Saturday, February 19, 2011

ورلڈ کپ کے بڑے اپ سیٹ


ورلڈ کپ کے بڑے اپ سیٹس

کرکٹ ورلڈ کپ جو 1975 میں کھیلا گیا وہ ورلڈ کپ کسی اپ سیٹ کے بغیر کھیلا گیا یعنی کوئی بھی غیرمتوقع نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ لیکن اس کے بعد ہر ورلڈ کپ میں چونکا دینے نتائج سامنے آتے رہے ہیں اور ’اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے‘ کے مصداق دنیا بڑی ٹیموں کے خلاف چھوٹی ٹیموں کے تماشے دیکھتی رہی ہے۔ ان اپ سیٹس پر ہمارے نامہ نگار عبدالرشید شکور نے نظر ڈالی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سری لنکن کرکٹ کی تاریخ کا سب سے مشہور دن 1996 میں ورلڈ کپ کی فتح کا دن ہے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس جیت سے سترہ برس قبل بھی ایک دن ایسا آیا تھا جب ایک میچ میں سری لنکا کی فتح نے نہ صرف اسے ٹیسٹ سٹیٹس دلوایا تھا بلکہ اسے کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں اہمیت بھی دی جانے لگی تھی۔
یہ سنہ 1979 کا ورلڈ کپ تھا اور سری لنکا نے آئی سی سی ٹرافی جیت کر عالمی کپ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
پہلے میچ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست اور پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہونے کے بعد سری لنکن ٹیم کا سامنا بھارت سے ہوا جو اس سے کہیں زیادہ تجربہ کار تھی۔
سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ ساٹھ اوورز میں پانچ وکٹوں پر238 رنز بنائے۔ سداتھ ویٹمنی67، دلیپ مینڈس64 اور رائے ڈائس50 رنز بناکر قابل ذکر رہے۔
مہندر امرناتھ نے تین وکٹیں حاصل کیں۔
بھارت کے اوپنرز سنیل گواسکر اور انشومن گائیکواڈ نے ساٹھ رنز کا آغاز ٹیم کو دیا لیکن اس کے بعد سری لنکن بولرز حاوی ہوتے چلے گئے۔
لیگ اسپنر سوم چندر ڈی سلوا جو اس وقت سری لنکن کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہیں وینگسارکر، برجیش پٹیل اور مہندر امرناتھ کی اہم وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اسٹینلے ڈی سلوا نے کپل دیو اور انشومن گائیکواڈ کو پویلین کی راہ دکھائی باقی ماندہ تین وکٹیں ٹونی اوپاتھا کی جھولی میں جاگریں اور بھارتی ٹیم صرف191 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔
دلیپ مینڈس ورلڈ کپ مقابلوں میں مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے سری لنکن کرکٹر بنے۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم مسلسل دو عالمی کپ کی فاتح کی حیثیت سے سنہ تراسی کے ورلڈ کپ میں آئی تھی لیکن اولڈ ٹریفرڈ میں پہلے ہی میچ میں اسے بھارت کے ہاتھوں چونتیس رنز کی چونکا دینے والی شکست کا نہ اس سے قبل اور نہ ہی اس کے بعد کسی ٹیم نے ورلڈ کپ کا ایسا آغاز کیا جیسا کہ سنہ تراسی کے ورلڈ کپ میں زمبابوے نے کر دکھایا۔
اس میچ سے قبل زمبابوے نے ورلڈ کپ تو دور کوئی بھی ایک روزہ بین الاقوامی میچ نہیں کھیلا تھا اور ان کے مدِمقابل آسٹریلیا تھی جس نے 476 ون ڈے میچ کھیل رکھے تھے۔
لیکن اس میچ میں سب اندازے غلط ثابت ہوئے اور زمبابوے نے آسٹریلیا کو 13 رنز سے شکست دے کر سب کو حیران کر دیا۔
زمبابوے نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کپتان ڈنکن فلیچر کے ناقابل شکست69 رنز کی بدولت چھ وکٹوں پر239 رنز بنائے۔ جواب میں کیپلر ویسلز اور راڈنی مارش کی نصف سنچریوں کے باوجود آسٹریلوی ٹیم سات وکٹوں پر226 رنز بناسکی۔
فلیچر نے نصف سنچری کے بعد چار وکٹیں بھی حاصل کیں اور مین آف دی میچ رہے۔سامنا کرنا پڑا۔
1983 کے ورلڈ کپ کا آغاز اور اختتام اپ سیٹس پر ہی ہوا
بھارت نے یشپال شرما کے 89رنز کی بدولت8 وکٹوں پر262 رنز بنائے تھے۔ جواب میں راجر بنی اور روی شاستری کی تین تین وکٹوں کی شاندار کارکردگی نے ویسٹ انڈیز کو228 رنز پر آؤٹ کردیا۔
یہ دونوں ٹیمیں دو ہفتے بعد دوبارہ مدمقابل ہوئیں لیکن اس بار یہ مقابلہ فائنل میں تھا۔ لارڈز میں تماشائیوں کے شور مچاتے طوفان میں بھارتی ٹیم نے ویسٹ انڈین توپوں کو خاموش کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کردی۔
بھارت نے پہلے بیٹنگ کی لیکن رابرٹس،گارنر، مارشل اور ہولڈنگ کی پیس بیٹری نے اسے صرف183 رنز پر محدود کردیا جس میں کرشنم اچاری سری کانت کے 38 رنز فائنل کا سب سے بڑا سکور ثابت ہوئے۔
ویسٹ انڈیز کی اننگز میں پہلی دراڑ بلوندرسنگھ سندھو نے ڈالی جب انہوں نے گورڈن گرینج کو بولڈ کردیا۔ ویوین رچرڈز نے اپنے مخصوص انداز میں بھارتی بولنگ پر چڑھائی کی لیکن مدن لال کی گیند پر کپل دیو نے کیچ لے کر کلائیو لائیڈ کو باور کرادیا کہ اس بار بھی وہ بازی اپنے نام کرنے کے موڈ میں ہیں۔
مدن لال کی تین وکٹوں کے بعد مہندر امرناتھ بھی بظاہر بے ضرر لیکن خطرناک ثابت ہونے والی بولنگ سے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بھارتی ٹیم ویسٹ انڈیز کے سر سے تاج اتار کر خود فاتح عالم بن گئی

سنہ انیس سو چھیانوے کے ورلڈ کپ میں کینیا کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 166 رنز بناکر آؤٹ ہوئی تو عام خیال یہی تھا کہ برائن لارا۔ رچی رچرڈسن چندر پال اور کیتھ آرتھرٹن کی موجودگی میں ویسٹ انڈیز کے لئے منزل تک پہنچنا مشکل نہ ہوگا لیکن ایسا نہ ہوا۔
صرف تینتیس رنز پر کیمبل، رچرڈسن اور لارا کے آؤٹ ہونے کے نتیجے میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نوشتۂ دیوار پڑھ چکی تھی۔
چندر پال اور ہارپر ہی دوہرے اعداد میں آسکے لیکن رجب علی کے ابتدائی وار کے بعد مورس اوڈمبے نے تین وکٹیں بٹور کر ویسٹ انڈیز کی بساط صرف 93 رنز پر لپیٹ دی۔
کینیا نے یہ یادگار جیت 73 رنز سے حاصل کی۔

سنہ 2007 ورلڈ کپ میں آئرلینڈ کے ہاتھوں پاکستان کی شکست کرکٹ کی دنیا میں کسی ناتجربہ کار ٹیم کے ہاتھوں پاکستانی ہار کا دوسرا موقع تھا اور اس غیر متوقع شکست کا صدمہ ٹیم کے کوچ باب وولمر کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔
انضمام الحق کی قیادت میں میدان میں اتری پاکستانی ٹیم اس میچ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 132 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی جس میں سب سے بڑا سکور یعنی 29 رنز فاضل تھے۔
آئرلینڈ نے نیل او برائن کے72 رنز کی بدولت بیالسویں اوور میں جب بازی تین وکٹوں سے اپنے نام کی تو سبائنا پارک دو مختلف کیفیتیں بیان کررہا تھا۔ ایک جانب آئرش جشن میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی تو دوسری جانب پاکستانی کرکٹرز سوگ کی سی حالت میں تھے۔
یہ مسلسل دوسرا عالمی کپ تھا جس میں پاکستانی ٹیم پہلے راؤنڈ سے آگے نہ بڑھ سکی۔



No comments:

Post a Comment