Sunday, February 20, 2011

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حمایت سے متعلق چینی پالیسیوں پر بھارت کی تشویش



ـ 15 فروری ، 2011
اس خطہ میں امریکی بھارتی عزائم کا توڑ چین کے تعاون سے ہی ممکن ہے 
بھارت نے چین کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کا اعتراف کرتے ہوئے بیجنگ پر زور دیا ہے کہ اسے پاکستان کے معاملے میں بھارت کے تحفظات کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ایک بھارتی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپما رائو نے اپنے دورۂ نیویارک کے دوران ایک سکول میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کیخلاف نہیں ہے تاہم بھارت کو اسلام آباد اور بیجنگ کے مابین تعلقات کے بعض پہلوئوں کے بارے میں کچھ حقیقی خدشات ہیں۔ انکے بقول چین کی جانب سے پاکستان کے جوہری پروگرام کی حمایت پر بھارت کو چنتاہے اور ہم چاہتے ہیں کہ چین مزید وضاحت کرے اور شفافیت کا مظاہرہ کرے۔ ہم اس پر کھلے مذاکرات کا خیرمقدم کرینگے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت نے چین کی طرف سے کشمیریوں کو اضافی کاغذ پر ویزہ کے اجراء اور آزاد کشمیر میں اسکی موجودگی پر سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکی سرپرستی میں بھارت اس خطے کی تھانیداری کے جنون میں پاکستان ہی نہیں، چین اور خطے کے دوسرے ممالک کی سلامتی کیلئے بھی سخت خطرے کی علامت بن چکا ہے۔ پاکستان کو تو اس نے شروع دن سے ہی ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے قبول نہیں کیا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کی نیت کے تحت وہ پاکستان پر چار جنگیں مسلط کرچکا ہے۔ اسے دولخت کرچکا ہے اور باقیماندہ پاکستان کو بھی اپنے جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کی زد میں لاتے ہوئے اسکی سالمیت کیلئے مسلسل خطرہ بنا رہتا ہے۔ 1974ء میں اس نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کی سالمیت کیلئے ہی خطرے کی گھنٹی بجائی تھی۔ اگر اسکے جارحانہ عزائم کا توڑ کرنے کیلئے اس وقت کے وزیراعظم بھٹو مرحوم نے ملک کو ایٹمی صلاحیتوں کے حصول کی راہ پر گامزن نہ کیا ہوتا اور یہ نعرہ نہ لگایا ہوتا کہ ’’ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ تو بھارت اپنی ایٹمی طاقت کی خرمستی میں کب کا ہماری سالمیت پر اوچھا وار کرچکا ہوتا۔ اسکی جانب سے مئی 1998ء میں دوبارہ ایٹمی دھماکے کرنے کا مقصد بھی پاکستان پر اپنی برتری کا احساس دلانا اور اسکی سالمیت کیخلاف اپنے مکارانہ جارحانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تھا۔ چنانچہ اسکا نشہ ہرن کرنے کیلئے میاں نوازشریف کے دور حکومت میں امریکی دھمکیوں اور ترغیات کے باوجود پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کرنا ضروری سمجھا۔ اب پاکستان واحد اسلامی اور ساتویں ایٹمی قوت ہے تو اسکے نتیجہ میں ہی ہمارا یہ مکار دشمن ہم پر جارحیت کے ارتکاب سے باز آیا ہے جبکہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے سے خطے میں طاقت کا توازن بھی بحال ہوا ہے اور امریکہ، بھارت، اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کا بھی موثر توڑ ہوگیا ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں ہمارے ایٹمی قوت بننے کی امریکہ اور بھارت کو یکساں تکلیف ہوئی ہے اور وہ الگ الگ بھی اور مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت بھی ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جس کیلئے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار مبینہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا ڈراوا دیا جاتا ہے۔بہرحال ایران کے باقاعدہ ایٹمی قوت بننے کے بعد ان کا دماغ درست ہو جائیگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور چین دوستی اس خطے کی ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی کی ضمانت بن چکی ہے اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت یہ دونوں ممالک اس خطے میں امریکہ، بھارت جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ہی ایک دوسرے کیساتھ ایٹمی، دفاعی اور اقتصادی تعاون پر متحد و متفق ہوئے ہیں جس کے دوررس اثرات برآمد ہونا بھی شروع ہوگئے ہیں اور یقیناً اس صورتحال کو بھانپ کر ہی بھارت پاک چین تعلقات اور باہمی تعاون پر اپنے تحفظات و خدشات کا اظہار کررہا ہے۔ چین بھی چونکہ اروناچل پردیش کے تنازعہ میں 1962ء میں بھارتی جارحیت کا سامنا کرچکا ہے۔ بیشک اس جارحیت میں بھی بھارت کو چین کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی اور اسکے بعد بھارت کو اروناچل پردیش پر اپنا حق جتانے کی جرأت نہیں ہوئی پھر بھی چین کو مکمل احساس ہے کہ یہ شیطان کسی وقت بھی دوبارہ چین کی خودمختاری کو چیلنج کر سکتا ہے‘ بالخصوص اس مرحلہ میں جب سابق بھارتی آرمی چیف دیپک کپور نے امریکی شہ پر بدمستی میں یہ بڑ ماری تھی کہ بھارت اپنی ایٹمی دفاعی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسلام آباد اور بیجنگ کو 96 گھنٹے میں بیک وقت ٹوپل کر سکتا ہے‘ پاکستان چین دفاعی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت محسوس کی گئی اور اس تناظر میں دونوں برادر پڑوسی ممالک میں ایٹمی تعاون کا معاہدہ طے پایا جس پر بھارت ہی نہیں‘ اسکے سرپرست امریکہ نے بھی ایٹمی کلب میں چیخ و پکار کی۔ اس معاہدے کو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں چیلنج بھی کیا اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا جس کے جواب میں چین نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے ایٹمی سپلائر گروپ کو اس معاہدے کے مندرجات سے آگاہ کرنے سے بھی معذرت کی اور امریکہ اور بھارت کے تحفظات کو بھی مسترد کرتے ہوئے معاہدے کیمطابق پاکستان کیساتھ ایٹمی تعاون جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ 
بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپمارائو کی جانب سے پاکستان چین ایٹمی تعاون پر بھارتی خود ساختہ خدشات کا اظہار درحقیقت امریکہ بھارت مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ چین پاکستان ایٹمی تعاون پر اصل تکلیف دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے دعویدار امریکہ ہی کو ہوئی ہے‘ جو عالمی منڈی میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے بھی پریشان ہے اور پاکستان چین ایٹمی تعاون کے نتیجہ میں اسے بھارت کو علاقے کی تھانیداری دیکر اس خطہ میں اپنے توسیع پسندانہ کروسیڈی عزائم کی تکمیل کرانے کی راہ میں بھی رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔ 
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں مسلم امہ کیخلاف اپنے مفادات کی جنگ کا آغاز کرکے پاکستان کے جرنیلی اور سول حکمرانوں کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا مگر ایٹمی تعاون کا معاہدہ بھارت کے ساتھ کیا جو خود مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 60 سال سے زائد عرصہ سے ننگی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں بھی اسکی ایجنسی ’’را‘‘ کا ہاتھ ہے جس کے تربیت یافتہ دہشت گرد شدت پسندوں کے روپ میں افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے رہتے ہیں۔ اگر پاکستان کے اصرار پر بھی امریکہ اسکے ساتھ بھارت جیسا ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوا تو اسکی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ درحقیقت وہ خود بھی اور بھارت کے ہاتھوں بھی پاکستان کی سالمیت کو اپنے مخصوص ایجنڈہ کے تحت نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ چنانچہ اس صورتحال میں جب چین کو بھی امریکی بھارتی جارحانہ عزائم کا ادراک ہو اور پاکستان بھی اسی شیطان اتحاد ثلاثہ کے گٹھ جوڑ کے مقاصد کو سمجھتا ہو‘ پاکستان چین ایٹمی دفاعی تعاون سے ہی اس خطہ میں امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے۔ 
امریکہ تو ویسے ہی طوطا چشم ہے اور ہمارے ساتھ دوستی کے بھیس میں بدترین دشمنی کا مرتکب ہو رہا ہے‘ وہ ہمارے خلاف بھارتی جارحیت کے ارتکاب کے وقت تو وعدوں کے باوجود کبھی ہماری مدد کو نہیں آیا جبکہ ہمارے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے والے بھارت کو اسکی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ وہ پہلے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ہمیں ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوشش میں ناکامی پر ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے ہمارا ناطقہ تنگ کرنے کی سازش کر چکا ہے‘ جبکہ اب ہمارے معصوم شہریوں کے قاتل ریمنڈ کی خاطر بھی وہ ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور ہماری مالی امداد اور قرضے کی قسطیں روکنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے اس لئے پاکستان کو اپنی بقاء کی خاطر متبادل آپشن کا بہرصورت سوچنا ہے‘ جس کیلئے چین بہترین ہی نہیں‘ واحدمتبادل آپشن ہے اور یہ چین کی اپنی بھی ضرورت ہے‘ اس لئے پاکستان چین دوستی اور دفاعی تعاون پر بے شک بھارت کی بنیاء ذہنیت سٹپٹاتی رہے اور بے شک امریکہ کی جبینِ نیاز پر بل پڑتے رہیں‘ خطے کی امن و سلامتی کی خاطر اور پرامن بقائے باہمی کے جذبے کے تحت یہ تعاون برقرار رہے گا اور دوررس مثبت نتائج کی نوید بنے گا۔ کشمیر کے بارے میں بھی چین نے حقائق کا ادراک کرکے ہی پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے اور کشمیری باشندوں کو ویزے کی نرمی کی سہولتیں فراہم کی ہیں اس لئے پاکستان کو کشمیری باشندوں کے ویزے کیلئے چینی حکمت عملی کا بھی کھل کر ساتھ دینا چاہیے اور کسی بھارتی احتجاج کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے‘ پاکستان اور چین کا ایک دوسرے کے ساتھ سٹریٹجیکل تعاون بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ امریکہ اگر فی الواقع علاقائی اور عالمی امن کا خواہاں ہے تو اسے پاکستان چین ایٹمی تعاون کے معاہدے پر معترض نہیں ہونا چاہیے۔ 
کیری لوگر امداد بند ہونے کی صورت میں متبادل حکومتی اقدامات 
ریمنڈ کے امریکہ کے حوالے نہ کرنے کے نتیجے میں کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد کی بندش کی دھمکی کے بعد صدر اور وزیراعظم نے متبادل امدادی ذرائع پر غور و خوض شروع کر دیا ہے۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ حکومت ریمنڈ کیس کے عدالتی فیصلے کے ریمنڈ کیخلاف صادر ہونے کی صورت میں ریمنڈ کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے اور امریکی امداد رک جانے کے نتیجے میں متبادل امداد حاصل کرنے پر کام شروع کر دیا ہے بلکہ یہ بات اور بھی اچھی ہے کہ حکمران امریکی امداد کو ٹھکرا کر اپنے اخراجات میں کمی لائیں اور راجہ ریاض کی تجویز کیمطابق وزراء کرام بڑے بنگلوں سے نکل کر دس مرلے کے گھروں میں آجائیں اور امداد کیلئے دیگر اسلامی و غیراسلامی ملکوں سے رجوع کریں اور ریمنڈ کیس کے حوالے سے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں کیونکہ امریکہ سے خلاصی پانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ وزیراعظم گیلانی اس سلسلے میں کویت روانہ ہو چکے ہیں اور صدر انکے بعد کویت جائینگے۔ اسکے علاوہ جاپان سے بھی امداد طلب کرنے کا پروگرام ہے۔ امریکی امداد کے رک جانے سے پیپلز پارٹی کو آئندہ بجٹ بنانے میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ مگر ہمت مرداں مدد خدا‘ اگر امریکہ پاکستان کی بے تحاشہ قربانیوں اور تعاون کے باوجود امداد کی قسط روکنا چاہتا ہے تو پھر معلوم شد کہ حاجی نیست کے مصداق ہمیں بھی ہوش سنبھال کر ریمنڈ کیس کا معاملہ عدالتی فیصلے کے مطابق نمٹانا چاہیے‘ اگر آج امریکی دبائو کی مزاحمت کی گئی تو ہمیشہ کیلئے امریکہ بے جا دبائو ڈالنے سے باز رہے گا۔ 
بسنت پر پابندی، احسن فیصلہ
حکومت پنجاب نے بسنت پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان کیمطابق لاہور سمیت صوبہ کے دیگر اضلاع میں بسنت سے سینکڑوں افراد کیمیائی اور خطرناک ڈور سے زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی مفاد میں بسنت پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ایک تو بسنت خونیں کھیل ہے، دوسرا اسکا اسلامی ثقافت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ خالصتاً ہندوانہ کلچر کا حصہ ہے۔ ہندو یہ تہوار صدیوں سے مناتے چلے آرہے ہیں لیکن باقاعدگی اور جوش و خروش سے منانے کا سلسلہ توہین رسالت پر ہندو طالبعلم حقیقت رائے کو گورنر لاہور زکریا خان کی طرف سے ہر دبائو کو مسترد کرتے ہوئے سزائے موت سے ہمکنار کرنے سے شروع ہوا۔ حقیقت رائے کی مڑھی لاہور میں ہے۔ یہاں اسکو دی جانیوالی پھانسی کے روز میلہ ہوتا ہے۔ یہیں سے بسنت لاہوریوں اور بعدازاں دیگر علاقوں میں پھیل گئی جس کی کشش کے اعلیٰ ایوانوں کے مکین بھی اسیر ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے اس کھیل پر پابندی لگائی تو صدر پرویز مشرف وردی کی طاقت سے پابندی کے باوجود اپنا شوق بے حمیتی پروان چڑھا تے رہے۔ اس وقت کی پنجاب حکومت اپنے مربی و آقا کی راہ میں پلکیں بچھاتی رہی۔ اب بھی کچھ لوگ پتنگ بازی کی حسرت دل میں لئے بیٹھے ہیں۔ وہ اس کھیل کی شروعات پر غور کریں، اسکے نقصانات کا جائزہ لیں تو انکے ضمیر ضرور کہہ اٹھیں گے کہ یہ واقعی خوفناک کھیل ہے اور ساتھ توہین رسالت کا ارتکاب بھی۔ پنجاب حکومت نے پابندی کو برقرار رکھنے کا احسن فیصلہ کیا ہے اور اس پر سختی سے عمل بھی ہونا چاہئے البتہ جشن بہاراں بے شک جوش و خروش سے منایا جا ئے جو ضروری نہیں کہ قاتل پتنگیں اڑا کر ہی منایا جائے۔
یوسف ہارون اور جہانداد خان کا انتقال پرملال
تحریک پاکستان کے رہنما سر عبداللہ ہارون کے صاحبزادے سابق گورنر مغربی پاکستان یوسف ہارون نیو یارک میں اور سابق گورنر سندھ جہانداد خان راولپنڈی میں انتقال کر گئے۔ہر ذی روح کو اس فانی دنیا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہے۔ سابق گورنر مغربی پاکستان یوسف ہارون اور سابق گورنر سندھ جہانداد خان کی رحلت ایک عظیم سانحہ ہے دونوں احباب کی خدمات قابل تحسین تھیں۔ انکے انتقال سے پیدا ہونیوالا خلا پر ہونا ناممکن ہے۔ یوسف ہارون نے قائداعظم کے شانہ بشانہ چل کر حصول پاکستان کیلئے کوششیں کیں پاکستان بننے کے بعد کراچی کے میئر کی حیثیت سے احسن طریقے سے نظام کو سنبھالا 1949ء میں وزیراعلیٰ سندھ بننے پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پھر 1969ء میں گورنر کے طور پر مغربی پاکستان کے الجھے مسائل کو حل کیا۔ انکے یہ کارنامے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائینگے۔ سابق گورنر سندھ جہانداد خان دکھی انسانیت کا درد رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے راولپنڈی میں الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال قائم کیا تھا۔ جہاں لاکھوں غریب لوگوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال اچھے انداز سے کی جاتی ہے جہانداد خان کا یہ صدقہ جاریہ انکے نام کو روشن رکھے گا۔ گورنر سندھ کی حیثیت سے بھی انہوں نے اچھے انداز سے فرائض منصبی سرانجام دئیے‘ دونوں شخصیات کی وفات پر سیاسی زعما نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انکے اہلخانہ اور محبین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

No comments:

Post a Comment