Friday, February 18, 2011

سطحِ آفتاب سے اچانک بہت زیادہ اخراجِ نور سنہ انیس سو بہتر میں سطحِ آفتاب سے ہونے والی ایک بڑی شعاع ریزی کے باعث امریکی ریاست ایلینوئس میں ٹیلی فون کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا ماہرینِ فلکیات نے بتایا ہے گزشتہ چار سال میں پہلی مرتبہ منگل کو سورج کی سطح سے زمین کی طرف بہت بڑے شعلے کا اخراج ہوا ہے جس سے زمین کی مقناطیسیت متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اس اخراجِ نور یا سطحِ آفتاب پر پڑے دھبوں سے پھوٹنے والے بڑا شعلے کا نام ’ایکس فلیئر‘ ہے جو زمین پر مواصلاتی نظام کو متاثر کرسکتا ہے۔ سورج کی سطح پر دھبے جنھیں سطحِ آفتاب کے داغ بھی کہتے ہیں سورج کی فضا میں موجود مقناطیسی توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔سطحِ آفتاب پر ہونے والے دھماکوں اور دھبوں کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دھبوں میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اور اس قسم کا ایک دور آٹھ سے گیارہ برس یا کبھی کبھی اس سے کچھ زیادہ عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔ سورح کے دھبوں میں سرگرمی سے زمین پر جدید ٹیکنالوجی اور مواصلاتی نظام میں خلل پڑ سکتا ہے اور ان سے برقیاتی گرڈ، سیٹلائٹ اور مواصلات جن میں سیٹلائٹ نیوی گیشن شامل ہے، متاثر ہو سکتے ہیں۔ ناسا کے ایک خلائی جہاز نے سورج کی سطح پر ایک دھبے سے بہت زیاد بالائے بنفشی شعاع ریزی یا الٹرا وائلٹ شعاعوں کا اخراج ریکارڈ کیا۔ برٹش جیالوجیکل سروے نے اس اخراج کے بعد ارضی مقناطیسیت میں طوفان کی وارننگ جاری کی ہے۔ توقع ہے کہ سورج سے ہونے والی یہ شدید شعاع ریزی اگلے دو روز میں زمین کی مقناطیسی سرحد تک پہنچ جائے گی جس سے زمینی مقناطیسیت کے عمل میں تیزی آئے گی۔ آفتاب کے داغوں میں سے ایک داغ سے زمین کی طرف نکلنے والا یہ بہت بڑا شعلہ پندرہ فرروی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح ایک بج کر چھپن منٹ پر ریکارڈ کیا گیا۔ ناسا کی خلائی ایجنسی کے مطابق اس سرگرمی کا منبع اصل میں داغِ آفتاب یا سورج کی سطح پر موجود دھبوں میں سے وہ دھبہ ہے جسے سن سپاٹ 1158 کا نام دیا گیا ہے۔ اسی دھبے سے نوری شعاع ریزی شروع ہوئی ہے۔ سنہ انیس سو بہتر میں سطحِ آفتاب سے ہونے والی ایک بڑی شعاع ریزی کے باعث امریکی ریاست ایلینوئس میں ٹیلی فون کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔ اسی طرح سنہ انیس سو نواسی میں ایسی ہی شعاع ریزی سے ارضی مقناطیست متاثر ہوئی تھی جس کے بعد کینیڈا کے صوبہ کیوبیک میں لاکھوں افراد تاریکی میں ڈوب گئے تھے۔


سطحِ آفتاب سے اچانک بہت زیادہ اخراجِ نور

سنہ انیس سو بہتر میں سطحِ آفتاب سے ہونے والی ایک بڑی شعاع ریزی کے باعث امریکی ریاست ایلینوئس میں ٹیلی فون کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا
ماہرینِ فلکیات نے بتایا ہے گزشتہ چار سال میں پہلی مرتبہ منگل کو سورج کی سطح سے زمین کی طرف بہت بڑے شعلے کا اخراج ہوا ہے جس سے زمین کی مقناطیسیت متاثر ہونے کا امکان ہے۔
اس اخراجِ نور یا سطحِ آفتاب پر پڑے دھبوں سے پھوٹنے والے بڑا شعلے کا نام ’ایکس فلیئر‘ ہے جو زمین پر مواصلاتی نظام کو متاثر کرسکتا ہے۔
سورج کی سطح پر دھبے جنھیں سطحِ آفتاب کے داغ بھی کہتے ہیں سورج کی فضا میں موجود مقناطیسی توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔سطحِ آفتاب پر ہونے والے دھماکوں اور دھبوں کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دھبوں میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اور اس قسم کا ایک دور آٹھ سے گیارہ برس یا کبھی کبھی اس سے کچھ زیادہ عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔
سورح کے دھبوں میں سرگرمی سے زمین پر جدید ٹیکنالوجی اور مواصلاتی نظام میں خلل پڑ سکتا ہے اور ان سے برقیاتی گرڈ، سیٹلائٹ اور مواصلات جن میں سیٹلائٹ نیوی گیشن شامل ہے، متاثر ہو سکتے ہیں۔
ناسا کے ایک خلائی جہاز نے سورج کی سطح پر ایک دھبے سے بہت زیاد بالائے بنفشی شعاع ریزی یا الٹرا وائلٹ شعاعوں کا اخراج ریکارڈ کیا۔
برٹش جیالوجیکل سروے نے اس اخراج کے بعد ارضی مقناطیسیت میں طوفان کی وارننگ جاری کی ہے۔
توقع ہے کہ سورج سے ہونے والی یہ شدید شعاع ریزی اگلے دو روز میں زمین کی مقناطیسی سرحد تک پہنچ جائے گی جس سے زمینی مقناطیسیت کے عمل میں تیزی آئے گی۔
آفتاب کے داغوں میں سے ایک داغ سے زمین کی طرف نکلنے والا یہ بہت بڑا شعلہ پندرہ فرروی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح ایک بج کر چھپن منٹ پر ریکارڈ کیا گیا۔
ناسا کی خلائی ایجنسی کے مطابق اس سرگرمی کا منبع اصل میں داغِ آفتاب یا سورج کی سطح پر موجود دھبوں میں سے وہ دھبہ ہے جسے سن سپاٹ 1158 کا نام دیا گیا ہے۔ اسی دھبے سے نوری شعاع ریزی شروع ہوئی ہے۔
سنہ انیس سو بہتر میں سطحِ آفتاب سے ہونے والی ایک بڑی شعاع ریزی کے باعث امریکی ریاست ایلینوئس میں ٹیلی فون کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔
اسی طرح سنہ انیس سو نواسی میں ایسی ہی شعاع ریزی سے ارضی مقناطیست متاثر ہوئی تھی جس کے بعد کینیڈا کے صوبہ کیوبیک میں لاکھوں افراد تاریکی میں ڈوب گئے تھے۔

No comments:

Post a Comment