کنوارپن کی بحالی کا آپریشن
مہنگے علاقے کے ایک جدید کلینک میں نوجوان عرب خواتین ایسے آپریشن کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں جس سے نہ صرف ان کی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ شاید بچ بھی جائے۔آپریشن کا خرچہ سترہ سو پاؤنڈ ہے اور اس میں خطرے کی کوئی بات نہیں۔
یہ کلینک دبئی یا قاہرہ میں نہیں بلکہ پیرس میں واقع ہے اور وہاں موجود خواتین آپریشن کے ذریعے کنوارپن کی بحالی چاہتی ہیں۔
ایشیا اور عالم ِعرب میں شادی سے پہلے کنوارپن ختم ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں خواتین کی زندگی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد یہ معلوم ہونے پر کہ وہ پہلے ہی مباشرت کی مرتکب ہو چکی ہیں انہیں قتل بھی کیا جا سکتا یا کم سے کم برادری سے تونکال ہی دیاجائےگا۔
اب یہ خواتین آپریشن کے ذریعے ماضی کے جنسی فعل کے تمام نشان مٹا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ شادی کی رات ان کے بستر پر خون کے داغ نظر آئیں۔
خواتین کنوارپن کے حوالے سے دباؤ میں آ کر بعض اوقات اپنی جان لینے پر بھی مجبور ہو جاتی ہیں۔ کلینک میں پیرس کے آرٹ کالج کی ایک طالبہ بھی موجود تھی جو اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتی۔ وہ پیرس میں پیدا ہوئی لیکن عرب روایات ان کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
اگر وہ کنواری ہے تو اپنے شوہر کا کسی دوسرے مرد سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر اس کے دوسرے مردوں سے تعلقات رہے ہیں تو پھر وہ تجربہ کار ہو گی۔ تجربہ انہیں طاقت دیتا ہے
عرب مبصر ثنا
انہوں نے کہا کہ ’جنسی تعلقات قائم کرنے کے بعد میں نے اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سوچا کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا حل نظر نہیں آتا تھا۔‘ لیکن اب ان کے پاس حل موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ ان کے ماضی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہو، خاص طور پر ان کے ہونے والے شوہر کو۔
کنوارپن کی بحالی کا آپریشن تقریباً تیس منٹ میں مکمل ہوتا جس دوران عورت کی جھلی کو دوبارہ جوڑ دیا جاتا ہے۔ کلینک کے مالک ڈاکٹر مارک نے بتایا کہ ان کے مریضوں کی اوسط عمر پچیس سال ہے۔ اس طرح کے آپریشن دنیا بھر میں ہو رہے ہیں لیکن ڈاکٹر مارک واحد عرب سرجن ہیں جو اس کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔
چینی طب میں تو کنوارپن کی بحالی آپریشن کے بغیر بھی ممکن ہے۔ ایک ویب سائٹ پر بیس پاؤنڈ میں مصنوعی جھلیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔چینی جھلی ایلاسٹک سے بنتی اور اس کو مصنوعی خون سے بھرا جاتا ہے۔
شادی کی رات میں بالکل سو نہیں سکی۔ بہت ڈری ہوئی تھی لیکن اسے بالکل شک نہیں ہوا۔ میں تمام رات روتی رہی
ندا
لبنانی خاتون ندا نے بتایا کہ وہ شادی سے پہلے سات سال تک ایک لڑکے کے ساتھ رہی، لیکن اس لڑکے کے گھر والے کہیں اور رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ان کی شادی نہ ہو سکی۔
ندا کی اب شادی ہو چکی ہے اور ان کے دو بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے آپریشن کے ذریعے دوبارہ جھلی بحال کروائی تھی۔ ’شادی کی رات میں بالکل سو نہیں سکی۔ بہت ڈری ہوئی تھی لیکن اسے بالکل شک نہیں ہوا۔ میں تمام رات روتی رہی۔‘
شام کے ایک عالم شیخ محمد نے بتایا کہ کنوارپن کے بارے میں لوگوں کو رویے روایت پر مبنی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی عیسائی آبادی بھی عورت کے کوارپن کے بارے میں اتنے ہی کٹر نظریات رکھتے ہیں۔
عرب مبصر ثنا الخیاط کے مطابق یہ سارا معاملہ ’کنٹرول‘ کا ہے۔ ’اگر وہ کنواری ہے تو اپنے شوہر کا کسی دوسرے مرد سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر اس کے دوسرے مردوں سے تعلقات رہے ہیں تو پھر وہ تجربہ کار ہو گی۔ تجربہ انہیں طاقت دیتا ہے۔‘
No comments:
Post a Comment