Thursday, May 19, 2011

’آوارہ‘ سیاروں کی دریافت کا دعوٰی



فائل فوٹو
محققین کے مطابق یہ سیارے زیادہ فاصلے پر موجود ستاروں کی روشنی کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
جاپان کے ماہرینِ فلکیات نے ایسے سیاروں کا پتہ چلایا ہے جو کسی ستارے کے گرد نہیں گھوم رہے ہیں۔
ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیارہ مشتری کے حجم کے برابر دس ایسے سیارے دیکھے ہیں جو ستاروں کے کسی بھی نظام کے ساتھ منسلک نہیں ہو سکتے۔
ماہرین کو یقین ہے کہ دوسرے عام سیاروں کی طرح یہ سیارے کہکشاؤں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
محققین کے مطابق یہ سیارے زیادہ فاصلے پر موجود ستاروں کی روشنی کو موڑنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کی پیش گوئی کے مطابق یہ بڑے حجم کے سیارے روشنی کو موڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر بڑے حجم کا کوئی سیارہ زیادہ فاصلے پر موجود ستارے کے سامنے سے گزرے تو وہ اس ستارے کی شکل بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اس کی روشنی کو موڑ سکتا ہے۔
ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ سیارے عام ستاروں کی طرح اپنا راستہ کس طرح بناتے ہیں اور’تھرمونیوکلیئر اگنیشن‘ کے پوائنٹ تک پہنچنے میں ناکام کیوں ہوتے ہیں۔
پروفیسر ویمبسناس
محققین نے مائیکرولینزنگ سرویز کے ذریعے حاصل ہونے والے مواد کا مشاہدہ کیا جو ملکی وے کہکشاں کے مرکزی حصے میں پایا جاتا ہے۔ اسی دوران انہوں نے سیارہ مشتری کے سائز کے برابر دس ایسے سیارے دیکھے جن کے ’ایسٹرانومیکل یونٹس‘ کے قریب کوئی دوسرا ستارہ موجود نہیں تھا۔
ماہرین کے مطابق ایک ایسٹرانومیکل یونٹ کا فاصلہ زمین اور سورج کے مابین فاصلے کے برابر ہے۔ مزید تحقیق سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے سیاروں کے آبائی ستارے نہیں ہوتے۔
اوساکا یونیورسٹی جاپان کے ایسوسی ایٹ پروفیسر تکاہیرو سومی کاکہنا ہے کہ کہکشاں میں ایسے آوارہ سیارے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے آوارہ سیاروں کی موجودگی کی توقع کی جارہی تھی۔
یونیورسٹی آف ہیڈلبرگ جرمنی کے پروفیسر جوچم ویمبسناس جنہوں نے اس تحقیق کا مطالعہ کیاہے کا کہناہے کہ یہ بہت قابلِ تعریف تھیوری ہے۔
ان کے مطابق ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ سیارے عام ستاروں کی طرح اپنا راستہ کس طرح بناتے ہیں اور’تھرمونیوکلیئر اگنیشن‘ کے پوائنٹ تک پہنچنے میں ناکام کیوں ہوتے ہیں۔
سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی سینٹ اینڈریوز کے پروفیسر ڈاکٹر مارٹن ڈومینک نے اس تھیوری کے ساتھ اتفاق کیا ہے تاہم انہوں نے اس کے نتائج کے بارے میں مزید احتیاط برتنے پر زور دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment