Monday, April 11, 2011

Off The Record - 11th April 2011- Haroon Rashid, Khuram Dastgeer, Haider Abbas Rizvi

Khari Baat with Imran Khan - 11th April 2011

Islamabad Tonight 11th April 2011

Dunya TV-NEWS WATCH-11-04-2011

ڈرون حملوں کیخلاف پاکستانی فوجی قیادت کے شدید تحفظات

پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز این میٹس کو باور کرایا ہے کہ ڈرون حملوں سے دہشت گردی کیخلاف جنگ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جنرل جیمز نے گزشتہ روز اسلام آباد میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں سے ملاقات کی اور ان سے خطے میں سیکورٹی کی صورتحال اور دہشت گردی کیخلاف جنگ سے متعلق معاملات پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس موقع پر پاکستان کے عسکری قائدین نے انہیں اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ ڈرون حملوں سے قبائلی عوام میں امریکہ کیخلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ نوائے وقت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق دوران ملاقات امریکی جنرل کو پاکستان کے عسکری قائدین کی جانب سے لمبی چوڑی چارج شیٹ کا سامنا کرنا پڑا جنہیں باور کرایا گیا کہ باہمی تعاون کی راہ میں امریکہ کا معاندانہ رویہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ اس سلسلہ میں امریکی جنرل کے سامنے ڈرون حملوں اور حال ہی میں رونما ہونیوالے ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ کی مثالیں پیش کی گئیں جبکہ میٹنگ میں امریکی کانگریس کو پیش کردہ وہ رپورٹ بھی زیر غور آئی جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس شدت پسندوں سے نمٹنے کیلئے کوئی خاص حکمت عملی نہیں۔ جنرل کیانی نے امریکی جرنیل پر واضح کیا کہ آئندہ امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جرگہ پر ڈرون حملے جیسے واقعات کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ دفتر خارجہ پاکستان نے بھی متذکرہ امریکی رپورٹ پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور باور کرایا ہے کہ افغانستان میں ناکامی کا ہمیں ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔
وائٹ ہائوس کے قومی سلامتی کے مشیروں کی مرتب کردہ متذکرہ رپورٹ میں جس لب و لہجے کے ساتھ افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں پاکستانی فورسز کے اپریشن کی ناکامی کا الزام عائد کیا گیا‘ اب اس سے بھی زیادہ سخت لہجے میں وائٹ ہائوس نے حکومت پاکستان پر انتہائی کمزور ہونے اور اقتصادی ابتری سمیت پاکستان کو درپیش مسائل سے نمٹنے کی اہلیت نہ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے جو ڈرون حملوں کیخلاف پاکستان کی حکومتی اور عسکری قیادتوں کے اختیار کردہ حالیہ سخت موقف کا ردعمل نظر آتا ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کو ہمارے کسی نظام حکومت اور عوام کے ساتھ کوئی ہمدردی ہے‘ نہ کسی قسم کا سروکار ہے۔ اسے صرف اپنے مفادات سے غرض ہے اور ہمارا جو حکمران چاہے وہ جرنیلی آمر ہو یا جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آیا ہو‘ امریکی احکام کی تعمیل کرتے ہوئے اس خطے میں مستعدی کے ساتھ اسکے مفادات کا تحفظ کریگا‘ امریکہ اسی کے سر پر دست شفقت رکھے گا اور جو حکمران امریکی ڈومور کے تقاضوں سے زچ ہو کر ملک و قوم کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کریگا‘ اس میں اور اسکے ماتحت نظام حکومت میں امریکہ بہادر کو سو سو کیڑے نظر آنے لگیں گے۔ موجودہ سلطانیٔ جمہور کے آغاز میں بھی امریکہ کو اس سسٹم کی ناکامی اور نااہلیت نظر آنے لگی تھی‘ کیونکہ اس وقت تک مشرف ایوان صدر میں براجمان تھے اور انکے اقتدار کو بچانے کی خاطر امریکہ کیلئے سلطانی جمہور میں کیڑے نکالنا ضروری تھا۔ پھر جب مشرف کے ایوان اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد حکمران پیپلز پارٹی کی امریکہ کیساتھ لائن سیدھی ہوگئی اور امریکہ کو انکے ایماء پر ڈرون حملوں کا دائرہ بڑھانے اور ان حملوں میں شدت پیدا کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی تو یہی نااہل حکمران امریکہ سے اہلیت اور اچھی کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ پانے لگے جبکہ اب ڈرون حملوں کیخلاف ہماری عسکری قیادتوں کے حقیقت پر مبنی سخت موقف کے باعث حکمران طبقات بھی امریکہ کے ساتھ سخت لب و لہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو امریکہ کو پھر انکی نااہلیت جھلکتی نظر آنے لگی ہے اس لئے حکمرانوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ وہ جس طوطا چشم امریکہ کیلئے ریشہ خطمی ہو کر اسکے ہاتھوں بھی اور خود بھی اپنے بے گناہ اور معصوم شہریوں کا خون ناحق بہانے اور قومی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا اہتمام کرتے رہے ہیں‘ وہ انکی حکمرانی کیساتھ کتنا مخلص ہے؟ 
بے شک ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اس خطہ میں جاری امریکی مفادات کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیا جس میں اپنے ہی ملک کے شہریوں بشمول سیاست دانوں اور سیکورٹی فورسز کے ارکان کی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے‘ یہ کسی صورت ہماری جنگ نہیں کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے ہی ہماری سالمیت کو ہر جانب سے اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ ہماری عسکری قیادتوں نے اپنی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریوں کے تقاضوں کے تحت ہی سول حکمرانوں کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں اپنے ہی بازوئے شمشیر کیخلاف اپریشن کا آغاز کیا تھا جبکہ امریکہ کی اس پر تشفی ہوئی‘ نہ پاکستان پر اعتماد کی فضا قائم ہو سکی چنانچہ اس نے خود بھی ہماری سرزمین پر فضائی اور زمینی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ بالخصوص ڈرون حملوں میں تو مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کا ہدف بمشکل دو تین فیصد پورا ہوا جبکہ زیادہ تر ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری بشمول خواتین اور بچے ہی ان حملوں کی زد میں آئے جس کا خود امریکی حکام متعدد مواقع پر اعتراف بھی کر چکے ہیں اور اس امریکی جنونیت کے ردعمل میں ہی خودکش حملوں کی صورت میں دہشت گردی کی وارداتوں کو فروغ حاصل ہوا۔ 
ہماری عسکری قیادتوں کیلئے یہ تشویش ناک صورتحال زیادہ دیر تک قابل برداشت نہیں ہو سکتی تھی‘ چنانچہ انہوں نے امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی جانب سے ہماری سیکورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر حملے کیخلاف پہلی بار سخت ردعمل ظاہر کیا اور نیٹو فورسز کی سپلائی بند کردی گئی‘ جس پر امریکی نیٹو حکام کو آسمان کے تارے نظر آنے لگے اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے وہ لجاجت پر اتر آئے مگر سپلائی بحال ہوتے ہی امریکہ بہادر پھر اپنی شاطرانہ چالوں میں مگن ہو گیا جس کا بھانڈہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے مزنگ چوک لاہور میں دو بے گناہ شہریوں کو سرعام گولیوں سے بھون کر پھوڑا جبکہ امریکہ نے اپنے اس جاسوس کی رہائی کیلئے پاکستان کے ساتھ جو اہانت آمیز لب و لہجہ اختیار کیا‘ اس پر ہماری عسکری قیادتوں کی تشویش فطری امر تھا۔ امریکہ نے نہ صرف ریمنڈ ڈیوس کو باعزت رہا کرادیا بلکہ اپنی برتری کا احساس دلانے کیلئے اگلے روز شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں جاری امن جرگے پر بھی ڈرون حملوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے درجنوں بے گناہ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ 
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملہ میں چونکہ عسکری قیادتوں پر بھی انگلی اٹھ رہی تھی‘ اس لئے انہوں نے دتہ خیل ڈرون حملوں کے واقعہ کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ سخت لب و لہجہ اختیار کرنا مناسب سمجھا چنانچہ انکے سخت ردعمل کے باعث ہی اب تک کسی نئے ڈرون حملے کی نوبت نہیں آئی اور اب ہمارے سول حکمرانوں کو بھی ڈرون حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی توفیق ہونے لگی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تو ممکنہ ڈرون حملوں کیخلاف لانگ مارچ کا بھی اعلان کر دیا ہے جبکہ اب پاکستانی فوجی قیادت کی جانب سے امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ پر واضح کردیا گیا ہے کہ آئندہ امن جرگے پر ڈرون حملے جیسا واقعہ نہیں ہونا چاہیے۔ 
بے شک یہ صورتحال امریکہ کیلئے ناگواری کا باعث بنے گی جس کا وائٹ ہائوس کی رپورٹ کے ذریعے اظہار سامنے آبھی رہا ہے مگر اب ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو ملکی اور قومی مفادات پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں کرنی چاہیے اور ڈرون حملوں سمیت اس خطہ میں امریکی نیٹو افواج کے کردار کو ختم کرنے کی ٹھوس اور جامع حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ جب تک نیٹو افواج افغان دھرتی پر موجود ہیں‘ اس خطہ کی امن و سلامتی کو خطرہ ہی لاحق رہے گا۔ 
اس تناظر میں بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کرکے قبائلی علاقوں میں ہماری سیکورٹی فورسز کا اپریشن فی الفور روک دیا جائے اور آئندہ اپنی سرزمین پر کسی ڈرون حملے کی نوبت نہ آنے دی جائے۔ امریکہ کیلئے بھی اب یہی بہتر ہے کہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر نیٹو افواج کو انکے ممالک میں واپس بھجوا دے‘ بصورت دیگر نہ ہمارے خطہ میں امن قائم ہو سکتا ہے‘ نہ امریکہ کو کسی نئے نائن الیون کے رونما نہ ہونے کی ضمانت مل سکتی ہے۔ 
کوئٹہ خودکش حملہ محرکات پر قابو پایا جائے 
کوئٹہ میں ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے گھر پر خودکش حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ ڈی آئی جی وزیر ناصر سمیت 18 افراد زخمی ہو گئے۔ دھماکے میں 9 گاڑیاں‘ 2 بنگلے مکمل تباہ ہو گئے جبکہ حجام کی دکان پر بم حملے میں ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ایماء پر جاری فوجی اپریشن کے دوران بلوچ لیڈر اکبر بگتی کے قتل کے بعد آج تک بلوچستان میں امن قائم نہیں ہوا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ سے لے کر عام آدمی تک کوئی بھی محفوظ نہیں۔ قانون کے رکھوالوں کو سرعام گولی مار دی جاتی ہے۔ ججز اور وکلاء کو دن دہاڑے اغواء کرلیا جاتا ہے‘ معمارانِ قوم اساتذہ کو قتل کرکے علم دشمنی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ تعصب کی بناء پر پنجابیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے‘ جبکہ حکومت بلوچوں کے مطالبات ماننے‘ ناراض نوجوانوں کو منانے میں بالکل ناکام ہو چکی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان ہی جب محفوظ نہیں‘ تو عوام بے چارے کہاں جائیں؟ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن وزیر ناصر کے گھر خودکش حملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ناراض بلوچ جوانوں کے مطالبات پر غور و خوض نہ کیا گیا تو کوئی بھی انکی زد سے باہر نہیں۔ جعفرآباد‘ ہنجگور کے بازار میں دھماکہ بھی کھلی دہشت گردی ہے‘ صدر آصف علی زرداری نے حقوق بلوچسان پیکیج کا اعلان کرکے بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی لیکن ہنوز اس پیکیج پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ صدر زرداری خود بلوچ ہیں‘ انہیں بلوچ رسموں کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے پن کا مظاہرہ کرکے بلوچوں کو گلے لگانا چاہیے۔ حکومت کے رویے کو دیکھ کر بیرونی ایجنسیاں ’’را‘ موساد‘‘ منحرف بلوچوں کو ساتھ ملا کر اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مگن ہیں۔ بھارت کھلے عام بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے‘ جسکے باعث حالات بند گلی کی جانب جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کے حالات کی طرف فی الفور توجہ دینی چاہیے اور بزرگ بلوچ لیڈر کے قاتل مشرف کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میںلانا چاہیے اور ساتھ ہی زرداری صاحب کو بلوچ سرداروںاور بزرگوں کا جرگہ بلا کر انکی شکایات رفع کرنے کا حتمی وعدہ کرنا چاہیے تاکہ قانون کی حکمرانی ہو اور بلوچوں کی محرومیوں کا مداوا کیا جا سکے۔ 
شعبہ تعلیم… مزید بہت کچھ
کرنے کی ضرورت ہے 
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے متعدد تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم عام کرکے ہی مسائل کی دلدل سے نکل سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اکتوبر 2011ء تک ہر بچے کو سکول داخل کرانے کا ہدف مقرر کیا ہے‘ یہ ہدف صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں‘ پوری دنیا کیلئے ہے۔ ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کو کسی بھی دوسرے شعبے کے مقابلے میں بڑی بے رحمی سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسکے بجٹ میں اضافہ کے بجائے ہر سال کمی کر دی جاتی ہے۔ پاکستان میں حکومتی دعوئوں کے مطابق شرح خواندگی 60 فیصد کے قریب ہے۔ اگر تعلیمی میدان میں صرف سرکاری شعبے پر تکیہ کیا جائے تو شاید یہ شرح دس فیصد بھی نہ ہو۔ اس لئے نجی تعلیمی ادارے خواہ کاروبار کیلئے ہی عموماً کھولے جائینگے‘ شرح خواندگی میں اضافے میں ان کا کردار ضرور ہے۔ 
وزیراعلیٰ شہباز شریف پرعزم ہیں کہ اقوام متحدہ کا دیا گیا ہدف حاصل کرلیںگے۔ ان کا دانش سکولوں کے قیام کا عمل بھی اچھا اقدام ہے۔ وہ ہونہار طلباء کی حوصلہ افزائی بھی کھلے دل کے ساتھ کرتے ہیں لیکن اس سے بہت زیادہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ صرف پنجاب میں نہیں‘ پورے ملک میں تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لاکھوں سکولوں میں الو بولتے ہیں‘ جن میں تعلیمی عمل جاری ہے۔ ان میں بھی کہیں کتابوں کی کمی اور کہیں دیگر سہولیات موجود نہیں۔ ملکی ترقی کیلئے صرف معاشرے اور ہر بچے کا تعلیم یافتہ ہونا ہی ضروری نہیں‘ بامقصد تعلیم کا حصول شرط اول ہے۔ بامقصد اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے ایچ ای سی موجود ہے‘ وفاقی حکومت اسکی تحلیل پر تلی ہوئی ہے‘ اس کو اسی طرح صوبوں کے حوالے کرکے لاوارث بنا دینا چاہتی ہے جس طرح مرکزی حکومت نے چھ ہزار ایلیمنٹری سکول کو واپس صوبوں کو دے دیئے ہیں لیکن ان کے بجٹ کیلئے کچھ دینے سے انکاری ہیں۔ ان میں تین ہزار سے زیادہ صرف پنجاب میں ہیں۔ ان سکولوں کے واجبات جو سٹاف کو ادا کرنے میں نہ مرکز تیار ہے‘ نہ صوبے۔
اب بتائیے ان بے چارے ہزاروں اساتذہ کا کیا قصور جو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وفاقی حکومت ایچ ای سی کو محض اس لئے انتقام کا نشانہ نہ بنائے کہ اس نے جعلی ڈگریوں کو اصلی قرار کیوں نہیں دیا۔ قومی مفاد میں ہے کہ ایچ ای سی کو مرکز کے انڈر ہی رہنے دیا جائے اور جعلی ڈگریوں کی تصدیق کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے جس کی بھی ذمہ داری ہے‘ چھ ہزار سکولوں کے اساتذہ کو فوری طور پر واجبات ادا کئے جائیں۔

پاکستان امریکہ مشترکہ آپریشن میں تعطل اور ڈرون گرانے کا عندیہ

پاکستانی انٹیلی جنس اور فوجی حکام نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ کے بعد اس سال جنوری کے اواخر سے پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ انٹیلی جنس آپریشن منجمد ہو چکے ہیں جبکہ یہ صورت حال افغانستان اور عسکریت پسندوں کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے باہمی تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ خبر رساں ایجنسی ”رائٹر“ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کی یہ کشیدگی دونوں ممالک کے سفارتی تنازعات کے باعث اس سال مزید بڑھ گئی ہے اور 27 جنوری کو ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کے قتل اور 18 مارچ کو دتہ خیل میں امن جرگے پر کئے گئے ڈرون حملوں نے اس کشیدگی کو بڑھانے میں نمایاں کام کیا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے ایک انٹیلی جنس افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس کشیدگی کے باعث انٹیلی جنس سے متعلق امریکی سی آئی اے کے متعدد کنٹریکٹر خاموشی سے پاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ اب ڈرون حملوں کی رفتار بھی پہلے سے بہت کم ہو چکی ہے اورگذشتہ سال ستمبر 2010ءکے 22 ڈرون حملوں کے مقابلہ میں گذشتہ ماہ مارچ میں صرف 9 ڈرون حملے ہوئے۔ رپورٹ میں پاکستان کی مسلح افواج کے ایک افسر کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن کے بقول ڈرون طیاروں کی مداخلت ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں اور ہمیں ان ڈرونز کو مار گرانا چاہئے۔ 
دوسری جانب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو دوبارہ ٹریک پر لانے کےلئے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا آج 11 اپریل کو واشنگٹن روانہ ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر بھی 20 اور 21 اپریل کو واشنگٹن میں وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام سے ملاقات کریں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے اور آئندہ ماہ مئی میں اسلام آباد میں ہونے والے پاکستان امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے دوسرے راﺅنڈ میں متوقع طور پر امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کریں گی۔ 
امریکی نائین الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد اس وقت کے امریکی وزیر دفاع اور نائب وزیر خارجہ کی ٹیلی فونک دھمکیوں کی بنیاد پر جرنیلی آمر مشرف نے جس وارفتگی کے ساتھ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا اور پھر اس کے ”ڈو مور“ کے تقاضوں کی فدویانہ تعمیل کی وہ ہماری آزادی و خودمختاری ہی نہیں، غیرتِ ملی کے تقاضوں کے بھی قطعی منافی تھا۔ مگر مشرف نے قومی مفادات کی پاسداری کی نہ شہری آزادیوں پر مبنی عوام کے حقوق کا خیال رکھا اور ڈالروں کے چند ٹکڑوں کے عوض ملک کے شہریوں کو چن چن کر امریکہ کے حوالے کیا جاتا رہا جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی انسانیت سوز سزائے قید ہماری ہزیمتوں کی بڑی مثال ہے اسی طرح امریکی ایماءپر ملک کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر قدیر خاں کو ٹی وی پر لا کر ان سے اعترافی بیان دلوایا گیا اور پھر انہیں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ عراق جنگ کے بعد نیٹو افواج نے جب افغانستان میں ڈیرے ڈالے، تو پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کی وجہ سے ہی انہیں اپنی زمینی اور فضائی کارروائیوں کےلئے پاکستان کی جانب سے ملنے والی لاجسٹک سپورٹ کے باعث افغان جنگ میں نمایاں کامیابیاں ملیں اور افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹوپل کرنا ان کےلئے ممکن ہوا جبکہ افغانستان میں امریکی پٹھو کرزئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغان باشندوں اور شدت پسندوں کی مزاحمت کو روکنے کےلئے بھی نیٹو فورسز کو اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کے تعاون کی ضرورت پڑی جس میں ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت کبھی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور انہیں اکثر اوقات مانگے سے بھی زیادہ تعاون ملتا رہا۔ اگر نیٹو افواج کو پاکستان کی جانب سے لاجسٹک سپورٹ حاصل نہ ہوتی جس میں تیل، خوراک، ادویات کی سپلائی بھی شامل ہے تو افغان دھرتی پر نیٹو فورسز کے قدم کبھی جم ہی نہیں سکتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے بدقسمتی سے نہ صرف امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا ساتھ دیا بلکہ اس جنگ کو اپنی جنگ بھی قرار دے ڈالا جس کے باعث اپنی دھرتی پر نیٹو افواج کی مزاحمت کرنے والے افغان باشندوں کے ذہنوں میں پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہونا فطری امر تھا جبکہ امریکہ کے ایماءپر قبائلی علاقوں میں ہماری سکیورٹی فورسز کی جانب سے شروع کئے گئے فوجی آپریشن کے باعث پاکستان کے عوام کا اپنی افواج کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بھی کمزور ہوا اور اس آپریشن کے ردعمل میں ملک کے مختلف شہروں میں خودکش حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جن میں بعد ازاں امریکی ڈرون حملوں کے باعث زیادہ شدت پیدا ہوئی چنانچہ حکمرانوں کے امریکی فرنٹ لائن اتحادی والے کردار نے نہ صرف ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کیا بلکہ ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ اہم سیاسی اور سکیورٹی فورسز کی شخصیات کا خونِ ناحق بہنے اور ملکی و قومی املاک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچنے کی صورت میں ملک میں عدم تحفظ کی فضا بھی پیدا ہوئی اور قومی ترقی کا پہیہ بھی جامد ہو گیا۔ ملکی اور قومی تباہی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اس کے باوجود واشنگٹن انتظامیہ نے اس خطہ میں اپنے مفادات کی جنگ میں پاکستان کے کردار پر کبھی اعتبار نہیں کیا اور اس کی ایجنسیوں نے اپنے مشاق اہلکاروں اور ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے حساس علاقوں میں پھیل کر ہماری سالمیت کے خلاف اپنی مذموم سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر دیا بالخصوص ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی اور تنصیبات کی جاسوسی ان کے پاکستان آپریشن کا حصہ ہے۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی مذموم سرگرمیاں بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھیں جس کے ہاتھوں لاہور میں دو شہریوں کے قتل کے بعد امریکی انٹیلی جنس کی خفیہ سرگرمیاں بے نقاب ہونے لگیں تو ملک کی سلامتی کی ذمہ دار ہماری سکیورٹی فورسز میں تشویش کی فضا پیدا ہونا بھی فطری امر تھا۔ چنانچہ اسی پس منظر میں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے مابین کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی جو ہماری سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے حوالے سے یقیناخوش آئند ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ افغان جنگ کے دوران بھی اور اب افغانستان سے نیٹو افواج کی محفوظ واپسی کے مراحل طے کرنے کےلئے بھی امریکہ کو ہر قدم پر پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو افغان دھرتی امریکی نیٹو افواج کا قبرستان بن جائے گی۔ چنانچہ اسی پس منظر میں امریکہ کے سول اور فوجی حکام اس وقت بھی پاکستان کے ساتھ لجاجت والا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تھے جب امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پاکستان کے اندر ایک چیک پوسٹ پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد ہماری عسکری قیادت کے دباﺅ پر پاکستان کے راستہ نیٹو فورسز کی سپلائی بند کی گئی جبکہ اب دتہ خیل امن جرگے پر ڈرون حملوں کے ردعمل میں ہماری عسکری قیادتوں نے امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں تو اس کے ہوش ٹھکانے پر آنے لگے ہیں اور ڈرون گرانے کی محض دھمکی پر اب تک امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ رکا ہوا ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی مفادات کی جس جنگ میں ہمارے ملک کی پرامن دھرتی اپنے ہی شہریوں کے خونِ ناحق سے رنگین ہوئی ہے اور ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہے، اسے اپنے مفادات کی جنگ بنا کر اب تک اس میں شریک رہنا کیوں ضروری سمجھا جا رہا ہے جبکہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کے تحت تو اس جنگ کو ہمیں اپنی سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے خلاف اپنے مکار دشمن کی جنگ سمجھنا چاہئے اور اسی بنیاد پر دشمن کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔ 
اب جبکہ ملک کی عسکری قیادتوں کو مکمل ادراک ہو چکا ہے کہ امریکی نیٹو افواج کی اس خطہ میں موجودگی ہماری سلامتی کےلئے انتہائی خطرناک ہے تو ہماری حکومتی سیاسی قیادتوں کو بھی اس کا ادراک ہونا چاہئے اور امریکی مفادات کی جنگ سے خلاصی پانے کےلئے فوری اور مشترکہ حکمت عملی طے کی جانی چاہئے، اب تک جو ہو چکا سو ہو چکا مگر اب طوطا چشم امریکہ سے تعاون کا ہاتھ مستقل طور پر کھینچ لینا ہی ہمارا بہترین قومی مفاد ہے۔ اسلئے امریکہ کے ساتھ آئندہ ماہ کے سٹرٹیجک ڈائیلاگ اسی تناظر میں ہونے چاہئیں۔ اگر امریکہ کے ساتھ ہماری عسکری قیادتوں کی موجودہ کشیدہ صورت حال امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کرنے پر منتج ہوتی ہے تو ہمارے لئے اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں ہو گی۔ 
پارلیمنٹ اور افسران
قانون پرعمل یقینی بنائیں
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری ، شہریوں کے حقوق اور انکے تحفظ کی ذمہ داری ایگزیکٹو اتھارٹی اور انتظامیہ کی ہے،اگر قانون پرعمل نہ ہو تو پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ انتظامیہ کیخلاف کارروائی کرے جبکہ چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ جعلی ڈگری کیس میں کوئی رکن پارلیمنٹ پیش نہیں ہوتا مقدمات درج کرانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ 
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 14اپریل 1948 کو چٹا گانگ میں اعلیٰ گریڈ کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” تمام افسر عوام اور ملک کے خادم بن کر کام کریں سول سرونٹ کا تعلق کسی جماعت یا حکومت سے ہے اور نہ ہی ملازمت کو تجارت بنایاجائے، عوام کو حقیقی معنوں میں یہ محسوس کرایاجائے کہ آپ انکے خادم ہیں “ آج کے دور میں اس کے بالکل اُلٹ ہورہا ہے۔اعلیٰ افسران آئین و قانون کی پاسداری اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنیکی بجائے سیاسی جماعتوں سے تعلقات استوارکرکے سیاست دانوںکے منظور نظر افراد کو نوازنے کی کوشش کرتے ہیں،سیاسی بنیادوں پر افسران کی ترقیاں اور تنزلیاں ہوتی ہیں،سول سروسز کا معاشرے کی ترقی میں اہم رول ہے لیکن آج کسی نے ملازمت کو تجارت بنالیا ہے توکوئی سیاست کی چھتری تلے ترقیاں پارہا ہے،حقیقی معنوں میں عوام کا خادم کوئی نظر نہیں آتا۔ 
عدلیہ کہتی ہے کہ قانون پر عمل نہ ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرے جبکہ چیف الیکشن کمشن کہتے ہیں کہ جعلی ڈگری کیس میں کوئی رکن پارلیمنٹ پیش نہیں ہوتا، مقدمات درج کروانے پر مجبور ہوگئے ہیں،پارلیمان کی اگر یہ حقیقت ہے تو آزاد عدلیہ کوہی آئین و قانون کے مطابق عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے فیصلے دینے ہوں گے کیونکہ 16 مارچ 2009 کو عوام نے لانگ مارچ کرکے عدلیہ کو بحال کروایا، عوام آج بھی عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اگر پارلیمنٹ بھی عوامی مسائل پر توجہ نہیں دے رہی تو عوام کی توقعات عدلیہ کے ساتھ ہی وابستہ ہوں گی،عوامی طاقت اسکے ساتھ ہے، قائداعظمؒ کے فرمان کے مطابق پاکستان کومضبوط و مستحکم رکھنا ہے تو افسران کو عوام کا خادم بننا ہوگا، قائد کے یہ الفاظ ہمارے لئے مشعل راہ ہونے چاہئیں، قائد کے اقوال و افعال پر عمل کرکے ملک کو مضبوط سے مضبوط تر بنایاجاسکتا ہے ،پارلیمان اور افسران کو قانون کے مطابق چلناچاہئے یہی ملک و قوم کیلئے بہتر ہے۔
پاکستان مضبوط ایٹمی قوت ہے
برطانوی جریدے ” اکانومسٹ“ نے پاکستان کے حوالے سے شائع دو کتابو ں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کمزور ہوسکتا ہے لیکن ایک ناکام ریاست نہیں،پاکستانی معاشرہ مضبوط ہے اس قوم نے بہادری سے تین بار فوجی آمروں کا مقابلہ کرتے ہوئے جمہوریت کو ناکام بنانے کی کوششیں اکارت کی ہیں۔
پاکستان کمزور ہے نہ ہی ناکام ریاست، یہ ایٹمی قوت کی حامل ایک مضبوط اسلامی ریاست ہے۔اکتوبر2010 میں بھارت، آسٹریلیا، کینیڈا، یونائٹیڈ سٹیٹ سمیت دیگر ممالک کی فوجی مشقوں میں پاکستان کے بہادر فوجی جوانوں نے خداداد صلاحیتوںکا لوہا منوا کر گولڈ میڈل حاصل کیا، فوج کے جوان آج بھی دنیا کے بڑے سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیارہیں، پاکستانی معاشرہ نہ صرف مضبوط ہے بلکہ دیگر معاشروں پر فوقیت رکھتا ہے۔امریکہ اور برطانیہ کی آشیر باد سے تین مرتبہ فوجی آمروں نے آکر ملکی نظم و نسق کوکھوکھلا کیا ،لیکن بہادر قوم نے نہ صرف انکا مقابلہ کیا بلکہ نئے سرے سے جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھایا۔
پاکستانی قوم آج بھی دنیا کی بہادر قوم ہے لیکن بد قسمتی سے قائداعظمؒ کے بعد سے لیکر آج تک اسے کوئی اچھی اور مخلص قیادت میسر نہیں آئی آج بھی اگر اچھی لیڈر شپ مل جائے تو یہ قوم پوری دنیا کی قیادت کرنیکی صلاحیت رکھتی ہے،زمین کی اتھاہ پستیوں کی طرف لڑھکتی معیشت اور آسمانی بلندیوںکو چھوتی کرپشن کے باوجود قوم بہادری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور معاشرہ ترقی کر رہا ہے۔ جیسے ہی محب وطن رہبر مل جائیگا یہ اوج ثریا کو چھولے گی، برطانوی جریدہ حقائق سے نظریں مت چرائے، پاکستان کی جرا ¿ت بہادری سے مزین تاریخ کو بھی دیکھے۔

Sare Rahe 11 April 2011

Choraha ............Hasan Nasar 11 April 2011

Kis se munsfi Chahen Ansar Abasi 11 April 2011

Zera Hat Ke ...........Yaser Peer Zada 11 April 2011

Shah Ragh ..............Dr. Mirza Ikhtyar Baigh 11 April 2011

Qalam Qmaan ................. Hamid Meer 11 April 2011

Rozne Devaar ......Ata Ul Haqq Qasmi 11 April 2011

Naqshe Khiyal .............Urfan Sadiqee 11 April 2011

Sehr Hone Tak .............Dr. Abdul Qadeer 11 April 2011

Tuaqab ........... Tanveer Qaiser 11 April 2011

 

Foot Path ........ Tahir Server Meer 11 April 2011

Marvi Memon Letter to Hina Rabbani Khar Minister of State for Foreign Affairs Ministry of Foreign Affairs


Hina Rabbani Khar
Minister of State for Foreign Affairs
Ministry of Foreign Affairs
Islamabad
Date: April 11, 2011
Subject: Pakistani fishermen in Indian custody
Dear
Fishermen of village Haji Yousif Katyar Taluka Kharo Chan District Thatta with boat No Al Noor 12131-B are in custody of Indian authorities. Following are the names of fishermen:
1) Muhammad Hussain S/O Ali Mohd Katyar
2) Qadir S/O Hussain Katyar
3) Abdul Aziz S/O Hussain Katyar
4) Mumbark S/O Haji Abdul Rahim Katyar
5) Muhammad Omar S/O Mehmood Katyar
6) Ahmed S/O tayab Katyar
7) Aslam S/O Ali Mohd Katyar
8) Muhammad S/O Kheero Katyar
9) Sajan Ali S/O Khaliq Dino Solangi
10) Ali Anwar S/O Muhammad Ameen Solangi
11) Wali Muhammad S/O Ghulam Hussain
12) Ahmed S/O Azam Solangi
13) Hassan Ali S/O Muhammad Usman Solangi
14) Khan S/O Muhammad alies Kano S/O Ismail Solangi Solangi
Kindly ensure the early release of these fishermen to reduce the miseries of their families.
Sincerely
MNA Marvi Memon
Cc: Minister for Interior

Marvi Memon Letter to PM on Cybercrimes



Honorable Prime Minister of Pakistan
Prime Minister Secretariat
Islamabad
Subject: Cyber Crime Legislation
Date: April 11, 2011
Dear
When government proposed a faulty bill on cyber crime legislation namely “Prevention of Electronic Crime Ordinance” in 2009, I along with MNA Anusha Rehman opposed its passing in the IT Standing Committee and proposed certain critical amendments to make it human rights compliant and international convention compliant.
Unfortunately, those recommendations were not taken up and an attempt to pass it on the floor of the house was made. When we successfully blocked that you decided to have a select committee formed to deal with the issue. We were encouraged that the voice of reason had worked and you had decided to review faulty legislation which would have made Pakistan an international pariah and a police state. However we were most disappointed that the two MNAs who understood the issues best and who had championed the correct legislation were not included in your select committee. Furthermore we have been told that the select committee which was made in 2009 has still not met and its 2011 now.
My efforts to fix the legislation were internationally recognized and I was invited by the Council of Europe for a conference on cyber crime last week in Colombo. Attached is a summary of the conclusions. An FIA Director was also present and we both concurred that we needed correct legislation on an urgent basis to curb cyber crime without creating a police state.
I would appreciate it if you could reconstitute the select Committee and include both myself and MNA Anusha Rehman because we have the most practical experience on the same. Along with giving us competent draftsmen so that we can produce the consensus document which is worthy of Pakistan at the earliest.
I also attach extracts of the potential abuse scenarios the current PECO draft could have which are indeed very dangerous for Pakistan.
Sincerely,
MNA Marvi Memon
Cc: IT Standing Committee Chairman

Conclusions of International Workshop on Cooperation against Cybercrime in South Asia


International Workshop on Cooperation against Cybercrime in South Asia
Colombo, Sri Lanka, 5-6 April 2011
Conclusions
An international workshop on cooperation against cybercrime in South Asia was held in Colombo on 5 and 6 April 2011 with the participation of more than one hundred public and private sector representatives from Bangladesh, India, Maldives, Pakistan and Sri Lanka. The workshop was addressed by the Hon Mohan Pieris, President’s Counsel, the Attorney General of Sri Lanka, by Supreme Court Justice Suresh Chandra, by Suhada Gamlath, Secretary Justice, and by Professor P.W. Epasinghe, Chairman ICTA and Advisor to the President of Sri Lanka. Speakers and participants from countries of South Asia as well as the Council of Europe and the Cybercrime Convention Committee shared their experience.
The workshop agreed that:
 Cybercrime – ranging from offences against computer data and systems to offences committed by means of computer systems and data as well as content-related offences – was a concern common to all countries. Specific threats include malware, botnets, fraud and criminal money on the internet, denial of service attacks and attacks against infrastructure by criminals as well as terrorists. The fact that almost any crime can have an element of electronic evidence entails major challenges to criminal justice systems;
 A distinction should be made between strategies against cybercrime – primarily aimed at criminal justice and the rule of law – and strategies to enhance cybersecurity – primarily aimed at enhancing the protection, reliability and resilience of computer systems and the information infrastructure in general. Intentional attacks against the confidentiality, integrity and availability of computer systems are to be addressed by both, and thus both are linked;
 Legislation providing for the criminalization of conduct and for effective investigations is an essential precondition for criminal justice measures. Legislation should be harmonized with international standards, that is, the minimum standards of the Budapest Convention on Cybercrime, in order to ensure consistency and interoperability. It was noted that the legislation of Sri Lanka is already largely in conformity with the Budapest Convention, and important legislation in line with this treaty has also been adopted in India and Bangladesh. In Pakistan a previous ordinance on electronic crime is to be amended and brought in line with the Budapest Convention when transformed into a law in the very near future. In the Maldives, the preparation of such legislation – possibly through a special law – should be envisaged;
 Conditions and safeguards regarding investigative powers should be put in place to ensure due process and protect fundamental rights. Countries should also consider data protection regulations to protect the rights of individuals, to facilitate international law enforcement cooperation and to enable e-commerce and out-sourcing of services;
 Parliamentarians need to assume responsibility to ensure that domestic legislation is adopted to criminalize conduct, allow for effective investigation and establish safeguards and conditions as well as provisions for international cooperation. Exchanges of views and experience among parliamentarians of South Asia are encouraged, possibly through a regional parliamentary advisory group;
 A “buy in” from policy makers is necessary to allow for the adoption of policies, strategies and responses to threats in a timely manner;
 The effectiveness and adequacy of legislation should be monitored and assessed on a continued basis in view of fast evolving challenges;
 Preventive measures, including awareness and education, should be promoted. High-tech crime units, Computer Emergency Response Teams (CERTs) and the private sector have a role to play in this respect. The national CERTs of Sri Lanka and India and the NR3C of Pakistan already have good practices to share in this respect;
 Channels for reporting complaints and incidents by the public should be established to provide a better understanding of cybercrime threats and trends and provide leads for investigations;
 Institutional capacities need to be reinforced to permit the enforcement of legislation and responses to incidents. This includes:
- CERTs such as those created in India and Sri Lanka,
- high-tech crime units such as those at the Federal Investigation Agency of Pakistan and the Central Bureau of Investigations in India or the cybercrime squad in the Criminal Investigation Department of Bangladesh. The CoE should develop a toolkit to provide guidance on the establishment of high-tech crime units by making use of the experience available in South Asia,
- comprehensive law enforcement training ranging from first responders to forensic investigators,
- digital forensic laboratories to cope with the increasing need for handling of electronic evidence,
- an important role by prosecutors in the criminal procedure,
- the training and specialization prosecutors and judges. The judicial training concept adopted by the Council of Europe may provide guidance to help ensure that cybercrime and electronic evidence matters are mainstreamed into judicial training. In Bangladesh (where special cyber-tribunals have been created) and in Sri Lanka cybercrime training modules are already being delivered. Countries are encouraged to share experience by making available existing modules and training materials. This would contribute to common approaches on training and facilitate networking between judicial training institutions and between trained judges and prosecutors;
- Online resources for the training of law enforcement, prosecutors and judges in order to complement face-to-face training. The Council of Europe should consider linking cybercrime training initiatives in Asia with similar activities in Europe,
- training and education for private sector entities with large IT infrastructure. This includes in particular the financial sector but also the respective regulators;
 Guidelines for handling, analyzing and presenting electronic evidence in court should be developed to ensure that evidence is accepted in criminal proceedings. The Council of Europe should make use of the expertise available in South Asia in this respect;
 Considering that most cybercrime is aimed at obtaining undue economic benefits, measures should be taken to protect individuals and the financial system from attacks, to prevent money laundering and the financing of terrorism and to search, seize and confiscate crime proceeds on the Internet. This will help safeguard the financial infrastructure. Interagency and public-private cooperation, including trusted fora for intelligence sharing and analysis, should be created. The forthcoming typology study on criminal money flows of the Council of Europe will document good practices in this respect;
 Public-private cooperation is a condition for effective prevention and investigation of cybercrime and for enhancing cybersecurity in general. The Budapest Convention already includes obligations for service providers to cooperate with law enforcement during investigations but this should be complemented by a culture of cooperation and structured cooperation along the lines of the law enforcement/service provider cooperation guidelines adopted by the Council of Europe’s Octopus Conference in 2008. India and other countries of South Asia already have valuable experience in this respect;
 Cybercrime is often transnational crime or involves evidence located in foreign jurisdictions or held by foreign service providers. Efficient international cooperation to secure volatile electronic evidence and obtain it for investigation and criminal proceedings is the main challenge. The setting up a regional council or similar mechanism for cooperation against cybercrime in South Asia is encouraged. Existing channels of police-to-police cooperation, CERT-to-CERT cooperation and judicial cooperation should be exploited. The Commonwealth framework may be useful in this respect, but also existing South Asia regional cooperation frameworks could offer opportunities to enhance cooperation against cybercrime in South Asia. Countries are encouraged to seek accession to the Budapest Convention.
The workshop permitted a dynamic exchange of information and good practices among participants with immediate impact on cooperation between institutions within participating countries as well as between countries. Participants identified specific steps to be taken by their respective institutions. Follow up will therefore be required at the domestic level as well as regional and international levels. The Council of Europe and other organizations and donors should assist in such follow up.
The Council of Europe expressed its readiness to continue its cooperation with countries of South Asia against cybercrime. Representatives of South Asia may consider participation in the Octopus Conference on Cooperation on Cybercrime and the 10th anniversary of the Budapest Convention (Strasbourg, France, 21-23 November 2011).
Participants thanked the authorities of Sri Lanka, and in particular Jayantha Fernando and his team from ICTA, and the Council of Europe for providing an excellent forum for enhanced cooperation against cybercrime in South Asia.

PML Agenda for National Assembly and adjournment




Press Release – PML
11 April 2011
PML Agenda for National Assembly and adjournment motions submitted
1- Political victimization and cases against MNA Marvi Memon and Lady Health workers
2- Petroleum price hike causing inflation and increased suicides.
3- HEC dissolution plans by government
4- Whether permission given for US drone strikes by Pak govt or not. If not then discussion on retaliation permission to be given to armed forces.
5- Cyber crime legislation delays and incompatibilities with international standards
6- Human rights violation and fiscal gloom reports internationally on Pakistan including
US State department human rights report, US Congressman Gary Akerman’s statement that Pakistan about to go broke and ADB statement that Pakistan tops in price hike.
7- Pakistan’s relations with India including regional coordination efforts despite Kashmir and water security issues
8- Corruption and worsening Public sector organization balance sheets
9- Census preparedness
10- Executive’s conflict with judiciary and subsequent political destabilization
11- Law & Order situation in country

Insaf do 4/10/11

Woh Kiya hai 10th april 2011

Crime Week April 10, 2011 SAMAA TV

FAISALA AAP KA, April 10, 2011 SAMAA TV

'Going The Distance' (Comedy)

Front Line 10th April 2011

Khaber Naak - 10th April 2011

Mr Shareef Zia ul Haq ka Roohani Farzand aor ab MAMMA Jamhureat & SHAME

Do Tok 10th April 2011

Sawal Yeh Hai 10th April 2011

Criminal Most wanted 10th April 2011

Dunya TV-HASB-E-HAAL-10-04-2011