Sunday, February 20, 2011

سرے راہے


اتوار ‘ 16 ؍ ربیع الاول 1432 ھ20؍ فروری ‘ 2011ء

ـ 2 گھنٹے 9 منٹ پہلے شائع کی گئی
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے‘ ’’متحدہ امارات بلوچستان‘‘ بنانے کی تیاریاں تھیں‘ ناکام بنایا۔ محاذ آرائی کی وجہ سے ملک تڑوا کر بنگلہ دیش بنوا چکے ہیں۔ 
یوں لگتا ہے کہ مردحر اپنی حریت کو روز افزوں اجاگر کرتے جا رہے ہیں اور وہ ملک کے ٹوٹنے کو نہ بھولتے ہوئے اب بلوچستان کے بارے میں بیدار ہیں اور شاید وہ پیپلز پارٹی کے ایسے لیڈر ہیں جو پارٹی کی سابقہ غلطیوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں اور انہیں دہرانا نہیں چاہتے۔ بس یہی اک بات ہے اچھی مرے دیوانے کی۔ 
ہم سمجھتے تھے کہ وہ بے خبر ہیں یا دانستہ نوٹس نہیں لینا چاہتے مگر اب جب انہوں نے بلوچستان میں فروخت شدہ زمینیں جو غیر پاکستانیوں کو دی گئی تھیں‘ سب کی سب واپس لے لی ہیں‘ دل خوش ہو گیا۔ متحدہ امارات بلوچستان کی کوئی اساس ہے یا نہیں مگر بلوچستان میں غیروں کو زمینوں کی فروخت کینسل کر دینا صدر کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے دفع دخلِ مقدر یعنی پوشیدہ خطرے کا سدباب کر دیا ہے۔ اگر وہ یہ کر سکتے ہیں تو ریمنڈ کے حوالے سے بھی ایسا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ امریکہ کے اوباما کو اپنی تڑی اندھے کی چھڑی لگنے لگے۔ بنگلہ دیش ٹوٹا نہیں تڑوایا گیا ہے‘ اسے پیوند لگ سکتا ہے اور مزید بخیئے اسے اور مضبوط کرکے اندرا گاندھی کی راکھ میں چنگاریاں بھر سکتی ہیں تاکہ اسکی آتما انگاروں پر لوٹنے لگے اور جسے وہ ڈبونا چاہتی تھی۔ وہ بحری بیڑہ بن کر بحیرہ ہند سے ٹکرا جائے اور قائداعظم کا پاکستان لوٹ آئے۔ 
بلوچستان میں چند ’’ٹوٹرو‘‘ اس انداز کے شوشے چھوڑتے ہیں کہ بلوچستان الگ ہونیوالا ہے مگر صدر نے بلوچستان میں دوسروں کو فروخت شدہ زمینیں واپس لے کر حفظ ماتقدم کرلیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سپریم کورٹ پہلے ہی بدیسیوں کو ارض پاک کی فروخت پر پابندی لگا چکی ہے۔ 
٭…٭…٭…٭
بینظیر قتل میں براہ راست اعانت کا الزام‘ مشرف کا نام مرکزی ملزموں میں شامل‘ بلیک بیری سے ایک ای میل میں بینظیر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مشرف انہیں قتل کرا سکتے ہیں‘ مشرف کے نئے وارنٹ گرفتاری لئے جائینگے۔ 
’’دانہ نہ چگدی تے کیوں پھاسدی‘‘ آخر مشرف نے جہاں لال مسجد میں سینکڑوں ہم وطنوں کے خون سے ہاتھ رنگا‘ وہاں اسکے دامنِ داغ داغ پر بینظیر کے قتل کا امکانی ٹھپہ بھی لگ چکا ہے‘ لال مسجد کے شہیدوں کا خون شاید بہ ایں طور رنگ لائے…؎
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را 
باللعجب ! کہ جس کی آستینوں سے خون اور باچھوں سے مدھرا ٹپک رہی ہے‘ وہ آل پاکستان مسلم لیگ کا موجد ہے‘ سربراہ نہیں‘ جو بٹیر افگن اور دوسرے تیسرے معدودے چند گنجانِ ملت پرویز مشرف کی سکندری و دارائی کے امیدوار ہیں‘ وہ بچشم عدالت دیکھ لیں کہ انکے ڈبہ پیر کا نام بینظیر قتل کیس کے مرکزی ملزموں میں شامل ہو چکا ہے اور وارنٹ گرفتاری بار دگر جاری ہو چکے ہیں۔ کیا اب بھی وہ اپنی عقیدت کا بھانڈا بیچ چوراہے نہ توڑیں گے؟
اس ملک میں وہ دن بھی دور نہیں جب لٹیرے حکمرانوں کے گریباں میں عوام الناس کا ہاتھ ہو گا اور انکی لوٹی ہوئی دولت بھاگتی ہوئی پاکستان کے خزانے کا رخ کریگی۔ کیونکہ اب موسم بدل گئے ہیں اور …ع
چلی ہے رسم کہ سب سر اٹھا کے چلیں 
آج پرویز کو سب مشرف کہتے ہیں‘ گویا اس نے اپنے ساتھ اپنے والد کا نام بھی ڈبو دیا۔ ایسی اولاد تو پسر نوحؑ کی ہمسر ہے۔ پرویز مشرف کو لندن کے قحبہ خانوں سے لانے کا جتن کیا جائے تاکہ پہنچے وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ 
٭…٭…٭…٭
سینئر صوبائی وزیر پنجاب حکومت راجہ ریاض احمد نے کہا ہے‘ پنجاب حکومت سے نکالا گیا تو داتا دربار جا کر نفل ادا کرینگے۔ 
راجہ صاحب کے انداز تخاطب سے لگتا ہے کہ وہ وزارت کے متمنی ہیں‘ وگرنہ داتا دربار جا کر نفل پڑھنے کی کیا ضرورت تھی‘ کیونکہ وہاں تو لوگ مرادیں پانے جاتے ہیں اور ایک خدانخواستہ خارج شدہ سینئر وزیر کی اسکے سوا کیا مراد ہو سکتی ہے کہ وہ پھر سے اپنی کرسی پالے۔ اگر ثواب کمانا ہوتا تو وہ ہر جمعرات کو دربار جا کر نوافل ادا کرتے‘ اگر پنجاب حکومت کی اکثریتی پارٹی نے کوئی ایجنڈا دیا ہے جس پر 23 فروری تک عملدرآمد درکار ہے تو اس میں کیا حرج ہے کہ محرومی کی حالت میں نفل ادا کرنے کے بجائے‘ بھرے دامن کے ساتھ داتا صاحب جا کر نفل ادا کئے جائیں۔ بسااوقات بے جا ضد اور انا کا مسئلہ انسان کو جنت سے ایک بالشت کے فاصلے پر روک لیتا ہے۔
بہتر تو یہی ہے کہ پنجاب حکومت میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) گلے لگے رہیں کیونکہ یہاں بہت سے اور لوگ گلے ملنے والے ہیں۔ راجہ ریاض احمد پہلے ہی راجہ ہیں اور سینئر وزیر ہونا راجہ ہونے سے کم تو نہیں۔ دس نکاتی ایجنڈے میں تو قومی مفاد پوشیدہ ہے‘ جیسا کہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے‘ مگر وہ ان دس نکات منوانے کیلئے اوباما کا لہجہ اختیار نہ کریں‘ باقی یہ کہ نوافل ادا کرنے اور حکومت سے نکلنے کی تمنا ہے تو بھی کوئی روک ٹوک نہیں۔ وہ جب چاہیں‘ پنجاب حکومت کو 23 تاریخ سے پہلے چھوڑ کر داتا صاحب بیٹھ جائیں‘ بہرحال ہم تو کہیں گے کہ وزیراعلیٰ اور رانا ثناء ہتھ ہولا رکھیں اور نوافل کی نوبت کسی اور طرح سے آنے دیں۔

No comments:

Post a Comment