Sunday, July 3, 2011

آج تین جولائی ہے۔


بھٹو نے کہا کہ اگر طے شدہ سمجھوتے کو پھر سے چھیڑا گیا تو سب کچھ خطرے میں پڑ جائے گا
ایک تین جولائی چونتیس برس پہلے بھی آیا تھا جب راولپنڈی کے ایوانِ وزیرِ اعظم میں میز کے ایک طرف پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نوابزادہ نصراللہ خان اور ان کے بالمقابل وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو، مولانا کوثر نیازی اور حفیظ پیرزادہ پچھلے ساڑھے تیرہ گھنٹے سے بیٹھے تھے۔
سمجھوتے کی ایک ایک شق پر عرق ریزی ہوتی رہی اور بالآخر صبح ساڑھے چھ بجے مولانا کوثر نیازی اور پروفیسر غفور احمد کمرے سے نمودار ہوئے اور اعلان کیا کہ سمجھوتہ طے پاگیا ہے۔اب صرف قومی اتحاد کی مرکزی کونسل کی منظوری باقی ہے اس کے بعد ایک دو دن میں رسمی دستخط ہوجائیں گے۔
شام کو قومی اتحاد کی مرکزی کونسل کا اجلاس شروع ہوا جو لگ بھگ دس گھنٹے جاری رہا۔ نوابزادہ نصراللہ، مفتی محمود اور پروفیسر غفور کا خیال تھا کہ سمجھوتہ مناسب ہے اس پر دستخط کر دینے چاہئیں۔اصغر خان اور ان کے قانونی مشیر محمود علی قصوری کا خیال تھا کہ اس میں کچھ ایسے قانونی نقائص ہیں جنہیں بھٹو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
بیگم نسیم ولی خان کا خیال تھا کہ جب تک حیدر آباد جیل میں غداری اور بغاوت کا مقدمہ بھگتنے والے ولی خان رہا نہیں ہوتے اور حیدرآباد ٹریبونل توڑا نہیں جاتا اس وقت تک دستخط نہیں ہونے چاہئیں۔لہٰذا اجلاس کے بعد اصغر خان نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت کو مزید دس نکات بھیجے جا رہے ہیں۔
نوابزادہ نصراللہ، مفتی محمود اور پروفیسر غفور کا خیال تھا کہ سمجھوتہ مناسب ہے اس پر دستخط کر دینے چاہئیں
بھٹو نے کہا کہ اگر طے شدہ سمجھوتے کو پھر سے چھیڑا گیا تو سب کچھ خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس وقت بھٹو کے اس انتباہ کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔اور یہ بات صرف بھٹو کو معلوم تھی کہ ان کے اور ملک کے سر پر دو دھاری تلوار لٹک رہی ہے۔
اس دو دھاری کا اس وقت پتہ چلا جب تختہ الٹے جانے کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے جیل میں بند ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے دس اکتوبر کو سپریم کورٹ کے روبرو آئینی درخواست دائر کی، جس میں کہا گیا کہ نو اپریل کو جنرل ضیا الحق نے لاہور میں مجھے کہا کہ اگر پی این اے سے سمجھوتے کے تحت بلوچستان سے فوج واپس بلائی گئی یا حیدرآباد ٹریبونل توڑا گیا تو فوج اسے تسلیم نہیں کرے گی۔
پھر دو اور تین جولائی کو جنرل ضیا الحق نے راولپنڈی میں پی این اے اور حکومت کے مذاکراتی دور میں شرکت کی اور پچاس صفحے کی ایک دستاویز پیش کی جس میں کہا گیا کہ علیحدگی پسندوں اور غداروں کو کسی صورت میں رہا نہ کیا جائے۔اس پر نوابزادہ نصراللہ نے کہا کہ آپ اپنے کام پر توجہ دیں، سیاست ہمارا کام ہے ہمیں لیکچر نہ دیں۔ جنرل ضیا الحق نے اٹھتے اٹھتے یہ انتباہ کیا کہ کوئی سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں اور فوج میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔
جنرل ضیا نے باریش روبوٹ تیار کرنے کے کارخانے لگوا دیے جن کی پیداواری کھپت افغانستان، کشمیر اور پھر اندرونِ پاکستان ہونا تھی
دو دن بعد جب کہ قومی اتحاد اور حکومت کے درمیان ایلچیوں کی آمدورفت جاری تھی کہ جنرل ضیا الحق نے تختہ الٹ دیا۔
چند ماہ بعد پی این اے میں شامل کچھ جماعتیں مارشل لاء حکومت کا حصہ بن گئی اور پی این اے ٹوٹ گیا۔
ولی خان سمیت جن ’غداروں‘ کو رہا کرنے سے بھٹو کو منع کیا گیا تھا وہ نہ صرف رہا ہوئے بلکہ ولی خان کو وزیرِ اعظم بننے کی ناکام پیش کش بھی ہوئی۔
بلوچستان سے فوج واپس بلا لی گئی۔
پھر دو نمبر سیاسی قیادت کی کاشت شروع ہوگئی۔
جنرل ضیا نے باریش روبوٹ تیار کرنے کے کارخانے لگوا دیے جن کی پیداواری کھپت افغانستان، کشمیر اور پھر اندرونِ پاکستان ہونا تھی۔
درگزر اور وسیع المشربی کی اقدار دیوار میں چنوا دی گئیں اور مستقبل کی ٹرین اندھیری سرنگ میں داخل ہوگئی۔

No comments:

Post a Comment