Sunday, January 23, 2011

بے شناخت قوموں کا انقلاب!...یہ زندگی…مسرت جبیں


ملکی اور بین الاقوامی حالات جب اس صورت کے ہوں کہ کسی بھی لمحے تیونس کی طرح ”انقلاب یاسمین“ دروازے پر دستک دیتا محسوس ہو تو کسی اور طرف، کسی اور مسئلے کی طرف دھیان جانا ممکن ہی نہیں اور کوئی اوربات کرنا زیب ہی نہیں دیتا ہے۔ پھر بھی میں آپ کو ایک چھوٹی سی بچی کی کہانی ضرور سنانا چاہوں گی۔
اس بچی کے ماں باپ نے اس کے پیدا ہوتے ہی سوچ لیا تھا کہ وہ اس کی کیسی تربیت کریں گے۔ خود ان کے اپنے خون اور سوچوں میں اپنی ثقافت اور اپنی زمین سے محبت کا رنگ بہت گہرا تھا، سو وہ اپنی اگلی نسل کو بھی ویسا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ پہلی اور بنیادی چیز انہوں نے یہ کی کہ بچی سے شروع میں سوائے اردو کے کوئی دوسرا لفظ کبھی نہیں بولا۔ اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم دونوں ماں باپ کی زندگیوں اور پروفیشنل دنیا میں انگریزی کا ہی راج تھا۔ لیکن انہوں نے کوشش کی کہ بچی کی اٹھان اردو اور صرف اردو پر ہی ہو تاکہ وہ اپنی بنیاد اور اپنے ورثے سے جڑی رہے۔ گھر کی دنیا تک تو یہ معاملہ بہت سیدھا رہا۔ بچی جب باقاعدہ بولنے لگی تو بے حد شستہ اردو اور خوب صورت لب و لہجہ، آج کے انگریزی زدہ اور کسی بھی زبان سے ناواقف ماحول میں بہت پُر لطف تھا۔
لیکن پھر زمانے کے چلن کے مطابق اسکول سے پہلے پری اسکول (PRE SCHOOL) جانے کا وقت آگیا۔ وہ دو ڈھائی سال کی بچی پہلے تو کچھ چپ چپ سی رہی۔ پھر اچانک ہی اپنی بات کہنے کے لئے انگریزی کا سہارا لینے لگی۔ ظاہر ہے اسکول اور باہر کی دنیا میں اس کا واسطہ اور رابطہ اسی زبان سے تھا۔
اب وہ بچی پانچ سال کی ہے۔ بہت کوشش کے باوجود اس کے منہ سے اردو کا ایک لفظ نہیں نکلتا۔ ہم اس سے ہمیشہ اردو میں بات کرتے ہیں۔ وہ ہماری پوتی ہے۔ لیکن جواب ہمیشہ بے حد رواں خوبصورت انگریزی میں ہی ملتاہے۔ اب تو اسکول والے بھی چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں کے بچے اپنی قومی زبان پر بھی ضرور عبور رکھیں۔ وہ گھر میں اردو بولنے پر بھی زور دیتے ہیں لیکن ہماری ساری کوششیں بے کار جا رہی ہیں بچی کا ایک ہی جواب ہوتا ہے۔
”مجھے اردو اچھی نہیں لگتی“
"I Do'nt Like Urdu"
کیوں؟ جواب آتا ہے
"This is not the language of Fairies and Queens"
”یہ پریوں اور شہزادیوں کی زبان نہیں ہے“ بچی کا اشارہ ان کرداروں کی طرف تھا جن کی کہانیاں اور کارٹون وہ مختلف ٹی وی چینلز اور بازار سے ملنے والی وڈیوز اور ڈی وی ڈیز میں دیکھتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ لوگ پیدا ہوتے ہی اپنے بچے سے انگریزی میں بات کرتے تھے اور اسکول پہنچنے پر استاد بھی اس بات پر زور دیتے تھے کہ گھرمیں بھی بچے انگریزی میں ہی بات چیت کریں تاکہ وہ اس زبان پر عبور حاصل کر سکے۔ اب یہ وقت آگیا ہے کہ انگریزی کچھ لوگوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری گھریلو بولی بن گئی ہے۔ ویسے سچ پوچھیں تو سوائے اچھے انگریزی اسکولوں کے پڑھے لکھے بچوں کے، صحیح انگریزی تو شاید ہی کوئی بول سکتا ہو لیکن کہیں اس میں سارا نقصان اردو کا ہی ہوا ہے اب تو گھروں میں کام کرنے والی عورتیں اور ملازم لڑکے بھی ایک پورا فقرہ اردو کا نہیں بول سکتے۔ ہر دوسرے لفظ کے بعد ایک لفظ انگریزی کا ان کی گفتگو کا حصہ ہوتا ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ اس میں بنیادی خرابی میڈیا کی ہے ہمارے کانوں میں دن رات جو زبان انڈیلی جا رہی ہے وہ پتہ نہیں کن کن زبانوں کا ملغوبہ ہے۔ اردو تو وہ ہرگز نہیں ہے ۔ کہیں اس سے بھی بڑی خرابی یہ ہے کہ اردو میں بچوں کی دلچسپی کے لئے نہ کوئی کتابیں، رسالے ہیں اور نہ جدید دور کے بچوں کے لئے کارٹون فلمیں ہی کسی چینل پر یا بازار میں وڈیوز اور ڈی وی ڈیز پرہی دستیاب ہیں۔ ان حالات میں بچوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی تہذیب اور معاشرت سے آگاہ رہیں گے اور خودکو اس کے قریب محسوس کریں گے۔ ناممکن ہے۔
آج سے تیس چالیس سال پہلے کے ماں باپ کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ بازار میں بچوں کی دلچسپی کے لئے کوئی کتاب، کوئی رسالہ، کوئی کھیل ایسا دستیاب نہیں تھا جو اردو میں ہو اوراس کی ظاہری صورت بھی ایسی ہو کہ بچوں کو متوجہ کر سکے۔ جبکہ انگریزی میں بچوں کے لئے ایسی خوبصورت کتابیں اور اب کارٹون فلمیں دستیاب ہیں کے بچے تو بچے ، بڑے بھی پڑھنے اور دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
باہر کی دنیا سے آنے والی ان چیزوں سے بچے زبان کے علاوہ غیر شعوری طور پر اور کیا کیا سیکھتے ہیں یہ کسی کا مسئلہ یا درد سر نہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ پھر وہ اپنے ماضی، قومی اور ثقافتی ورثے سے بہر طور کٹ کر رہ جاتے ہیں، ان کی کوئی شناخت نہیں رہ جاتی۔
بے شناخت قوموں کا انجام۔ سوچ کر وحشت ہوتی ہے لیکن پرواہ کس کو ہے۔ جو صاحب حیثیت ہیں، یا سوچ سکتے ہیں انہوں نے تو اپنی جڑیں مٹی اور کھاد سمیت کہیں نہ کہیں دوسری سر زمین پر منتقل کر لی ہیں۔ رہ جاتے ہیں بیچارے کیڑے مکوڑے عوام۔ سو ان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ انہیں تو ہمیشہ رزق خاک ہی ہونا ہے۔ انقلاب یاسمین آئے یا انقلاب فرانس۔ ان کی حالت تو ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے!!
 

No comments:

Post a Comment