Friday, January 28, 2011

سرے راہے


جمعرات 22؍ صفر المظفر‘ 1432 ھ‘ 27؍ جنوری2011ء

ـ 23 گھنٹے 30 منٹ پہلے شائع کی گئی
وی آئی پی شخصیات کے سیکورٹی پلان اور پولیس کی انتہائی خفیہ فائلیں 15 روپے کلو کے حساب سے فروخت‘ راز رکھے جانیوالے کاغذوں میں سموسے اور جلیبیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔ 
ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ق) اور دیگر تانگہ پارٹیوں کے لاکھ اعتراضات و الزامات کے باوجود عوام کافی حد تک پنجاب پولیس کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے جب سے پنجاب پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے‘ تب سے رشوت پر بھی قابو نظر آتا ہے۔ 
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اگر خفیہ فائلوں میں آلو چھولے فروخت ہونگے تو پھر وی آئی پی شخصیات کی سیکورٹی بھی ریڑھی بانوں کو دے دینی چاہیے‘ جس ملک میں غریب لوگ روٹی کے حصول کیلئے اولاد کو فروخت کر رہے ہوں‘ عزتیں سربازار نیلام کی جا رہی ہوں‘ حصول زر اور خوشنودی زن کیلئے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو قتل کیا جا رہا ہو‘ وہاں پر خفیہ فائلوں میں سموسے اور جلیبیاں فروخت ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ 
’’قیمت زعفران چہ داند خر‘‘ (گدھا زعفران کی قیمت کیا جانے)۔ ایسے کون سے نااہل افسران سیکورٹی پلان ترتیب دیتے ہیں جن کو حساس فائلوں کا پتہ ہی نہیں کہ وہ کس چھولے فروش کے ہاتھوں میں جا چکی ہیں۔ آئی جی پنجاب اس بلنڈر کا نوٹس لیں۔ اس طرح راز ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں لگ گئے تو کتنی بڑی تباہی مچے گی…ع
تیری گود میں بیٹھوں اور تیری داڑھی نوچوں‘‘ 
اس کہاوت پر جو لوگ کاربند ہیں‘ ان کو فی الفور گھر کا راستہ دکھائیے۔ 
٭…٭…٭…٭
شاہ زین بگتی نے کہا ہے کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے‘ ملک کیخلاف کام کرنے والوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے۔ 
شاہ زین صبح و شام محب وطن ہونے کی یقین دہانی کرواتا ہے لیکن حکمران طبقہ اسکی جانب کان نہیں دھر رہا‘ کیا یہ بلوچستان کے مسائل حل نہ کرنے کی بات نہیں ہے۔ بلوچستان میں لگی آگ پر پانی چھڑکنے کے ساتھ ساتھ مٹی بھی پھینکنی چاہیے تھی تاکہ جلد اس پر قابو پایا جا سکتا لیکن حکومت بلوچستان میں محب وطنوں کو گرفتار اور دشمنوں کو کھلی چھٹی دے رہی ہے۔ احسان دانش نے کہا تھا…؎
وہ داستاں جو مصائب میں دفن ہے اب تک 
زبان خلق پہ جب آگئی تو کیا ہو گا 
بلوچستان میں محرومیوں کی آواز جب نقارہ خلق خدا بن گئی تو کیا طوفان آئیگا‘ کیا بلوچ صدر بلوچوں کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے؟ کہا جاتا ہے کہ سچی بات آدھی لڑائی ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ اندھے کو بھی اندھا کہہ دیں تو وہ سر کو آتا ہے۔ شاہ زین نے سرعام پھانسی کی بات تو کر دی ہے لیکن جب قطار اندر قطار غداروں کے چہروں سے پردہ اٹھے گا تو بات بگتی کے پوتوں تک آپہنچے گی۔ اس سچ بولنے کے بعد زین بگتی کو اپنی سیکورٹی مزید سخت کرلینی چاہیے۔ ’’ہر کہ گرگیں شدہ از گلہ بدر باید کرد ‘‘ (جو بکری ہو کر بھیڑیے کا کردار ادا کرے‘ اسے ریوڑ سے باہر نکال دیا جائے) جو پاکستانی ہو کر وطن کیخلاف ہتھیار اٹھائے‘ اسے پاکستانی کہلانے کا حق نہیں۔ 
٭…٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو 18ویں آئینی ترمیم کے تحت ملنے والے تمام اداروں میں بھرتی کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ 
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ وفاقی وزراء سے محکمے تو ویسے ہی لئے جا رہے ہیں‘ اب جاتے جاتے اپنے ماتحت افسران عزیز و اقارب اور بااثر ووٹروں کی جیبیں تو بھر جائیں۔ وزراء نے سوچا چلو کچھ لو اور کچھ دو کی بناء پر صوبوں پر لوڈ تو ڈالتے چلو۔ کہا جاتا ہے کہ کھویا ہوا وقت واپس نہیں ملتا۔ شاید اس کو بنیاد بنا کر وزیروں نے اپنے اپنے محکموں میں بھرتی شروع کر دی ہے کہ مسند اقتدار کبھی پھر نصیب ہو گی یا نہیں‘ اس لئے ’’لٹو اور پھٹو‘‘۔ وفاقی حکومت کو اصولی طور پر وزارتوں کی منتقلی کو خفیہ رکھنا چاہیے تھا‘ تاکہ لوٹ مار کا بازار گرم نہ ہوتا۔ 
ارسطو نے کہا تھا جو اپنا راز پوشیدہ رکھتا ہے‘ وہ اپنی ساری دولت گویا اپنے قبضے میں رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اعلان کرکے خزانے کے منہ کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ جس میں اپنی تجوریوں کے ساتھ ساتھ اپنے مزارعوں کی جیبیں بھی بھری جا رہی ہیں۔ وفاق صوبوں پر رحم کھاتے ہوئے اس سلسلہ کو بند کرے۔ غالب نے شاید ایسے لوگوں کے بارے میں کہا تھا…؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
٭…٭…٭…٭
مسلم لیگ (ن) کے ترجمان پرویز رشید نے کہا ہے کہ الطاف کا پنجاب میں مارشل لاء لگانے کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔
پرویز رشید نے مارشل لاء کا مزہ شاید کچھ زیادہ ہی چکھا ہے اس لئے وہ اسے مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ ٹیگور کا قول ہے کہ وقت اور عمر گنوانے کے بعد تجربہ حاصل ہوتا ہے‘ یہ مفت میں نہیں ملتا‘ اس لئے مارشل لاء کا جن کو مزہ آچکا ہے‘ وہی بخوبی جانتے ہیں کہ مارشل لاء میں کیسے آمر سے سازبار کرنی پڑتی ہے‘ باقی وزیر مشیر کسی کھاتے میں نہیں ہوتے۔ 
طاقت کا منبع صرف آمر ہوتا ہے‘ اسکی خوشنودی کیلئے 12مئی جیسے واقعات کئے جا سکتے ہیں‘ چھوٹے مرزے کو چھوڑ کر صرف وردی والے مرزے کو خوش رکھنے سے کام چلتا ہے لیکن جمہوریت میں تو مرزا سے لیکر گبول تک سب کو خوش کرنا پڑتا ہے‘ اس صورتحال میں تو پرویز رشید کو الطاف بھائی کیلئے یہ کہنا چاہیے کہ…؎ 
تو از چنگال گر گم در ربودی
چو دیدم عاقبت خود گرگ ود 
(تو مجھے بھیڑے کے چنگل سے تو چھڑا کر لے بھاگا اور جب میں نے دیکھا تو تو بھیڑیا نکلا۔) جمہوری قوتوں نے عوام کو مارشل لاء سے نکال کر جمہوری مارشل میں داخل کر دیا ہے‘ جہاں آمر کی طرح ہر خاندان کا پارٹی پر قبضہ ہے۔

No comments:

Post a Comment