Saturday, January 29, 2011

دُدھ تے پتی ٹھوک کے! پانی، چینی روک کے!


دُدھ تے پتی ٹھوک کے! پانی، چینی روک کے!

خالد احمد ـ 18 گھنٹے 47 منٹ پہلے شائع کی گئی
ایک طرف مسلم لیگ نون اور وفاقی اتحادی حکومت کی نامزد ٹیمیں ’شوگر سکینڈل‘ کی تحقیقات کیلئے ’جوڈیشل کمیشن، کے قیام پر متفق ہو گئیں تو دوسری طرف ’سیاسی دباﺅ‘ کے تحت معاف کئے گئے 281 ارب روپے کے قرضوں کی وُصولی کیلئے گورنر سٹیٹ بینک سے ’نادہندگان‘ کے اسمائے گرامی اور ان کے ذمے واجب الادا رقوم کے حجم، کی تفصیلات بھی طلب کرنے بیٹھ گئیں! لہذا کہا جا سکتا کہ ’پیر کا روز‘ ہم اہل غم کیلئے ’روز قیامت‘ ہو گا۔
دوسری طرف وفاقی کابینہ نے 5 سال پرانی کاریں درآمد کرنے کا فیصلہ برقرار رکھنے اور ’ریلوے‘ ’سٹیل ملز‘ اور ’سوئی ناردرن گیس‘ کی ’تشکیل نو‘ کرنے اور ’پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی، ختم کر دینے کا فیصلہ بھی کر ہی لیا! حالانکہ آئی ایم ایف کے نمائندوں نے پیپکو کے سربراہ کا ’چہرہ‘ دیکھتے ہی ’ادارہ‘ ابھی اور اسی وقت ’ختم‘ کر دینے کا مطالبہ سرکر دیا تھا کیونکہ وہ انہیں بہت اچھی طرح جانتے تھے! مگر کچھ مقتدر چہرے یہ ’ماسک‘ MASK یا ’نقاب‘ اتنی جلدی اتار دینے کیلئے تیار نہیں تھے۔ انہیں مہلت درکار تھی کیونکہ ابھی کچھ ’مہمات‘ سر ہونے سے رہ گئی تھیں! یہ تو سپریم کورٹ بیچ میں آ گیا اور کچھ ’رینٹل پاور ادارے‘ روتے دھوتے ’پیشگی ادائیگیاں‘ کرنے پر مجبور ہو گئے اور یوں بقیہ نشانات مٹانے کیلئے یہ ’ادارہ‘ ختم کر دینے کا فیصلہ ناگزیر ہو گیاا!
تیسری طرف جناب لطیف کھوسہ جناب نواز شریف کا ہر مطالبہ جناب الطاف حسین کے مطالبے کے طور تسلیم کئے جانے کا اعتراف کر کرکے ’اتحادی ریلوے‘ کی ’پنجاب میل‘ کھینچتے کھینچتے، چھک چھک کرتے میو ہسپتال جا پہنچے اور زخمی نوجوانوں کے ماتھوں کے بوسے لیتے دوبارہ راہ پر آ گئے! ’پارٹی‘ پہلے چونکی مگر یہ دیکھ کر کہ کچھ ’لے‘ ہی رہے ہیں ’دے‘ تو ہر گز نہیں رہے! مطمئن ہو گئی! پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلے دن سے یہی کردار ہے!
ہمیں اس سارے فسانے میں صرف ایک بات بہت زیادہ اہم لگی مگر ہمیں یوں ہی لگا کہ یہ سب کچھ محض ’نادانستہ‘ طور پر سرزد ہو گیا ہو! ’چلی‘ اور ’پیرو‘ میں بھی یہی فیصلہ ان کی معیشت میں ایک بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنا تھا! اور یہ فیصلہ ’پانچ برس پرانی‘ گاڑیوں کی درآمد تھا! پس منظر اس کا یہ کہ پوری دنیا میں ’گاڑی‘ کی پہلی رجسٹریشن تین سال کیلئے ہوتی ہے اور اگر وہ ’گاڑی‘ اس کا مالک بدستور اپنے ساتھ رکھنا پسند کرے تو ’دوسری رجسٹریشن‘ دو سال کیلئے ہوتی ہے! پانچ برس تک چلنے والی گاڑی، تین برس چلنے والی گاڑی سے نصف قیمت پر دستیاب ہوتی ہے جبکہ اس کی کارکردگی میں بھی خاص فرق نہیں پڑا ہوتا! یہ گاڑی سستے داموں مل جاتی ہے لیکن یہ دنیا کسی جدید ترین ٹیکنالوجی کا شاہکار ہوتی ہے یہ لوگوں تک بھی کم قیمت میں پہنچ جاتی ہے اور نئی کاریں بنانے والے کارخانوں کیلئے ’مسابقت‘ بھی ساتھ لاتی ہے! ہمارے ملک میں کاریں تیار کرنے والے ’کارخانہ دار ادارے‘ اس امر کے پابند کئے گئے تھے کہ وہ اپنے مقامی کارخانوں میں اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی بھی منتقل کریں گے! مگر حقیقت یہ ہے کہ 1986ءاور 2010 ءکے ماڈل دیکھیں تو 1986ءتک کے ماڈل ہر طرح ان کے 2010ءکے ماڈل سے کہیں زیادہ مضبوط اور بہتر کارکردگی کے مالک ہیں اور آج بھی سڑکوں پر اسی ’میک‘ کی نئی گاڑی سے بہتر طور پر دوڑ رہے ہیں!
’غیر ملکی کار مینو فیکچررز‘ کے لئے پاکستان مسابقت سے خالی میدان ہے، لہذا ان کے ’ماڈل‘ روز بروز زوال آمادہ اور قیمتیں عروج آمادہ ہیں! ’ہائیر پرچیز‘ نے ’کار ڈیلرز‘ کی چاندی کر رکھی ہے، وہ ہر ماڈل کے بیشتر ’اصل اجزائ‘ ہٹا کر ’نقلی اجزا‘ لگا کر انہیں دوبارہ تیار کرکے بینک کے ’اکاﺅنٹ ہولڈرز‘ کے سرمڑھ دیتے ہیں! پرانی گاڑیاں جب ہماری سڑکوں پر آئیں گی تو نئی گاڑیاں بنانے والے بھی سدھریں گے اور ان کی قیمتیں بھی آسمان کی طرف پرواز کرنے سے قبل ’کھجور‘ سے اوپر جانے کے بارے میں دس بار سوچیں گی! یہ ’عوامی حکومت‘ کا پہلا فیصلہ ہے، جس سے عوام اور ملک کو کسی نہ کسی حد تک کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہوگا! اگر امیر لوگ بھی ’نئی کار‘ کی جگہ ’بہتر اور محفوظ تر کار‘ میں سفر کو ترجیح دینے لگے تو پھر یقیناً ہمارے ’کار پروڈویوسرز‘ بھی پاکستان میں وہ ’ٹیکنالوجی‘ لانے پر مجبور ہو جائیں گے جو وہ گزشتہ تیس برس تک پاکستان میں منتقل نہیں کر پائے!
اگر کوئی یہ سوچے کہ اس طرح مقامی پیداوار کم ہو جائے گا تو، وہ دل سے پوچھے کہ یہ ’آن‘ کیا ہوتا ہے؟ تو دل میں خیال آئے گا کہ ہم 60 ہزار، 90 ہزار روپے زیادہ قیمت کس لئے ادا کرتے ہیں! تو ساتھ ہی جواب آئے گا! کیونکہ رسد طلب سے کم ہے اور اضافی قیمت کا سبب رسد کی یہی کمی رہی ہے!،
دیکھنا یہ ہے کہ پانچ برس پرانی کاروں پر حکومت ڈیوٹی کس ’بھاﺅ‘ سے لگاتی ہے؟ کیونکہ جہان ’چینی‘ کی قیمتیں کنٹرول نہیں ہو پائیں وہاں ’کاروں کی قیمتیں‘ کون قابو میںرکھ پائے گا! ’گڈ گورننس، تو خواب بن کے رہ گئی ہے! ایک زمانہ تھا کہ ہم نعرہ لگاتے، دُدھ تے پتی ٹھوک کے! پانی، چینی روک کے!، تو چائے آتے ہی تھکن ہوا ہو جاتی! آج سر پہ کھڑے ہو کر بھی چائے بنوائیں تو کبھی پانی جواب دے جاتا ہے، کبھی چینی اور کبھی دودھ! کیونکہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ غیر ملکی ’ملک پاﺅڈر ، کا جہاز دو دن ’ان لوڈ‘ نہ ہو سکے تو ’ناکارہ پاﺅڈر‘ بازار میں ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے کہ گائے بھینسیں اب ہڈیوں کے ’پنجر‘ بن کے رہ گئی ہیں! ’کارٹی زان‘ کے انجکشن انہیں ’بے کار‘ کر چکے ہیں کیونکہ ہم ہرکام خود کرتے ہیں، حتیٰ کہ ’ویٹرنری ڈاکٹرز‘ سرکاری اداروں میں ہوں تو ہوں کسی ’فارم‘ پر بھی نہیں ہوتے

No comments:

Post a Comment