Monday, April 11, 2011

ڈرون حملوں کیخلاف پاکستانی فوجی قیادت کے شدید تحفظات

پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز این میٹس کو باور کرایا ہے کہ ڈرون حملوں سے دہشت گردی کیخلاف جنگ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جنرل جیمز نے گزشتہ روز اسلام آباد میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں سے ملاقات کی اور ان سے خطے میں سیکورٹی کی صورتحال اور دہشت گردی کیخلاف جنگ سے متعلق معاملات پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس موقع پر پاکستان کے عسکری قائدین نے انہیں اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ ڈرون حملوں سے قبائلی عوام میں امریکہ کیخلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ نوائے وقت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق دوران ملاقات امریکی جنرل کو پاکستان کے عسکری قائدین کی جانب سے لمبی چوڑی چارج شیٹ کا سامنا کرنا پڑا جنہیں باور کرایا گیا کہ باہمی تعاون کی راہ میں امریکہ کا معاندانہ رویہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ اس سلسلہ میں امریکی جنرل کے سامنے ڈرون حملوں اور حال ہی میں رونما ہونیوالے ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ کی مثالیں پیش کی گئیں جبکہ میٹنگ میں امریکی کانگریس کو پیش کردہ وہ رپورٹ بھی زیر غور آئی جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس شدت پسندوں سے نمٹنے کیلئے کوئی خاص حکمت عملی نہیں۔ جنرل کیانی نے امریکی جرنیل پر واضح کیا کہ آئندہ امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جرگہ پر ڈرون حملے جیسے واقعات کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ دفتر خارجہ پاکستان نے بھی متذکرہ امریکی رپورٹ پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور باور کرایا ہے کہ افغانستان میں ناکامی کا ہمیں ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔
وائٹ ہائوس کے قومی سلامتی کے مشیروں کی مرتب کردہ متذکرہ رپورٹ میں جس لب و لہجے کے ساتھ افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں پاکستانی فورسز کے اپریشن کی ناکامی کا الزام عائد کیا گیا‘ اب اس سے بھی زیادہ سخت لہجے میں وائٹ ہائوس نے حکومت پاکستان پر انتہائی کمزور ہونے اور اقتصادی ابتری سمیت پاکستان کو درپیش مسائل سے نمٹنے کی اہلیت نہ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے جو ڈرون حملوں کیخلاف پاکستان کی حکومتی اور عسکری قیادتوں کے اختیار کردہ حالیہ سخت موقف کا ردعمل نظر آتا ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کو ہمارے کسی نظام حکومت اور عوام کے ساتھ کوئی ہمدردی ہے‘ نہ کسی قسم کا سروکار ہے۔ اسے صرف اپنے مفادات سے غرض ہے اور ہمارا جو حکمران چاہے وہ جرنیلی آمر ہو یا جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آیا ہو‘ امریکی احکام کی تعمیل کرتے ہوئے اس خطے میں مستعدی کے ساتھ اسکے مفادات کا تحفظ کریگا‘ امریکہ اسی کے سر پر دست شفقت رکھے گا اور جو حکمران امریکی ڈومور کے تقاضوں سے زچ ہو کر ملک و قوم کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کریگا‘ اس میں اور اسکے ماتحت نظام حکومت میں امریکہ بہادر کو سو سو کیڑے نظر آنے لگیں گے۔ موجودہ سلطانیٔ جمہور کے آغاز میں بھی امریکہ کو اس سسٹم کی ناکامی اور نااہلیت نظر آنے لگی تھی‘ کیونکہ اس وقت تک مشرف ایوان صدر میں براجمان تھے اور انکے اقتدار کو بچانے کی خاطر امریکہ کیلئے سلطانی جمہور میں کیڑے نکالنا ضروری تھا۔ پھر جب مشرف کے ایوان اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد حکمران پیپلز پارٹی کی امریکہ کیساتھ لائن سیدھی ہوگئی اور امریکہ کو انکے ایماء پر ڈرون حملوں کا دائرہ بڑھانے اور ان حملوں میں شدت پیدا کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی تو یہی نااہل حکمران امریکہ سے اہلیت اور اچھی کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ پانے لگے جبکہ اب ڈرون حملوں کیخلاف ہماری عسکری قیادتوں کے حقیقت پر مبنی سخت موقف کے باعث حکمران طبقات بھی امریکہ کے ساتھ سخت لب و لہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو امریکہ کو پھر انکی نااہلیت جھلکتی نظر آنے لگی ہے اس لئے حکمرانوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ وہ جس طوطا چشم امریکہ کیلئے ریشہ خطمی ہو کر اسکے ہاتھوں بھی اور خود بھی اپنے بے گناہ اور معصوم شہریوں کا خون ناحق بہانے اور قومی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا اہتمام کرتے رہے ہیں‘ وہ انکی حکمرانی کیساتھ کتنا مخلص ہے؟ 
بے شک ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اس خطہ میں جاری امریکی مفادات کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیا جس میں اپنے ہی ملک کے شہریوں بشمول سیاست دانوں اور سیکورٹی فورسز کے ارکان کی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے‘ یہ کسی صورت ہماری جنگ نہیں کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے ہی ہماری سالمیت کو ہر جانب سے اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ ہماری عسکری قیادتوں نے اپنی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریوں کے تقاضوں کے تحت ہی سول حکمرانوں کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں اپنے ہی بازوئے شمشیر کیخلاف اپریشن کا آغاز کیا تھا جبکہ امریکہ کی اس پر تشفی ہوئی‘ نہ پاکستان پر اعتماد کی فضا قائم ہو سکی چنانچہ اس نے خود بھی ہماری سرزمین پر فضائی اور زمینی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ بالخصوص ڈرون حملوں میں تو مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کا ہدف بمشکل دو تین فیصد پورا ہوا جبکہ زیادہ تر ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری بشمول خواتین اور بچے ہی ان حملوں کی زد میں آئے جس کا خود امریکی حکام متعدد مواقع پر اعتراف بھی کر چکے ہیں اور اس امریکی جنونیت کے ردعمل میں ہی خودکش حملوں کی صورت میں دہشت گردی کی وارداتوں کو فروغ حاصل ہوا۔ 
ہماری عسکری قیادتوں کیلئے یہ تشویش ناک صورتحال زیادہ دیر تک قابل برداشت نہیں ہو سکتی تھی‘ چنانچہ انہوں نے امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی جانب سے ہماری سیکورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر حملے کیخلاف پہلی بار سخت ردعمل ظاہر کیا اور نیٹو فورسز کی سپلائی بند کردی گئی‘ جس پر امریکی نیٹو حکام کو آسمان کے تارے نظر آنے لگے اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے وہ لجاجت پر اتر آئے مگر سپلائی بحال ہوتے ہی امریکہ بہادر پھر اپنی شاطرانہ چالوں میں مگن ہو گیا جس کا بھانڈہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے مزنگ چوک لاہور میں دو بے گناہ شہریوں کو سرعام گولیوں سے بھون کر پھوڑا جبکہ امریکہ نے اپنے اس جاسوس کی رہائی کیلئے پاکستان کے ساتھ جو اہانت آمیز لب و لہجہ اختیار کیا‘ اس پر ہماری عسکری قیادتوں کی تشویش فطری امر تھا۔ امریکہ نے نہ صرف ریمنڈ ڈیوس کو باعزت رہا کرادیا بلکہ اپنی برتری کا احساس دلانے کیلئے اگلے روز شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں جاری امن جرگے پر بھی ڈرون حملوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے درجنوں بے گناہ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ 
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملہ میں چونکہ عسکری قیادتوں پر بھی انگلی اٹھ رہی تھی‘ اس لئے انہوں نے دتہ خیل ڈرون حملوں کے واقعہ کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ سخت لب و لہجہ اختیار کرنا مناسب سمجھا چنانچہ انکے سخت ردعمل کے باعث ہی اب تک کسی نئے ڈرون حملے کی نوبت نہیں آئی اور اب ہمارے سول حکمرانوں کو بھی ڈرون حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی توفیق ہونے لگی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تو ممکنہ ڈرون حملوں کیخلاف لانگ مارچ کا بھی اعلان کر دیا ہے جبکہ اب پاکستانی فوجی قیادت کی جانب سے امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ پر واضح کردیا گیا ہے کہ آئندہ امن جرگے پر ڈرون حملے جیسا واقعہ نہیں ہونا چاہیے۔ 
بے شک یہ صورتحال امریکہ کیلئے ناگواری کا باعث بنے گی جس کا وائٹ ہائوس کی رپورٹ کے ذریعے اظہار سامنے آبھی رہا ہے مگر اب ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو ملکی اور قومی مفادات پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں کرنی چاہیے اور ڈرون حملوں سمیت اس خطہ میں امریکی نیٹو افواج کے کردار کو ختم کرنے کی ٹھوس اور جامع حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ جب تک نیٹو افواج افغان دھرتی پر موجود ہیں‘ اس خطہ کی امن و سلامتی کو خطرہ ہی لاحق رہے گا۔ 
اس تناظر میں بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کرکے قبائلی علاقوں میں ہماری سیکورٹی فورسز کا اپریشن فی الفور روک دیا جائے اور آئندہ اپنی سرزمین پر کسی ڈرون حملے کی نوبت نہ آنے دی جائے۔ امریکہ کیلئے بھی اب یہی بہتر ہے کہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر نیٹو افواج کو انکے ممالک میں واپس بھجوا دے‘ بصورت دیگر نہ ہمارے خطہ میں امن قائم ہو سکتا ہے‘ نہ امریکہ کو کسی نئے نائن الیون کے رونما نہ ہونے کی ضمانت مل سکتی ہے۔ 
کوئٹہ خودکش حملہ محرکات پر قابو پایا جائے 
کوئٹہ میں ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے گھر پر خودکش حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ ڈی آئی جی وزیر ناصر سمیت 18 افراد زخمی ہو گئے۔ دھماکے میں 9 گاڑیاں‘ 2 بنگلے مکمل تباہ ہو گئے جبکہ حجام کی دکان پر بم حملے میں ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ایماء پر جاری فوجی اپریشن کے دوران بلوچ لیڈر اکبر بگتی کے قتل کے بعد آج تک بلوچستان میں امن قائم نہیں ہوا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ سے لے کر عام آدمی تک کوئی بھی محفوظ نہیں۔ قانون کے رکھوالوں کو سرعام گولی مار دی جاتی ہے۔ ججز اور وکلاء کو دن دہاڑے اغواء کرلیا جاتا ہے‘ معمارانِ قوم اساتذہ کو قتل کرکے علم دشمنی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ تعصب کی بناء پر پنجابیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے‘ جبکہ حکومت بلوچوں کے مطالبات ماننے‘ ناراض نوجوانوں کو منانے میں بالکل ناکام ہو چکی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان ہی جب محفوظ نہیں‘ تو عوام بے چارے کہاں جائیں؟ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن وزیر ناصر کے گھر خودکش حملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ناراض بلوچ جوانوں کے مطالبات پر غور و خوض نہ کیا گیا تو کوئی بھی انکی زد سے باہر نہیں۔ جعفرآباد‘ ہنجگور کے بازار میں دھماکہ بھی کھلی دہشت گردی ہے‘ صدر آصف علی زرداری نے حقوق بلوچسان پیکیج کا اعلان کرکے بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی لیکن ہنوز اس پیکیج پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ صدر زرداری خود بلوچ ہیں‘ انہیں بلوچ رسموں کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے پن کا مظاہرہ کرکے بلوچوں کو گلے لگانا چاہیے۔ حکومت کے رویے کو دیکھ کر بیرونی ایجنسیاں ’’را‘ موساد‘‘ منحرف بلوچوں کو ساتھ ملا کر اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مگن ہیں۔ بھارت کھلے عام بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے‘ جسکے باعث حالات بند گلی کی جانب جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کے حالات کی طرف فی الفور توجہ دینی چاہیے اور بزرگ بلوچ لیڈر کے قاتل مشرف کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میںلانا چاہیے اور ساتھ ہی زرداری صاحب کو بلوچ سرداروںاور بزرگوں کا جرگہ بلا کر انکی شکایات رفع کرنے کا حتمی وعدہ کرنا چاہیے تاکہ قانون کی حکمرانی ہو اور بلوچوں کی محرومیوں کا مداوا کیا جا سکے۔ 
شعبہ تعلیم… مزید بہت کچھ
کرنے کی ضرورت ہے 
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے متعدد تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم عام کرکے ہی مسائل کی دلدل سے نکل سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اکتوبر 2011ء تک ہر بچے کو سکول داخل کرانے کا ہدف مقرر کیا ہے‘ یہ ہدف صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں‘ پوری دنیا کیلئے ہے۔ ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کو کسی بھی دوسرے شعبے کے مقابلے میں بڑی بے رحمی سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسکے بجٹ میں اضافہ کے بجائے ہر سال کمی کر دی جاتی ہے۔ پاکستان میں حکومتی دعوئوں کے مطابق شرح خواندگی 60 فیصد کے قریب ہے۔ اگر تعلیمی میدان میں صرف سرکاری شعبے پر تکیہ کیا جائے تو شاید یہ شرح دس فیصد بھی نہ ہو۔ اس لئے نجی تعلیمی ادارے خواہ کاروبار کیلئے ہی عموماً کھولے جائینگے‘ شرح خواندگی میں اضافے میں ان کا کردار ضرور ہے۔ 
وزیراعلیٰ شہباز شریف پرعزم ہیں کہ اقوام متحدہ کا دیا گیا ہدف حاصل کرلیںگے۔ ان کا دانش سکولوں کے قیام کا عمل بھی اچھا اقدام ہے۔ وہ ہونہار طلباء کی حوصلہ افزائی بھی کھلے دل کے ساتھ کرتے ہیں لیکن اس سے بہت زیادہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ صرف پنجاب میں نہیں‘ پورے ملک میں تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لاکھوں سکولوں میں الو بولتے ہیں‘ جن میں تعلیمی عمل جاری ہے۔ ان میں بھی کہیں کتابوں کی کمی اور کہیں دیگر سہولیات موجود نہیں۔ ملکی ترقی کیلئے صرف معاشرے اور ہر بچے کا تعلیم یافتہ ہونا ہی ضروری نہیں‘ بامقصد تعلیم کا حصول شرط اول ہے۔ بامقصد اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے ایچ ای سی موجود ہے‘ وفاقی حکومت اسکی تحلیل پر تلی ہوئی ہے‘ اس کو اسی طرح صوبوں کے حوالے کرکے لاوارث بنا دینا چاہتی ہے جس طرح مرکزی حکومت نے چھ ہزار ایلیمنٹری سکول کو واپس صوبوں کو دے دیئے ہیں لیکن ان کے بجٹ کیلئے کچھ دینے سے انکاری ہیں۔ ان میں تین ہزار سے زیادہ صرف پنجاب میں ہیں۔ ان سکولوں کے واجبات جو سٹاف کو ادا کرنے میں نہ مرکز تیار ہے‘ نہ صوبے۔
اب بتائیے ان بے چارے ہزاروں اساتذہ کا کیا قصور جو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وفاقی حکومت ایچ ای سی کو محض اس لئے انتقام کا نشانہ نہ بنائے کہ اس نے جعلی ڈگریوں کو اصلی قرار کیوں نہیں دیا۔ قومی مفاد میں ہے کہ ایچ ای سی کو مرکز کے انڈر ہی رہنے دیا جائے اور جعلی ڈگریوں کی تصدیق کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے جس کی بھی ذمہ داری ہے‘ چھ ہزار سکولوں کے اساتذہ کو فوری طور پر واجبات ادا کئے جائیں۔

No comments:

Post a Comment