محمد البرادی مصر کے لوگوں کا نمائندہ کیسے ہو گیا؟ حسنی مبارک ظالم آمر جابر ہے مگر محمد البرادی، حسنی مبارک سے ہزاروں درجے برا آدمی ہے۔ وہ امریکی ایجنٹ ہے ایٹمی پھیلاﺅ کی روک تھام کی آڑ میں امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرتا رہا ہے۔ وہ آئی اے ای اے کا چیئرمین رہا ہے امریکہ کا اتنا منظور نظر غلام ہے کہ اسے کئی بار ایکسٹنشن دی گئی امریکہ ہمیشہ اپنے لوگوں کو نوبل پرائز دلاتا ہے مگر یہ البرادی کے لئے سرپرائز تھا کہ اسے نوبل انعام دیا گیا ہے۔ اس نے ایٹمی پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ صرف اس بہانے مسلمان ملکوں کو برباد کروایا۔ اس نے عراق کو برباد کرانے میں صدر بش سے بھی زیادہ برا کردار ادا کیا ہے۔ عراق کی بربادی کے بعد کہا گیا تھا کہ کوئی ملک اگر عزت مندی کے ساتھ سلامت رہنا چاہتا ہے تو وہ البرادی کے ہتھے نہ چڑھے۔ البرادی کے ایٹمی انسپکٹروں سے اپنے ایٹمی اثاثوں کا معائنہ نہ کرائے۔ مسلمان حکام جتنے غلام امریکہ کے ہیں جتنے کرپٹ عیاش اور بے غیرت ہیں البرادی حکمران نہ ہوتے ہوئے ان سے بڑا ”حکمران“ ہے۔ وہ مصر کے پسے ہوئے لٹے پٹے محروم، مظلوم، محکوم، مجبورومقہور لوگوں کا لیڈر کیسے بن گیا؟ ذلت اور اذیت کے دلدل میں ڈوبتے لوگوں کے لئے کنارے پر کھڑا البرادی کوئی نیا امریکی کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ چند گھنٹوں کے لئے نظر بند ہوا تو امریکہ نے اسے فوراً رہا کروا لیا۔ یہ ساری تحریک امریکہ نے چلوائی ہے وہ سادہ اور بے خبر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتا رہتا ہے۔ کراتا امریکہ ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا حکمران ہمارا دشمن ہے۔ دشمن تو وہ ہے مگر اصل دشمن امریکہ ہے۔ حسنی مبارک کو 36 برس تک امریکہ نے اپنی گود میں لئے رکھا۔ اب اس کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے اپنی خفگی کا احساس دلوانا چاہتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال ہمیشہ امریکہ کے حق میں جاتی ہے۔ اینٹی امریکہ عوام پر پھر پرو امریکہ حکام مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ صرف ایران میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف امریکہ کی طرف سے چلائی جانے والی تحریک آوٹ آف کنٹرول ہو گئی اور اب تک امریکہ ایران کے غم و غصے کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔ پہلے ”مرگ بر امریکہ“ کا نعرہ ایران سے چلا تھا جو امریکہ مردہ باد کی شکل میں پورے عالم اسلام میں پھیل گیا۔ امریکہ کو حسنی مبارک جیسے حکمران ہر مسلمان ملک میں مل جاتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ صدر انوارالسادات کو کس نے قتل کرایا؟ جمال عبدالناصر کی جراتوں پر کس نے پانی پھیرا۔ حتی کہ یاسر عرفات کے غبارے سے ہوا کس نے نکالی۔ لوگوں کو لیلیٰ خالد کا نام ہی بھول گیا ہے جس نے طیارہ اغوا کرکے پوری دنیا میں فلسطینی حریت پسند خواتین کی دلیری اور دلبری کی دھاک بٹھا دی تھی۔ بے چارہ یاسرعرفات ایک کمرے میں مقید ہو کے رہ گیا تھا۔ وہ اسرائیلیوں کی اجازت کے بغیر غسل خانے تک نہ جا سکتا تھا۔ مجھے یاسرعرفات کی آنکھوں میں بے بسی کی جھلکیاں دیکھ کر دکھ ہوا تھا۔ اب مصر کو بھی امریکی غلامی کی چھاﺅں میں اسرائیلی سلامی کے لئے ہر وقت سرگرم رہنا پڑتا ہے۔ صدام کی وفاداری بھی اس کے کام نہ آئی۔ اسے امریکہ کے کہنے پر ایران پر چڑھ دوڑنے کی جزا کی بجائے پھانسی کی سزا ملی۔ مگر صدام نے تختہ ¿ دار پر جس عظمت اور عزیمت کا ثبوت دیا۔ وہ امریکہ کے منہ پر تھوک کے مترادف ہے۔ اس کی ساری زندگی کی غلطیوں کی دھول گلاب کے پھول کی خوشبو کی طرح اس کی موت کے ایک لمحے کے ارد گرد پھیل گئی۔ امریکہ نے ہی سعودی عرب کے شاہ فیصل کو ان کے اپنے کسی عزیز کے ہاتھوں قتل کروایا کہ وہ عالم اسلام کے لیڈر کے طور پر پاکستان کے بھٹو صاحب کے ساتھ سامنے آ رہے تھے۔ بھٹو کو لانے والا بھی امریکہ تھا۔ بھٹو صاحب اینٹی امریکہ تاثر لے کر آئے پھر کچھ عرصہ وہ پروامریکہ رہے مگر جونہی ایٹمی ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی اور نیشنلزم اس کے خیالوں میں ظاہر ہوئی تو اسے بدنام کرانے کی کوشش ہوئی جو امریکہ کا حربہ ہے اور پھر اسے پھانسی چڑھایا دیا گیا اس کے آرمی چیف جنرل ضیا نے ظلم کیا۔ افسوس تو یہ ہے کہ منتخب وزیراعظم کے خلاف تحریک بابائے جمہوریت نے چلوائی۔ نواب زادہ نصر اللہ کا بیٹا ضیا حکومت کا وزیر بنا رہا۔ جمہوریت کے بابے ایسے ہوتے ہیں آج کل نواز شریف اور صدر زرداری نے یہ جھنڈا اٹھایا ہوا ہے۔ تحریک نظام مصطفی کا کیا حشر امریکہ نے کیا۔ امریکہ عالم اسلام میں کوئی لیڈر زندہ نہیں رہنے دیتا۔
اب سنی تحریک میں دیوبندی مولانا فضل الرحمان کی شمولیت بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ وہ امریکہ کے آدمی ہےں۔ یہاں سارے کے سارے امریکہ کے آدمی ہیں۔ لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کی آوارہ گردی اور دہشت گردی بھی امریکہ کی کوئی چال ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو شرمناک سزا دی گئی۔ کسی کی ایک نہ سنی مگر قاتل امریکی کی رہائی کا مطالبہ تین بار یعنی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ ہماری حکومت ابھی تک ڈٹی ہوئی ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ تحریک چلنے والی ہے حکومت اس امریکی قاتل کو رہا کرے گی اور پھر لوگ سڑکوں پر آئیں گے یہی امریکہ چاہتا ہے۔ خانہ جنگی شروع ہو گی اور پاکستان کی ہر طرح کی کمزوری اپنے انجام کو پہنچے گی۔ امریکہ پاکستان کو اب توڑنا نہیں چاہتا۔ مگر وہ پاکستان کو کچھ بننے بھی نہیں دے گا۔ پاکستانیوں کو نہ زندہ رہنے دے گا نہ مرنے دے گا۔ جو بائیڈن نے کہا کہ مصر جیسے حالات پاکستان میں بھی ہو سکتے ہیں۔ ریڈکراس کے سربراہ ٹیڈاٹروکو نے کہا ہے کہ صدر زرداری کو بھی صدر حسنی مبارک جتنا خطرہ ہے۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کے لئے لاپروائی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، لوگوں کا اضطراب اور عدم اعتماد مصر سے کم نہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے سرکاری معصومیت میں کہا ہے کہ پاکستان میں مصر جیسے حالات نہیں۔ جب عراق اور افغانستان میں امریکی دہشت گردی کا بہانہ بنا کے غنڈہ گردی کر رہے تھے تو کہا گیا تھا کہ پاکستان کی باری بھی آنے والی ہے۔ تو تب کے حکمران اور اس کے وزیروں، شذیروں، بے ضمیروں نے کہا تھا کہ پاکستان عراق یا افغانستان نہیں ہے مگر اب پاکستان میں ان دونوں ملکوں سے زیادہ برے حالات ہیں۔ وہاں دہشت گردی تقریباً ختم ہو گئی ہے اور یہاں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہمارے لوگ تو نشانہ ہیں ہماری قبریں بھی محفوظ نہیں۔ نہ مجلس محفوظ ہے، نہ مزار محفوظ، ہے۔ کسی وزیراعظم نے لیاقت علی خان، بھٹو صاحب، جنرل ضیا اور بے نظیر بھٹو کی عبرت ناک شہادت سے سبق نہیں سیکھا۔ کسی صدر اور جرنیل نے صدر جنرل ضیاالحق کے انجام پر نظر نہیں رکھی۔ سب حکمران امریکی مرضی اور امداد سے آئے اور گئے بھی امریکی غصے اور درندگی کی بھینٹ چڑھ کر۔ صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی، نواز شریف اور شہباز شریف کو اللہ محفوظ رکھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دھمکی ملتی رہتی ہے اور چھوٹا موٹا جھٹکا بھی لگتا رہتا ہے مگر بندہ دولت اور حکومت کے لئے اندھا بلکہ دل کا اندھا ہو جاتا ہے۔ فلسطین کی داستان حریت بھی اب امریکہ میں لکھی جاتی ہے اور کشمیر کی لہولہان کہانی کا عنوان بھی امریکہ میں بنتا ہے۔ بے چارے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے۔ کہ حکمران جائے گا تو انقلاب آ جائے گا۔ صدر ایوب، بھٹو صاحب، جنرل ضیا، بی بی، میاں صاحب اور مشرف کے جانے کے لئے نعرے لگانے والے اب کیا نعرے لگا رہے ہیں۔ مشرف کو دس سال امریکہ نے بچایا۔ اب پھر وہ امریکہ کے کندھوں پر بیٹھ کر آ جائے گا۔ شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے لوگ اب کہاں ہیں اور حسین حقانی کون ہے۔ بے نظیر بٹھو نہ مرتی تو کیا آصف زرداری صدر بن سکتے تھے اور بی بی کو معلوم تھا کہ اس کے عظیم باپ کو امریکہ نے مروایا ہے۔ کیا نواز شریف یا کوئی سیاستدان امریکہ کے خلاف بات کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔ کوئی آرمی چیف امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں بنتا اور وہ مارشل لا بھی امریکہ کے اشارے پر لگاتا ہے۔
مصر کا آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل سمیع حافظ عنان امریکی پٹھو ہے اور تحریک سے چند دن پہلے امریکہ سے ہو کر آیا ہے۔ تحریک کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ انٹیلی جنس چیف کو آرمی چیف نے نائب صدر بنوایا ہے۔ وہ بیمار بوڑھا آدمی ہے۔ نائب صدر بلکہ صدر خود آرمی چیف ہے۔ ریٹائرڈ ایڈمرل فوجی حسنی مبارک کو شرم نہیں آتی کہ امریکہ اس کی خدمت گزاریوں کا کیا صلہ دے رہا ہے؟ پاکستان میں بھی حکرانوں کے ساتھ ہمیشہ یہی کچھ ہوا ہے۔ معذرت کے ساتھ تھوڑی سی ترمیم کے بعد ایک مشہور مصرع عرض ہے....ع
وہی ہو گا جو منظور ”امریکہ“ ہو گا
اب سنی تحریک میں دیوبندی مولانا فضل الرحمان کی شمولیت بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ وہ امریکہ کے آدمی ہےں۔ یہاں سارے کے سارے امریکہ کے آدمی ہیں۔ لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کی آوارہ گردی اور دہشت گردی بھی امریکہ کی کوئی چال ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو شرمناک سزا دی گئی۔ کسی کی ایک نہ سنی مگر قاتل امریکی کی رہائی کا مطالبہ تین بار یعنی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ ہماری حکومت ابھی تک ڈٹی ہوئی ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ تحریک چلنے والی ہے حکومت اس امریکی قاتل کو رہا کرے گی اور پھر لوگ سڑکوں پر آئیں گے یہی امریکہ چاہتا ہے۔ خانہ جنگی شروع ہو گی اور پاکستان کی ہر طرح کی کمزوری اپنے انجام کو پہنچے گی۔ امریکہ پاکستان کو اب توڑنا نہیں چاہتا۔ مگر وہ پاکستان کو کچھ بننے بھی نہیں دے گا۔ پاکستانیوں کو نہ زندہ رہنے دے گا نہ مرنے دے گا۔ جو بائیڈن نے کہا کہ مصر جیسے حالات پاکستان میں بھی ہو سکتے ہیں۔ ریڈکراس کے سربراہ ٹیڈاٹروکو نے کہا ہے کہ صدر زرداری کو بھی صدر حسنی مبارک جتنا خطرہ ہے۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کے لئے لاپروائی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، لوگوں کا اضطراب اور عدم اعتماد مصر سے کم نہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے سرکاری معصومیت میں کہا ہے کہ پاکستان میں مصر جیسے حالات نہیں۔ جب عراق اور افغانستان میں امریکی دہشت گردی کا بہانہ بنا کے غنڈہ گردی کر رہے تھے تو کہا گیا تھا کہ پاکستان کی باری بھی آنے والی ہے۔ تو تب کے حکمران اور اس کے وزیروں، شذیروں، بے ضمیروں نے کہا تھا کہ پاکستان عراق یا افغانستان نہیں ہے مگر اب پاکستان میں ان دونوں ملکوں سے زیادہ برے حالات ہیں۔ وہاں دہشت گردی تقریباً ختم ہو گئی ہے اور یہاں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہمارے لوگ تو نشانہ ہیں ہماری قبریں بھی محفوظ نہیں۔ نہ مجلس محفوظ ہے، نہ مزار محفوظ، ہے۔ کسی وزیراعظم نے لیاقت علی خان، بھٹو صاحب، جنرل ضیا اور بے نظیر بھٹو کی عبرت ناک شہادت سے سبق نہیں سیکھا۔ کسی صدر اور جرنیل نے صدر جنرل ضیاالحق کے انجام پر نظر نہیں رکھی۔ سب حکمران امریکی مرضی اور امداد سے آئے اور گئے بھی امریکی غصے اور درندگی کی بھینٹ چڑھ کر۔ صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی، نواز شریف اور شہباز شریف کو اللہ محفوظ رکھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دھمکی ملتی رہتی ہے اور چھوٹا موٹا جھٹکا بھی لگتا رہتا ہے مگر بندہ دولت اور حکومت کے لئے اندھا بلکہ دل کا اندھا ہو جاتا ہے۔ فلسطین کی داستان حریت بھی اب امریکہ میں لکھی جاتی ہے اور کشمیر کی لہولہان کہانی کا عنوان بھی امریکہ میں بنتا ہے۔ بے چارے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے۔ کہ حکمران جائے گا تو انقلاب آ جائے گا۔ صدر ایوب، بھٹو صاحب، جنرل ضیا، بی بی، میاں صاحب اور مشرف کے جانے کے لئے نعرے لگانے والے اب کیا نعرے لگا رہے ہیں۔ مشرف کو دس سال امریکہ نے بچایا۔ اب پھر وہ امریکہ کے کندھوں پر بیٹھ کر آ جائے گا۔ شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے لوگ اب کہاں ہیں اور حسین حقانی کون ہے۔ بے نظیر بٹھو نہ مرتی تو کیا آصف زرداری صدر بن سکتے تھے اور بی بی کو معلوم تھا کہ اس کے عظیم باپ کو امریکہ نے مروایا ہے۔ کیا نواز شریف یا کوئی سیاستدان امریکہ کے خلاف بات کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔ کوئی آرمی چیف امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں بنتا اور وہ مارشل لا بھی امریکہ کے اشارے پر لگاتا ہے۔
مصر کا آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل سمیع حافظ عنان امریکی پٹھو ہے اور تحریک سے چند دن پہلے امریکہ سے ہو کر آیا ہے۔ تحریک کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ انٹیلی جنس چیف کو آرمی چیف نے نائب صدر بنوایا ہے۔ وہ بیمار بوڑھا آدمی ہے۔ نائب صدر بلکہ صدر خود آرمی چیف ہے۔ ریٹائرڈ ایڈمرل فوجی حسنی مبارک کو شرم نہیں آتی کہ امریکہ اس کی خدمت گزاریوں کا کیا صلہ دے رہا ہے؟ پاکستان میں بھی حکرانوں کے ساتھ ہمیشہ یہی کچھ ہوا ہے۔ معذرت کے ساتھ تھوڑی سی ترمیم کے بعد ایک مشہور مصرع عرض ہے....ع
وہی ہو گا جو منظور ”امریکہ“ ہو گا
No comments:
Post a Comment