پاکستان میں سال دو ہزار دس حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے درمیان کشمکش کا سال قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس کشمکش کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی کبھی پوری رفتار سے تو کبھی دھکوں کےساتھ کسی نہ کسی طرح چلتی ہی رہی۔
سال کا آغاز ہی عدلیہ اور پیپلز پارٹی کی حکومت کےدرمیان محاذ آرائی سے ہوا۔ ایسا لگا کہ حکومت اور عدلیہ کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئی ہیں۔
پیپلز پارٹی کو سٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا بھی رہا اور پیپلز پارٹی کے قائدین یہ الزام عائد کرتے رہے کہ کچھ خفیہ ہاتھ ان کی حکومت گرانے کی سازش کررہے ہیں۔صدر زرداری نے دھواں دھار خطاب کیے اور خفیہ ایجنسیوں کا نام لیے بغیر ان کے خوب لتے لیے اور ایک نیوز گروپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
وسط اپریل میں اقوام متحدہ نے بینظیر بھٹو قتل کیس کی رپورٹ جاری کی جس نے نہ صرف ملٹری اور سول بیوروکریسی کی چولیں ہلا کر رکھ دیں بلکہ پیپلز پارٹی حکومت کے لیے ایک ایسی سیاسی آزمائش کھڑی کر ڈالی جس سےگزرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
آزمائش تھی ان اعلٰی فوجی اور پولیس افسروں کے خلاف کارروائی جنہیں پاکستان کی نام نہاد سٹیبلشمنٹ کی ناک کا بال سمجھا جاتا ہے۔
ان بااثر افراد کے خلاف پیپلز پارٹی کی حکومت پر سب سے زیادہ دباؤ اسی کی پارٹی کارکنوں کا ہے۔ حکومت نے اب چند پولیس افسروں کو حراست میں لے لیا ہے لیکن یہ معمہ اس برس بھی حل طلب رہے گا کہ حقیقت میں بےنظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں۔
اپریل میں اٹھارویں ترمیم منظور کر لی گئی لیکن نواز شریف نے صدر زرداری کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیدیا۔
اسی سال آرمی چیف پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی تو مبصرین نے کہاکہ حقیقت میں صدرآصف زرداری کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔
یہ سال ضمنی انتخابات کا سال بھی رہا۔ جعلی ڈگری سکینڈلز کا چرچا بھی رہا اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی متعدداراکین اسمبلی اپنی نشستوں سے محروم ہوئے ۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی موجودگی میں ایک دوسرے سے انتخابی میدان میں پنجہ آزمائی بھی کی اور عدلیہ نےجس رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہل قرار دیا تھا وہ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر دوبارہ منتخب ہوئے۔
صدر آصف زرداری نے ان کے انتخاب پر کہا کہ جمشید دستی کو عوام نے منتخب کر کے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور جمشید دستی کو نااہل قرار دینے والوں کے ساتھ نہیں ہیں۔
نواز شریف نے لاہور سے ضمنی انتخاب لڑنے کا فیصلہ آخری لمحوں پر مؤخر کیا اور کہا گیا کہ نواز شریف نے چونکہ ایک معاہدے کے تحت دس برس سیاست سے باہر رہنے کا وعدہ کر رکھا ہے اس لیے وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ شریف خاندان ہمیشہ ایسے کسی معاہدے کی تردید کرتا ہے تاہم اسی برس نواز شریف پر سیاسی پابندی کے یہ نام نہاد دس برس بھی پورے ہو گئے ہیں۔
سال دو ہزار دس کا ایک بڑاواقعہ وہ سیلاب تھا جس نے ملک کے چاروں صوبوں میں کروڑوں افراد کو بے گھر کیا تھا۔ یہ معاملہ بھی بڑی جماعتوں کی پوائنٹ سکورنگ بن گیا۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں میں چپقلش ہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہوئی صدر آصف زرداری کے عین موقع پر برطانیہ اور فرانس کے دوروں کو تنقید کانشانہ بنایا گیا جبکہ امدادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی بیان بازی بھی ہوئی۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پنجاب میں صدر آصف زرداری کا سیاسی نمائندہ ہونے کا کردار بھرپور نبھایا اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کو سخت وقت دیا۔
عمران خان کی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی چھوٹے بڑے سیاسی احتجاج کرتی رہی ہیں لیکن ملکی سیاست پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑا۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ قاف کا بٹوارہ ہوا ایک نئی ہم خیال مسلم لیگ وجود میں آئی جس نے باقی چھوٹی مسلم لیگوں کا ایک نیا اتحاد بنایا۔مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔ اسی برس صدر مشرف نے اپنی پارٹی کا اعلان کیا انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک چلتی رہی البتہ بلوچ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے انہیں سختی سے کچلنے کی کوشش کرتے رہے،سوات میں امن کے بعد خیبر پختوانخواہ کا قومی سیاست میں حصہ ڈرون حملوں پر ردعمل تک محدود رہاہے دوسرے چھوٹے موٹے اختلافات کبھی اتحاد کے خاتمہ تک نہیں پہنچے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ٹارگٹ کلنگ، زمینوں کے قبضے سمیت مختلف معاملات پر چپقلش چلتی رہی۔
ایم کیو ایم کے اراکین سندھ اسمبلی،وفاقی و صوبائی وزراء اجلاسوں کے بائیکاٹ کرتے رہے اور آخر کار اختتام دسمبر پر وفاقی کابینہ سے الگ ہوئے۔علیحدگی کی ایک وجہ صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کا وہ خطاب بھی بنا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ میں گرفتار ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ایک خاص سیاسی جماعت سے ہے۔
ایم کیو ایم کی علیحدگی سے پہلے مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام بھی کابینہ سے الگ ہو چکی تھی کیونکہ حج کے دوران ہونے والی مبینہ کرپشن کے الزامات کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سیعد کاظمی کو وزارت سے فارغ کیا تو ساتھ ہی ساتھ ان پر الزامات عائد کرنے والے جے یوآئی کے وفاقی وزیر، اعظم سواتی کو بھی برطرف کر دیا گیا۔
سال کے اختتام پر پارلیمان نے انیسویں ترمیم پاس کی۔ یہ کسی جمہوری حکومت کی طرف سے عدلیہ کے حکم پر آئین میں ترمیم کی پہلی مثال ہے۔ وزیراعظم نے ایک سال میں دو ترامیم کی منظوری کو پارلیمان کی بڑی کامیابی قرار دیا۔
سنہ دو ہزار دس کا اختتام حکومت کے دو اہم اتحادیوں کی علیحدگی پر ہوا اور اسی لیے دو ہزار گیارہ کے آغاز پر ہی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپوزیشن کے در کے چکر لگاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے پیپلز پارٹی کے شدید ترین مخالف مسلم لیگ قاف کے چودھری بردران سے ملاقات کی ہے تو دوسری جانب وہ مسلم لیگ نون کے شریف بردران سے رابطے میں ہیں۔
اس ساری صورتحال میں سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت کی ہچکولے کھاتی گاڑی کے لیے سنہ دو ہزارگیارہ زیادہ کڑا امتحان ثا
No comments:
Post a Comment