یونس کے عوام کی طرف سے ملک میں طویل دورِ آمریت، غربت و افلاس میں ہونے والے تشویشناک اضافے اور حکمرانوں کی طرف سے عوامی مشکلات و مسائل کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہونے والے زبردست مظاہروں نے مراکش، یمن اردن کے بعد مصر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مصری عوام نے صدر حسنی مبارک سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق صدارتی محل کے گھیراؤ کے دوران پولیس تشدد سے 20 افراد ہلاک ہو گئے جس کے بعد ملک بھر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ صدر نے حکومت کو برطرف کر دیا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی قسم کی سیاسی تبدیلی کے لئے مذاکرات کا عمل ضروری ہے لیکن ان کا خطاب بھی مظاہروں پر قابو نہ پا سکا اب تک 900 سے زائد افراد کے زخمی ہونے اور اس سے بھی زیادہ کو گرفتار کرنے کی خبریں منظر عام پر آ چکی ہیں اور ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ کا عمل جاری ہے۔
بلاشبہ کسی بھی جمہوری ملک میں کوئی بھی سیاسی تبدیلی آئین اور قانون کے ذریعے ہی ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اکثر و بیشتر مسلمان ممالک میں ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے حکمران خود آئین و قانون کی پاسداری نہیں کرتے اور مختلف طریقوں سے دنیا کو آئین و قانون کی پاسداری کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں سابق صدر مشرف نے 9 سال تک یہی طرز عمل اختیار کئے رکھا اور تیونس، مراکش، مصر، شام، اردن اور یمن میں بھی حکمرانوں کا طرز عمل ایسا ہی رہا۔ مصر میں حسنی مبارک کم و بیش 22 سال سے ایوان اقتدار میں بیٹھے ہیں اس سے پہلے صدر انوار السادات ، جمال عبدالناصر کے بعد طویل عرصہ تک اقتدار میں رہے ان کے انجام سے بھی ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج مصری عوام کا ردعمل اس کا عملی ثبوت ہے ہمارے حکمرانوں سمیت دوسرے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو اس صورت حال کا غور سے جائزہ لینے کے بعد اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ صرف عوام کو پرامن رہنے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا مشورہ دینا کافی نہیں۔ مصر کے عوام حسنی مبارک کے 22 سالہ دور اقتدار میں جس طرح دباؤ کا شکار رہے اس نے آخرکار انہیں سراپا احتجاج بن کر باہر نکلنے اور ایوان صدر کا گھیراؤ کرنے پر مجبور کر دیا ۔ اس سے پہلے تیونس کے عوام کے ردعمل نے ملک کے حکمران اور اس کے پورے خاندان کو ملک سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ مصر نے اسرائیل ، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کر کے انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیا لیکن مصری حکمران یہ بھول گئے کہ ان کے ان آئیڈیل ملکوں میں تو ہر چار پانچ سال بعد آئین و قانون کے مطابق حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ۔حکمرانوں کو بہرحال عوام کی امنگوں کا احساس کرنا ہو گا ۔سابق صدر مشرف نے 9سال کے طویل عرصہ تک زیادہ کام پاکستانی عوام کی بجائے اپنے مغربی ممالک کی خوشنودی کے لئے کئے۔ اسی لئے مشرف کو ملک چھوڑنا پڑا اور اب مصر کے عوام بھی صدر حسنی مبارک سے یہی مطالبہ کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ طاقت کا غلط استعمال اور عوام کے مسائل کو نظر انداز کرنا ہے۔
ہم اپنے ان کالموں میں حکمرانوں سے مسلسل کہتے چلے آ رہے ہیں کہ آپ محض باتوں، زبانی کلامی دعووں، الفاظ کے گورکھ دھندے اور شعبدہ بازی سے عوام کوبہلانے کی کوشش نہ کریں قوم کے اصل مسائل کو سمجھیں۔ یہ اچھا نہیں کہ آپ گرانی، اقربا پروری، لاقانونیت، خوفناک کرپشن، بے روزگاری پر قابو پانے کی بجائے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اپنے چہیتوں اور منظور نظر افراد کو مسلط کریں۔ پاکستان سٹیل ملز کے علاوہ بے شمار دوسرے اداروں میں یہی ہوتارہا۔ کراچی میں بدامنی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور حکمرانوں کی ساری کوشش اپنے اقتدار کو قائم رکھنے تک محدود ہے جبکہ عوام کو ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گیس و بجلی کے بحران سے ہزاروں صنعتی ادارے بند اور لاکھوں غریب بے روزگار ہو گئے ہیں۔ غربت و افلاس اور فاقہ کشی سے تنگ آئے ہوئے والدین اپنے بچے فروخت کرنے اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ صوبہ پختونخوا میں بھی بدامنی نے ناگفتہ بہ صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ بلوچستان میں بدامنی بڑھتی جارہی ہے۔ ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے تین سال میں غیرملکی قرضے 50 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ وہی تین سال کا عرصہ ہے جب اقتدار موجودہ حکمرانوں کے ہاتھ میں رہا ۔اب لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف حالات کو سدھارنے کا دعویٰ کریں یا کوئی اور ۔ لیکن حکمران اور سارے سیاستدان غریب عوام کے دل کی آواز سنیں اور ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں ۔ الفاظ کی شعبدہ بازی بہت ہو چکی۔ ایسی باتوں کا وقت گزر گیا۔ غریب عوام کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے ،گرانی نے ان کی کمر زمین سے لگا دی ہے دو سو روپے روزانہ کمانے والا ایک محنت کش 170 روپے کلو گھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ان تلخ حقائق کا اولین تقاضا یہ ہے کہ حکمران اپنی عیاشیاں ترک کر دیں اور خود کو ایک عام آدمی کی جگہ رکھ کر اس کے مسائل اور مشکلات کا احساس کریں۔ اگر حکمرانوں نے اصلاح احوال کی کوئی موثر کوشش نہ کی الفاظ کی شعبدہ بازی نہ چھوڑی تو حالات مصر اور تیونس، سے بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر جائیں گے اور پھر صورت حال پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔ اب تو کئی سیاسی لیڈر کہہ رہے ہیں کہ انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے جو بڑے بڑوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو برطانوی رکن پارلیمنٹ کا مشورہ
برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت بااثر ممبر پارلیمنٹ روری اسٹیورٹ نے جیو کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ وہ ا فغانستان کے خونریزتنازع کو حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ۔افغانستان میں امریکی مشن اپنا راستہ کھو چکا ہے کیونکہ اس کے سامنے سیاسی سمجھوتے کی کوئی پالیسی موجود ہے نہ اسے اپنی حدود کا کوئی اندازہ ہے۔ اس لئے اسے یہاں اپنی فوج کا کردار کم کرنا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ مغربی دارالحکومتوں میں افغانستان ،طالبان اور القاعدہ کے مسئلے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان سے کسی مغربی ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں، اسی تناظر میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے موازنے کو حماقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور حقیقی سول سوسائٹی پر مشتمل ایک بڑا اور مثالی ملک ہے اس لئے ان دونوں ممالک تقابل کرنا زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔اکیسویں صدی میں برطانیہ کے75سب زیادہ موثر لوگوں میں شمار ہونے اور38سال کی عمر میں پوری اسلامی دنیا کی سیاست پر دسترس حاصل کرلینے والے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن موصوف کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دیا جانے والا یہ مشورہ مبنی برحقیقت اور بہت بروقت ہے اور ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کی اعلیٰ سول اور فوجی انتظامیہ خود اس بات کو محسوس کرچکی ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں اور اسے اپنی افواج کو بہر طور اس جنگ زدہ ملک سے نکالنا ہوگا۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین اور افغانستان میں جنگ کی صورتحال کا مطالعاتی جائزہ لینے والے عربی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ صدر اوباما افغانستان اور بھارت کے دورے کے بعد اس سال پاکستان آنے کا جوارداہ رکھتے ہیں اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود امریکی و اتحاد ی افواج کو نکالنے کا کوئی محفوظ راستہ تلاش کرسکیں ۔امرواقعہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود ا ب افغانستان سے ناکامی کا داغ اپنے سینے پر سجائے واپس جانے کے لئے پر تول رہا ہے۔ ان حالات میں اس کے لئے بہتر یہی ہوگاکہ وہ افغانستان میں اقتدار کے مسائل افغان عوام کو خود حل کرنے دے اور اس سلسلے میں پاکستان پر دباؤ ڈالے نہ بھارت کو علاقائی کردار دینے کی کوئی کوشش کرے کیونکہ اس کے یہ سارے اقدامات بھی افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے فیصلے کی طرح الٹا نقصان دہ ہی ثابت ہوگی۔ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اول تو امریکہ سمیت کسی خارجی طاقت کو حق ہی نہیں پہنچتا لیکن اگر خطے کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادی ایسا کرنا بھی چاہتے ہیں تو انہیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ افغانستان کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات اور روابط کی اپنی ایک خصوصی نوعیت ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ان روابط میں بھارت کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں بنتا۔ لہٰذا افغان عوام پر اس قسم کا کوئی فیصلہ مسلط کرنے کا انجام افغانستان پر حملے سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔
بلاشبہ کسی بھی جمہوری ملک میں کوئی بھی سیاسی تبدیلی آئین اور قانون کے ذریعے ہی ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اکثر و بیشتر مسلمان ممالک میں ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے حکمران خود آئین و قانون کی پاسداری نہیں کرتے اور مختلف طریقوں سے دنیا کو آئین و قانون کی پاسداری کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں سابق صدر مشرف نے 9 سال تک یہی طرز عمل اختیار کئے رکھا اور تیونس، مراکش، مصر، شام، اردن اور یمن میں بھی حکمرانوں کا طرز عمل ایسا ہی رہا۔ مصر میں حسنی مبارک کم و بیش 22 سال سے ایوان اقتدار میں بیٹھے ہیں اس سے پہلے صدر انوار السادات ، جمال عبدالناصر کے بعد طویل عرصہ تک اقتدار میں رہے ان کے انجام سے بھی ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج مصری عوام کا ردعمل اس کا عملی ثبوت ہے ہمارے حکمرانوں سمیت دوسرے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو اس صورت حال کا غور سے جائزہ لینے کے بعد اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ صرف عوام کو پرامن رہنے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا مشورہ دینا کافی نہیں۔ مصر کے عوام حسنی مبارک کے 22 سالہ دور اقتدار میں جس طرح دباؤ کا شکار رہے اس نے آخرکار انہیں سراپا احتجاج بن کر باہر نکلنے اور ایوان صدر کا گھیراؤ کرنے پر مجبور کر دیا ۔ اس سے پہلے تیونس کے عوام کے ردعمل نے ملک کے حکمران اور اس کے پورے خاندان کو ملک سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ مصر نے اسرائیل ، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کر کے انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیا لیکن مصری حکمران یہ بھول گئے کہ ان کے ان آئیڈیل ملکوں میں تو ہر چار پانچ سال بعد آئین و قانون کے مطابق حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ۔حکمرانوں کو بہرحال عوام کی امنگوں کا احساس کرنا ہو گا ۔سابق صدر مشرف نے 9سال کے طویل عرصہ تک زیادہ کام پاکستانی عوام کی بجائے اپنے مغربی ممالک کی خوشنودی کے لئے کئے۔ اسی لئے مشرف کو ملک چھوڑنا پڑا اور اب مصر کے عوام بھی صدر حسنی مبارک سے یہی مطالبہ کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ طاقت کا غلط استعمال اور عوام کے مسائل کو نظر انداز کرنا ہے۔
ہم اپنے ان کالموں میں حکمرانوں سے مسلسل کہتے چلے آ رہے ہیں کہ آپ محض باتوں، زبانی کلامی دعووں، الفاظ کے گورکھ دھندے اور شعبدہ بازی سے عوام کوبہلانے کی کوشش نہ کریں قوم کے اصل مسائل کو سمجھیں۔ یہ اچھا نہیں کہ آپ گرانی، اقربا پروری، لاقانونیت، خوفناک کرپشن، بے روزگاری پر قابو پانے کی بجائے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اپنے چہیتوں اور منظور نظر افراد کو مسلط کریں۔ پاکستان سٹیل ملز کے علاوہ بے شمار دوسرے اداروں میں یہی ہوتارہا۔ کراچی میں بدامنی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور حکمرانوں کی ساری کوشش اپنے اقتدار کو قائم رکھنے تک محدود ہے جبکہ عوام کو ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گیس و بجلی کے بحران سے ہزاروں صنعتی ادارے بند اور لاکھوں غریب بے روزگار ہو گئے ہیں۔ غربت و افلاس اور فاقہ کشی سے تنگ آئے ہوئے والدین اپنے بچے فروخت کرنے اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ صوبہ پختونخوا میں بھی بدامنی نے ناگفتہ بہ صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ بلوچستان میں بدامنی بڑھتی جارہی ہے۔ ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے تین سال میں غیرملکی قرضے 50 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ وہی تین سال کا عرصہ ہے جب اقتدار موجودہ حکمرانوں کے ہاتھ میں رہا ۔اب لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف حالات کو سدھارنے کا دعویٰ کریں یا کوئی اور ۔ لیکن حکمران اور سارے سیاستدان غریب عوام کے دل کی آواز سنیں اور ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں ۔ الفاظ کی شعبدہ بازی بہت ہو چکی۔ ایسی باتوں کا وقت گزر گیا۔ غریب عوام کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے ،گرانی نے ان کی کمر زمین سے لگا دی ہے دو سو روپے روزانہ کمانے والا ایک محنت کش 170 روپے کلو گھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ان تلخ حقائق کا اولین تقاضا یہ ہے کہ حکمران اپنی عیاشیاں ترک کر دیں اور خود کو ایک عام آدمی کی جگہ رکھ کر اس کے مسائل اور مشکلات کا احساس کریں۔ اگر حکمرانوں نے اصلاح احوال کی کوئی موثر کوشش نہ کی الفاظ کی شعبدہ بازی نہ چھوڑی تو حالات مصر اور تیونس، سے بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر جائیں گے اور پھر صورت حال پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔ اب تو کئی سیاسی لیڈر کہہ رہے ہیں کہ انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے جو بڑے بڑوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو برطانوی رکن پارلیمنٹ کا مشورہ
برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت بااثر ممبر پارلیمنٹ روری اسٹیورٹ نے جیو کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ وہ ا فغانستان کے خونریزتنازع کو حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ۔افغانستان میں امریکی مشن اپنا راستہ کھو چکا ہے کیونکہ اس کے سامنے سیاسی سمجھوتے کی کوئی پالیسی موجود ہے نہ اسے اپنی حدود کا کوئی اندازہ ہے۔ اس لئے اسے یہاں اپنی فوج کا کردار کم کرنا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ مغربی دارالحکومتوں میں افغانستان ،طالبان اور القاعدہ کے مسئلے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان سے کسی مغربی ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں، اسی تناظر میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے موازنے کو حماقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور حقیقی سول سوسائٹی پر مشتمل ایک بڑا اور مثالی ملک ہے اس لئے ان دونوں ممالک تقابل کرنا زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔اکیسویں صدی میں برطانیہ کے75سب زیادہ موثر لوگوں میں شمار ہونے اور38سال کی عمر میں پوری اسلامی دنیا کی سیاست پر دسترس حاصل کرلینے والے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن موصوف کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دیا جانے والا یہ مشورہ مبنی برحقیقت اور بہت بروقت ہے اور ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کی اعلیٰ سول اور فوجی انتظامیہ خود اس بات کو محسوس کرچکی ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں اور اسے اپنی افواج کو بہر طور اس جنگ زدہ ملک سے نکالنا ہوگا۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین اور افغانستان میں جنگ کی صورتحال کا مطالعاتی جائزہ لینے والے عربی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ صدر اوباما افغانستان اور بھارت کے دورے کے بعد اس سال پاکستان آنے کا جوارداہ رکھتے ہیں اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود امریکی و اتحاد ی افواج کو نکالنے کا کوئی محفوظ راستہ تلاش کرسکیں ۔امرواقعہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود ا ب افغانستان سے ناکامی کا داغ اپنے سینے پر سجائے واپس جانے کے لئے پر تول رہا ہے۔ ان حالات میں اس کے لئے بہتر یہی ہوگاکہ وہ افغانستان میں اقتدار کے مسائل افغان عوام کو خود حل کرنے دے اور اس سلسلے میں پاکستان پر دباؤ ڈالے نہ بھارت کو علاقائی کردار دینے کی کوئی کوشش کرے کیونکہ اس کے یہ سارے اقدامات بھی افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے فیصلے کی طرح الٹا نقصان دہ ہی ثابت ہوگی۔ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اول تو امریکہ سمیت کسی خارجی طاقت کو حق ہی نہیں پہنچتا لیکن اگر خطے کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادی ایسا کرنا بھی چاہتے ہیں تو انہیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ افغانستان کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات اور روابط کی اپنی ایک خصوصی نوعیت ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ان روابط میں بھارت کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں بنتا۔ لہٰذا افغان عوام پر اس قسم کا کوئی فیصلہ مسلط کرنے کا انجام افغانستان پر حملے سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔
No comments:
Post a Comment