Saturday, April 2, 2011

ریمنڈ بھی چھوٹ گیا اور کیچ بھی ۔۔۔ !



 
موہالی میں کھیلے جانے والے سیمی فائنل کرکٹ میچ کے دوران نہ صرف سر زمین پاکستان بلکہ اس کی شہہ رگ وادی کشمیر سے بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہو تے رہے جس پر بھارتی پولیس کا میٹر گھوم گیا اور انہوں نے اپنا غصہ کشمیریوں کے ٹی وی سیٹ توڑ کر ٹھنڈاکیا۔ کشمیریوں کے پاکستانی ٹیم کے حق میں فلک شگاف نعروں نے بھارتی فوجیوں کو سیخ پا کر دیا۔ جموں و کشمیر کے مختلف مقامات پر بھارتی پولیس اور کشمیری شائقین کے درمیان جھڑپیں ہو گئیں،کشمیری عوام پاکستان کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگاتے رہے ۔۔۔! یہ ہمارے وہ کشمیری بہن بھائی ہیں جنہیں ہم دھیرے دھیرے بھول رہے ہیں۔ جن کی قربانیوں اور پاکستان کے ساتھ محبت کو آہستہ آہستہ فراموش کر رہے ہیں۔ نئی نسلوں کو امن کا دھوکہ دے رہے ہیں۔کبھی امن کی آشا اور کبھی امن کے چھکے لگانے کا ڈھونگ رچا کر پاکستان بھارت کے درمیان حساس ترین مسئلہ کشمیر کو زندہ درگور کرنے کی سازش بُن رہے ہیں۔ نظریہ پاکستان کو بھارتی ریل پر بٹھا کر دہلی کی پٹری پر چلانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی ”شہہ رگ“ کو امن کی میٹھی چھری سے کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان پڑوسی ملک اور اپنے ازلی دشمن بھارت کے خلاف کرکٹ میچ ہار گیا ۔ جیت جاتا تو پاکستانیوں کے زخموں پر کچھ تو مرہم رکھا جاتا۔ ریمنڈ ڈیوس کی با عزت رہائی کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ کرکٹ میں ناکامی نے مزید اداس کر دیا ۔۔۔ پہلے ریمنڈ کا مقدمہ ہارا اور اب بھارت کے ساتھ کرکٹ کا میچ بھی ہار گئے ۔۔۔کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے مگر یہاں تو ہر میدان میں شکست کا سامنا ہے۔ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر امریکہ نے میچ جیت لیا اور پاکستان کو ہرا کر بھارت نے میچ جیت لیا ۔۔۔ پاکستان کے ہاتھ کیا آیا ۔۔۔؟ جی ہاں ۔۔۔ امن ۔۔۔! پیارے بچو ۔۔۔ امن کسے کہتے ہیں ۔۔۔؟ امن اس فاختہ کا نام ہے جس کے بھارت اور اس کے اتحادیوں نے پر کاٹ دئیے ہیں اور جو صرف ان کی منڈیر پر بیٹھ سکتی ہے ۔۔۔! امن کے چمپئن امریکہ کے صدر اوباما کو تو امن کا نوبل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ بھارت بھی امریکہ کی امن فلاسفی کا قائل ہے کہ مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ صدر اوباما نے امن ایوارڈ کو مزید اعزاز بخشتے ہوئے لیبیا پر بھی بمباری شروع کر دی ہے۔ امریکہ اور بھارت کی نظر میں ”امن“ مسلمانوں کی ہڈی پسلی ایک کرنے کا نام ہے۔ پاکستانی ہوش کے ناخن لیں اور اپنے سر ریت سے باہر نکالیں۔ جھوٹی تسلیوں اور خوش فہمیوں کے فریب سے نکلیں۔ میڈیا اور ہجوم سے ہٹ کر چند لمحے اپنی ذات کے ساتھ گزاریں گے تو انہیں علم ہو گا کہ ”امن کے ایوارڈ یافتہ“ چھکے لگانے پہنچ رہے ہیں۔آنکھوں سے غفلت کی پٹی اتاریں گے تو انہیں ہر میدان میں شکست کے پس پردہ وجوہات کا ادراک ہو سکے گا۔اب وقت آچکا ہے کہ پاکستانی اپنے اصل کی جانب لوٹ جائیں۔ بھولی ہوئی تاریخ کو پھر دہرائیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد اور مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کا ازسرنو جائزہ لیں۔ دوستی اور تعلقات برابری کی سطح پر ہوتے ہیں۔ برابری کے لئے کردار پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم اپنے روائتی لباس میں ملبوس پاکستان کے سوٹڈ بوٹڈ وزیراعظم کے ساتھ اس اعتماد سے بیٹھے تھے جس یقین کے ساتھ وہ صدر اوباما کے ساتھ بیٹھا کرتے ہیں۔ وائٹ ہاﺅس کی تقریبات میں بھی سردار جی کا وہی روایتی سفید لباس ہوتا ہے۔ اعتماد لباس سے نہیں اخلاص سے آتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اپنے ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہے۔ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی سابق صدر ضیاالحق اور صدر پرویز مشرف کی طرح امن و دوستی کی ”جگالی“ کرتے ہوئے گھر لوٹ آئے ہیں۔ ہم ایک کرکٹ میچ ہار گئے تو کیا ہوا ۔۔۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم ہار گئے ہیں ۔۔۔کشمیر کا مسئلہ ہم ہار گئے ہیں ۔۔۔ عافیہ صدیقی کا کیس ہم ہار گئے ہیں ۔۔۔ ریمنڈ کا مقدمہ ہم ہار گئے ہیں ۔۔۔ بھارت کی سازش اور امریکہ کی چالیں ۔۔۔ ہم بہت کچھ ہار گئے ہیں ۔۔۔ اس کے باوجودایک چیز ایسی ہے جو ہر ناکامی اور مایوسی میں ہمیں ایک نئی امنگ ایک نئی امید دلاتی ہے اور وہ ہے پاکستانی قوم کی”حب الوطنی“۔۔۔!اس دولت کا مشاہدہ پاک بھارت کرکٹ میچ کے دوران ہوتا ہے۔ وادی کشمیر سے بھارت مخالف نعرے یونہی تو بلند نہیں ہو تے ۔۔۔! پاکستان کے حق میں نعرے بے سبب تو نہیں ۔۔۔!کشمیریوں کو بھی معلوم ہے کہ ” پاکستانی ایک جذباتی قوم ہے۔“ غیرت مند ہی جذباتی ہوا کرتے ہیں ۔۔۔!

No comments:

Post a Comment