Thursday, February 3, 2011

سلیکستان‘ صرف بالغوں کے لیے



’سلیکستان‘ فلم کا ایک منظر
’سلیکستان‘ ایک چھوٹے پیمانے کی فلم ہے جو اسلام آباد کے رہائشی تین نوجوانوں کے بارے میں ہے
پاکستان میں سینسر بورڈ کا دفتر اسلام آباد میں انیس سو ساٹھ کے زمانے کی ایک شکستہ حال عمارت میں واقع ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں سینسر بورڈ کے قوائد و ضوابط بھی پچھلی صدی کے ہیں۔
ایسی رائے رکھنے والوں میں سے ایک پاکستانی ہدایت کار حماد خان ہیں جن کی فلم ’سلیکستان‘ قوانین کی قینچی تلے کٹ گئی ہے۔ سینسر بورڈ نے کافی سوچ وبچار کے بعد اس دستاویزی طرز کی فلم کو ’اڈلٹ ریٹنگ‘ یا اٹھارہ سال سے بڑی عمر کے بالغوں کے لیے مناسب قرار دیا ہے۔ حماد خان کے حامی اور بعض پاکستانی انگریزی اخباروں نے سینسر بورڈ کے خلاف اس فیصلے پر ایک مہم سی چلا دی ہے اور یہ شاید کامیاب بھی ہو جائے۔
سینسر بورڈ کے سربراہ ملک شاہنواز نون کے دفتر میں جگہ جگہ سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے ساتھ بنائی گئی تصاویر لگی ہیں جس سے ان کے سیاسی پس منظر کا پتہ چلتا ہے۔
بورڈ کے سارے اراکین نے یہ فلم دیکھی تھی اور ان کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ فلم تو بہت اچھی ہے لیکن اس کی زبان غیرشائستہ تھی
ملک شاہنواز، سربراہ سینسر بورڈ
دفاعی موقف اختیار کرتے ہوئے، شاہنواز نے مجھے بتایا: ’دیکھیے، میں ایک وکیل ہوں اور میں نے قانون و ضوابط کے تحت کام کرنا ہے۔ اس فلم کے ساتھ بھی میں نے وہی کیا ہے۔ بورڈ کے سارے اراکین نے یہ فلم دیکھی تھی اور ان کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ فلم تو بہت اچھی ہے لیکن اس کی زبان غیر شائستہ ہے‘۔ اسی بات چیت کے دوران ان کی روایتی دفتری میز پر رکھا فون بار بار بج رہا تھا۔
’جب سے یہ خبر اخبار میں چھپی ہے، مجھے بار بار میڈیا اور لوگوں سے فون آ رہے ہیں کہ ہم نے فلم پر پابندی کیوں عائد کی ہے‘، شاہ نواز نے مجھے بتایا۔
’سلیکستان‘ ایک چھوٹے پیمانے کی فلم ہے جو اسلام آباد کے رہائشی تین نوجوانوں کے بارے میں ہے۔ ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کے پس منظر میں اس فلم میں ان تین ابہام کے شکار امیر نوجوانوں کا سفر دکھایا جاتا ہے۔
مگر سینسر بورڈ کا نکتۂ نظر ہے کہ فلم میں گالی گلوچ، شراب نوشی کے سین، ہم جنس پسندی کے حوالے، داڑھی کا مذاق اور اسامہ بن لادن کا نام کٹ جانا چاہیے۔
حماد خان
فلم کے ہدایت کار حماد خان
لندن سے ٹیلفون پر بات کرتے ہوئے فلم کے ہدایت کار حماد خان نے کہا: ’میں نے پورا سکرپٹ چھانا ہے اور اسامہ بن لادن کا حوالہ مجھے کہیں نہیں ملا۔ بات یہ نہیں ہے کہ فلم سے کتنے منٹ کاٹے گئے ہیں، یہ ساری باتیں پوری فلم میں پائی جاتی ہیں۔ کٹ کرنے سے فلم بےمقصد ہو جائے گی‘۔
دوسری جانب، شاہنواز نے کہا: ’آپ میری طرف سے حماد خان کو پیغام دیں کہ وہ سینسر بورڈ کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی کر سکتے ہیں‘۔
البتہ حماد خان کا کہنا ہے کہ یہ فلم ایک طرح کا تجربہ ہے کہ ’کیا ایک پاکستانی آزاد فلم بنا سکتا ہے اور اس کی نمائش پاکستان میں ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اور کیا پاکستانی ناظرین یہ فلم دیکھ سکتے ہیں۔‘
پاکستانی فلم صنعت کا ویسے ہی برا حال ہے اور پچھلے سال ملک میں صرف سات فلمیں ہی ریلیز ہوسکیں تھیں، جن میں سے ایک ہی اردو فلم تھی اور باقی پنجابی۔ اس کے بر عکس، بھارت میں سن دو ہزار دس میں سو سے زائد ہندی فلمیں ریلیز ہوئیں۔
حماد خان کو شکایت تھی کہ حکومت نے ایک پاکستانی کے لیے فلم بنانا کتنا مشکل کر دیا ہے۔ ’میں ہالی وڈ اور بالی وڈ کی بات نہیں کر رہا۔ ایک میری فلم دیکھ لیں اور بھارتی فلمیں دیکھ لیں جو انہوں نے منظور کی ہیں اور سینما میں چل رہی ہیں۔‘
لوگوں کو پاکستان کے بارے میں فلم دیکھنے میں بڑی دلچسپی ہے، چاہے وہ جس قسم کی بھی ہو۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں اس فلم کو دکھانا عذاب بن گیا ہے
حماد خان، ڈائریکٹر
سینسر بورڈ کے سربراہ نے سینما میں دکھائی جانے والی بھارتی فلموں کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’ہمارے پاس تو ایک ہی پرنٹ آتا ہے۔ اب سینما والے کیا چلاتے ہیں، اس پر ہمارا محدود اختیار ہے۔ ہمارے پاس تو فلم انسپکٹر ہی بہت کم ہیں۔‘
سینسر بورڈ اور حماد خاد کے درمیان بحث تو پاکستانی معاشرے میں کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے، اور وہ بھی صرف فلم کے شعبے میں نہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ سینسر شپ کی حد کیا ہے، اور خاص کر کیا بالغ افراد کے لیے کوئی واضح حدود ہیں۔
حماد خان کا موقف ہے کہ اگر فلم کی نمائش صرف اٹھارہ سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے کی جائے گی، تو اتنے کٹ کیوں لگائے گئے۔ ادھر شاہنواز کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو بھی کیا، وہ موشن پکچر آرڈننس 1979 کے تحت کیا اور اس حوالے سے تازہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔
’وہ قانون تو ایک فوجی آمر کے دور میں بنایا گیا تھا، اب تو جمہوریت ہے‘۔
حماد کا کہنا ہے کہ ’یہ فلم لندن، برلن، فرانس، بھارت اور نیو یارک میں دکھائی گئی تھی اور یقین کریں کے نیو یارک میں سینما کہ باہر سڑک کے آخر تک لائن لگی تھی۔ لوگوں کو پاکستان کے بارے میں فلم دیکھنے میں بڑی دلچسپی ہے، چاہے وہ جس قسم کی بھی ہو۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں اس فلم کو دکھانا عذاب بن گیا ہے‘۔

No comments:

Post a Comment