Wednesday, February 9, 2011

سرے راہے



ـ 22 گھنٹے 52 منٹ پہلے شائع کی گئی
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے‘ پارلیمنٹ لاجز ایشو پر مجھے ایسے دھویا جا رہا ہے‘ جیسے کوئی کفر کیا ہو۔
دھویا تو اس کو جاتا ہے‘ جو میلا ہو جاتا ہے اور اگر قوم اس لاجز کے مسئلے پر دھو رہی ہے تو اس سے بڑی ہمدردی کیا ہو سکتی ہے‘ جب بھی قوم کا کسی مسئلے پر اجماع ہو جائے تو چیف ایگزیکٹو کو خوش ہو کر اسے قبول کر لینا چاہیے۔ بات کہنے کی نہیں‘ مگر بات تو فضول خرچی کی ہے کہ ملک کن معاشی تنگ دستیوں سے گزر رہا ہے اور حکومت پارلیمنٹ کیلئے لاجز پر اربوں خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور پارلیمنٹ نے اپنے ووٹروں کیلئے کیا کمایا ہے‘ کیا کارنامہ دکھایا ہے کہ ان کیلئے رہائش گاہیں ایسے تنگ حالات میں تعمیر کرنے کو ترجیح دی جائے۔ جبکہ قومی مسائل کے حل کیلئے پارلیمنٹ سوائے لچھے دار تقریروں کے کچھ نہ کر سکی۔ حالانکہ وہ ملک کا طاقتور ترین ادارہ ہے۔ وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ ملتان میں میرا آدھے مربع کا مکان ہے۔ اتنا بڑا مکان صرف ایک آدمی اور اسکے چند بچوں کیلئے‘ کیا وہ یہ کہہ کر قوم کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ کوئی معمولی پس منظر سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ کافی اونچے اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ باقی یہ بات اتنی سیریس نہیں‘ وزیراعظم اگر کوئی ایسا کام کرینگے کہ قوم روٹی کو ترستی ہو اور وہ لاجز تعمیر کرنا چاہتے ہوں تو تنقید تو ہو گی اور جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ ایسی تنقید کو برداشت کرکے وہ کرنا چاہیے‘ جو زبانِ خلق کہے۔ وگرنہ نقارۂ خدا بج اٹھے گا۔ بجے اللہ والی ٹال‘ بجے مرشد والی ٹال‘ بجے سایاں والی ٹال کہ وزیراعظم ماشاء اللہ صاف ستھرے ہو چکے ہیں۔ انکی دھلائی بند کر دی جائے مگر شرط یہ ہے کہ لاجز کی تعمیر بھی رک جانی چاہیے۔
٭…٭…٭…٭
لندن میں مشرف پر تقریر کے دوران ایک شخص نے جوتا پھینک دیا۔ ہال کے باہر سابق صدر کیخلاف مظاہرہ بھی ہوا۔
مشرف شکر کریں کہ صرف جوتا پھینکا گیا‘ انہیں ہال سے باہر نہیں پھینکا گیا۔ اگر آل پاکستان ’’مرغ مسلم لیگ‘‘ کے سربراہ کا ملک سے باہر یہ سواگت ہے تو وہ اگر کبھی ملک آبھی گئے تو کیسا دیدنی تماشا ہو گا۔ بہرحال مشرف کو کوئی چوٹ نہیں لگی‘ البتہ جب بھی انکے ساتھ کوئی ’’حسن سلوک‘‘ ہوتا ہے‘ تو پاکستان میں کتنے ہی لوگوں کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ وہ ہمت کریں اور ثابت کر دیں کہ عساکر پاکستان کے چیف رہے ہیں‘ ڈر کس بات کا؟
میں ڈر دی توبہ توبہ کردی
پاکستانیاں کولوں ڈر دی
حیرت ہے کہ پاکستانی بیچ کر اور نہ جانے کیا کیا فروخت کرکے انہوں نے کتنی دولت کمالی ہے‘ اب آرام سے سلمان رشدی کے ساتھ مل بیٹھ کر ساحل سمندر پر لال پری اڑائیں اور کھائیں۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ ایک گند کرکے اب اس پر مزید غلاظت ڈھیر کرنا چاہتے ہیں۔
مشرف گرچہ شد پرویز زِجوتا
خدایا ایں کرم بار دگر کن
(پرویز اگر جوتے سے مشرف ہوا ہے تو خدایا یہ کرم پھر بھی فرمانا) کسی زمانے میں جب پرویز مشرف کا عروج ہوا کرتا تھا تو وہ لاہور اکثر آتے اور ناک کی سیدھ میں امیروں کی شہرۂ آفاق بستی میں جا کر سب سے پہلے ایک پیکر جمال کی زیارت کرتے‘ بوجھو تو جانیں۔
٭…٭…٭…٭
حافظ حسین احمد نے کہا ہے‘ نئے وزراء فرشتے نہیں پی پی اور اتحادیوں سے ہی ہونگے‘ ’’کیپٹن‘‘ بھی فارغ ہونا چاہیے۔
جمعیۃ علماء اسلام کے طوطیٔ شکر مقال اور ہمایوں فال حافظ حسین احمد بڑے ذہین آدمی ہیں‘ وہ جب بولتے ہیں تو کہنا پڑتا ہے‘ کچھ بھی نہ کہا‘ کچھ کہہ بھی گئے‘ کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے۔ اب جو انہوں نے گل افشانی فرمائی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے انکی پگڑی کے بل کھلتے گئے اور نئے گل کھلتے گئے۔ ان کا یہ کہنا کتنا بجا ہے کہ تاش کے پتوں کو کتنا ہی پھینٹتے جائیں‘ پتے تو وہی باون کے باون رہتے ہیں۔ اب یہ جو وزراء کو پھینٹا جا رہا ہے تو وہی پرانے والے بقراط ہیں‘ ان میں کوئی نیا دانائے راز تو نہیں شامل ہو گا۔ جو بازی ہی پلٹ دے۔ حافظ صاحب تو ہمیں کسی حسینہ کے رخ نگاریں کا خالِ سیاہ لگتے ہیں اور ہم اس رعایت سے بھی انہیں حافظ کہتے ہیں۔ وگرنہ انہیں ’’چالیس‘‘ تو نہیں تیس سیپارے ازبر ہیں۔ انہوں نے کس خوبی سے کہتے کہتے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ نئے وزراء کے پرانے کیپٹن کو بھی فارغ کرکے انکی جگہ نیا کیپٹن لگا دینا چاہیے۔ ممکن ہے نئی ٹیم مسائل کا میچ جیت جائے۔ ممکن ہے پرانے کھلاڑیوں کی جگہیں بدلنے سے کوئی بدلی باران رحمت برسا جائے۔ بہرحال حافظِ خجستہ حضال کی بات میں کتنی ہی باتیں ہیں جو ہم کرنا چاہیں بھی تو نہیں کر سکتے۔ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا‘ میں نے یہ سمجھا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
٭…٭…٭…٭
ایچ ای سی کے ذریعے 2ماہ میں تمام وفاقی ملازمین کی اسناد کی تصدیق ناممکن ہے۔ ایک اعلیٰ افسر نے کہا 5 لاکھ ڈگریوں کی تصدیق کیلئے ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہے۔ چیئرمین جاوید لغاری کی صدارت میں اجلاس آج ہو گا۔
تمام وفاقی ملازمین کی اسناد کا حصول اگر ممکن ہے تو انکی جانچ پڑتال بھی ناقابل عمل نہیں‘ البتہ یہ بات درست ہے کہ دو ماہ میں یہ کام کافی مشکل ہے۔ بہر حال حکومت کو چاہئے کہ ابھی سے ایک تعلیم بالغاں پول قائم کر دے اور ہائر ایجوکیشن جوں جوں جن ملازمین کی اسناد کو جعلی ثابت کرتا جائے انہیں اس پول میں داخل کیا جاتا رہے۔ اسکے ساتھ ہی ان کو موجودہ ملازمتوں سے فارغ کر کے نئے سرے سے اصلی اسناد حاصل کر کے پھر سے ملازمتیں ڈھونڈنے پر لگا دیا جائے‘ اور یہ پول کسی جیل یا جیلوں میں قائم کئے جائیں اگر ایسا کیا جائے تو آئندہ اس ملک میں کوئی جعلی سند ڈگری حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا‘ جعلی ڈگری برداروں کیلئے عرض ہے:
عرض نیازعشق کے قابل نہیں رہا جس ڈگری پہ مجھ کو ناز تھا وہ ڈگری ہی نہ رہی ہم تو خوش تھے کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح کچھ نہ کچھ ہے‘ اب سربگریباں ہیں کہ وہ بھی اتنی نہیں جتنی بیان کی جاتی تھی۔

No comments:

Post a Comment