعلیٰ سول اور فوجی انتظامیہ خود اس بات کو محسوس کرچکی ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں اور اسے اپنی افواج کو بہر طور اس جنگ زدہ ملک سے نکالنا ہوگا۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین اور افغانستان میں جنگ کی صورتحال کا مطالعاتی جائزہ لینے والے عربی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ صدر اوباما افغانستان اور بھارت کے دورے کے بعد اس سال پاکستان آنے کا جوارداہ رکھتے ہیں اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود امریکی و اتحاد ی افواج کو نکالنے کا کوئی محفوظ راستہ تلاش کرسکیں ۔امرواقعہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود ا ب افغانستان سے ناکامی کا داغ اپنے سینے پر سجائے واپس جانے کے لئے پر تول رہا ہے۔ ان حالات میں اس کے لئے بہتر یہی ہوگاکہ وہ افغانستان میں اقتدار کے مسائل افغان عوام کو خود حل کرنے دے اور اس سلسلے میں پاکستان پر دباؤ ڈالے نہ بھارت کو علاقائی کردار دینے کی کوئی کوشش کرے کیونکہ اس کے یہ سارے اقدامات بھی افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے فیصلے کی طرح الٹا نقصان دہ ہی ثابت ہوگی۔ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اول تو امریکہ سمیت کسی خارجی طاقت کو حق ہی نہیں پہنچتا لیکن اگر خطے کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادی ایسا کرنا بھی چاہتے ہیں تو انہیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ افغانستان کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات اور روابط کی اپنی ایک خصوصی نوعیت ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ان روابط میں بھارت کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں بنتا۔ لہٰذا افغان عوام پر اس قسم کا کوئی فیصلہ مسلط کرنے کا انجام افغانستان پر حملے سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔