ہمت ابھی مجھ میں نہیں۔ میں خود کرچی کرچی ہو چکا ہوں۔ ہمارا آئین اور آئینہ ایک ہی چیز بن گئے ہیں....
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
مگر آج میں ایک بہت ہی نفیس انسان ڈاکٹر ظفر الطاف کیلئے کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ ہم اپنے قابل آدمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیوں نہیں کرتے۔ میں صرف ایک بار ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملا ہوں۔ وہ بیوروکریٹ تھے اور ان کی شہرت اچھی ہے۔ اچھی شہرت کے افسران اب کہاں ملتے ہیں۔ یہ سن کر بھی حیرت ہوئی کہ صدر زرداری بھی انہیں پسند کرتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آتی رہی اور سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے مداخلت کرتی رہی ہے کہ شاید اچھے آدمی نہیں کہ ایسے آدمیوں کو مختلف اہم عہدوں پر لگایا جا رہا ہے جو ان کے قابل نہیں اور جن کی شہرت بھی اچھی نہیں۔
ایسے میں جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کو فیڈرل پبلک سروس کمشن کا چیئرمین بنایا گیا تو میری حیرانی میں ایک خوشگوار کیفیت پیدا ہوئی۔ جسٹس رانا نے عدالتی صورتحال کو ہموار کرنے میں بڑی دانائی اور دیانتداری سے تحمل اور تدبر کے ساتھ کوشش کی میں نے سوچا کہ ایسے فیصلے کچھ اور ہونا چاہئیں اور اچھے لوگوں کی دیانت استقامت اہلیت اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ صدر زرداری اس طرح بہتر صورتحال پیدا کر سکتے تھے مگر اور یہ مگر ہمارے ”مگر“ لگ گیا ہے۔ بلکہ ہمارے لئے مگرمچھ بن گیا ہے۔ یہ محاورہ ہمیں ڈراتا ہے ”دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر“ ہمیں اب کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ ہم کیا کریں۔
ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملاقات کوئی طے شدہ بات نہ تھی مگر اب ان سے ملنے کو دل کرتا ہے اور وہ اپنی جگہ پر نہیں ہیں۔ وہ پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے یہاں جو کام کیا ہے اسے کارنامہ کہنا چاہئے۔ ایسی معرکہ آرائی کرنے والے لوگ ہمارے پاس زیادہ نہیں ہیں۔ جوہیں ان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ ایک مفید ادارہ ہے اور ڈاکٹر ظفر الطاف تین بار اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی طرف سے بنائے ہوئے اس خودمختار ادارے میں وزیراعظم نوازشریف نے ان سے امید لگائی۔ انہیں سربراہ بنایا گیا اور وہ حکومت کی توقعات پر پورا اترے کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس ادارے کی سربراہی کے قابل صرف انہیں سمجھا۔ جب وہ ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھے تو انہوں نے بینظیر بھٹو کو گرفتار بھی کیا۔ مگر بی بی سے ملاقات کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب سے متاثر ہوئیں۔ اختلاف سرکاری تھے اور اعتراف غیر سرکاری تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ایک کتاب میں بی بی کا خط بھی موجود ہے۔ بی بی نے لکھا کہ جتنا مخلص ڈاکٹر ظفر الطاف اپنے کام سے ہے میں اتنی مخلص اس کے ساتھ نہیں ہوں۔ڈاکٹر ظفر الطاف زرعی معیشت کو زرعی معاشرت میں بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کینولہ (سرسوں) کے بیج اور کپاس کے بیج کے حوالے سے حیرت انگیز اور بہت مفید ریسرچ کی ہے۔ کینولہ کیلئے بیج کا نام ظفر 2000 ہے۔ یہ زراعت کی تاریخ میں ایک ایجاد کی طرح ہے جو ظفر صاحب کے نام سے موسوم ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے جس پر پوری قوم کو فخر کرنا چاہئے۔
کپاس کے بیجوں کیلئے ان کی تحقیق کمال کے درجے پر پہنچ گئی ہے۔ ان بیجوں کے اثرات ناقابل فراموش ثمرات کے حامل ہیں۔ نارمل بیج سے 220 دنوں میں فصل تیار ہوتی ہے جبکہ ڈاکٹر ظفر الطاف کی ریسرچ کے نتیجے میں جو بیج تیار ہوا ہے، اس کے ذریعے یہ فصل صرف ایک سو دنوں میں تیار ہو جاتی ہے۔ کسان اس طرح دو فصلیں حاصل کر سکتا ہے۔ بیج کم استعمال ہوتا ہے اور کھاد بھی کم پڑتی ہے۔ اس طرح کسان کا خرچہ کم اور آمدنی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کیلئے حکومت سے کوئی فنڈز نہیں لئے گئے۔ اب تک ساڑھے تین لاکھ ایکڑ اراضی کیلئے بیج تیار ہے۔ اس میدان میں جلدی جلدی خودکفیل ہونے کے بعد ایکسپورٹ کرنے کی تجویز بھی ہے۔ اب تک بیرون ملک سے جن ماہرین نے وزٹ کیا ہے، ان کے خیال میں اس بیج سے تیار ہونے والی کپاس کپڑا بنانے کیلئے بہترین ہے۔ وابستگی اور اخلاص کا کمال دیکھیں کہ ان بیجوں کو بی بی ون، بی بی ٹو اور بی بی تھری کے نام دئیے گئے ہیں۔ صدر زرداری نے ایک اچھا فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل میں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ صدر زرداری بھی شہید بی بی کی طرح ڈاکٹر ظفر الطاف کو پسند کرتے ہیں۔
نجانے کیوں وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اس بہتر صورتحال سے پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ اختلافات ڈاکٹر صاحب کو تو نہیں ہیں۔ وہ خوددارانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ادارے میں آنے سے روک دیا گیا۔ وہ زمین سے محبت رکھتے ہیں۔ نظری طور پر ایک کسان ہیں۔ ان کا گھر پھولوں اور پودوں سے بھرا رہتا ہے۔ خوشبو اور مٹھاس ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب نے جیل میں مجھے بتایا تھا کہ میں گھر جا کے اونٹوں اور بکریوں کے ساتھ وقت گزاروں گا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نہ ہوئے تو ایک تعمیری فلاحی اور اعلیٰ پراجیکٹ بند ہو جائے گا۔ یہ معلومات پہلے ویب سائٹ پر تھیں۔ اب نہیں ہیں۔ معلومات گم ہو سکتی ہیں۔ محسوسات کو کون گم کر سکتا ہے۔ وہ گم بھی ہو گئے تو ٹوٹے ہوئے دلوں میں ہی گم ہوں گے۔ پھر بیج باہر سے منگوایا جائے گا۔ خرچ بھی ہو گا اور کرپشن بھی ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا رشتہ یہ ہے کہ وہ اولڈ راوین ہیں۔ ایک چینی فلاسفر نے ک
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
مگر آج میں ایک بہت ہی نفیس انسان ڈاکٹر ظفر الطاف کیلئے کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ ہم اپنے قابل آدمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیوں نہیں کرتے۔ میں صرف ایک بار ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملا ہوں۔ وہ بیوروکریٹ تھے اور ان کی شہرت اچھی ہے۔ اچھی شہرت کے افسران اب کہاں ملتے ہیں۔ یہ سن کر بھی حیرت ہوئی کہ صدر زرداری بھی انہیں پسند کرتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آتی رہی اور سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے مداخلت کرتی رہی ہے کہ شاید اچھے آدمی نہیں کہ ایسے آدمیوں کو مختلف اہم عہدوں پر لگایا جا رہا ہے جو ان کے قابل نہیں اور جن کی شہرت بھی اچھی نہیں۔
ایسے میں جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کو فیڈرل پبلک سروس کمشن کا چیئرمین بنایا گیا تو میری حیرانی میں ایک خوشگوار کیفیت پیدا ہوئی۔ جسٹس رانا نے عدالتی صورتحال کو ہموار کرنے میں بڑی دانائی اور دیانتداری سے تحمل اور تدبر کے ساتھ کوشش کی میں نے سوچا کہ ایسے فیصلے کچھ اور ہونا چاہئیں اور اچھے لوگوں کی دیانت استقامت اہلیت اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ صدر زرداری اس طرح بہتر صورتحال پیدا کر سکتے تھے مگر اور یہ مگر ہمارے ”مگر“ لگ گیا ہے۔ بلکہ ہمارے لئے مگرمچھ بن گیا ہے۔ یہ محاورہ ہمیں ڈراتا ہے ”دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر“ ہمیں اب کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ ہم کیا کریں۔
ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملاقات کوئی طے شدہ بات نہ تھی مگر اب ان سے ملنے کو دل کرتا ہے اور وہ اپنی جگہ پر نہیں ہیں۔ وہ پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے یہاں جو کام کیا ہے اسے کارنامہ کہنا چاہئے۔ ایسی معرکہ آرائی کرنے والے لوگ ہمارے پاس زیادہ نہیں ہیں۔ جوہیں ان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ ایک مفید ادارہ ہے اور ڈاکٹر ظفر الطاف تین بار اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی طرف سے بنائے ہوئے اس خودمختار ادارے میں وزیراعظم نوازشریف نے ان سے امید لگائی۔ انہیں سربراہ بنایا گیا اور وہ حکومت کی توقعات پر پورا اترے کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس ادارے کی سربراہی کے قابل صرف انہیں سمجھا۔ جب وہ ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھے تو انہوں نے بینظیر بھٹو کو گرفتار بھی کیا۔ مگر بی بی سے ملاقات کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب سے متاثر ہوئیں۔ اختلاف سرکاری تھے اور اعتراف غیر سرکاری تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ایک کتاب میں بی بی کا خط بھی موجود ہے۔ بی بی نے لکھا کہ جتنا مخلص ڈاکٹر ظفر الطاف اپنے کام سے ہے میں اتنی مخلص اس کے ساتھ نہیں ہوں۔ڈاکٹر ظفر الطاف زرعی معیشت کو زرعی معاشرت میں بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کینولہ (سرسوں) کے بیج اور کپاس کے بیج کے حوالے سے حیرت انگیز اور بہت مفید ریسرچ کی ہے۔ کینولہ کیلئے بیج کا نام ظفر 2000 ہے۔ یہ زراعت کی تاریخ میں ایک ایجاد کی طرح ہے جو ظفر صاحب کے نام سے موسوم ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے جس پر پوری قوم کو فخر کرنا چاہئے۔
کپاس کے بیجوں کیلئے ان کی تحقیق کمال کے درجے پر پہنچ گئی ہے۔ ان بیجوں کے اثرات ناقابل فراموش ثمرات کے حامل ہیں۔ نارمل بیج سے 220 دنوں میں فصل تیار ہوتی ہے جبکہ ڈاکٹر ظفر الطاف کی ریسرچ کے نتیجے میں جو بیج تیار ہوا ہے، اس کے ذریعے یہ فصل صرف ایک سو دنوں میں تیار ہو جاتی ہے۔ کسان اس طرح دو فصلیں حاصل کر سکتا ہے۔ بیج کم استعمال ہوتا ہے اور کھاد بھی کم پڑتی ہے۔ اس طرح کسان کا خرچہ کم اور آمدنی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کیلئے حکومت سے کوئی فنڈز نہیں لئے گئے۔ اب تک ساڑھے تین لاکھ ایکڑ اراضی کیلئے بیج تیار ہے۔ اس میدان میں جلدی جلدی خودکفیل ہونے کے بعد ایکسپورٹ کرنے کی تجویز بھی ہے۔ اب تک بیرون ملک سے جن ماہرین نے وزٹ کیا ہے، ان کے خیال میں اس بیج سے تیار ہونے والی کپاس کپڑا بنانے کیلئے بہترین ہے۔ وابستگی اور اخلاص کا کمال دیکھیں کہ ان بیجوں کو بی بی ون، بی بی ٹو اور بی بی تھری کے نام دئیے گئے ہیں۔ صدر زرداری نے ایک اچھا فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل میں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ صدر زرداری بھی شہید بی بی کی طرح ڈاکٹر ظفر الطاف کو پسند کرتے ہیں۔
نجانے کیوں وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اس بہتر صورتحال سے پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ اختلافات ڈاکٹر صاحب کو تو نہیں ہیں۔ وہ خوددارانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ادارے میں آنے سے روک دیا گیا۔ وہ زمین سے محبت رکھتے ہیں۔ نظری طور پر ایک کسان ہیں۔ ان کا گھر پھولوں اور پودوں سے بھرا رہتا ہے۔ خوشبو اور مٹھاس ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب نے جیل میں مجھے بتایا تھا کہ میں گھر جا کے اونٹوں اور بکریوں کے ساتھ وقت گزاروں گا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نہ ہوئے تو ایک تعمیری فلاحی اور اعلیٰ پراجیکٹ بند ہو جائے گا۔ یہ معلومات پہلے ویب سائٹ پر تھیں۔ اب نہیں ہیں۔ معلومات گم ہو سکتی ہیں۔ محسوسات کو کون گم کر سکتا ہے۔ وہ گم بھی ہو گئے تو ٹوٹے ہوئے دلوں میں ہی گم ہوں گے۔ پھر بیج باہر سے منگوایا جائے گا۔ خرچ بھی ہو گا اور کرپشن بھی ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا رشتہ یہ ہے کہ وہ اولڈ راوین ہیں۔ ایک چینی فلاسفر نے ک
No comments:
Post a Comment