امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس اگر عدالتی فیصلے، امریکی دباﺅ یا کسی تیسری صورت کی وجہ سے امریکہ کے حوالے کر دیا جائے تو بھی پاکستان میں انقلاب کا امکان نہیں کہ پاکستانیوں کا مزاج تیونس اور مصر والوں سے مختلف ہے البتہ کچھ اندرونی قوتیں پاکستان میں تیونس اور مصر کے حالات پیدا کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ انقلاب ہو یا جہاد،کسی رہنماءکا بیٹا شہید ہوتا ہے اور نہ ہی بنگلوں اور محلات والے سڑکوں پر آتے ہیں۔ انقلاب ڈرائنگ روم سے نہیں، گلیوں سے اٹھتا ہے جبکہ پاکستان کی گلیوں سے صرف غم و غصہ کا دھواں اٹھتا ہے، انقلاب کے بادل ابھی دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان کے کسی نہ کسی حصے میں مظاہرے ہوتے رہتے ہیں مگر پھر ”ٹھس“....! زرداری حکومت بلا شبہ محترمہ کے ”تعزیتی“ ووٹوں سے ایوانوں تک پہنچی ہے مگر کہلاتی تو جمہوریت ہے لہذا جمہوری حکومت کا مصر اور تیونس کی بوسیدہ آمریت کے ساتھ موازنہ مناسب نہیں البتہ ڈیوس کی امریکہ روانگی کو ”کیش“ کرایا جا سکتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا پاکستان کی قید میں رہنا نہ صرف امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے لئے منفی ثابت ہو گا بلکہ زرداری حکومت کی رخصتی کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ امریکہ کے پاکستانیوں کو اپنی جان کی نہیں ملک و قوم کے امان کی فکر ہے البتہ پاکستان میں سیاسی بحران فوج کی آمد کا جواز بن سکتا ہے۔ امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن پاکستان کو تیونس اور مصر جیسے بحران کی ”شوگر کوٹڈ دھمکی“ دے چکے ہیں اور جب امریکہ کسی کے درپے ہو جائے تو اسے عراق، افغانستان، تیونس، مصر....کچھ بھی بنا سکتا ہے اور پرانے دوستوں کی جگہ نئے دوستوں کو لا سکتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ کا نیا اور پرانا دوست ”فوج“ ہے۔”فوج کے لئے اقتدار کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہو چکے ہیں“ کی خوش فہمی سے نکل آنا چاہئے....! پاکستانیوں کو زمینی حقائق کا سامنا کرنا چاہئے، اگر وہ کسی بڑے انقلاب کے متحمل نہیں ہیں تو پھر ہمیشہ کی غلامی پر راضی جائیں اور ”پھس پھسے“ احتجاج سے ملک کے حالات مزید خراب مت کریں۔ تیونس، مصر ، یمن اور سوڈان میں معاشی بحران،کرپشن اور بیروزگاری کے خلاف عوامی احتجاج نے انقلاب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ انڈونیشیا کے عوام بھی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں.... ڈاکٹر عافیہ جیسے ہزاروں افراد لا پتہ ہو گئے مگر پاکستان میں انقلاب نہیں آیا، ڈاکٹرعافیہ کو چھیاسی برس کی سزا سنا دی گئی انقلاب نہیں آیا، پاکستان میں 2010ءمیں 1,310 لوگوں نے خود کشیاں کیں انقلاب نہیں آیا، صرف ایک سال میں 147 دہشت گردی کے واقعات پیش آئے انقلاب نہیں آیا، ایک سال میں 52 بڑے خود کش حملے ہو ئے مگر انقلاب نہیں آیا، صرف کراچی شہر میںایک سال میں 1,981 لوگ قتل ہوئے، بیشتر ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے مگر انقلاب نہیں آیا۔ 177 ڈرونز حملے اور2 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے مگر انقلاب نہیں آیا، یہ ملک دنیا کا 12واں مہنگا ترین ملک بن گیا مگر انقلاب نہیں آیا جب کہ تیونس میں مہنگائی کی شرح 3.5 اور مصر میں13 فیصد ہو ئی تو انقلاب آ گیا.... پاکستان میں 14.2فیصد مہنگائی ہے مگر انقلاب نہیں آیا۔ مصر میں جب بیروزگاری 9.3 فیصد تک پہنچی تو لوگ سڑکوں پر آ گئے، تیونس میں مہنگائی 13فیصد تک آئی تو عوامی مظاہرے شروع ہو گئے.... پاکستان میں بیروزگاری 15.2فیصد تک آ گئی مگر انقلاب نہیں آیا۔ تیونس اور مصر میں حج سکینڈل، بجلی، پی آئی اے، پٹرول،گیس، ڈیزل اور دیگر کرپشن کے سنگین واقعات بھی پیش نہیں آئے پھر بھی انقلاب آ گیا....؟ تیونس اور مصر میں ایک سال میں دہشت گردی کے 9 واقعات پیش آئے ، کوئی خود کش حملہ نہیں ہوا ،ایک سال میں صرف 42 افراد قتل ہوئے اور کوئی ڈرون حملہ بھی نہیں ہو اس کے باوجود وہاں انقلاب آ گیا....؟ پاکستان میں جب بھی انقلاب آیا اس نے صرف انسان تبدیل کیا نظام نہیں۔جنرل ایوب خان کو نکال باہر کیا،جنرل پرویز مشرف کو نکال باہر کیا.... اسے انقلاب نہیں آمریت کے خلاف غم و غصہ کہتے ہیں۔ انقلاب لاہور سے گوجرانوالہ تک پہنچا تھا کہ عدلیہ بحال ہو گئی اور مٹھائیوں کے ڈبے اٹھائے گھروں کو لوٹ آئے....! اسلام آباد تک پہنچ جاتے تو نظام بھی تبدیل ہو جاتا مگر پاکستان میں عارضی انقلاب آتے ہیں، چہرے تبدیل کر دئیے جاتے ہیں اور پھر ”ٹھس“....! ریمنڈ ڈیوس امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا، یہ فیصلہ خواہ عدالتی ہو یا سفارتی مگر ڈیوس کی پاکستان میں قید خود پاکستان کے لئے بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ ڈیوس ایک امریکی جاسوس ہی نہیں، امریکہ اور پاکستان کا ”وکی لیکس“ بھی ہے لہذا اس کی پاکستان میں موجودگی امریکہ کے لئے بھی تشویشناک ہے۔ عام حالات میں ایسے موقع پر عدالت کے ذریعہ قانونی کاروائی پر ہی انحصار کرنا چاہئے تاہم اس کیس میں چونکہ ایک دوسری حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ ان کے باشندے کو بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے لہذا اب اس بات کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے کہ اگر کسی بھی حوالے سے کسی بھی بین الاقوامی فورم پر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ اس شخص کو استثنیٰ حاصل ہے تو عدالتی کارروائی میں ہونے والے کسی بھی فیصلے کی صورت میں پاکستان کو انتہائی سنگین مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جب کہ موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ اس حساس کیس کو جذباتیت سے نہیں بلکہ بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر فہم و فراست اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے حل کیا جائے تاکہ وطن عزیز کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچے۔ امریکہ کو بھی چاہئے کہ وہ بھی دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے جس طرح بین الاقوامی طور پر قیدیوں کا تبادلہ ہوتا ہے اسی طرح دونوں ملکوں کے عوام اور حکومت کی خواہش کے مطابق اس مسئلے کو حل کرے۔ امریکہ بھی آگاہ ہے کہ پاکستان میں انقلاب تو شاید نہ آ سکے مگر بحران اور انتشار میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment