چنگیز خاں کے لشکر شہر پہ شہر فتح کرتے جب ایران کے شہر قُم پہنچے تو وہاں مسلمانوں کے دو گروہ شیعہ اور سنی موجود تھے۔ شیعہ گروہ نے تاتاری لشکر سے کہا کہ اگر وہ لوگ قُم میں سنی گروہ کو ختم کر دیں تو وہ یہ شہر انکے حوالے کر دیں گے۔تاتاریوں نے یہ شرط منظور کر لی لیکن جب فاتحانہ انداز میں شہر میں داخل ہوئے تو انہوں نے شیعہ اور سنی دونوں کو قتل کرد یا۔اسی طرح کا واقعہ تہران سے ملحق ایک عالیشان شہر کا ہے۔وہاں حنفی اور شافعی تھے۔جب تاتاری وہاں پہنچے تو اس وقت حنفی و شافعی کے مابین کسی مسجد کے جلائے جانے کا جھگڑا چل رہا تھا۔شافعیوں نے حنفیوں کی عداوت میں تاتاریوں کا خیر مقدم کیا اور انکے سامنے یہ شرط رکھی کہ وہ اس شرط پر شہر انکے حوالے کرنے پر تیار ہیں اگر وہ حنفیوںکو چن چن کر قتل کر دیں۔تاتاریوں نے حنفیوں کا کام تمام کرنے کے بعد شہر پر قابض ہو تے ہی شافیوںکا بھی صفایا کر دیا۔
بیرونی طاقتیں مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے اور انہیں آپس میں لڑانے کے منصوبے صدیوں سے بناتے چلی آ رہی ہیں اور دور حاضر میں بھی غیرملکی طاقتیں مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے در پے ہیں لیکن انڈو پاک کے مسلمان بیرونی سازشوں کا ہدف جان گئے ہیں لہذا فرقہ وارانہ اور فروعی اختلافات سے بالا تر ہو کر سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔خود کش دھماکوں ، ڈرونزحملوں اور توہین رسالت جیسے مسائل و واقعات کے خلاف متحد ہیں لہذا لاہور میںایک ہی دن ایک ہی مقام پر دو مکتبہ فکر کے محترم مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بناکر فرقہ واریت پھیلانے کی گھناﺅنی سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔امام بارگاہ اور داتا دربار کے قریب پیش آنے والا سانحہ تاتاریوں کے قبیلہ کا مکروہ فعل ہے ۔کراچی اور لاہور کے المناک واقعات کے پیچھے اندرونی و بیرونی سیاسی چالبازیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ میںکچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا مقصد فوج کو دعوت دیناہے۔ بالخصوص پنجاب حکومت کی رٹ کو چلینج کیا جا رہاہے۔شر پسندی کے واقعات سے فوج کو جواز پیش کیا جا رہاہے مگر فوج وائٹ ہاوس کے”گرین سگنل“ کے بغیر حرکت میںنہیں آتی ۔پاکستان کی زمین مذہبی وسیاسی انتشار کا شکار ہے جبکہ اللہ تعالیٰ زلزلوں کی صورت میں بھی مسلسل وارننگ دے رہے ہیں۔صرف پاکستان ہی نہیںپوری دنیا زمینی و آفاقی مصائب سے دوچار ہے۔پوری دنیا میں دھماکے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔امریکہ جیسا طاقتور ملک بھی زمینی و آسمانی آزمائشوں میں مبتلا ہے۔معاشی بحران کا شکار ہے۔دنیا کو غرور اور دور سے دیکھنے والا آج ہندوستان اور چین کے طواف کرنے پر مجبور ہے۔ سپر پاور کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے تو امریکہ کی مار کھانے والے کمزور اور غریب ملک پاکستان میںبحران متوقع تھا۔صرف پاکستان میں ہی قتل نہیں ہوتے امریکہ جیسے مہذب ملک میں بھی روزانہ قتل ہوتے ہیں ۔چونکہ اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے آزاد ، مضبوط اور منظم ہیں لہذا ظلم نے ابھی تشویشناک صورت اختیار نہیں کی ،اس کے باوجود صرف نیویارک میں 2010 کے دوران149 قتل ہو چکے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس شہر میں گزشتہ برس134 قتل ہوئے تھے۔اس میں خواتین بھی شامل ہیں جن کی آبروریزی کے بعد انہیں دریاﺅں اور سمندر کے پانی میں بہا دیا جاتا ہے۔قاتل اور مقتول کی فہرست میں پاکستانی باشندوں کے نام بھی شامل ہیں۔ امریکہ بھر میں 1960 میںقتل کے واقعات کی تعداد قریبََا9,110 بتائی جاتی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا قتل کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا رہا حتیٰ کہ 2009 میں یہ تعداد15,241 تک پہنچ گئی۔پاکستان سے دوگنا آبادی پر مشتمل امریکہ میں ہر روز 45 قتل ہوتے ہیں جبکہ امریکہ سے نصف آبادی والے ملک پاکستان میں قتل کے واقعات کی شرح تشویشناک اور افسوسناک ہے ، مزید ظلم یہ کہ مظلوم کی شنوائی نہیں ۔کمزور شہری کی کوئی ایف آئی آر کاٹنے کو تیار نہیں۔جسٹس جاوید اقبال پاکستان کی محترم شخصیت ہیں۔عدلیہ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں لہذا ان کے مرحوم والدین کے قاتل جلد گرفتار کر لئے گئے مگر ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن کے قاتل نا معلوم رہتے ہیں اور لواحقین کورٹ کچہریوں کے دھکے کھاتے مر جاتے ہیں جو کہ قتل سے بھی زیادہ اذیتناک جرم ہے۔امریکہ میں لا اینڈ آرڈر کی وجہ سے مجرموں کو گرفتار کر لیاجاتا ہے اور انہیں کیفر کردار تک بھی پہنچا دیا جاتا ہے۔جرائم میں اضافہ بُش پالیسی کے بعد ہوا ہے ۔ امریکہ کوبُش دور حکومت نے غیر محفوظ کیا ہے۔قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کی اکثریت نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔منشیات کے عادی گروہوں کے علاوہ بیروزگاری کا رد عمل بھی سامنے آ رہاہے مگر امریکی حکومتیں عوام کے ڈالروار آن ٹیرر میں پھونک رہے ہیں۔ امریکہ نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران انسداد دہشت گردی کے مختلف منصوبوں پر 1.2کھرب ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔رواں مالی سال میں امریکہ عراق اور افغانستان کی فوجی کاروائیوں میں مزید 159 ارب ڈالر کی رقم خرچ کرے گا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی جان اور اقتدار بچانے کی فکر پڑی ہے اور بے یارومددگار عوام دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔زمینی و آفاقی جھٹکوں اور دھماکوں نے قوم کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔امریکہ کو وار آن ٹیرر پر خرچ ہونے والی پائی پائی کا حساب چاہئے،اگر نام نہاد جمہوری حکومت ملکی حالات پر قابو پانے میں ناکام رہی تو ”فوج بلانے کے آرزومند“ مایوس نہیں کئے جائیں گے ۔جمہوری حکومتیں مت بھولیں کہ جی ایچ کیو میں تبادلے اور ترقیوں کا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میںہے۔!
بیرونی طاقتیں مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے اور انہیں آپس میں لڑانے کے منصوبے صدیوں سے بناتے چلی آ رہی ہیں اور دور حاضر میں بھی غیرملکی طاقتیں مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے در پے ہیں لیکن انڈو پاک کے مسلمان بیرونی سازشوں کا ہدف جان گئے ہیں لہذا فرقہ وارانہ اور فروعی اختلافات سے بالا تر ہو کر سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔خود کش دھماکوں ، ڈرونزحملوں اور توہین رسالت جیسے مسائل و واقعات کے خلاف متحد ہیں لہذا لاہور میںایک ہی دن ایک ہی مقام پر دو مکتبہ فکر کے محترم مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بناکر فرقہ واریت پھیلانے کی گھناﺅنی سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔امام بارگاہ اور داتا دربار کے قریب پیش آنے والا سانحہ تاتاریوں کے قبیلہ کا مکروہ فعل ہے ۔کراچی اور لاہور کے المناک واقعات کے پیچھے اندرونی و بیرونی سیاسی چالبازیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ میںکچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا مقصد فوج کو دعوت دیناہے۔ بالخصوص پنجاب حکومت کی رٹ کو چلینج کیا جا رہاہے۔شر پسندی کے واقعات سے فوج کو جواز پیش کیا جا رہاہے مگر فوج وائٹ ہاوس کے”گرین سگنل“ کے بغیر حرکت میںنہیں آتی ۔پاکستان کی زمین مذہبی وسیاسی انتشار کا شکار ہے جبکہ اللہ تعالیٰ زلزلوں کی صورت میں بھی مسلسل وارننگ دے رہے ہیں۔صرف پاکستان ہی نہیںپوری دنیا زمینی و آفاقی مصائب سے دوچار ہے۔پوری دنیا میں دھماکے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔امریکہ جیسا طاقتور ملک بھی زمینی و آسمانی آزمائشوں میں مبتلا ہے۔معاشی بحران کا شکار ہے۔دنیا کو غرور اور دور سے دیکھنے والا آج ہندوستان اور چین کے طواف کرنے پر مجبور ہے۔ سپر پاور کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے تو امریکہ کی مار کھانے والے کمزور اور غریب ملک پاکستان میںبحران متوقع تھا۔صرف پاکستان میں ہی قتل نہیں ہوتے امریکہ جیسے مہذب ملک میں بھی روزانہ قتل ہوتے ہیں ۔چونکہ اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے آزاد ، مضبوط اور منظم ہیں لہذا ظلم نے ابھی تشویشناک صورت اختیار نہیں کی ،اس کے باوجود صرف نیویارک میں 2010 کے دوران149 قتل ہو چکے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس شہر میں گزشتہ برس134 قتل ہوئے تھے۔اس میں خواتین بھی شامل ہیں جن کی آبروریزی کے بعد انہیں دریاﺅں اور سمندر کے پانی میں بہا دیا جاتا ہے۔قاتل اور مقتول کی فہرست میں پاکستانی باشندوں کے نام بھی شامل ہیں۔ امریکہ بھر میں 1960 میںقتل کے واقعات کی تعداد قریبََا9,110 بتائی جاتی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا قتل کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا رہا حتیٰ کہ 2009 میں یہ تعداد15,241 تک پہنچ گئی۔پاکستان سے دوگنا آبادی پر مشتمل امریکہ میں ہر روز 45 قتل ہوتے ہیں جبکہ امریکہ سے نصف آبادی والے ملک پاکستان میں قتل کے واقعات کی شرح تشویشناک اور افسوسناک ہے ، مزید ظلم یہ کہ مظلوم کی شنوائی نہیں ۔کمزور شہری کی کوئی ایف آئی آر کاٹنے کو تیار نہیں۔جسٹس جاوید اقبال پاکستان کی محترم شخصیت ہیں۔عدلیہ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں لہذا ان کے مرحوم والدین کے قاتل جلد گرفتار کر لئے گئے مگر ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن کے قاتل نا معلوم رہتے ہیں اور لواحقین کورٹ کچہریوں کے دھکے کھاتے مر جاتے ہیں جو کہ قتل سے بھی زیادہ اذیتناک جرم ہے۔امریکہ میں لا اینڈ آرڈر کی وجہ سے مجرموں کو گرفتار کر لیاجاتا ہے اور انہیں کیفر کردار تک بھی پہنچا دیا جاتا ہے۔جرائم میں اضافہ بُش پالیسی کے بعد ہوا ہے ۔ امریکہ کوبُش دور حکومت نے غیر محفوظ کیا ہے۔قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کی اکثریت نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔منشیات کے عادی گروہوں کے علاوہ بیروزگاری کا رد عمل بھی سامنے آ رہاہے مگر امریکی حکومتیں عوام کے ڈالروار آن ٹیرر میں پھونک رہے ہیں۔ امریکہ نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران انسداد دہشت گردی کے مختلف منصوبوں پر 1.2کھرب ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔رواں مالی سال میں امریکہ عراق اور افغانستان کی فوجی کاروائیوں میں مزید 159 ارب ڈالر کی رقم خرچ کرے گا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی جان اور اقتدار بچانے کی فکر پڑی ہے اور بے یارومددگار عوام دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔زمینی و آفاقی جھٹکوں اور دھماکوں نے قوم کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔امریکہ کو وار آن ٹیرر پر خرچ ہونے والی پائی پائی کا حساب چاہئے،اگر نام نہاد جمہوری حکومت ملکی حالات پر قابو پانے میں ناکام رہی تو ”فوج بلانے کے آرزومند“ مایوس نہیں کئے جائیں گے ۔جمہوری حکومتیں مت بھولیں کہ جی ایچ کیو میں تبادلے اور ترقیوں کا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میںہے۔!
No comments:
Post a Comment