Saturday, April 2, 2011

ایک ’دعا‘ کے قبول ہو جانے پر!

صدر مملکت پارلیمان سے خطاب کر رہے تھے! محترمہ بے نظیر بھٹو انتہائی باوقار انداز میں خاموش کھڑی تھیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمان رقص کی تال پر ’گو بابا! گو!‘ کے نعرے سر کر رہے تھے! صدر مملکت بار بار رومال سے ہونٹ صاف کر رہے تھے اور تقریر پڑھتے چلے جا رہے تھے! یہ منظر ایسا ہولناک تھا کہ صدر مملکت نے وردی میں بھی اپنی ”آفریدہ اسمبلی‘ سے بھی کبھی خطاب کرنے کا نہ سوچا اور ایک سوال کے جواب میں کہا، ’میں ایسے بدتمیز لوگوں کے درمیان تقریر کرنا پسند نہیں کرتا!‘ حالانکہ یہ لوگ انہیں وردی میں دس بار منتخب کرنے کا عزم بالجزم کم از کم سو بار دوہرا چکے تھے! 
گزشتہ روز صدر مملکت نے چوتھی بار پارلیمانی اجلاس سے خطاب فرمایا۔ قبل ازیں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی اپنے منتخب کردہ صدر مملکت کے تین خطاب انتہائی باوقار سکون کے ساتھ سماعت فرما چکے تھے، لہٰذا صدر مملکت کا چوتھا خطاب ایک نئی مگر بہت پرانی ’روش سماع‘ کا امکان واضح تر کرتا نظر آ رہا تھا اور ہو سکتا تھا کہ اس ’سماع‘ کے دوران پیر سائیں کے برگشتہ مرید پر ’حال‘ آ جاتا اور وہ کچھ یوں تڑپتا کہ صدر مملکت پر فرض ہو جاتا کہ وہ اپنا وہ فقرہ دوہراتے ہی چلے جاتے، جسے سنتے ہی وہ ان حالوں جا پہنچا! کہ ’آداب سماع‘ یہی کہتے ہیں! 
ایم کیو ایم، حکمران اتحاد کا حصہ ہو کر بھی روٹھی بیٹھی ہے اور تالیاں بجانے اور بجاتے ہی چلے جانے پر راضی نہیں کیونکہ اب اسے یہ پریشانی لاحق ہے کہ اسے ’اتحاد‘ تو مل گیا مگر ’حکمرانی‘ ابھی تک نہیں دی گئی! ایم کیو ایم نہ صرف یہ کہ ’وزارت اعلی‘ سے محروم کر دی گئی بلکہ ’وزارت عظمیٰ‘ کے قریب نہ پھٹکنے دی گئی! حالانکہ اگر ’وزارت عظمیٰ‘ ان کے پاس ہوتی تو وہ ’ڈرون حملے‘ بہت پہلے بند کروا چکے ہوتے اور دہشت گردوں سے ان کے گھروں کے دروازوں پر نمٹا کر دکھا دیتے! 
پاکستان مسلم لیگ ’نون‘ کا رونا یہ ہے صدر مملکت ان کے ’بین‘ تو سن لیتے ہیں مگر ’دست فریاد رس‘ بڑھانے سے ممکن حد تک گریز کرتے رہتے ہیں! 
پاکستان مسلم لیگ قاف کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے قائدین کے گھٹنے خراب ہو کر صرف پیٹ کی طرف مڑے رہتے ہیں اور انہیں آج کل عوام کے مستقبل سے زیادہ مونس الہیٰ کے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے! وہ مونس الہیٰ کے سلسلے میں صدر مملکت کے دم دلاسے پر یقین کرنے کے لئے محض یوں تیار نہیں کہ وہ ’دلاسے‘ قرآن اور حدیث کی روشنی میں بھی کسی ’حرمت‘ کے حامل اور ’ایفا کے لائق‘ نہیں سمجھتے! اور ان کے اس بیان پر اہل دین ودانش کی ’بے وقار خاموشی‘ سے ڈرے بیٹھے ہیں! لہٰذا ’ایم کیو ایم‘ نے اپنے ووٹروں سے رابطے بحال کر دیئے ہیں تاکہ ممکنہ قبل از وقت انتخابات میں اپنی نشستیں قبل از وقت مخصوص کروا سکیں اور اس فلم کی نمائش پر پہلے دن کے پہلے شو کے دوران ہی کھڑکی توڑ ’ہفتوں‘ کی فراہمی کا بندوبست یقینی ہو جانے کی ضمانت مہیا ہو جائے! دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون کے قائدین بھی ممکنہ انتخابات کے ابتدائی مگر انتہائی ضروری اقدامات اٹھا چکے ہیں! جناب نواز شریف بروقت ’انجیو پلاسٹی‘ کروا کے تازہ دم ہو چکے ہیں اور اب انہیں انتخابی مہم کے دوران اعصابی دباﺅ سے نبردآزما ہونے کے لئے جسمانی طور پر بھی لیس سمجھا جا سکتا ہے جب کہ ’جناب شہباز شریف بھی ’صحت مند برطانوی خون‘ کے پمپنگ سٹیشن سے ’ری سائیکل‘ ہو کر اپنے بھائی کے شانہ بشانہ دوڑنے کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔ 
پاکستان مسلم لیگ ’قاف‘ کے بزرگ راہنما بھی سیاسی راج ہنس کی حیثیت سے ’متحدہ مسلم لیگ‘ کی طرف اڑان بھرتے ’پنچھیوں‘ کو قابو کرنے اور انہیں راہ پر لانے کے لئے ابھی ابھی پیر سائیں کے ’ٹیلی فونک سماع‘ پر کان نہ دھرنے کا اعلان کر چکے ہیں تاکہ ان کی اگلی ’چال‘ کسی نوع کے ’حال‘ کا پرتو نہ سمجھی جا سکے! اور ان کی ’لغزش پا‘، ’رقص‘ نہ سمجھی جا سکے! کیونکہ ان کا مسئلہ ’عوام کی قیادت‘ نہیں بلکہ ’قحط قیادت‘ کے دوران ’قیادت‘ ازخود ان کی جھولی میں آن گرنے کے امکان کا درست تر تعین ہے! پاکستان پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ ان کی ’دوربین‘ نگاہ انہیں دھوکا دے رہی ہے، لہٰذا انہیں کسی ’منیب نگاہ‘ کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں تاکہ صحیح صورتحال کا علم ہو سکے کہ تمام مذہبی سیاسی جماعتیں مل جل کر کون سا چاند چڑھانے والی ہیں اور اس نوع کی فرقہ وارانہ تنظیمیں کس نہج پر قدم بڑھانے والی ہیں! پیپلز پارٹی کے ’زعما‘ سمجھتے ہیں کہ ’علما‘ جتنی تیزی سے زور پکڑیں گے ان کے ’ووٹر‘ اسی تیزی سے پیپلز پارٹی میں واپسی کا راستہ اختیار کریں گے اور مقتدر ایوانوں میں بیٹھے لوگ الٹے پاﺅں لوٹتے اراکین کے نکتہ ارتکاز کے تحفظ کی خاطر اگلے پانچ سال در دروازے بھیڑ کر صرف ’حکومت‘ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے! 
ہم، پارلیمانی اجلاس کے دوران ’پریس گیلری‘ میں کھڑے دیکھ رہے تھے کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں راجہ ریاض احمد اور ان کے ساتھیوں کا ’فنگاما‘ پارلیمان میں بدنامی کے سونامی کا ’ِسر کا راما‘ بن رہا تھا اور پاکستان کی ’جمہوری ریاست‘ کے لئے جاپان کے جزیروں سے زیادہ ’تباہ کن‘ اثرات ساتھ لا رہا ہے! 
کاش ایسا نہ ہو! اور اگر ہو تو بہت خاموشی سے چپ چاپ کھسک لینا بھی احتجاج کا زیادہ، موثر راستہ ثابت ہو سکتا ہے! کاش ہم سیاست اور تہذیب کے چولی اور دامن کے ساتھ کی طرح مقدس جان سکیں اور اپنا پیٹ دکھانے سے احتراز کر سکیں! ورنہ جناب اعجاز کنور راجہ نے کیا خوب کہہ رکھا ہے! .... 
خوف ہمسائیگی ایسا ہے کہ اپنی اپنی ! 
چھت گرا دیتے ہیں، دیوار اٹھانے کے لئے 
اور اللہ تبارک و تعالی نے ہماری یہ دعا قبول فرما لی! اور ایوان میں پوری کارروائی پرسکون رہی!

No comments:

Post a Comment