Thursday, February 10, 2011

pakistan poochta hai - 10th feb 2011

News Watch – 10th February 2011

Kharri Baat Luqman Ke Saath – 10th February 2011

Islamabad tonight - 10th february 2011


غلامی کے بدلے ڈالروں کی پاکستان کو ضرورت نہیں ہے۔قاضی حسین احمد

حکومت اپنے اللے تللے چھوڑے اور نظام تبدیل کرے۔قاضی حسین احمد

پاکستان میں حکومت چلانے کے کئی طریقے آزمائے گئے ہیں۔نزر محمد گوندل

دنیا کا سب سے بہتر نظام حکومت جمہوریت ہے۔نزر محمد گوندل

کسی بھی ملک کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے وقت لگتا ہے۔نزر محمد گوندل

جمہوریت کا تسلسل نہ ہونے سے اصلاحات نہیں ہو پایں۔نزر محمد گوندل

نظام کو درست کرنے کے لیے تین سال کا عرصہ بہت کم ہے۔نزر محمد گوندل

تین سال میں نظام درست نہیں ہو سکتا لیکن سمت تو متعین ہو سکتی ہے۔قاضی حسین احمد

ہر فوجی دور میں پاکستان میں بندر بانٹ کی گئی ہے۔قاضی حسین احمد

ہر جرنیل بے پناہ دولت کا مالک ہے ہمیں ایک عوامی فوج کی ضرورت ہے۔قاضی حسین احمد

قوم کو اسٹیبلشمنٹ،پٹواریوں اور برادریوں میں پھنسایا ہوا ہے۔قاضی حسین احمد

پاکستان کو اپنے مسائل کے حل کے لیے انقلاب کی ضرورت ہے۔قاضی حسین احمد

پاکستان میں مصر اور تیونس جیسے حالات نہیں ہیں یہاں میڈیا اور عدلیہ آزاد ہیں۔نزر محمد گوندل

ہر ڈکٹیٹر پاکستان میں ایک نیا نظام متعارف کروا دیتا ہے جو ناکام ہو جاتا ہے۔نزر محمد گوندل

جب تک نئی کابینہ کے لوگوں کے نام سامنے نہیں آتے کہنا مشکل ہے کہ حکومت کتنی مخلص ہے۔کشمالہ طارق

اگر پرانے لوگوں میں سے ہی وزرا لینے ہیں تو پھر کچھ نہیں بدلنے والا۔کشمالہ طارق

خراب حالات کے باوجود پاکستان کے زر مبادلہ کے زخائر سترہ ارب ہیں اور برآمدات میں پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔نزر محمد گوندل

پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔نزر محمد گوندل

پاکستان دہشت گردی کی جنگ پر امریکہ کا ساتھ چھوڑ دے حالات درست ہو جایں گے۔قاضی حسین احمد

ایک نام نہاد دہشت گرد مارنے کے لیے دس بے گناہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔قاضی حسین احمد

ایم کیو ایم فی الحال حکومت میں شامل نہیں ہو گی۔رضا ہارون

سیاست میں کوئی بھی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔رضا ہارون

لگتا ہے مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے نکال کر صحیح اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔کشمالہ طارق

مسلم لیگ ن چھ مہینے تک اپوزیشن کا کردار ادا کر کے الیکشن کا مطالبہ کرے گی۔کشمالہ طارق

ہم پر تنقید کرنے والوں نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔نزر محمد گوندل

پاکستان تریسٹھ سالوں میں امریکہ کے سامنے اپنی کوئی پالیسی واضع نہیں کر سکا۔رضا ہارون

پاکستان کو اب اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہو گا۔رضا ہارون

ہم حکومت سے امریکیوں کے بارے میں معلومات مانگتے ہیں لیکن انکار کر دیا جاتا ہے۔کشمالہ طارق

امریکی اسلام آباد میں ڈھائی سو کے قریب گھر کرائے پر لے چکے ہیں۔کشمالہ طارق

ریمنڈ ڈیوس کیس پر جزباتی انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے معاملہ عدالت میں ہے۔نزر محمد گوندل

ڈاکٹر عافیہ کی سزا پر اوبامہ نے کہا تھا کہ امریکہ میں عدالتیں آزاد ہیں ہمیں بھی اپنی عدالت کی مدد کرنی چاہیے۔رضا ہارون

صحیح تعداد نہیں بتا سکتا لیکن نئی کابینہ کا سائز چھوٹا ہو گا۔نزر محمد گوندل

نئی کابینہ اہل اور ایماندار لوگوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔کشمالہ طارق

نئی کابینہ کوئی مثبت تبدیلی نہ لا سکی تو مثبت قدم منفی بن جا ئے گا۔رضا ہارون

حکومت پہلے ہی اپنے بہترین لوگ وزیر لگا چکی ان سے بہتر کہاں سے لائے گی۔کشمالہ طار

Capital talk – 10th february 2011

News Beat With Fareeha Idrees 10th February 2011

Off The Record With Kashif Abbasi 10th February 2011

PIA Downfall – Passengers in trouble – PIA Strike

Where is civil society?








Where is civil society?
By Marvi Memon
Published: February 8, 2011
The writer is a PML-Q MNA marvi.memon@tribune.com.pk
We take for granted that certain corrupt practices and injustices are ingrained in our system and will never be eliminated, so we let them be. As a nation, we all witness or hear about many injustices through our media, but we don’t react strongly enough. A few of us react, but that reaction is so little and so late that the systemic faults remain.
Society as a whole does not react. If it were to react with enough pressure, the issue would not only be resolved immediately but would also not occur again. Vibrant societies keep their governments on track. They do not wait for ineffective parliaments to continue debating issues indefinitely. Vibrant societies keep a check on the parliament and the executive by forcing them to fix issues. They realise that relying on a parliament that plays by the elitist standards of ‘you cover my corruption and I will cover yours’, is not the way forward.
There is a lot of talk of looking at the Middle East, and how the people there have awoken. The issue in Pakistan is that we are told we have a functional parliamentary democracy and thus the Middle Eastern awakening won’t happen here. There is a false sense of hope that, since parliament exists, there is space to let the steam off. Whilst this is technically true, it is, in fact, very misleading. A parliament which protects the interests of the corrupt across political parties cannot give justice.
What will it take for people to come out on the roads? In January, when I stood with lady health workers outside the Governor House in Karachi, I saw 300 women fighting for their rights, accompanied by the faithful Pakistani media. As I sat with them, I thought about how they served their country, but when their salaries were not paid, nobody showed up in their support. Had the people of Karachi joined these workers, their issue could have been resolved.
The conclusion is that in Pakistan only the directly affected come out on the streets. Were civil society to join them, and share their pain, their struggle would be far more productive.
I have taken part in a lot of protests in my three years in politics. They have been painfully slow at getting the desired results. I often reflect on the small number of people who turned up at these protests. Even in the long march from Quetta to Islamabad, which was meant to address the issue of government employees emoluments, only a fraction of the affected people showed up to protest.
Why doesn’t a greater majority turn up to protest on the streets? Perhaps because we have become used to living in the midst of injustice. Perhaps because we have become used to our fate not changing. We need to believe that a fellow Pakistani’s pain is our pain and we need to react jointly. Only unity gets results. What will it take for you to react? When injustice strikes at your own doorstep?
Published in The Express Tribune, February 9th, 2011.

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے



پاکستان کے شہر لاہور میں واقع تاریخی بازار حسن وہ بازار ہے جہاں پچاس کی دہائی میں قانونی طور پر ناچ گانے کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن ملک میں دہشت گردی کی لہر سے یہ ثقافتی مظہر بھی ویران ہوگیا ہے۔ راتوں کو جگمانے والے بازارِ حسن میں خاموشی کا راج ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لاہور کا بازارِ حسن شہر کا کلچرل حوالہ تھا جودہشت کی گرد میں دھندلا گیا ہے۔
رقص و موسیقی کی جو عظیم روایت نوابوں، جاگیرداروں، راجوں اور مہاراجوں کے درباروں میں پروان چڑھی تھی وہ تو جاگیروں اور راجواڑوں کے ساتھ ہی دم توڑ گئی لیکن بازارِ حسن کی شکل میں اس کی جو باقیات رہ گئی تھیں، اب وہ بھی آخری دموں پر ہیں۔ لاہور کا بازارِ حسن جسے پرانے لاہوری شہر کے ماتھے کا جھومر کہتے تھے، اب گمنامی کے اندھیرے میں کھو گیا ہے۔
لاہور میں واقع تاریخی بازارِ حسن میں ناچ گانے پر موجود حالات کی وجہ سے مکمل بندش کے بعد بازار میں واقع ان تمام کوٹھوں پر تالے پڑگئے ہیں جہاں روزانہ رات کو رقص کی محفلیں سجتی تھیں۔
یہ ملک کا وہ بازار حسن تھا جہاں پر پچاس کی دہائی میں قانونی طور پر ناچ گانے کی اجازت دی گئی لیکن ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر سے یہ بازار ویران ہوگیا ہے۔
تاہم بازار حسن کے باسیوں کا کہنا ہے کہ جہاں دہشتگردی کے خطرات کے پیش نظر بازار میں ناچ گانے کا سلسلہ بند کروا دیا گیا ہے وہیں اب یہ کاروبار شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا ہے۔
دس ماہ پہلے اس علاقے میں کم شدت کے دھماکے ہوئے تھے جس کے بعد یہاں رقص کرنے والے لوگ یہاں سے چلے گئے اور اس طرح برسوں پرانی ثفاقت ختم ہوگئی۔
ڈاکٹر شہزاد آصف، ایس پی لاہور
شہر کے اس قدیم بازار حسن میں لگ بھگ تین سو سے زیادہ کوٹھے تھے جہاں روزانہ رات کو تین گھنٹے کے لیے ناچ گانا ہوتا تھا اور دس بجے سے ایک بجے تک رقص دیکھنے کی قانونی اجازت دی گئی تھی جسے بعد میں کم کر کے گیارہ بجے سے ایک بجے تک کر دیا گیا تھا۔
لیکن اب رات کے وقت یہاں خاموشی کا راج ہوتا ہے۔
اس علاقے کی بااثر شخصیت ندیم علی کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر پولیس نے بازار میں رقص کا سلسلہ بند کروا دیا ہے۔ ان کے بقول اس اقدام سے کئی افراد بے روزگار ہوئے ہیں اور اب ان لوگوں کے لیے دس بیس روپے جیسی معمولی رقم بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔
انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ بازار حسن میں تو رقص کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے تاہم شہر کے دیگر علاقوں میں رقص کی محفلیں سجانے کا سلسلہ جاری ہے۔
گانے اور رقص کو تو بند کرا دیا گیا ہے مگر اس کی جگہ برائی کا کام شروع ہوگیا ہے۔جس کام کی اجازت ہے وہ بند ہوگیا ہے جس کام پر سزا ہے اس کی اجازت ہے۔
ندیم علی
ندیم علی نے کہا کہ بازار حسن کے جن گھروں میں گانے اور موسقی کی محفلیں ہوتی تھیں اب ان گھروں پر یا تالے پڑے ہیں یا ان عمارتوں کو کاروباری لوگ خرید رہے ہیں۔ ان کے بقول ’اب بازار میں جوتوں کے کارخانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے‘ ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ساتھ دے تو بازار حسن دوبارہ آباد ہوسکتا ہے اور یہاں رقص اور موسیقی کی محفلیں شروع ہو جائیں گی۔
ادھر لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ اس بازار میں رقص اور موسیقی کی محافل کی مکمل بندش کی بڑی وجہ دہشت گردی ہے۔
لاہور پولیس کے ایس پی ڈاکٹر شہزاد آصف خان کا کہنا ہے کہ دس ماہ پہلے اس علاقے میں کم شدت کے دھماکے ہوئے تھے جس کے بعد رقص کرنے والے لوگ یہاں سے چلے گئے اور اس طرح برسوں پرانی ثفاقت ختم ہوگئی۔
ڈاکٹر شہزاد نے اس تاثر کی نفی کی کہ پولیس نے خود بازار حسن سے رقص اور موسیقی کا کام بند کروایا ہے۔
بازارِ حسن میں رقص کی بندش سے متاثر ہونے والوں میں کوٹھوں پر کام کرنے والے سازندے بھی شامل ہیں۔ ایسے ہی ایک سازندے حیدر علی کا کہنا ہے کہ ناچ گانا ہونے سے انہیں بھی روزگار مل رہا تھا لیکن بازار بند ہونے سے ان کی آمدن بھی بند ہوگئی ہے۔
بازارِ حسن میں رقص کی بندش سے متاثر ہونے والوں میں کوٹھوں پر کام کرنے والے سازندے بھی شامل ہیں۔بازار بند ہونے سے ان کی آمدن بھی بند ہوگئی ہے۔ اب ان سازندوں کی آمدن کا دارومدار بنیادی طور پر اندرون ملک و بیرونِ ملک طائفے لے جانے والے ان پروموٹرز پر ہے جن کےدفاتر اس بازار میں کوٹھوں کی جگہ کھلے نظر آتے ہیں۔
اب ان سازندوں کی آمدن کا دارومدار بنیادی طور پر اندرون ملک و بیرونِ ملک طائفے لے جانے والے ان پروموٹرز پر ہے جن کےدفاتر اس بازار میں کوٹھوں کی جگہ کھلے نظر آتے ہیں۔
اس بازار سے رقص و موسیقی کی رخصت کا اثر کبھی یہاں سجنے والی محفلوں میں آنے والے شائقین کی خاطر بنائے گئے کھانے کے مراکز کی بِکری پر بھی پڑا ہے۔
اب ان دکانوں پر وہ رش دکھائی نہیں دیتا جو کبھی اس علاقے کی پہچان تھا۔ اس بازار میں واقع سری پائے کی ایک مشہور دکان پر موجود شہزادہ پرویز بھی مشکل کا شکار نظر آئے اور ان کا کہنا تھا کہ بازار کی بندش سے آنے والوں کا رش بھی کم ہوگیا ہے اور ان کا کاروبار پہلے سا نہیں رہا۔
ہیرا منڈی یا بازار حسن میں بچ جانے والے افراد کی آج بھی یہی خواہش ہے کہ ان کے علاقے میں وہی روشنیاں دوبارہ جگمائیں جو اس بازار کی پہچان تھیں اور یہاں کی رونقیں دوبارہ بحال ہوں تاہم ایسا ہونے کا اب کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

لڑکی کی قبر کشائی کا حکم


لڑکی کی قبر کشائی کا حکم

گاؤں جہاں لڑکی کو کوڑے مارے گئے(فائل فوٹو)
’لڑکی کو گاؤں کے بڑوں اور کچھ مولویوں نے مل کر کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا‘
بنگلہ دیش کی ایک ہائی کورٹ نے ایک چودہ سالہ لڑکی کی لاش قبر سے نکالنے کا حکم دیا ہے جو سرعام کوڑے مارے جانے کی وجہ سے مرگئی تھی۔
عدالت نے لاش کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کا بھی حکم دیا ہے تاکہ لڑکی کی موت کی وجہ معلوم ہوسکے۔ حنا بیگم نامی اس لڑکی پر ایک شادی شدہ شخص سے ناجائز تعلقات رکھنے کا الزام لگا تھا جس پر گاؤں کی پنچایت نے اسے سرعام ایک سو کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا۔
بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ پچھلے سال اس طرح کی سزاؤں کو ممنوع قرار دے چکی ہے۔ حنا کے قتل کے مقدمے میں اب تک چار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ چودہ مزید لوگوں کو تلاش کر رہی ہے جن میں ایک مقامی مدرسے کا استاد بھی شامل ہے۔

Kala Bagh Dem


                                                       


New International Union


                                                    

AsemblyAnd Jail

                                

لندن میں وکی لیکس کےسربراہ جولین اسانج کو سوئیڈن کےحوالے کرنے کے مقدمے کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی گئی ہ


لندن میں وکی لیکس کےسربراہ جولین اسانج کو سوئیڈن کےحوالے کرنے کے مقدمے کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی گئی ہے

ـ 9 گھنٹے 19 منٹ پہلے شائع کی گئی
  •  
  •  
  • Adjust Font Size
لندن میں وکی لیکس کےسربراہ جولین اسانج کو سوئیڈن کےحوالے کرنے کے  مقدمے کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی گئی ہے
سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ دو روز کے دوران مقدمے کی کارروائی مکمل نہیں ہوسکی۔ اس لئے مزید سماعت جمعہ کو ہوگی۔ دوسری جانب جولین اسانج کے حامی سویڈش قانون دان سوین ایرک الہیم نے کہا ہے کہ جولین کو سوئیڈن بھیجا گیا تو اس سے ان کی امریکہ حوالگی کی راہ ہموار ہوگی جہاں ان پر سنگین مقدمات بنائے جائیں گے۔

سرے راہے

پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں لاکھوں روپے کی خورد برد کا انکشاف‘ اعلیٰ حکام کی آشیرباد کے باعث ذمہ داران کیخلاف کارروائی نہیں ہو سکی‘ ریکارڈ غائب۔ 
63 برس سے خورد برد کا بازار گرم ہے‘ کس کس کا ذکر کیا جائے‘ اگر پہلا خوردبرد باقاعدہ پکڑا جاتا اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو آج نہ خورد ہوتا نہ برد‘ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں لاکھوں کی خوردبرد سامنے آچکی ہے‘ یہاں تک تو میڈیا نے کام کر دکھایا‘ اس سے آگے خوردبرد‘ خوردبرد ہو جائیگا۔ 
مزے کی بات تو یہ ہے کہ ریکارڈ غائب کر دیا گیا ہے‘ اب اس کا تو ایک ہی حل ہے‘ متعلقہ پورے عملے کو نرغے میں لےکر ان کو یا تو جھوٹ سچ معلوم کرنے والی مشین سے گزارا جائے‘ یا پھر کسی بہت ”نیک نام“ تھانے سے رجوع کیا جائے۔ پنجاب پولیس ریکارڈ کے بغیر ریکارڈ نکال لے گی۔ قومی خزانہ خالہ جی کا باڑا بنا ہوا ہے‘ جس کا جی چاہتا ہے‘ وہاں جا کر ناشتہ کر آتا ہے۔ حالانکہ کرپٹ افراد کا ناشتہ کر لینا چاہیے تاکہ یہ بدرو یہیں پر رک جائے۔ ٹورازم کے اعلیٰ اہلکار بڑے ادنیٰ اہلکار ہیں جن کی آشیرباد کے باعث ذمہ داران کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دی گئی۔ یہ بات ماننی پڑیگی کہ ہمارے ہاں کوئی جرم کسی اعلیٰ شخصیت کی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہوتا‘ اس لئے تحقیقات سے ان نام نہاد اعلیٰ افراد کا کھوج لگانا چاہیے اور ان کو سربازار کوڑے مارنے چاہئیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ وہ کتنے خسیس ہیں‘ جو قوم کو لوٹنے جیسی خست میں ملوث ہیں۔
٭....٭....٭....٭
امریکہ میں مذہبی مباحثہ کے دوران ایک امریکی نے مسلمان شخص کی گردن میں چھرا گھونپ دیا اور کہا کہ یہ مسلمان مسائل کی جڑ ہیں۔
امریکیوں کے نزدیک خون مسلم کتنا ارزاں ہے، اس کا اندازہ اس سانحے سے لگایا جاسکتا ہے اسکے باوجود مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد کہا جاتا ہے اب اس سے زیادہ کھلی انتہا پسندی اور دہشت کیا ہوگی کہ محض مذہبی مباحثے کے دوران ایک مسلمان کو چھرا گھونپ دیا گیا، اسی طرح ریمنڈ نامی ایک امریکی مشٹنڈے نے دن دیہاڑے تین پاکستانیوں کو پاکستان میں مار دیا، جن میں سے ایک کی بیوی نے خودکشی کرلی، کیا یہ دہشت گردی نہیں، امریکہ پہلے اپنی دہشت گردی کو تو روکے پھر کہیں اور کا رخ کرے۔ پوپ بینی ڈکٹ اس طرح کی مسلمان مخالف دہشت گردیوں کےخلاف کیوں چپ ہیں، پاکستان کو ہمارے حکمرانوں نے اس سطح تک گرا دیا ہے کہ اب امریکی پاکستانیوں کا خون بہاناپَرپشہ کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔ امریکہ کی غلامی نے ہمیں کہاں سے کہاں درکِ اسفل میں پہنچا دیا ۔ کیا ہم ایک پاکستانی کو چھرا گھونپنے کے المیے کو بھی بسرو چشم قبول کر لیں گے؟ حکمران تو اپنی حکمرانی میں چھرا گھونپنے کے ڈر سے ریت میں سر دبائے بیٹھے ہیں۔ اب کہاں گئے امریکہ کے آزادی اظہار خیال دعوے؟ اور کہاں گیا ایک آزاد جمہوری امریکہ کا وجود؟ 
امریکیوں کی کھلی شیطانی تو دیکھ
کچھ بھی نہ دیکھ خون مسلم کی ارزانی تو دیکھ
٭....٭....٭....٭
قمر کائرہ کے نام سے لوگوں کو لوٹنے والے گروہ کا انکشاف‘ گروہ نے فون پر قمر کائرہ بن کر اہم شخصیات سے لاکھوں روپے لوٹ لئے۔ 
یہ کیسی اہم شخصیات ہیں جو قمر کائرہ کی آواز تک نہیں پہچانتے‘ وفاقی وزیرنے کہا کہ اس گروہ کیخلاف کارروائی کی جائے۔ یہ معاملہ تو خاصا پیچیدہ ہے‘ اس لئے اس میں خود وزیر موصوف خود بھی اس کا کھوج لگائیں۔ پولیس گروہ سے چاہے تو سچ اگلوا سکتی ہے محض انکشاف تو کافی نہیں۔ 
قمر کائرہ صاحب نہایت شریف وزیر ہیں‘ مگر لگتا ہے کہ وہ نوسر بازوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی اس کیس میں شامل تحقیقات کیا جائے‘ جنہوں نے جعلی آواز پر لاکھوں روپے دے دیئے۔ کہیں یہ نوسرباز ”ہم سب امید سے ہیں“ کا کھیل تو نہیں رچا رہے ؟ بہرحال پولیس کو اس مسئلے میں مکمل اختیار دیدیا جائے تو لوگوں کو ایک آدھ دن میں پتہ چل جائیگا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پولیس کہہ اٹھے‘ میں جو بولا تو اس نے کہا‘ یہ آواز اسی خانہ خراب کی سی ہے۔ بہرحال وزیروں کو اپنی اپنی آواز کا بیمہ کرالینا چاہیے‘ کیونکہ آواز چوری بھی ہو سکتی ہے اور اپدیشک افراد اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ 
٭....٭....٭....٭
امریکی سی آئی اے کے سابق افسر بروس ریڈل نے کہا ہے‘ پاکستان جہادی ریاست بن سکتا ہے‘ جو امریکہ کیلئے ڈراﺅنا خواب ہو گا۔ 
سی آئی اے بنیادی طور پر شیطان کا ماﺅتھ پیس ہے‘ آخر اسکی زبان پر آہی گیا کہ امریکہ دراصل جہاد سے خوفزدہ ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہو گا کہ جہاد مسلمانوں کے ارکان خمسہ میں شامل ہے‘ جن میں سے کسی ایک کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا‘ اس لئے ایک پاکستان ہی نہیں‘ یہ خطرہ تو ہر اس خطے میں موجود ہے‘ جہاں جہاں قرآن پڑھا جاتا ہے اور اللہ کے فضل سے ساری دنیا میں پڑھاا جاتا ہے اور حرمین شریفین میں تو حفاظ ہزاروں کی تعداد میں ٹولیوں کی صورت میں بیٹھ کر اسے دہرانے کا اور یاد رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور یہ صرف سعودی عرب نہیں ساری دنیا کے مسلمان حفاظ ہوتے ہیں۔ امریکہ درحقیقت یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں سے ان کا حقِ دفاع چھین لے‘ جسے مسلمان اپنی اصطلاح میں جہاد کہتے ہیں۔ امریکہ جب بھی مسلمانوں کو تصور میں لاتا ہے‘ تو اسے دن کے اجالے میں بھی ڈراﺅنے خواب نظر آتے ہیں۔ یہ بات بروس ریڈل کے کان میں شیطان نے پھونکی ہو گی کہ باطل کا جب کبھی زوال ہو گا‘ جہاد کے ذریعے ہو گا‘ اس لئے امریکی حکمران ہر دور میں باﺅلے کتے کی طرح جہادیوں کو سونگھتے رہے ہیں۔امریکہ کے غلام مسلمان حکمران آخر کب تک اس پانچویں رکن جہاد کو روک پائینگے؟ 
پھونکوں سے یہ ”چراغِ نور“ بجھایانہ جائیگا
ضروری وضاحت
8 فروری کے کالم ”سرراہے“ میں مشرف کی ہجو میں ایک شعر تراشا گیا جو مولانا جامیؒ کی ایک نعت کے شعر سے مشابہ ہے‘ اس سے خدانخواستہ ہماری نیت کسی کے جذبات مجروح کرنے کی نہیں تھی‘ اگر اس سے کسی قاری کے جذبات مجروح ہوئے تو اس کیلئے بے حد معذرت ۔

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا



جاوید قریشی ـ 1 دن 1 گھنٹہ پہلے شائع کی گئی
یوں تو کہنے کو ملک میں جمہوریت قائم ہے کہ عام انتخابات کے بعد جن سےاسی جماعتوں کو عوام نے ووٹ دئےے وہی ملک کے صوبوں اور وفاق پر حکمران ہےں۔ سوائے سندھ مےں پےپلز پارٹی کے کسی اےک جماعت کو انتخابات مےںکہےں قطعی اکثرےت حاصل نہ ہو سکی۔ ہرجگہ مخلوط حکومتےں قائم ہےں اور مخلوط حکومتوں کو فےصلے کرتے وقت بہت سے عوامل کو پےش نظر رکھنا ہوتا ہے کہ کہےںکچھ کولےشن پارٹنرز کی مرضی اور منشاءکے خلاف نہ ہو جائے۔ کولےشن اےسی حکومتےں بالعموم کمزور ہوتی ہےں اور اہم فےصلے کرنے سے گرےز کرتی ہےں۔ےہ بات پاکستان مےں وفاق اور صوبائی حکومتوں کودےکھ کر آسانی سے سمجھ مےں آجاتی ہے۔ سندھ وفاق کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں اےک ہی جماعت (پےپلز پارٹی) کو صوبائی اسمبلی مےں قطعی اکثرےت حاصل تھی اور پےپلز پارٹی اس پوزےشن مےں تھی کہ خود صوبہ مےں حکومت بنا لےتی لےکن پارٹی کے بڑوں نے فےصلہ کےا کہ سندھ مےں مخلوط حکومت قائم کی جائے۔ پےپلز پارٹی کی قےادت شروع سے کہتی آئی تھی کہ وہ قومی مفاہمت اور ےکجہتی کی خاطر تمام پارٹےوں کو ساتھ لےکر چلنا چاہتی ہے۔ اس سوچ کو بڑھاوا دےنے کی خاطر ےا پھر ےہ دےکھتے ہوئے کہ سندھ کے شہری علاقوں مےں متحدہ کا اثر و رسوخ پےپلز پارٹی سے کہےں زےادہ ہے ۔حکومت سازی مےں اس جماعت کو ساتھ رکھ لےا جائے تو حکومت کرنا نسبتاً آسان ہو جائےگا، سندھ مےں بھی مخلوط حکومت قائم کرنے کا فےصلہ کےا گےا۔ مخلوط حکومتےں قائم کرنے کا خمےازہ ےہ بھگتنا پڑا کہ ہرجگہ بڑی بڑی کابےنہ وجود مےں آئی۔ ےہ غرےب ملک زبردست قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو ا ہے بڑی بڑی کابےناﺅں کا متحمل نہےں ہو سکتا۔ کروڑوں اربوں روپے غےر ترقےاتی خراجات پر خرچ ہونے لگے۔ حکومتوں کی کارگزاری بھی ماےوس کن رہی۔ ہر طرف سے کرپشن اور بدعنوانی کی صدائےں بلند ہونا شرع ہو ئےں۔ کابےنہ کے وزےر نام لے لےکر اےک دوسرے پر رشوت ، بے اےمانی اور بدعنوانی کا الزام لگاتے رہے۔الزام تراشی سے حکومت کی مقتدر ترےن شخصےات بھی محفوظ نہ رہ سکےں کرپشن ، لاکھوں نہےں کروڑوں نہےں اربوں تک جاپہنچی۔
اےک طرف غرےب نادار عوام دوسری طرف زرق برق لباس مےں ملبوس ارب پتی حکمران‘ اگر ملک کے سےاسی رہنماﺅں پر نظر ڈالی جائے تو معدودے چند بےشتر ”رہنمائ“ اےسے ہےں جو مختلف آمروں کے دور مےں ضلعوں کی سطح پرسےاست مےں داخل ہوئے ۔ ہر آمر نے لوکل گورنمنٹ پر توجوہ دی اور ان اداروں کو اپنی طاقت اور توانائی کےلئے استعمال کےا۔ ضلع کی سطح پر جو لوگ ابھر کر سامنے آئے وہی وزےر، مشےر اور وزرا اعلیٰ وغےرہ بنے۔ ان لوگوں کے ذہن اور اہلےت ضلع کی سطح سے اوپر نہ جا سکی۔ حکومت کی نااہلی کی بڑی وجہ ےہی ہے۔
حکومت کی نااہلی کے ساتھ لاءاےنڈ آرڈر کی صورت اس قدر خراب ہے کہ اس سے پہلے کبھی دےکھنے مےں نہےں آئی۔ ڈکےتی، رہزنی، اغوا برائے تاوان ، اراضی اور املاک پر ناجائز قبضے ، خواتےن کی تکلےف دہ صورت حال، عزت کےلئے قتل (Honour Killing) ، خواتےن پر تےزاب پھےنک دےنے کے بڑھتے ہوئے واقعات جس سے وہ عمر بھر اےک انمٹ عذاب مےں مبتلا ہو جائےں، اےسے سنگےن واقعات ہےں جن سے عوام پرےشان اور خوف زدہ ہےں لےکن جن کا کوئی حل ےا علاج حکومت کے بس مےں نظر نہےں آتا۔ حکمرانوں کو شوق ہوتا ہے ”اصلاحات“ کرانے کا۔ خواہ ےہ کتنی ہی سطحی ، غےر ضروری اور مضر کےوں نہ ہوں۔ 
سابق صدر مشرف نے بھی اپنی دانست مےں کچھ اےسی ہی اصلاحات لوکل گورنمنٹ اور ڈسٹرکٹ اےڈمنسٹرےشن کے نظام مےں ”بہتری“ کےلئے نافذ کےں لےکن چونکہ اصلاح متعارف کرانےوالوں کو ان نظاموں کا کوئی ادراک نہےں تھا نتےجہ ان دونوں کی بربادی مےں نکلا۔ مدتوں سے قائم ڈسٹرکٹ اےڈمنسٹرےشن کا نظام جسے عوام خوب سمجھتے تھے اور جس نے کسی موقعہ پر عوام کو ماےوس نہےں کےا اس لئے ختم کر دےا گےا کہ مشرف صاحب کے اےک منہ چڑھے جرنےل اےک ڈپٹی کمشنر سے ناجائز مراعات حاصل کرنے مےں ناکام رہے۔ فےصلہ ہوا کہ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر وغےرہ کے عہدے ہی ختم کر دئےے جائےں اور انکی جگہ اےسے عہدے دار مقرر کئے جن کے عہدوں کے نام اور ختےارات سے عوام کو قطعی آشنائی نہےں تھی، عوام پر مسلط کر دئےے گئے۔
لاکھ سمجھانے کی کوششےں کی گئےں کہ اتنا بڑا فےصلہ محدود پےمانے پر آزما کر دےکھ لےا جائے تاکہ اسکے حسن و قبح کا ادراک ہو سکے لےکن عقل کی کسی بات کی شنوائی نہےں ہوئی۔ آج ہم دےکھتے ہےں کہ ضلع جو ہمارا مضبوط انتظامی ےونٹ تھا اس کا والی وارث کوئی نہےں۔پہلے اےک ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع کے ہر مسئلہ مسائل کا ذمہ دار ہوتا تھا اورانہےں حل کرنے مےں ماےوس نہےں کرتا تھا۔ اب صورتحال مختلف ہے لےکن سنا ہے حکومت کو اپنے پےش رو کی غلطی کا احساس ہوگےاہے اور اصلاح کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس سے بد تر حال پولےس کا ہے۔ پولےس ےوں تو نےک نام کبھی بھی نہےں رہی اور بد عنوانی اور کرپشن مےں کافی اوپر کی سطح پر گنی جاتی تھی لےکن پولےس آرڈر 2001 نے تو پولےس کو مدر پدر آزادی دے دی۔ اب پولےس عملاً کسی کو جوابدہ نہےں۔ پنجاب کے اےڈووکےٹ جنرل نے سپرےم کورٹ کے سامنے تسلےم کےا کہ پولےس رےاست مےں رےاست کی حےثےت اختےار کر چکی ہے جس پر اب حکومت کا بھی اختےار نہےں چلتا۔ عوام اس صورت حال سے انتہائی پرےشان ہےں۔ پولےس کی زےادتےوں کی کہانےاں اخبارات کی زےنت بنتی ہےں۔
مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی ، معاشی بدحالی کے علاوہ ملک کو در پےش خطرناک ترےن مسائل ہےں۔ راقم نے کالموں مےں بار بار عرض کےا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کا راستہ اگر نہ روکا جائے تو ےہ دہشت گردی مےں تبدےل ہو جاتی ہے جس کی بدولت ملک مےں سےنکڑوں ہزاروں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہےں۔ امام بارگاہوں اور مساجدپرحملے، مذہبی جلوسوں پر دہشت گردی، اقلےتوں پر بے جا مظالم، انکی عبادت گاہوں اور گھروں پر حملے، ٹارگٹ کلنگ، بے گناہ جانوں کا اتلاف اسی ذےل مےں آتا ہے۔ اسکے علاوہ بزرگان دےن کے مقدس آستانوں پر حملوں مےں بھی سےنکڑوں بے گناہ ذائرےن زندگی سے ہاتھ دھو بےٹھے۔ ےہ ان بزرگان دےن کا ذکر ہے جنہوں نے پےار ، محبت اور اپنے کردار کی پاکےزگی کے ذرےعہ اللہ تعالی کا پےغام اس کی مخلوق تک پہنچاےا اور جن کی کوششوں اور تقلےد مےں بے شمار لوگوں نے برصغےر مےں اسلام قبول کےا۔ 
قارئےن کو ےاد ہو گا خےبر پختون کے شمالی علاقہ جات سے لےکر کراچی عبداللہ شاہ غازی کے مزار تک ادھر لاہور مےں داتا گنج بخش کے دربار سے لےکر پاکپتن مےں بابا فرےد گنج شکر کے مزار سب ہی دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے جس مےں سےنکڑوں زائرےن ہلاک ہوئے‘ ےہ واقعات مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے رونما ہوئے جن کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ تازہ ترےن حملہ لاہور مےں حےدر سائےں دربار پر ہوا۔ خوش قسمتی سے ےہاں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد نسبتاً کم رہی لےکن ہلاکتےں ہوئےں تو۔ مذہبی انتہا پسندی کےساتھ ساتھ ہمارا ملک دہشت گردی کا بھی شکار ہے۔ جس سے نہ مساجد محفوظ ہےں نہ نمازی، نہ چلتے پھرتے بے گناہ شہری، نہ دفتروں مےں کام کرنےوالے ملازم۔ صوبہ پختون خواہ دہشت گردی کا سب سے بڑا ٹارگٹ رہا ہے۔ پختون خواہ کے علاقے مالا کنڈ ، فاٹا، جنوبی وزےرستان، سوات وغےرہ مےں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے مےں فوج نے بڑی کامےابےاں حاصل کےں اور بڑی قربانےاں بھی دی ہےں لےکن ےہ کہنا شاےد ابھی درست نہ ہو کہ دہشت گردی کا فتنہ مکمل طور پر ختم کر دےا گےا۔ آج پشاور شہر اور اسکے گرد و نواح مےں واقع اےجنسےز دہشت گردوں کی دست برد سے مکمل طور پر محفوظ نہےں۔
ادھر معےشت تباہی کے کنارے پہنچ چکی۔ بےروزگاری اور مہنگائی نے غرےبوں کا جےنا حرام کر دےا ہے۔ بجلی اور گےس کی ناہوت نے رہے سہے کارخانوں کو بھی بند ہو جانے پر مجبور کر دےا ہے۔ روزگار ختم ہو جانے کی وجہ سے مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے ہوتے جا تے ہےں۔ آئے دن اخبارات مےں خودکشی کی خبرےں چھپتی ہےں لےکن حکومت ٹس سے مس نہےں ہوتی۔ مہنگائی بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ےہ ہے کہ حکومت ملکی سطح پر ان قوتوں پر قابو نہےں پا سکی جو مہنگائی بڑھانے کا سبب ہےں۔ اس سلسلہ مےں جن کی مثال دی جا سکتی ہے اس مےں عدلےہ کے واضح احکامات اور حکومتی وعدوں کے باوجود چےنی کی قےمت کم نہ کی جا سکی اور لوگ ابھی تک زےادہ قےمت پر عام استعمال کی ہر چےز خرےدنے پر مجبور ہےں۔ اسی طرح ذخےرہ کرنےوالے منافع خور مافےا کو بھی کنٹرول نہےں کےا جا سکا۔ےہی وجہ ہے کہ ملک مےں افراط زرکی شرح اب 16فےصد جا پہنچی ہے۔ افراط زر بڑھنے کی اےک وجہ حکومت کی جانب سے سٹےٹ بےنک اور دےگر ذرائع سے بے انداز قرض حاصل کرنا ہے جو بڑھتے بڑھتے 9.47کھرب روپے تک جا پہنچی ہے۔ قرضوں مےں اس قدر اضافہ بےن الاقوامی سطح پر مقرر کردہ حد سے تجاوز ہے۔ان قرضوں کے سود کی ادائےگی ہمارے جی ڈی پی کا 40فےصد سے زےادہ ہے جو کہ مقررہ حد 30فےصد سے متجاوز ہے۔قرضوں کا حجم بڑھتے بڑھتے جی ڈی پی کے 66فےصد تک جا پہنچی ہے۔ ےہ بہت تشوےشناک صورتحال ہے۔ےہ بھی سننے مےں آےا ہے کہ حکومت نئے نوٹ چھاپ چھاپ کر اپنی ضرورےات پوری کر رہی ہے۔ اس سے ضروری اشےاءکی قےمتوں پر مزید دباﺅ پڑتا ہے۔ حکومت ٹےکس اصلاحات نافذ کرنے مےں ابھی تک کامےاب نہےں ہو سکی۔ ادھر I.M.Fنے حکومت پر واضح کر دےا ہے کہ منظور شدہ قرض کی اگلی قسط کا اجراءٹےکس اصلاحات کے نفاذ سے مشروط ہے۔ ملک مےں ان مشکلات کو حل کرنے کے ذرائع بھی موجود ہےں۔ تھر کے علاقے مےں کوئلہ کے دنےا بھر مےں دوسرے نمبر کے ذخائر موجود ہےں جن کو اگر بجلی بنانے کےلئے استعمال کےا جائے تو 60 ہزار مےگاواٹ بجلی تےار کی جا سکتی ہے۔بلوچستان مےں رےکوڈک کی کان مےں سونے اور تانبے کے ارب ہا ڈالر کے ذخائرموجود ہےں لےکن ان سے استفادہ نہےں کےا گےا اور نہ ہی مستقبل قرےب مےں اسکا امکان نظر آتا ہے۔ 
تو ہی ناداں چند کلےوں پر قناعت کر گےا 
ورنہ گلشن مےں علاج تنگی داماں بھی تھا 
اےسے لگتا ہے کہ حکمران اقتدار پر قابض رہ کر جےبےں بھرنے کے علاوہ کسی اور چےز مےں دلچسپی نہےں رکھتے۔

We Change The Days Among The Peoples

                                           

Fire Of Lahore and Goalmez Conference

                                              

Be Basi ...........Javed Choudary

                                                 Daily Express
                                          

Try to Alive as a Independent Nation ........Chief Justice Of Pakistan