Wednesday, February 9, 2011

مجبور قوم کی مظلوم بیٹی



ـ 22 گھنٹے 56 منٹ پہلے شائع کی گئی
محمد طارق چودھری ۔۔۔
رات کا ایک بجنے کو ہے، فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال سے ابھی گھر واپس آیا ہوں، اداسی، غم اور انتقام ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو رہے ہیں، امریکی محکمہ جاسوسی کے بے حس اور بے نام حیوان جس کی عرفیت ’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ بتائی جاتی ہے اس درندہ نما نیم انسان کے ہاتھوں شہید ہونیوالے ’’فہیم کی نو عمر خوبصورت بیوہ نے پاکستانی حکمرانوں کے رویے اور پولیس کی طرف سے ’’شیطان صفت‘‘ قاتل کی آؤ بھگت کی خبریں سنیں تو اس کی مظلومیت اذیت بن کر مایوسی کی حد سے گزر گئی، انصاف ملنے کی آخری امید کھو دینے پر خودکشی کرنے کیلئے زہریلی گولیاں نگل لیں۔
لواحقین نے زندگی بچانے کیلئے اسے الائیڈ ہسپتال پہنچا دیا۔ یہاں اس ناامید بچی نے ڈاکٹروں کی موجودگی میں ذرائع ابلاغ سے باتیں کرتے اور پولیس کو آخری بیان دیتے ہوئے کہا ’’میرے شوہر کے غیر ملکی قاتل کو بچانے کیلئے حکومت کی کوششیں شرمناک ہیں، پولیس کی تحویل میں جس طرح اسکی آؤ بھگت اور خوشامد کی جاتی رہی اور مقتولین کو جرائم پیشہ بنانے کی خود ساختہ کوششیں کی جاتی رہیں‘ وہ بہت ہی شرمناک کام تھا۔
اس خبر کے بعد کہ قاتل کو ’’فائیو سٹار ہوٹل سے کھانا فراہم کیا جا رہا ہے، آج وہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی کیساتھ امریکی سفارت خانے میں آرام سے ہے۔ اب مجھے انصاف کے حصول کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ میں اپنے شوہر کا خون معاف نہیں کر سکتی، میں قاتل کو اسی طرح قتل ہوتے دیکھنا چاہتی ہوں جس طرح میرا محبوب گولیوں سے بھون دیا گیا تھا مگر اپنے ہی وطن میں انصاف ملنے کی تمنا سے مایوس ہو کر شہید شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود وہ اپنے فہیم سے ملنے کی آرزؤں پر قابو نہ پا سکی اور چھ فروری کی شب گیارہ بج کر اکتالیس منٹ پر دنیا کے سارے رشتے ناطے توڑ کر اپنے محبوب شوہر کی طرف پرواز کر گئی۔
مرحوم باپ، بغیر بھائی کے معذور ماں کی مظلوم بیٹی اکلوتی بہن کو روتا چھوڑ کے اٹھارہ کروڑ ہم وطن مسلمان بھائیوں سے مایوس ہو گئی ہے۔ پولیس کی بھاری نفری نے ہسپتال کو گھیر رکھا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندے ایمرجنسی وارڈ کے دروازے پر کیمرے لگائے مرحومہ کی میت کے منتظر ہیں۔ نیک دل ڈاکٹر نے قریب آکر آہستگی سے کہا کہ مرحومہ کو پچھلے دروازے سے نکال کر پوسٹ مارٹم کے کمرے میں پہنچا دیا گیا ہے وہیں سے اسکی میت ایمبولینس میں ڈال کر اسکے گاؤں پہنچا دی جائیگی۔ جواں سال شمائلہ سب رشتوں ناطوں سے منہ موڑ کر اپنے شہید شوہر سے ملنے کی آرزو میں زندگی کو نوچ کر پھینک گئی کہ موت ہی محبوب سے ملنے کا واحد سہارا تھی مگر ’’خادمِ اعلیٰ ‘‘ نے اپنی انتظامیہ اور پولیس کو حکم دیا کہ بچی کی لاش کو ہر صورت فیصل آباد میں دفن کرنا ہے یہ کسی طرح لاہور پہنچنے نہ پائے۔ بے جان شمائلہ ایمرجنسی میں رکھی ہے اسے زندگی سے گزرے چند منٹ ہی گزرے ہیں کہ ہسپتال میں موجود مفلوک الحال، نادار اور مظلوم لواحقین کو انتظامیہ نے گھیر رکھا ہے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ صبح ہونے سے پہلے میت کو قریبی قبرستان میں دفن کر دیا جائے مگر شہید فہیم کی والدہ اپنی بہو کو بیٹے کے پہلو میں دفن کرنے پر اصرار کر رہی ہے ’’وہ کہتی ہے کہ ’’نااہل اور بے حس حکمرانو تم ہماری جان کی حفاظت نہیں کر سکتے تو مر کے پہلو بہ پہلو دفن ہونے سے کیوں روکتے ہو؟
شمائلہ کی زندگی نے اسے شہید شوہر سے جدا کر رکھا تھا، وفا شعار نوبیاہتا نے وصل کی موت کو ترجیح بنا لیا۔ وہ حکمران جو زندگیوں کی حفاظت نہ کر سکے انکی موت کے بعد ناقابلِ عبور سنگین دیوار بن کر حائل ہیں کہ ’’انہیں کسی صورت پہلو بہ پہلو دفن ہونے نہ دینگے۔ وہ جو امریکی قاتل کو اسکے جرم کی سزا نہ دے سکیں ’’اپنی بیٹی‘‘ کو شوہر کی قبر تک رسائی سے روک کر اپنے اختیارات اور طاقت کا اظہار تو کر ہی سکتے ہیں۔
امریکی بربریت ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے ہمارے سروں پر آپہنچی گزشتہ بارہ سال سے امریکیوں نے پاکستان کو اپنی شکار گاہ بنا رکھا ہے۔ پہاڑوں، جنگلوں میں ہمارے بچوں کو شکار کرتے رہے اب پیشہ ور قاتلوں کی ٹولیوں کے ساتھ ہمارے شہروں میں اتر آئے ہیں۔ پاکستانیوں کا شکار کرنا یا کبھی زندہ پکڑ کے لے جانا ان کا پسندیدہ مشغلہ قرار پایا ہے۔ ہمارے حکمران امریکی آدم خوروں کیلئے اپنے شہریوں کو ’’ہانکا‘‘ کرتے ہیں کہ ہم وطنوں کو گھروں اور پناہ گاہوں سے نکال کر امریکی درندوں کی خون خواری کو تسکین دیں۔ جس طرح شکار کی پابندی کے دنوں میں غیر ملکی سربراہوں کی میزبانی کیلئے تیتر کے شکار کی اجازت دے کر خوش کیا اور مشکور بنایا جاتا ہے اسی طرح امریکیوں کیلئے پاکستانیوں کا قتلِ عام اور زندہ پکڑ کر حوالے کرنا ’’گویا کالے تیتر تحفے میں دینا ہے‘‘ افغان سرحد کیساتھ ہمارے قبائلی علاقوں میں ڈرون طیاروں کی غارت گری اب قتلِ عام کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
ایک طرف ہمارے سیاسی جمہوری حکمرانوں کے احساس، حمیت، غیرت پر سوالیہ نشان ہے تو دوسری طرف دنیا کی بہترین تربیت یافتہ، منظم، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اکلوتی مسلم فوج کی پیشہ وارانہ مہارت کا مذاق اڑاتی ہے اور سرحدوں کی حفاظت کیلئے سربکف فوج کے زبانی دعوؤں کی عملی تردید بھی ہے۔ گویا ہماری فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے نزدیک انڈیا کے ہاتھوں پاکستانیوں کی ہلاکت قابلِ اعتراض جرم ہے جس کا طاقت سے جواب دینے کیلئے ہم نے اپنے قومی وسائل کا کثیر اور بہترین حصہ وقف کر رکھا ہے اگر یہی ہلاکت امریکی فوج یا ایجنسیوں کے ہاتھوں ہوتو ہم وطنوں کی لاشیں اٹھانا گویا اعزاز کی بات ہے؟
کراچی تین سال میں چار ہزار بے گناہوں کا قتل، بلوچستان میں آئے روز کی خونریزی، پنجاب اور سرحد میں بم دھماکے، خودکش حملے اور قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہر ہفتے درجنوں افراد کی شہادت قبائلی ملکوں کو چن چن کے ختم کیا جانا گویا کیڑے مکوڑوں اور مکھی، مچھر کا اتلاف ہے جس پر کسی کو شرمندگی ہے نہ پاس ذمہ داری، تیسری دنیا خصوصاً مسلمان ملکوں کی حکومتیں امریکی آقاؤں کا پہلا دفاعی حصار ہیں‘ ان خاندان غلامان کے حکمرانوں کی لاش پر سے گزر کر ہی کوئی امریکی قاتل درندوں تک پہنچ سکتا ہے کہ ہمارے حکمران انکے شکاری کتوں کے رکھوالے ہیں‘ ایسے شکاری کتے، جن کی قیمت رکھوالے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ یہ رکھوالے ’’اپنے کتوں کے ، کتوں سے زیادہ وفادار ہیں کہ ’’مالک دا در مول نہ چھڈے‘ پاواں سو سو مارن جُتے‘‘ امریکیوں اور انکے سفارت خانوں نے پاکستان میں جو کہرام مچا رکھا ہے، جس طرح قاتلوں، خونیوںجرائم پیشہ عناصر کو اپنی عمارتوں میں پناہ دے رکھی ہے کوئی بعید نہیں کہ ’’ایران میں امریکی سفارت خانے کی طرح لاہور، کراچی، اسلام آباد میں سفارتی عملہ یرغمال بنا لیا جائے؟ مگر شہید فہیم کی والدہ اپنی بہو کو بیٹے کے پہلو میں دفن کرنے پر اصرار کر رہی ہے۔ ’’وہ کہتی ہے کہ ’’نااہل اور بے حس حکمرانو تم ہماری جان کی حفاظت نہیں کرسکتے تو مر کے پہلو بہ پہلو دفن سے کیوں روکتے ہو؟

No comments:

Post a Comment