Saturday, January 29, 2011

Dunya TV-NEWS WATCH-26-01-2011

Samaa News : Tonight with Jasmeen : Law & Order in Pakistan

Dunya TV-NEWS WATCH-27-01-2011

Umeed Reema Khan

Khud Sakhta jilvatni

دُدھ تے پتی ٹھوک کے! پانی، چینی روک کے!


دُدھ تے پتی ٹھوک کے! پانی، چینی روک کے!

خالد احمد ـ 18 گھنٹے 47 منٹ پہلے شائع کی گئی
ایک طرف مسلم لیگ نون اور وفاقی اتحادی حکومت کی نامزد ٹیمیں ’شوگر سکینڈل‘ کی تحقیقات کیلئے ’جوڈیشل کمیشن، کے قیام پر متفق ہو گئیں تو دوسری طرف ’سیاسی دباﺅ‘ کے تحت معاف کئے گئے 281 ارب روپے کے قرضوں کی وُصولی کیلئے گورنر سٹیٹ بینک سے ’نادہندگان‘ کے اسمائے گرامی اور ان کے ذمے واجب الادا رقوم کے حجم، کی تفصیلات بھی طلب کرنے بیٹھ گئیں! لہذا کہا جا سکتا کہ ’پیر کا روز‘ ہم اہل غم کیلئے ’روز قیامت‘ ہو گا۔
دوسری طرف وفاقی کابینہ نے 5 سال پرانی کاریں درآمد کرنے کا فیصلہ برقرار رکھنے اور ’ریلوے‘ ’سٹیل ملز‘ اور ’سوئی ناردرن گیس‘ کی ’تشکیل نو‘ کرنے اور ’پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی، ختم کر دینے کا فیصلہ بھی کر ہی لیا! حالانکہ آئی ایم ایف کے نمائندوں نے پیپکو کے سربراہ کا ’چہرہ‘ دیکھتے ہی ’ادارہ‘ ابھی اور اسی وقت ’ختم‘ کر دینے کا مطالبہ سرکر دیا تھا کیونکہ وہ انہیں بہت اچھی طرح جانتے تھے! مگر کچھ مقتدر چہرے یہ ’ماسک‘ MASK یا ’نقاب‘ اتنی جلدی اتار دینے کیلئے تیار نہیں تھے۔ انہیں مہلت درکار تھی کیونکہ ابھی کچھ ’مہمات‘ سر ہونے سے رہ گئی تھیں! یہ تو سپریم کورٹ بیچ میں آ گیا اور کچھ ’رینٹل پاور ادارے‘ روتے دھوتے ’پیشگی ادائیگیاں‘ کرنے پر مجبور ہو گئے اور یوں بقیہ نشانات مٹانے کیلئے یہ ’ادارہ‘ ختم کر دینے کا فیصلہ ناگزیر ہو گیاا!
تیسری طرف جناب لطیف کھوسہ جناب نواز شریف کا ہر مطالبہ جناب الطاف حسین کے مطالبے کے طور تسلیم کئے جانے کا اعتراف کر کرکے ’اتحادی ریلوے‘ کی ’پنجاب میل‘ کھینچتے کھینچتے، چھک چھک کرتے میو ہسپتال جا پہنچے اور زخمی نوجوانوں کے ماتھوں کے بوسے لیتے دوبارہ راہ پر آ گئے! ’پارٹی‘ پہلے چونکی مگر یہ دیکھ کر کہ کچھ ’لے‘ ہی رہے ہیں ’دے‘ تو ہر گز نہیں رہے! مطمئن ہو گئی! پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلے دن سے یہی کردار ہے!
ہمیں اس سارے فسانے میں صرف ایک بات بہت زیادہ اہم لگی مگر ہمیں یوں ہی لگا کہ یہ سب کچھ محض ’نادانستہ‘ طور پر سرزد ہو گیا ہو! ’چلی‘ اور ’پیرو‘ میں بھی یہی فیصلہ ان کی معیشت میں ایک بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنا تھا! اور یہ فیصلہ ’پانچ برس پرانی‘ گاڑیوں کی درآمد تھا! پس منظر اس کا یہ کہ پوری دنیا میں ’گاڑی‘ کی پہلی رجسٹریشن تین سال کیلئے ہوتی ہے اور اگر وہ ’گاڑی‘ اس کا مالک بدستور اپنے ساتھ رکھنا پسند کرے تو ’دوسری رجسٹریشن‘ دو سال کیلئے ہوتی ہے! پانچ برس تک چلنے والی گاڑی، تین برس چلنے والی گاڑی سے نصف قیمت پر دستیاب ہوتی ہے جبکہ اس کی کارکردگی میں بھی خاص فرق نہیں پڑا ہوتا! یہ گاڑی سستے داموں مل جاتی ہے لیکن یہ دنیا کسی جدید ترین ٹیکنالوجی کا شاہکار ہوتی ہے یہ لوگوں تک بھی کم قیمت میں پہنچ جاتی ہے اور نئی کاریں بنانے والے کارخانوں کیلئے ’مسابقت‘ بھی ساتھ لاتی ہے! ہمارے ملک میں کاریں تیار کرنے والے ’کارخانہ دار ادارے‘ اس امر کے پابند کئے گئے تھے کہ وہ اپنے مقامی کارخانوں میں اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی بھی منتقل کریں گے! مگر حقیقت یہ ہے کہ 1986ءاور 2010 ءکے ماڈل دیکھیں تو 1986ءتک کے ماڈل ہر طرح ان کے 2010ءکے ماڈل سے کہیں زیادہ مضبوط اور بہتر کارکردگی کے مالک ہیں اور آج بھی سڑکوں پر اسی ’میک‘ کی نئی گاڑی سے بہتر طور پر دوڑ رہے ہیں!
’غیر ملکی کار مینو فیکچررز‘ کے لئے پاکستان مسابقت سے خالی میدان ہے، لہذا ان کے ’ماڈل‘ روز بروز زوال آمادہ اور قیمتیں عروج آمادہ ہیں! ’ہائیر پرچیز‘ نے ’کار ڈیلرز‘ کی چاندی کر رکھی ہے، وہ ہر ماڈل کے بیشتر ’اصل اجزائ‘ ہٹا کر ’نقلی اجزا‘ لگا کر انہیں دوبارہ تیار کرکے بینک کے ’اکاﺅنٹ ہولڈرز‘ کے سرمڑھ دیتے ہیں! پرانی گاڑیاں جب ہماری سڑکوں پر آئیں گی تو نئی گاڑیاں بنانے والے بھی سدھریں گے اور ان کی قیمتیں بھی آسمان کی طرف پرواز کرنے سے قبل ’کھجور‘ سے اوپر جانے کے بارے میں دس بار سوچیں گی! یہ ’عوامی حکومت‘ کا پہلا فیصلہ ہے، جس سے عوام اور ملک کو کسی نہ کسی حد تک کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہوگا! اگر امیر لوگ بھی ’نئی کار‘ کی جگہ ’بہتر اور محفوظ تر کار‘ میں سفر کو ترجیح دینے لگے تو پھر یقیناً ہمارے ’کار پروڈویوسرز‘ بھی پاکستان میں وہ ’ٹیکنالوجی‘ لانے پر مجبور ہو جائیں گے جو وہ گزشتہ تیس برس تک پاکستان میں منتقل نہیں کر پائے!
اگر کوئی یہ سوچے کہ اس طرح مقامی پیداوار کم ہو جائے گا تو، وہ دل سے پوچھے کہ یہ ’آن‘ کیا ہوتا ہے؟ تو دل میں خیال آئے گا کہ ہم 60 ہزار، 90 ہزار روپے زیادہ قیمت کس لئے ادا کرتے ہیں! تو ساتھ ہی جواب آئے گا! کیونکہ رسد طلب سے کم ہے اور اضافی قیمت کا سبب رسد کی یہی کمی رہی ہے!،
دیکھنا یہ ہے کہ پانچ برس پرانی کاروں پر حکومت ڈیوٹی کس ’بھاﺅ‘ سے لگاتی ہے؟ کیونکہ جہان ’چینی‘ کی قیمتیں کنٹرول نہیں ہو پائیں وہاں ’کاروں کی قیمتیں‘ کون قابو میںرکھ پائے گا! ’گڈ گورننس، تو خواب بن کے رہ گئی ہے! ایک زمانہ تھا کہ ہم نعرہ لگاتے، دُدھ تے پتی ٹھوک کے! پانی، چینی روک کے!، تو چائے آتے ہی تھکن ہوا ہو جاتی! آج سر پہ کھڑے ہو کر بھی چائے بنوائیں تو کبھی پانی جواب دے جاتا ہے، کبھی چینی اور کبھی دودھ! کیونکہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ غیر ملکی ’ملک پاﺅڈر ، کا جہاز دو دن ’ان لوڈ‘ نہ ہو سکے تو ’ناکارہ پاﺅڈر‘ بازار میں ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے کہ گائے بھینسیں اب ہڈیوں کے ’پنجر‘ بن کے رہ گئی ہیں! ’کارٹی زان‘ کے انجکشن انہیں ’بے کار‘ کر چکے ہیں کیونکہ ہم ہرکام خود کرتے ہیں، حتیٰ کہ ’ویٹرنری ڈاکٹرز‘ سرکاری اداروں میں ہوں تو ہوں کسی ’فارم‘ پر بھی نہیں ہوتے

نفرت ختم ۔ محبت شروع؟


نفرت ختم ۔ محبت شروع؟

ریاض الرحمن ساغر ـ 1 دن 20 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
کہتی ہے اگر دل سے‘ یہ ”پی پی“ کی قیادت
چاہت میں بدل دے گی وہ نفرت کی سیاست
”کھوسہ“ کو ہے شہباز پہ گر پورا بھروسہ
ان پر بھی کوئی فیصلہ جائے گا نہ ٹھونسا
اب صدر یہ دیکھیں کہ ہو ہر صوبے سے انصاف
نیت ہے اگر صاف تو ہوں فیصلے شفاف
ثابت کریں زرداری کہ ہیں صدر ریاست
اب قوم کی خدمت میں وہ پوری کریں مدت
چھوڑیں وہ حسیں نقش ”بلاول“ کے لئے بھی
بیٹے کو بھی ممتاز کرے باپ کی نیکی
”بی بی“ کا کہا پورا وہ کچھ کرکے دکھائیں
تاکہ ملے شاباش وہ جب ”سامنے جائیں“
چوروں کو بچانے کے لئے چور ہیں چوکس
دیکھے یہ حکومت کہ نہ قانون ہو بے بس
ہرگز نہ رعایت کوئی اب چور یہ پائیں
وہ بھی ہوں گرفتار جو اب ان کو بچائیں
سب قوم کی لوٹی ہوئی دولت کریں واپس
محسوس کٹہرے میں کریں خود کو وہ بے بس
بدلے ہوئے حالات کو ”گیلانی“ بھی سمجھیں
کرسی کو بچانے کو نہ اب پینترے بدلیں
اب فوج وزیروں کی مشیروں کی کریں کم
بہتر ہے بنیں قوم کے دکھ درد میں محرم
مہلت یہ غنیمت ہے تو کچھ کام کریں وہ
پورے کریں سب وعدے نہیں پورے ہوئے ج

صدر اوباما کا خطاب ۔۔۔ !


صدر اوباما کا خطاب ۔۔۔ !

طیبہ ضیاء ـ 18 گھنٹے 43 منٹ پہلے شائع کی گئی
دانشور کہتے ہیں کہ خواتین کی خاموشی خطرناک ہوتی ہے۔کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے جبکہ ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ خواتین کے خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے۔ ایک امریکی خاتون اپنے شوہر کی بدمزاجی کی وجہ سے نفسیاتی دباﺅ کا شکار رہنے لگی۔ اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ اس کا شوہر گھر داخل ہوتے ہی اس کے ساتھ بدزبانی شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے گھر کا ماحول دہشت گردی کی جنگ کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ تمہارا شوہر جونہی گھر میں داخل ہو، تم باتھ روم میں گھس جایا کرو اور قریباً پندرہ منٹ تک ٹوتھ برش کیا کرو۔ دو ہفتے تک یہ عمل کرو اور پھر نتائج سے آگاہ کرنا۔ خاتون نے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کیا اور دو ہفتے بعد ڈاکٹر کے پاس گئی اور حیران ہوتے ہوئے رپورٹ دی کہ اس کا شوہر خلاف توقع بہتر ہو رہا ہے۔ خاتون نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ وہ ٹوتھ برش کا یہ عمل مزید کتنا عرصہ جاری رکھے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ تمہارے شوہر کی بدمزاجی میں بہتری تمہارے ٹوتھ برش کرنے سے نہیں بلکہ پندرہ منٹ تک تمہاری زبان بند رہنے کی وجہ سے آئی ہے جو اسے گھر داخل ہوتے ہی نصیب نہیں ہوتی تھی ۔۔۔ پندرہ منٹ تک کی خاموشی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے مگرخواتین کی مستقل خاموشی تشویشناک ہو تی ہے۔ ریاست کیلی فورنیا میں ایک باون سالہ خاتون کی قوت گویائی لوٹ آئی ہے۔ اٹھارہ گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد بولنے کی قوت بحال ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر نے میڈیا کو بتایا کہ عرصہ پہلے خاتون کے گلے کا نرخرہ خراب ہو گیا تھا جس کی وجہ سے قوت گویائی سے محروم ہو گئی تھی مگر نرخرہ تبدیل کرنے کا تجربہ کامیاب رہا جو کہ سائنس کی تاریخ میں اس قسم کا دوسرا حیران کن کیس ہے۔ میڈیا نے خاتون کے شوہر کے جذبات کے بارے میں خاموش رہنا مناسب سمجھا ۔۔۔ سائنس میں ایسی حیران کن کامیابیاں امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہی ممکن ہو سکتی ہیں ۔۔۔ صدر اوباما امریکہ میں سائنس میں مزید ترقی کے متمنی ہیں۔ انہوں نے اپنی حالیہ تقریر میں جدید تعلیم، ٹیکنالوجی اور نئی ایجادات کے رحجان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں سائنس کے ہر شعبے میں ترقی کی ضرورت ہے۔ صدر اوباما نے سٹیٹ آف دی یونین سے سالانہ خطاب میں مستقبل کی منصوبہ بندی اور گزرے سال کی کارکردگیوں پر روشنی ڈالی جس میں اندرون و بیرون ملک پالیسیوں، نتائج اور ان میں مزید اصلاحات پر بات کی۔ امریکہ میں تعلیم کے حوالے سے نئی نسل کو کالج کی تعلیم حاصل کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں اکثریت ہائی سکول کے بعد تعلیم کا سلسلہ ختم کر دیتی ہے یا کوئی ڈپلومہ حاصل کر لیتی ہے جبکہ کالج ڈگری ہولڈر امریکیوں کی تعدادکم ہے۔ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہال میں بیٹھی ایک خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ اس باہمت خاتون نے پچپن برس کی عمر میںکالج کی ڈگری حاصل کرکے اپنے بچوں پر ثابت کر دیا کہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے نہ عمر کی قید ہے اور نہ ہی کوئی دولت، تعلیم کی دولت سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ صدر اوباما نے کہا کہ والدین کو چاہےے کہ وہ بچوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا کریں۔ کھیلوں سے زیادہ سائنس اور حساب میں دلچسپی کی ضرورت ہے۔ والدین اور اساتذہ بچوں میںسائنس، حساب اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حوصلہ افزائی کریں۔ تعلیم کے پیشے کو اپنانے کا رحجان بھی پیدا کریں تاکہ اس ملک کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار استاد میسر آ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ انسان میں محنت اور جذبہ ہو تو امریکہ میں آگے بڑھنے کے تمام مواقع موجود ہیں۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اوباما نے اپنی پچھلی نشست پر بیٹھے سپیکر آف دی ہاﺅس جان بونر کی مثال دی کہ اس ملک میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی قوت بازو پر آج حکومت کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ۔۔۔ امریکہ میںصدر اور نائب صدر کے بعد تیسرا پاور فل عہدہ سپیکر کا ہوتا ہے۔ سابق سپیکر نینسی پلوسی کی جگہ ری پبلکن پارٹی کے نئے سپیکر جان بونر اوہایﺅ میں پیدا ہوئے۔ بارہ بہن بھایﺅں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ بارہ بہن بھائی مع اپنے والدین کے ریاست سنسنٹی میں دو کمروں اور ایک باتھ روم کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھے۔ جان بونر نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے باپ کی دکان پر ملازمت شروع کر دی تھی۔ وہ دکان کے ٹائلٹ اور فرش کی صفائی کیا کرتے تھے۔ سپیکر جان بونر اپنے خاندان میں بی اے کرنے والا پہلا فرد تھا۔ تعلیم کے لئے انہوں نے مختلف ملازمتیں کیں۔ صدر اوباما نے امریکی مسلمانوں کا بھی بڑے ”پیار“ کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی مسلمان امریکہ کے اچھی شہری ہیں۔ صدر اوباما جس وقت امریکی مسلمانوں کے لئے اچھے جذبات کا ذکر رہے تھے، مجھے یقین تھا کہ اگلا موضوع وار آن ٹیرر، القاعدہ اور طالبان ہو گا اور ایسا ہی ہوا، صدر اوباما تقریر میں مہارت رکھتے ہیں۔ مشکل اور کڑوی بات بھی بڑی آسانی اور روانی کے ساتھ کہہ جاتے ہیں۔ وار آن ٹیرر کے نتائج کی بھی مثبت تصویر پیش کی جیسے زیادہ کام ہو گیا ہے، تھوڑا ہی باقی ہے اور وہ بھی پاکستان کے تعاون سے جلد مکمل ہو جائے گا۔ القاعدہ کا نیٹ ورک کمزور ہو رہاہے۔ ہم نیٹ ورک کو ختم کرکے دم لیں گے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔! کون جیتا ہے تیری زلف کے اسیر ہونے تک ۔۔۔! دیکھئے کیا ہوتا ہے ۔۔۔ اس وار آن ٹیرر کے ختم ہونے تک ۔۔۔!

جنسی ہراست کے رویے کی مذمت


جنسی ہراست کے رویے کی مذمت

کئی اور اداروں کی طرح، جنسی ہراس کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کے اتحاد آشا یعنی ’الائنس اگینسٹ سیکشول ہراسمنٹ‘ نے بھی اس سال کے آغاز پر کیلنڈر شائع کیا ہے مگر اس کیلنڈر پر نہ کوئی منظر کشی ہے اور نہ ہی حسین خواتین کی تصاویر ہیں۔
بلکہ ہر صفحے پر ایسے کردار ہیں جن سے خواتین کا اکثر واسطہ رہتا ہے۔
سڑکوں پر سیٹی بجانے والے حضرات، دفتر میں بےہودگی پر اتر آنےوالے افسران اور وہ جناب جو عورت کو دیکھتے ہی بدن کےمختلف اعضاء کھجانا شروع کر دیتے ہیں۔
مگر ان مزاحیہ کارٹونوں کےذریعے بنائےجانےوالےخاکوں کے پیچھے سوچ سنجیدہ ہے۔آشا کی بانی فوزیہ سعید نے پانچ سال پہلے معروف کارٹونسٹ صابر نذر کےساتھ ان کارٹون کی تخلیق کی تھی۔
خبیث آن ویل
وہ کہتی ہیں کہ ان کارٹونوں کا مقصد جنسی ہراس کا شکار ہونے والی خواتین سے توجہ ہٹا کر ہراساں کرنے والوں پر ڈالنا ہے۔مگر جرم کو سمجھنے کے لیےمجرم کے کردار کو سمجھنا اہم ہے۔
نفسیات کی بنیاد پر ہراساں کرنے والوں کی اقسام مقرر کی گئیں۔ عمر، عادات، بچپن میں متاثر کرنے والے واقعات اور اس کے بعد یہ خاکے بنائے گئے۔
اس سال کے کیلنڈر کےلیے آشا نے اپنی ویب سائٹ پر پچھلے پانچ سالوں میں تیار کیےگئے کارٹون شائع کیےاور لوگوں سے اپنے پسندیدہ خاکوں کے لیے ووٹ کرنے کی درخواست کی۔ نتائج کے مطابق سب سے مقبول خاکے اس کیلنڈر میں شامل کیےگئے ہیں۔
خاکوں کےساتھ ان کی تحریری وضاحت بھی دی گئی ہے۔مثال کےطور پر ہاتھ میں ڈنڈا تھامے ہوئے’خدائی ٹھیکیدار‘ کی تعریف ہے کہ وہ اپنی ہی طے کردہ اخلاقیات ہر ایک پر ٹھونستے ہیں اور گھر سے باہر قدم رکھنے والی عورتووں کے چہروں پر تیزاب پھینکتے ہیں۔
استاد لچا
’گائک جلابی‘ ان حضرات کے لیے ہے جن کو عورت کو دیکھتے ہی گانا گانے یا سیٹی بجانے کی بیماری ہو جاتی ہے۔اور ’گھورن چٹو‘ وہ افراد ہیں جو بس سٹاپس، بازاروں اور محفلوں میں عورتوں کو ’تاڑتے‘ ہیں۔
فوزیہ سعید اس مہم کا جواز یوں دیتی ہیں:’جن بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں وہ سوچنے لگتی ہیں کہ ان کی ہی غلطی ہوگی۔ آگے جا کر ان کی ازدواجی زندگی، ان کے شوہروں کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘
فوزیہ کہتی ہیں کہ ایسے کارٹونوں کا مقصد ان لڑکیوں کا حوصلہ بڑھانا ہے۔
’ٹھرکی بابا جیسے نام دینے سےجادو ٹوٹ جاتا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ لڑکیاں سہم کر اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے کے بجائےان مردوں کا مذاق اڑا کر ان کے خوف سے آزاد ہو جائیں۔‘
مگر ان مرد حضرات کا کیا جو ان خاکوں کو اپنی ذات کی توہین تصور کرتے ہیں؟ ان کے لیے، فوزیہ سعید کہتی ہیں، ’ہم مردوں کا مذاق نہیں اڑا رہے، ہم مزحیہ انداز میں اس طرح کے رویے کی مذمت کر رہے ہیں۔‘

تاثیر: ’ایم کیو ایم کا بھی فاتحہ سے انکار‘


تاثیر: ’ایم کیو ایم کا بھی فاتحہ سے انکار‘

فائل فوٹو، سلمان تاثیر
چار جنوری کو اسلام آباد میں گورنر سلمان تاثیر کو ان کے محافظ نے قتل کر دیا تھا
پاکستان میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمعہ کو جمیعت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ نے پنجاب کے مقبول گورنر سلمان تاثیر کے لیے فاتحہ پڑھنے سے انکار کردیا۔
مسلم لیگ (ق) کی سینیٹر نیلو فر بختیار نے کہا کہ ایوان کو سلمان تاثیر کے قاتل پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے والوں کی مذمت کی قرارداد منظور کرنی چاہیے۔ جس پر ان کی اپنی جماعت کے سرکردہ رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب مخالف وسیم سجاد نے مخالفت کردی اور کہا کہ معاملے کو فاتحہ تک رکھیں۔
چیئرمین سینیٹ فاروق نائک نے متحدہ قومی موومنٹ کے عبدالخالق پیرزادہ سے کہا کہ وہ سلمان تاثیر کے لیے فاتحہ پڑھائیں تو انہوں نے انکار کردیا۔
جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم نے بھی فاتحہ سے انکار کیا جب کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے مولانا گل نصیب اور غلام علی فاتحہ کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔
بعد میں نیلو فر بختیار اور چیئرمین سینیٹ نے فاتحہ کے لیے جب ہاتھ اٹھائے تو اس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے نمائندوں نے فاتحہ پڑھی۔
پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی شخص کے لیے فاتحہ پڑھنے کے معاملے پر ایوان تقسیم ہوگیا ہو۔ سب سے زیادہ حیرانی کی بات بظاہر سیکولر سمجھی جانے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے فاتحہ نہ پڑھنا ہے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار اعجاز مہر نے بتایا ہے کہ پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی شخص کے لیے فاتحہ پڑھنے کے معاملے پر ایوان تقسیم ہوگیا ہو۔ سب سے زیادہ حیرانی کی بات بظاہر سیکولر سمجھی جانے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے فاتحہ نہ پڑھنا ہے۔حالانکہ پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں کچھ عرصہ پہلے جب سلمان تاثیر کے لیے فاتحہ پڑھی گئی تھی تو اس میں تمام جماعتوں نے حصہ لیا تھا اور کسی نے مخالفت نہیں کی تھی۔
اس واقعہ کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حیدر عباس رضوی نے رابطہ کرنے پر کہا کہ سلمان تاثیر کی فاتحہ نہ پڑھنے کا عبدالخالق پیرزادہ کا ذاتی فیصلہ ہے جو ایم کیو ایم کی پالیسی کے خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم وہ واحد جماعت ہے جس کے متعدد اراکین پارلیمان نے سلمان تاثیر کے جنازے میں شرکت کی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رابطہ کمیٹی نے عبدالخالق پیرزادہ کے ذاتی عمل کا نوٹس لیا ہے اور وہ اس بارے میں مشاورت سے ضروری فیصلہ کرے گی۔
سلمان تاثیر کو چار جنوری کو ان کے اپنے پولیس محافظ نےگولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ ملزم ممتاز قادری نے بعد میں پولیس کو ایک بیان میں کہا تھا کہ سلمان تاثیر نے ناموس رسالت کے قانون کو سیاہ قانون قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا بیان دیا تھا جس سے ان کے جذبات مجروح ہوئے۔
سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو جب بعد میں پولیس نے عدالت میں پیش کیا تو کئی وکلاء اور شباب اسلامی نامی تنظم کے کارکنوں نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے ان کے حق میں نعرے لگائے تھے۔
گورنر تاثیر کے قاتل نے پولیس کو دیے گئے بیان میں قتل کا اعتراف کیا ہے اور اِن دنوں ُان کے خلاف اڈیالہ جیل میں مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے رہنما سلمان تاثیر کے قتل اور اس کی حمایت کرنے والوں کی مذمت کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملات پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئے عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی کی بدترین مثال ہے۔

کنوارپن کی بحالی کا آپریشن


کنوارپن کی بحالی کا آپریشن

مہنگے علاقے کے ایک جدید کلینک میں نوجوان عرب خواتین ایسے آپریشن کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں جس سے نہ صرف ان کی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ شاید بچ بھی جائے۔آپریشن کا خرچہ سترہ سو پاؤنڈ ہے اور اس میں خطرے کی کوئی بات نہیں۔

لڑکی کا سایہ
یہ کلینک دبئی یا قاہرہ میں نہیں بلکہ پیرس میں واقع ہے اور وہاں موجود خواتین آپریشن کے ذریعے کنوارپن کی بحالی چاہتی ہیں۔
ایشیا اور عالم ِعرب میں شادی سے پہلے کنوارپن ختم ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں خواتین کی زندگی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد یہ معلوم ہونے پر کہ وہ پہلے ہی مباشرت کی مرتکب ہو چکی ہیں انہیں قتل بھی کیا جا سکتا یا کم سے کم برادری سے تونکال ہی دیاجائےگا۔
اب یہ خواتین آپریشن کے ذریعے ماضی کے جنسی فعل کے تمام نشان مٹا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ شادی کی رات ان کے بستر پر خون کے داغ نظر آئیں۔
خواتین کنوارپن کے حوالے سے دباؤ میں آ کر بعض اوقات اپنی جان لینے پر بھی مجبور ہو جاتی ہیں۔ کلینک میں پیرس کے آرٹ کالج کی ایک طالبہ بھی موجود تھی جو اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتی۔ وہ پیرس میں پیدا ہوئی لیکن عرب روایات ان کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
اگر وہ کنواری ہے تو اپنے شوہر کا کسی دوسرے مرد سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر اس کے دوسرے مردوں سے تعلقات رہے ہیں تو پھر وہ تجربہ کار ہو گی۔ تجربہ انہیں طاقت دیتا ہے
عرب مبصر ثنا
انہوں نے کہا کہ ’جنسی تعلقات قائم کرنے کے بعد میں نے اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سوچا کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا حل نظر نہیں آتا تھا۔‘ لیکن اب ان کے پاس حل موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ ان کے ماضی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہو، خاص طور پر ان کے ہونے والے شوہر کو۔
کنوارپن کی بحالی کا آپریشن تقریباً تیس منٹ میں مکمل ہوتا جس دوران عورت کی جھلی کو دوبارہ جوڑ دیا جاتا ہے۔ کلینک کے مالک ڈاکٹر مارک نے بتایا کہ ان کے مریضوں کی اوسط عمر پچیس سال ہے۔ اس طرح کے آپریشن دنیا بھر میں ہو رہے ہیں لیکن ڈاکٹر مارک واحد عرب سرجن ہیں جو اس کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔
چینی طب میں تو کنوارپن کی بحالی آپریشن کے بغیر بھی ممکن ہے۔ ایک ویب سائٹ پر بیس پاؤنڈ میں مصنوعی جھلیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔چینی جھلی ایلاسٹک سے بنتی اور اس کو مصنوعی خون سے بھرا جاتا ہے۔
شادی کی رات میں بالکل سو نہیں سکی۔ بہت ڈری ہوئی تھی لیکن اسے بالکل شک نہیں ہوا۔ میں تمام رات روتی رہی
ندا
لبنانی خاتون ندا نے بتایا کہ وہ شادی سے پہلے سات سال تک ایک لڑکے کے ساتھ رہی، لیکن اس لڑکے کے گھر والے کہیں اور رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ان کی شادی نہ ہو سکی۔
ندا کی اب شادی ہو چکی ہے اور ان کے دو بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے آپریشن کے ذریعے دوبارہ جھلی بحال کروائی تھی۔ ’شادی کی رات میں بالکل سو نہیں سکی۔ بہت ڈری ہوئی تھی لیکن اسے بالکل شک نہیں ہوا۔ میں تمام رات روتی رہی۔‘
شام کے ایک عالم شیخ محمد نے بتایا کہ کنوارپن کے بارے میں لوگوں کو رویے روایت پر مبنی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی عیسائی آبادی بھی عورت کے کوارپن کے بارے میں اتنے ہی کٹر نظریات رکھتے ہیں۔
عرب مبصر ثنا الخیاط کے مطابق یہ سارا معاملہ ’کنٹرول‘ کا ہے۔ ’اگر وہ کنواری ہے تو اپنے شوہر کا کسی دوسرے مرد سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر اس کے دوسرے مردوں سے تعلقات رہے ہیں تو پھر وہ تجربہ کار ہو گی۔ تجربہ انہیں طاقت دیتا ہے۔‘

Daily news 29 Jan. 2011


news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 
news in urdu by urdu daily news
------------------------------------------ 

aaftaabiyan Aftab Iqbal

Kar zar Anwar Ghazi

Sehr hone tak Dr. Abdul Qadeer

Harfraz Express News

                                                    


gger siysi baaten




                                                         
                           

KalTak With Javaid Choudary

Front Line 28th January 2011

News Night With Talat Hussain 28th January 2011

In Session 28th January 2011