Sunday, January 16, 2011

اسلام کا پیام امن' اقوام عالم کے نام

ایک آفاقی اور عالمی دین ہے ، اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو تمام انسانوں کی صلاح و فلاح ،امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے، اس کا پیغامِ امن و سلامتی تمام انسانیت اور اس کے سبھی طبقات کے لئے ہے-

دشمنان اسلام نے اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، جہاد کی وجہ سے دنیا میں دہشت کا ماحول ہوچکا ہے ، امن وسکون فوت ہوچکا ہے، اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے، قتل وخونریزی کا حکم دیتا ہے، مسلمانوں کا وجود دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔ یہ اسلام کے خلاف گہری منصوبہ بند سازش ہے۔

اسلام اور دہشت گردی کے تعلق کی بات کرنا حقیقت کے خلاف ہے، یہ بات دروغ گوئی اور بہتان ہے، اسلام کے معنی اطاعت وفرمانبرداری کے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ہے‘ لغوی ، اصطلاحی اور حقیقی ، کسی اعتبار سے اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، عملی طورپر دیکھا جائے تو اسلامی احکام میں ایثار وقربانی اور فرمانبرداری کا‘ کامل مفہوم موجود ہے جو دہشت گردی کے مغائراور کوسوں دور ہے۔

کیا وہ دین دہشت گردی کی تعلیم دے سکتا ہے جو دوسری قوموں کو کسی مطالبہ اور اصرار کے بغیر مساویانہ حقوق دیتا ہے؟

کیا وہ مذہب دہشت گردی سکھاتا ہے جو عصبیت وعلاقہ واریت ، نسل پرستی وخود غرضی سے روکتا ہے؟

کیا وہ قانون امن کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے جو دشمنوں کے مفتوحہ علاقہ میں ایک پھل دار درخت کاٹنے کو روا نہیں رکھتا؟

کیا وہ اہل ایمان بقائے امن کے لئے خطرہ ہوسکتے ہیں جن سے دنیا نے امن وسلامتی کا درس حاصل کیا؟ ہرگزنہیں، اسلام صلح وامن کا دین ہے، محبت وسلامتی کا مذہب ہے، اس کا ہر حکم بقائے امنِ عالم کا ضامن اورسلامتی کا موجب ہے۔

جہاد کاحکم ،اسلام کی تبلیغ کے لئے نہیں دیا گیا بلکہ جہاد کی وجہ باغیوں کی جنگجویانہ کارروائیاں اور خانماں سوز سرگرمیاں ہیں‘ جہاد کا سبب مفسدین کا پرامن ماحول کو فتنہ وفساد سے متاثر کرنا ہے -

جہاد کی غرض وغایت یہ ہے کہ فتنہ ختم کیا جائے ، امن کو قائم کیا جائے، جہاد‘ خواہ دفاعی ہویا اقدامی ،یہ ظلم وبربریت اورانسان دشمنی کے خلاف ایک تحریک ہے ، اگر جہاد کی وجہ اور علت کفر ہوتی تو اسلام جنگ کے موقع پرغیر مسلم عورتوں، بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور راہبوں کوقتل کرنے سے منع نہ کرتا، اگر جہاد کا مقصد غیر مسلموں کو صفحۂ ہستی سے نابود کرنا ہوتا تو صدیوں حکومت کرنے والے شاہان ہند کسی غیر مسلم فرد کو سرزمین ہندوستان پر سانس لینے کاحق نہ دیتے، ان کے عباد ت خانوں کو منہدم اور زمین دوز کردیتے جبکہ مسلم حکمرانوں کے دور میں صوفیہ کرام کے حسن سلوک کی برکت سے تمام برادران وطن چین وسکون راحت وآشتی سے پر امن ماحول وخوشگوار فضا میں زندگی بسرکرتے رہے۔

کیونکہ اسلام ایک آفاقی اور عالمی دین ہے ، اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو تمام انسانوں کی صلاح و فلاح ،امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے، اس کا پیغامِ امن و سلامتی تمام انسانیت اور اس کے سبھی طبقات کے لئے ہے، مسلمانوں کا وجود دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچانے اور راحت رسانی کے لئے ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس۔

ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی بھلائی کے لئے لائے گئے ہو-(سورۂ اٰل عمران۔ 110)۔

تعلیمات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ساری انسانیت کے لئے راحت رساں

مسلمانوں نے پُرخطر حالات میں بھی غیرمسلموں کے ساتھ جس خوش اسلوبی اور عمدگی سے ایفائے عہد کی تاریخ مرتب کردی ہے کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں جائیں، کیوں کہ مسلمان سراپا رحمت و سلامتی ہوتے ہیں۔ مسلمان امن کے لئے خطرہ اور فسادی نہیں ہوتے بلکہ امن کے علمبردار اور سلامتی کے پیکر ہوتے ہیں، ساری انسانیت کے لئے نفع بخش اور راحت رساں ہوتے ہیں،عرب سے عجم تک ، یوروپ سے افریقہ تک اور افریقہ سے ایشیاء تک مسلمان جہاں بھی گئے امن و سلامتی عدل و انصاف ، صلہ رحمی و احسان کا پیغام لے کر گئے۔ خوف و دہشت ، فتنہ و فسادکی زہر آلود معاشرہ و سماج کو انہوں نے گہوارۂ امن و سلامتی بنا ڈالا، ان کے اخلاق کی پاکیزگی ، معاملات کی صفائی، رواداری ، بھائی چارگی، اتحاد و یگانگت ، محبت و اخوت، رحمت و مودت کی بدولت ظلم و عدوان کے بادل چھٹ گئے اور عدل و انصاف کے پھول کھل گئے۔

اسلام نے غیر مسلم ابنائے وطن سے معاشرتی تعلقات، کاروباری معاملات ، تجارت، خرید و فروخت، لین دین، رہن، کفالہ، صلح وغیرہ دیگر امور کی اجازت دی ہے اور تمام معاملات و تعلقات میں صداقت و راست بازی کی پابندی کی تاکید کی اور جھوٹ، مکر و فریب اوردھوکہ و خیانت سے اجتناب کاحکم فرمایا ہے، نخوت و استکبار کی جگہ تواضع و انکساری، فروتنی و خاکساری کے معاملہ کا قانون دیا ہے ، درشت مزاجی اور شدت کے بالمقابل نرمی اور رأفت کو پسند کیا ہے، غیظ و غضب پر قابو پانے اور تحمل و برداشت کا رویہ اختیار کرنے کی ہدایت دی ہے، انتقام میں حد سے آگے نہ بڑھنے اور عفو و درگزر سے کام لینے اور برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کی ترغیب دی ہے ۔

شر و فساد سے گریز کرنے اور ہر حال میں عدل و انصاف پر جمے رہنے کی تعلیم دی ہے ، ان احکام میں اسلام نے مسلم و غیر مسلم کا امتیاز روا نہیں رکھا۔

غیر مسلموں کیساتھ اخلاقی و معاشرتی تعلقات

مسلمان کا ربط و تعلق کسی بھی مذہب و ملت کے افراد سے ہو اس کو بہر طور یہ ملحوظ رکھنا ہے کہ میں تو مسلم ہوں، اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ معاشرتی اور اخلاقی تعلقات کی مسلمانوں کے بالمقابل زیادہ تاکید کی ہے۔

ارشاد خداوندی ہے :

لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ -

ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔ (سورۃالممتحنۃ : 8)

اس آیت کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں سے ہر حال میں عدل و انصاف بِِرْ و احسان کا برتاؤ کرنا چاہئے بلکہ اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ عدل و انصاف تو ہر کافر کے ساتھ کرنا ہے ، یہاں معنیٰ یہ ہیں کہ تم ان کی دل جوئی کے لئے بطور تبرع و احسان اپنے اموال کا کچھ حصہ دو(احکام القران)
ایک اور آیت کریمہ میں غیر معمولی اخلاقی معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے:

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (34) وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ۔

ترجمہ: اچھے طریقے سے دفع کرو کہ تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہے گویا کہ گرم جوش دوست ہے۔(سورۂ فصلت :34)

اس کی عام طور پر یہ تفسیر کی جاتی ہے کہ دشمن سے ایسا رویہ اختیار کرو کہ وہ تمہارا گرم جوش گہرا دوست بن جائے ۔

غیر مسلم کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرنا، یہ معاملہ کرنے والے کے مسلمان ہونے کی بنیاد پر ہے کیوں کہ مسلمان دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچانے کے لئے ہی آئے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا-

ترجمہ:لوگوں سے اچھی بات کہنا-(سورۃ البقرۃ:83)

اور اچھی طرح پیش آنا ۔ اس میں کسی رنگ و نسل ،مذہب و عقیدہ کی تخصیص نہیں بلکہ یہ حکم سب کے حق میں ہے۔

قریش مکہ کی جانب سے حج و عمرہ کے لئے کسی پر بھی پابندی اور روک نہیں تھی حتیٰ کہ جانی دشمن کے لئے بھی، لیکن جب مسلمان عمرہ کے ارادے سے نکلے، راستے میں روک دئیے گئے ، عمرہ کی اجازت نہیں ملی ، مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے اور انہیں غیر معمولی صدمہ پہنچا، فطری طور پر آتش انتقام شعلہ زن ہوسکتی تھی، مسلمان جوابی کارروائی کرسکتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کے حق میں بھی حسن سلوک کا حکم فرمایا اور ظلم و زیادتی پر روک لگادی :

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا۔

ترجمہ:کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کر بیٹھو۔ اس وجہ سے کہ انھوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا۔(سورۃالمائدہ :2)

عدل و انصاف کے معاملے میں اسلام میں دوست و دشمن ،مسلم و غیر مسلم کا فرق درست نہیں،اسلام دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و انصاف کو لازمی قرار دیتا ہے تاکہ اس کی بنیاد پر ایک خوش گوار معاشرہ تشکیل پائے۔ ارشادحق تعالی ہے :

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى ۔

ترجمہ: کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر ہرگز نہ اکسائے کہ تم عدل کا دامن ہاتھ سے چھوڑدو ، عدل کرو، عدل تقویٰ سے بہت قریب ہے۔(سورۃالمائدہ :8)

اسلام ، ’’چلیں گے اُدھر کو جدھر کی ہوا ہے ‘‘ والی بات نہیں کرتا، اسلام ہر حال میں عدل و انصاف کے ایسے قوانین نافذ کرتا ہے جو ہوا کے رُخ کو موڑدیں۔

ان واضح اور پاکیزہ تعلیمات کے بعد کیا اس امر کی گنجائش ہے کہ یہ کہا جائے اسلام اپنے مخالفوں کو برداشت نہیں کرتا! ان سے جنگ و جدال کی بات کرتاہے! دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے!اور اپنا عقیدہ بجبر واکراہ ان پر مسلط کرتا ہے؟

غیر مسلموں کے لئے مالی امداد جاری کرنا

غیر اسلامی ملک کے غیر مسلم افراد پر انفاق کرنا اور مصیبت و آفت میں ان کے ساتھ ہمدردی و تعاون کرنا تو مسلمانوں کا وصف خاص ہے ،اس وصف خاص سے متصف فرمانے کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل مبارک سے مسلمانوں کو جو نمونۂ عمل عنایت فرمایا اس کی ایک مثال یہ حدیث پاک ہے:

ان النبی صلی الله عليه وسلم بعث خمس مائة دينار الی مکة حين قحطوا وامر بدفعها الی ابی سفيان بن حرب وصفوان بن امية ليفرقا علی الفقراء اهل مکة ۔
ایک سال مکہ مکرمہ کے لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کے پاس پانچ سو درہم روانہ کئے تاکہ وہ مکہ کے ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کریں ۔(رد المحتار،ج2،کتاب الزکوۃ ،باب مصرف الزکوۃ والعشر،ص92)

اسلامی دیانتداری سے زمین و آسماں کا قیام ‘ یہود کا اقرار

اسلام نے غیر مسلم افراد سے کاروبار، تجارت، لین دین اور معاملات کو درست رکھا ہے چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح ہونے کے بعد اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہود کے ساتھ مزارعت کا معاملہ فرمایا ہے اس طرح کہ وہ زراعت کریں گے اور پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو اداکریں گے ، جب بٹائی کا وقت آتا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیداوار کا اندازہ کرنے کے لئے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہٗ کو روانہ فرماتے۔ (ابوداؤد،کتاب البیوع،باب فی الخرص ،حدیث نمبر:2962)

حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہٗ پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کرکے فرماتے :جس حصہ کو چاہو لے لو ! یہود اس عدل و انصاف کو دیکھ کر یہ کہتے’’ ایسے ہی عدل و انصاف سے آسمان اور زمین قائم ہے۔ حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہٗ ان سے فرماتے : اے گروہ یہود! تمام مخلوق میں تم میرے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ ہو، تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا اور تم نے اللہ پر جھوٹ باندھا لیکن تمہاری دشمنی مجھ کو اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تم پر کسی قسم کا ظلم کروں ۔ (شرح معانی الاثار ج 1 ص316)

اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ کتنے پاکیزہ طریقہ پر معاملات کرتے آئے ہیں کہ ظلم و زیادتی اور حق تلفی کا کوئی شائبہ تک نہیں ، اسی طرح مسلمان غیر مسلموں سے رہن کا معاملہ بھی کرسکتے ہیں ۔

غیر مسلم قیدیوں سے اعلیٰ درجہ کا حسن سلوک

مسلمانوں نے قیدی افراد کے ساتھ بھی غیرمعمولی ،اعلیٰ درجہ کے حسن سلوک کی ایک سنہری تاریخ مرتب کردی ہے ، حالانکہ قیدی افراد جنگی مجرم سمجھے جاتے ہیں، ان کے ساتھ نہایت اندوہناک و وحشت ناک بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے لیکن اسلام نے ان کے ساتھ اخلاقی برتاؤ کا انتہائی اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔

جنگ بدر کے قیدی جنہوں نے مسلمانوں کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم پر تقسیم فرمادیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا تاکیدی حکم فرمایا‘ چنانچہ ابوعزیز بن عمیرجو مشرکین کے علم بردار تھے کہتے ہیں: مجھے ایک انصاری صحابی کے حوالہ کیا گیا ان کا حال یہ تھا صبح وشام مجھ کو روٹی کھلاتے اور خود کھجور پر اکتفاء کرتے ‘اگر ان کے اہل خانہ سے کسی کو روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ملتا تو وہ مجھ کو دے دیتے اور خود اس کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے ‘اس قدر حسن سلوک پر مجھے حیا آتی تھی۔

قال ابوعزيز۔ ۔ ۔ فکانوااذا قدموا غذائهم وعشائهم خصونی بالخبز واکلواالتمرلوصية رسول الله صلی الله عليه وسلم اياهم بنا،ماتقع فی يدرجل منهم کسرة خبزالا نفحنی بها- (سبل الہدی الہدی والرشاد،ج4،ص66،جماع ابواب المغازی،الباب السابع فی بیان غزوۃ بدرالکبری)

غیر مسلموں کے ساتھ اچھی گفتگو کرنا اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ضروری ہے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

وخالق الناس بخلق حسن ۔

ترجمہ:تمام لوگوں سے عمدہ اخلاق کے ساتھ برتاؤ کرو۔

( جامع ترمذی ‘ ج 2’ص 19، باب ماجاء فی معاشرۃ الناس،حدیث نمبر:1910)

اسلام غیر مسلموں سے کیے گئے عہد کو بھی پورا کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ ابو رافع کو قریش نے قاصد بناکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا‘ وہ کہتے ہیں ٬جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل کی میرے دل میں اسلام ڈال دیا گیا ،میں عرض گذار ہوا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کبھی بھی ان کی طرف نہیں لوٹونگا،حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں وعدہ خلافی نہیں کرتا اور نہ قاصد کو روکے رکھوں گا،تم واپس چلے جاؤ، اب جو چیز تمہارے دل میں ہے اگر یہ برقرار رہی تو لوٹ آسکتے ہو۔ (سنن ابو داؤد،کتاب الجہاد ،باب فی الامام یستجن بہ فی العہود، حدیث نمبر:2377)

مسلمان غیر اسلامی ملک کے لئے مفاد کا ضامن؟

غیر مسلم افراد کے ظلم و تشدد کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد شکنی نہیں کی، کسی بھی غیر اسلامی ملک میں مسلمان کا وجود اس کے ملک کے مفاد میں ہوتا ہے، وہاں کے باشندگان کو مسلمانوں سے کوئی ضرر و نقصان بالکل نہیں پہنچتا، مسلمان غیر مسلم ملک میں بھی فساد و بگاڑ کی کوئی صورت ہونے نہیں دیتے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ مسلمان کا وجود ہی انسانیت کی صلاح و فلاح کے لئے ہے ’’اخرجت للناس‘‘ میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں بلکہ آیت کریمہ کے کلمات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے غیر مسلم افراد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچنا چاہئے۔

اسلام تلوار سے نہیں پھیلا اور نہ اسلام کے لئے کبھی تلوار چلائی گئی، وہ تو صرف اخلاق و کردار سے پھیلا ہے‘ جب کبھی تلوار چلائی گئی وہ صرف اور صرف اسلام کے دفاع ، فساد کو مٹانے، امن قائم کرنے اور عہد کو پورا کرنے کیلئے ہی چلائی گئی ۔

حضرت سیدنا نبی رحمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل معاہدہ کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ کرنے پر کس قدر شدید وعید بیان فرمائی ہے اس کااندازہ سنن ابو داؤد کی مبارک حدیث شریف سے ہوتا ہے ،ارشادفرمایا:

سنو! جس نے کسی اہل معاہدہ پر ظلم کیا یا اس کے حق میں کمی کی یا اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اس پر بوجھ ڈالا یا اس کے رضا و رغبت کے بغیر اس کی چیز لے لی بروز قیامت میں اس کی طرف سے مقدمہ لڑوں گا۔ (سنن ابوداؤد:حدیث نمبر:2654)

اب اخیر میں ایک حدیث مبارک ذکر کی جاتی ہے جو اس سلسلہ کے تمام احکام کا لب لباب ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مومن وہ ہے جس سے تمام لوگوں کے خون اور مال محفوظ ہوں۔ اس ارشاد مبارک سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے بھی جان و مال کو تحفظ دیا ہے اور انہیں باوقار زندگی مرحمت کی ہے اور کامل مومن کی علامت و شناخت بھی یہی رکھی کہ اس سے دوسرے لوگ خواہ مسلم ہوں کہ غیر مسلم مامون و محفوظ رہیں۔

No comments:

Post a Comment