Aaj kamran khan ke saath - 8th february 2011
Aaj ki khabar - 8th february 2011
Bolta pakistan - 8th february 2011
Way Of Justice
Broad Mind......Oria Maqbool
Return To Back Him.....Abdul Qader Hasan
Who Wash ........Abdullah Tariq
”ریمنڈ کو جلد رہا نہ کرنے کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے“ امریکی سفیر کا صدر زرداری کو سخت پیغام
ـ 21 گھنٹے 31 منٹ پہلے شائع کی گئی
- Adjust Font Size
اسلام آباد (جاوید صدیق+ نیشن رپورٹ+ ایجنسیاں) امریکی سفیر کیمرون منٹر نے گذشتہ روز ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور ان سے دوطرفہ تعلقات کے علاوہ لاہور میں گرفتار ہونے والے امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر تبادلہ خیال کیا۔ کیمرون منٹر جو لاہور کے واقعہ کے بعد صلاح مشورہ کے لئے واشنگٹن چلے گئے تھے نے صدر زرداری کو امریکی قیادت کا پیغام بھی پہنچایا اور صدر پر واضح کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے اور وہ سفارت کاروںکے زمرے میں آتا ہے اُسے بین الاقوامی قانون کے تحت رہا کرایا جائے۔ امریکی سفیر نے امریکہ کے اس مﺅقف کو دہرایا کہ پاکستان ریمنڈ ڈیوس کو حراست میں رکھ کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ قابل اعتبار ذرائع نے نوائے وقت کو بتایا کہ صدر زرداری نے امریکی سفیر سے کہا کہ ایک مقتول کی بیوہ کی خودکشی کے بعد صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ ریمنڈ کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے عدالت جو فیصلہ کرے گی اس پر عملدرآمد ہو گا۔ امریکی سفارتخانہ کی ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کیمرون منٹر نے صدر زرداری سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان غیرقانونی طور پر گرفتار ایک باشندے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرے۔ رات نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے سفارتخانہ کی خاتون ترجمان نے کہا کہ ہمارے خیال میں ریمنڈ ڈیوس کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔ ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا لاہور کے واقعہ میں جاں بحق ہونے والے ایک پاکستانی کی بیوی نے جو خودکشی کی ہے اس سے صورت حال پیچیدہ نہیں ہو گئی تو ترجمان نے کہا کہ ہمیں اس واقعہ پر دکھ ہے لیکن اس سے زیادہ اس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا صدر نے امریکی شہری کی رہائی کی یقین دہانی کرائی ہے تو ترجمان نے کہا کہ اس بارے میں آپ ایوان صدر سے پوچھیں۔ نیشن رپورٹ کے مطابق امریکہ نے پھر ریمنڈ ڈیوس کو جلد رہا نہ کرنے پر پاکستان کو سنگین نتائج کی وارننگ دی ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی سفیر نے صدر زرداری کو ملاقات کے دوران سخت پیغام پہنچایا۔امریکی سفارتخانے کی خاتون ترجمان کورٹنی بیلی کے مطابق کیمرون منٹر نے صدر سے کہا کہ پاکستان کو عالمی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں اور امریکی سفارتکار کو فوری رہا کرنا چاہئے۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ ملاقات میں دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال ہوا تاہم انہوں نے تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق امریکی سفیر نے اپنے شہری ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ دوران حراست سفارتی تقاضوں کے مطابق سلوک کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں آئین و قانون کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ملاقات کے بعد صدر زرداری نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر قانونی پہلوﺅں کا جائزہ لینے کے لئے وفاقی وزیر قانون و انصاف بابر اعوان کو طلب کیا جنہوں نے صدر کو اس بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ اس سے قبل برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن نے بھی صدر زرداری سے ملاقات کی جس میں پاکستان، برطانیہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آن لائن کے مطابق صدر زرداری نے سری لنکن ہم منصب مہندا راجہ پکسے کو ٹیلی فون کیا اور سری لنکا میں سےلاب سے ہونے والی تباہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کی بحالی کیلئے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اے پی پی کے مطابق ایوان صدر میں جاپان کے سفیر چیرواتسومی سے گفتگو کے دوران صدر نے پاکستان اور جاپان کے درمیان باہمی تعاون کو مزید وسعت دینے پر زور دیا۔
You might also like:
جمہوریت کی بقاء کیلئے آزاد عدلیہ کی ضرورت.... حکمران چیف جسٹس افتخار چودھری کے حریف نہیں‘ حلیف بنیں
چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ نے آئین سے انحراف کا سلسلہ بند کرکے قانون کی حکمرانی قائم کی ہے‘ آئین اور قانون کی حکمرانی ہی جمہوری نظام کی بقاء کی ضمانت ہے جبکہ بنیادی حقوق کے تحفظ اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے آزاد عدلیہ ناگزیر ہے۔ گزشتہ روز بھارت کے شہر حیدرآباد دکن میں منعقدہ دولت مشترکہ کی 17ویں لاء کانفرنس میں کلیدی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عدلیہ نے اپنی آزادی کو ہر حالت میں یقینی بنایا ہے جبکہ منتخب جمہوری حکومت نے فوجی آمر کے غیرآئینی اقدامات کو تحفظ نہیں دیا تو انہیں ختم بھی نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ فوجی آمر کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ اور دوسرے غیرقانونی اقدامات کو سپریم کورٹ نے غیرآئینی قرار دیا جبکہ 3؍ نومبر 2007ء کے ان غیر آئینی اقدامات کی وکلائ‘ طلبہ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی نے مزاحمت کی تھی جس کے نتیجہ میں بالآخر ملک میں آزاد عدلیہ بحال ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کیلئے مضبوط آئینی اور قانونی فریم ورک بہت ضروری ہے اور جمہوریت کی بقاء آزاد عدلیہ سے ہی ممکن ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تصور سول معاشرت میں ہی مستحکم ہوتا ہے‘ جس معاشرے میں عدلیہ آزاد ہو گی تو اسکی بدولت انصاف کا ہی بول بالا نہیں ہوگا‘ آئین و قانون کی حکمرانی بھی مستحکم ہوتی رہے گی جبکہ فوجی آمریتوں میں سب سے پہلے عدلیہ اور میڈیا کی آزادی ہی سلب کی جاتی ہے تاکہ وہ سول معاشرے کیلئے راہ ہموار نہ کر سکیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں فوجی آمریتوں نے سول معاشرت کو ہی تہس نہس نہیں کیا‘ ملک کی سالمیت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ایوب خان نے منتخب جمہوری نظام پر شب خون مارنے کی ابتداء کی جو ان کا سب سے بڑا جرم تھا کہ انہوں نے سسٹم کو ٹریک ہی سے اتار دیا‘ نتیجتاً ہم آج بھی سسٹم کی بقاء کیلئے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور مہذب معاشرے کے ثمرات سے محروم ہیں۔ دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ نے ملک کو دولخت کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور اس طرح قائد کے پاکستان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ تیسرے جرنیلی آمر ضیاء الحق نے یہ کہہ کر سیاچن گلیشئر ملک کے بدترین دشمن بھارت کے حوالے کر دیا کہ اس پر تو گھاس بھی نہیں اگتی۔ چوتھے جرنیلی آمر مشرف نے اپنی یونیفارم کو اپنی کھال کا حصہ قرار دیکر اپنے عمر بھر کے یکا و تنہاء اقتدار کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جس کیلئے انہوں نے اپنے پیشرو جرنیلی آمروں کی پیروی کرتے ہوئے مفاد پرست سیاست دانوں کو اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔
یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اسکے قیام سے اب تک کا آدھے سے زیادہ عرصہ فوجی آمریتوں کے آسیب کے نیچے گزرا ہے جس کے باعث یہاں جمہوریت اور جمہوری اقدار پنپ نہیں پائیں اور ملک کی اس صورتحال میں ہماری عدلیہ کا ماضی بھی تابناک نہیں ہے جس نے مشرف سمیت ہر فوجی آمر کو نظریہ ضرورت کے تحت قبول کیا۔ اسکے ماورائے آئین اقدامات کو جائز قرار دیا جبکہ مشرف کو تو انکی طلب کے بغیر ہی آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیدیا گیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس لحاظ سے تاریخ ساز شخصیت ہیں کہ انہوں نے جرنیلی آمریتوں کا لاگو کردہ ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کیلئے نعرۂ مستانہ بلند کیا اور مشرف اور انکی پوری باوردی ٹیم کے سامنے جرأت انکار کا مظاہرہ کرتے ہوئے سول معاشرے کیلئے زہر قاتل بننے والی اس باوردی آمریت کو چیلنج کرتے ہوئے گھٹن کا شکار معاشرے میں شعور و آگہی کی نئی روح پھونکی جن کے دکھائے گئے حوصلے کی بنیاد پر سول سوسائٹی متحرک ہوئی اور جرنیلی آمریت کو دفن کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ انکے پیدا کردہ سوچ کے اس انقلاب نے ہی موجودہ سلطانی ٔ جمہور کیلئے راستہ نکالا تھا اور اس تناظر میں پوری قوم کو توقع تھی کہ منتخب حکمران فوجی آمریتوں کو سہارا دینے والی سیاست دانوں کی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سلطانیٔ جمہور کے استحکام کی خاطر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو یقینی بنائینگے اور اس سلسلہ میں اقتدار میں آتے ہی مشرف کی معزول کی گئی آزاد عدلیہ کو بحال کرکے اسکی معاونت سے مشرف آمریت کے ڈالے گئے گند کی صفائی کا آغاز کر دینگے مگر عوام کے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کی مسند پر براجمان ہونیوالے ان حکمرانوں نے نہ صرف عوام کی جانب سے منہ موڑ لیا بلکہ مشرف آمریت ہی کی پالیسیاں اختیار کرتے ہوئے آزاد عدلیہ کی بحالی کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں جبکہ امریکی تابعداری والی مشرف آمریت کی پالیسیوں کا دامن تھام کر عوام کی دفن کردہ اس جرنیلی آمریت کے تن مردہ میں بھی نئی روح پھونک دی۔
اگر اپنے مسائل سے عاجز آئے عوام کے لانگ مارچ کے نتیجہ میں حکمران آزاد عدلیہ کو بحال کرنے پر مجبور نہ ہوتے تو آج ملک میں جمہوریت کا مستقبل تاریک ہی نہ ہوتا۔ حکمرانوں کی بداعمالیوں اور بدنظمیوں کی وجہ سے لوگ سلطانیٔ جمہور سے بھی متنفر ہو جاتے جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے آزاد عدلیہ کی بحالی کے بعد قانون و آئین کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کیلئے پیش رفت کی اور عدلیہ سمیت تمام اداروں میں مشرف آمریت کے پیدا کردہ گند کی صفائی کا آغاز کیا جس سے عوام میں اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے بھی امید کی کرن پیدا ہوئی اور جمہوریت کے استحکام کی راہ بھی ہموار ہوئی‘ اس تناظر میں تو موجودہ حکمرانوں کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں آزاد عدلیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ایک پریشر ککر کا کام کرتے ہوئے انہیں روٹی روزگار کے مسائل کی بنیاد پر عوام میں پیدا ہونیوالے غصے اور سخت ردعمل سے بچائے رکھا ہے مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ سیاسی جمہوری حکمرانوں نے نہ صرف ماضی کے تلخ تجربات سے سبق نہیں سیکھا‘ بلکہ اپنے اقدامات کے ذریعہ لوگوں کو سلطانیٔ جمہور سے متنفر کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نہ صرف قانون و آئین کی حکمرانی کے تصور کو خراب کیا بلکہ عدلیہ کی مزاحمت کرکے اور اسکے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے انصاف کی عملداری کو بھی بے معنی بنانے کی کوشش کی۔
اگر آج جمہوریت کو آئے روز جھٹکے لگتے نظر آتے ہیں اور ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والی کیفیت بنتی رہتی ہے تو اس میں کسی اور کا نہیں‘ اللے تللوں میں مصروف موجودہ حکمران طبقات کی اپنی ہی بداعمالیوں کا عمل دخل ہے جس کے نتیجہ میں اب لوگوں کو سلطانی ٔ جمہور کے مقابلے میں اپنے ہاتھوں دھتکاری گئی جرنیلی آمریت بھی بھلی نظر آنے لگی اور اپنے لئے پیدا ہونیوالے انہی سازگار حالات کے باعث مشرف ملک سے باہر بیٹھے سلطانی ٔ جمہور کو للکارے مارتے نظر آتے ہیں۔
بجائے اسکے کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے حکمران طبقات آزاد عدلیہ کی مدد سے ملک اور عوام کے اچھے مستقبل کی امید بنیں‘ وہ ایڈہاک ازم کی بنیاد پر اپنی حکومت کو اپنے ہی پیدا کردہ کسی نہ کسی بحران سے وقتی طور پر بچا کر اپنی کرسی کی مضبوطی کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ایسی ہی رجائیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اقتدار کیلئے ’’سب اچھا‘‘ کا ماحول بناتے نظر آئے ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اندرونی وبیرونی سب سے زیادہ خطرات موجودہ حکومت کو ہی لاحق ہیں جس میں انکی اپنی بے تدبیریوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔
اگر سلطانی ٔ جمہور پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے تو پھر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور عوام کے تجسس کے مطابق ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو محض زبانی کلامی نہیں‘ عملی طور پر بھی یقینی بنانا ہو گا۔ عدلیہ نے تو اس معاملہ میں واضح گائیڈ لائن دے دی ہے‘ اگر حکمران عدلیہ کی آزادی ہی کے درپے نظر آئینگے تو اپنے آگے خود ہی گڑھا کھودیں گے۔
عالمی بنک کا ٹیکسوں میں اضافہ پر زور
عالمی بنک نے کہا ہے کہ پاکستان نے ٹیکسوں میں اضافہ نہ کیا تو معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔
عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کی معیشت کی مضبوطی سے زیادہ اپنے قرض کی وصولی کی فکر ہے‘ جو اسے بمعہ سود مل رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی اور امداد پر ہے۔ قرض برائے قرض لینے کی عادت پڑ چکی ہے‘ کیسے چکانا ہے‘ اسکی حکمرانوں نے کبھی پروا نہیں کی۔ اب تو قرض چکانے کیلئے بھی قرض لیا جاتا ہے۔ اس پر قرض خواہوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ وہ پاکستان کی معیشت پر اپنے آہنی پنجے گاڑنا چاہتے تھے‘ جس میں وہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہیں تو اپنے سود سے غرض ہونی چاہیے لیکن پاکستان کے مالیاتی امور میں بے جا مداخلت کرتے ہیں۔ بجلی‘ گیس‘ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کیلئے دبائو ڈالتے ہیں۔ حالانکہ حکومتی آمدن میں اضافے کے دیگر ذرائع بھی ہیں۔ ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے‘ دیگر ادارے بھی اس مرض سے محفوظ نہیں ہیں۔ اگر کرپشن پر قابو پالیا جائے تو یقیناً بجلی تیل اور گیس کے نرخ بڑھانے پڑیںگے ‘ نہ نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہے۔ اوپر سے حکمرانوں کے بلاجواز اخراجات ان میں معقول کمی کرکے بھی اربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں۔
سالانہ اربوں روپے کی بجلی اور گیس چوری ہوتی ہے اور کئی علاقوں میں بلوں کی ادائیگی کا کلچر ہی نہیں ہے۔ ایسی بدنظمی پر قابو پا کر بھی قومی خزانے کی آبیاری کی جا سکتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے حکومت کو ٹیکس کی شفاف وصولی اور کرپشن پر قابو پانے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے؟ ایک آسان حل ڈھونڈ لیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ ان پر بوجھ بڑھاتے چلے جائو۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہاں میں ہاں نہ ملاتے چلے جائیں۔ جس سے وہ مزید عوامی نفرت کا نشانہ بنیں گے۔ اپنے بگڑے معاملات سلجھانے کی کوشش کریں اور عالمی مالیاتی اداروں کے پنجہ استبداد سے نکل کر خود انحصاری کی طرف قدم بڑھائیں۔
مقتول فہیم کی بیوہ کی خودکشی
امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونیوالے فہیم کی بیوہ نے ملزم کی رہائی کے خدشے پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی۔
ریمنڈ ڈیوس کے اقبال جرم کے بعد اسے پروٹوکول دینا‘ مقتولین کے ورثاء کو ہراساں کرنا انہیں قاتل کو معاف کرنے پر دبائو ڈالنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ جب ورثاء کہہ رہے ہیں کہ انہیں خون کے بدلے خون چاہیے تو پاکستانی حکام دوستوں کے توسط سے دبائو کیوں ڈال رہے ہیں؟ کبھی امریکی سفارتخانہ سفارتی استثنیٰ کی بات کرتا ہے‘ کبھی امریکی ٹی وی فوکس ڈیوس کی جلد رہائی کا شوشہ چھوڑتا ہے۔ اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر فہیم کی بیوہ شمائلہ کنول نے احتجاجاً خودکشی کرلی ہے اور اسکے لواحقین کے بقول یہ قتل بھی ملزم ریمنڈ ہی کے سر ہے۔ امریکہ نے 2 ارب کی فوجی امداد کو اب ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے مشروط کر دیا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ آئندہ پیشی پر حکومت عدالت میں ڈیوس کا سفارتی استثنیٰ سرٹیفکیٹ پیش کر دیگی جس کے بعد اسے باعزت طور پر امریکہ بھجوا دیا جائیگا۔
ایک امریکی قاتل شہری کیلئے پوری امریکی حکومت متحرک ہو چکی ہے‘ ہماری حکومت امریکی جنگ لڑنے کیلئے عافیہ صدیقی کی واپسی کی شرط کیوں نہیں رکھتی؟ پاکستان ایک آزاد ملک ہے‘ خدا کیلئے اسے امریکہ کے پاس گروی مت رکھیں‘ ڈیوس کو اگر حکومت نے رہا کر دیا تو امریکہ سفیروں کے روپ میں قاتلوں اور مخبروں کو بھیجنا شروع کر دیگا۔ جو قوم کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔
حکومت ہوش کے ناخن لے اور ڈیوس کے ساتھ پاکستانی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور مقتول فہیم کی اہلیہ کی خودکشی کی وجوہات جاننے کیلئے عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ آخر کن وجوہات کی بناء پر اس نے خودکشی کی‘ دبائو ڈالنے والے کون ہیں؟ تاکہ پاکستانی قوم میں پائی جانیوالی بے چینی ختم ہو سکے۔ پاکستان آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ اسے اپنے مروجہ قوانین کے مطابق ڈیوس پر مقدمہ چلانا چاہئے۔ عدالت جو سزا دے اس پر عملدرآمد ہو۔ ایران کی مثال سامنے ہے۔ اس نے عراق سے ایران میں گھس آنے والے تین کوہ پیمائوں پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جس طرح ایران کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لایا پاکستانی حکمرانوں کو بھی کسی دبائو میں نہیں آنا چاہئے۔
یہ حقیقت ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تصور سول معاشرت میں ہی مستحکم ہوتا ہے‘ جس معاشرے میں عدلیہ آزاد ہو گی تو اسکی بدولت انصاف کا ہی بول بالا نہیں ہوگا‘ آئین و قانون کی حکمرانی بھی مستحکم ہوتی رہے گی جبکہ فوجی آمریتوں میں سب سے پہلے عدلیہ اور میڈیا کی آزادی ہی سلب کی جاتی ہے تاکہ وہ سول معاشرے کیلئے راہ ہموار نہ کر سکیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں فوجی آمریتوں نے سول معاشرت کو ہی تہس نہس نہیں کیا‘ ملک کی سالمیت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ایوب خان نے منتخب جمہوری نظام پر شب خون مارنے کی ابتداء کی جو ان کا سب سے بڑا جرم تھا کہ انہوں نے سسٹم کو ٹریک ہی سے اتار دیا‘ نتیجتاً ہم آج بھی سسٹم کی بقاء کیلئے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور مہذب معاشرے کے ثمرات سے محروم ہیں۔ دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ نے ملک کو دولخت کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور اس طرح قائد کے پاکستان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ تیسرے جرنیلی آمر ضیاء الحق نے یہ کہہ کر سیاچن گلیشئر ملک کے بدترین دشمن بھارت کے حوالے کر دیا کہ اس پر تو گھاس بھی نہیں اگتی۔ چوتھے جرنیلی آمر مشرف نے اپنی یونیفارم کو اپنی کھال کا حصہ قرار دیکر اپنے عمر بھر کے یکا و تنہاء اقتدار کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جس کیلئے انہوں نے اپنے پیشرو جرنیلی آمروں کی پیروی کرتے ہوئے مفاد پرست سیاست دانوں کو اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔
یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اسکے قیام سے اب تک کا آدھے سے زیادہ عرصہ فوجی آمریتوں کے آسیب کے نیچے گزرا ہے جس کے باعث یہاں جمہوریت اور جمہوری اقدار پنپ نہیں پائیں اور ملک کی اس صورتحال میں ہماری عدلیہ کا ماضی بھی تابناک نہیں ہے جس نے مشرف سمیت ہر فوجی آمر کو نظریہ ضرورت کے تحت قبول کیا۔ اسکے ماورائے آئین اقدامات کو جائز قرار دیا جبکہ مشرف کو تو انکی طلب کے بغیر ہی آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیدیا گیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس لحاظ سے تاریخ ساز شخصیت ہیں کہ انہوں نے جرنیلی آمریتوں کا لاگو کردہ ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کیلئے نعرۂ مستانہ بلند کیا اور مشرف اور انکی پوری باوردی ٹیم کے سامنے جرأت انکار کا مظاہرہ کرتے ہوئے سول معاشرے کیلئے زہر قاتل بننے والی اس باوردی آمریت کو چیلنج کرتے ہوئے گھٹن کا شکار معاشرے میں شعور و آگہی کی نئی روح پھونکی جن کے دکھائے گئے حوصلے کی بنیاد پر سول سوسائٹی متحرک ہوئی اور جرنیلی آمریت کو دفن کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ انکے پیدا کردہ سوچ کے اس انقلاب نے ہی موجودہ سلطانی ٔ جمہور کیلئے راستہ نکالا تھا اور اس تناظر میں پوری قوم کو توقع تھی کہ منتخب حکمران فوجی آمریتوں کو سہارا دینے والی سیاست دانوں کی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سلطانیٔ جمہور کے استحکام کی خاطر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو یقینی بنائینگے اور اس سلسلہ میں اقتدار میں آتے ہی مشرف کی معزول کی گئی آزاد عدلیہ کو بحال کرکے اسکی معاونت سے مشرف آمریت کے ڈالے گئے گند کی صفائی کا آغاز کر دینگے مگر عوام کے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کی مسند پر براجمان ہونیوالے ان حکمرانوں نے نہ صرف عوام کی جانب سے منہ موڑ لیا بلکہ مشرف آمریت ہی کی پالیسیاں اختیار کرتے ہوئے آزاد عدلیہ کی بحالی کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں جبکہ امریکی تابعداری والی مشرف آمریت کی پالیسیوں کا دامن تھام کر عوام کی دفن کردہ اس جرنیلی آمریت کے تن مردہ میں بھی نئی روح پھونک دی۔
اگر اپنے مسائل سے عاجز آئے عوام کے لانگ مارچ کے نتیجہ میں حکمران آزاد عدلیہ کو بحال کرنے پر مجبور نہ ہوتے تو آج ملک میں جمہوریت کا مستقبل تاریک ہی نہ ہوتا۔ حکمرانوں کی بداعمالیوں اور بدنظمیوں کی وجہ سے لوگ سلطانیٔ جمہور سے بھی متنفر ہو جاتے جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے آزاد عدلیہ کی بحالی کے بعد قانون و آئین کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کیلئے پیش رفت کی اور عدلیہ سمیت تمام اداروں میں مشرف آمریت کے پیدا کردہ گند کی صفائی کا آغاز کیا جس سے عوام میں اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے بھی امید کی کرن پیدا ہوئی اور جمہوریت کے استحکام کی راہ بھی ہموار ہوئی‘ اس تناظر میں تو موجودہ حکمرانوں کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں آزاد عدلیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ایک پریشر ککر کا کام کرتے ہوئے انہیں روٹی روزگار کے مسائل کی بنیاد پر عوام میں پیدا ہونیوالے غصے اور سخت ردعمل سے بچائے رکھا ہے مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ سیاسی جمہوری حکمرانوں نے نہ صرف ماضی کے تلخ تجربات سے سبق نہیں سیکھا‘ بلکہ اپنے اقدامات کے ذریعہ لوگوں کو سلطانیٔ جمہور سے متنفر کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نہ صرف قانون و آئین کی حکمرانی کے تصور کو خراب کیا بلکہ عدلیہ کی مزاحمت کرکے اور اسکے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے انصاف کی عملداری کو بھی بے معنی بنانے کی کوشش کی۔
اگر آج جمہوریت کو آئے روز جھٹکے لگتے نظر آتے ہیں اور ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والی کیفیت بنتی رہتی ہے تو اس میں کسی اور کا نہیں‘ اللے تللوں میں مصروف موجودہ حکمران طبقات کی اپنی ہی بداعمالیوں کا عمل دخل ہے جس کے نتیجہ میں اب لوگوں کو سلطانی ٔ جمہور کے مقابلے میں اپنے ہاتھوں دھتکاری گئی جرنیلی آمریت بھی بھلی نظر آنے لگی اور اپنے لئے پیدا ہونیوالے انہی سازگار حالات کے باعث مشرف ملک سے باہر بیٹھے سلطانی ٔ جمہور کو للکارے مارتے نظر آتے ہیں۔
بجائے اسکے کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے حکمران طبقات آزاد عدلیہ کی مدد سے ملک اور عوام کے اچھے مستقبل کی امید بنیں‘ وہ ایڈہاک ازم کی بنیاد پر اپنی حکومت کو اپنے ہی پیدا کردہ کسی نہ کسی بحران سے وقتی طور پر بچا کر اپنی کرسی کی مضبوطی کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ایسی ہی رجائیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اقتدار کیلئے ’’سب اچھا‘‘ کا ماحول بناتے نظر آئے ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اندرونی وبیرونی سب سے زیادہ خطرات موجودہ حکومت کو ہی لاحق ہیں جس میں انکی اپنی بے تدبیریوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔
اگر سلطانی ٔ جمہور پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے تو پھر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور عوام کے تجسس کے مطابق ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو محض زبانی کلامی نہیں‘ عملی طور پر بھی یقینی بنانا ہو گا۔ عدلیہ نے تو اس معاملہ میں واضح گائیڈ لائن دے دی ہے‘ اگر حکمران عدلیہ کی آزادی ہی کے درپے نظر آئینگے تو اپنے آگے خود ہی گڑھا کھودیں گے۔
عالمی بنک کا ٹیکسوں میں اضافہ پر زور
عالمی بنک نے کہا ہے کہ پاکستان نے ٹیکسوں میں اضافہ نہ کیا تو معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔
عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کی معیشت کی مضبوطی سے زیادہ اپنے قرض کی وصولی کی فکر ہے‘ جو اسے بمعہ سود مل رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی اور امداد پر ہے۔ قرض برائے قرض لینے کی عادت پڑ چکی ہے‘ کیسے چکانا ہے‘ اسکی حکمرانوں نے کبھی پروا نہیں کی۔ اب تو قرض چکانے کیلئے بھی قرض لیا جاتا ہے۔ اس پر قرض خواہوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ وہ پاکستان کی معیشت پر اپنے آہنی پنجے گاڑنا چاہتے تھے‘ جس میں وہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہیں تو اپنے سود سے غرض ہونی چاہیے لیکن پاکستان کے مالیاتی امور میں بے جا مداخلت کرتے ہیں۔ بجلی‘ گیس‘ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کیلئے دبائو ڈالتے ہیں۔ حالانکہ حکومتی آمدن میں اضافے کے دیگر ذرائع بھی ہیں۔ ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے‘ دیگر ادارے بھی اس مرض سے محفوظ نہیں ہیں۔ اگر کرپشن پر قابو پالیا جائے تو یقیناً بجلی تیل اور گیس کے نرخ بڑھانے پڑیںگے ‘ نہ نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہے۔ اوپر سے حکمرانوں کے بلاجواز اخراجات ان میں معقول کمی کرکے بھی اربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں۔
سالانہ اربوں روپے کی بجلی اور گیس چوری ہوتی ہے اور کئی علاقوں میں بلوں کی ادائیگی کا کلچر ہی نہیں ہے۔ ایسی بدنظمی پر قابو پا کر بھی قومی خزانے کی آبیاری کی جا سکتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے حکومت کو ٹیکس کی شفاف وصولی اور کرپشن پر قابو پانے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے؟ ایک آسان حل ڈھونڈ لیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ ان پر بوجھ بڑھاتے چلے جائو۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہاں میں ہاں نہ ملاتے چلے جائیں۔ جس سے وہ مزید عوامی نفرت کا نشانہ بنیں گے۔ اپنے بگڑے معاملات سلجھانے کی کوشش کریں اور عالمی مالیاتی اداروں کے پنجہ استبداد سے نکل کر خود انحصاری کی طرف قدم بڑھائیں۔
مقتول فہیم کی بیوہ کی خودکشی
امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونیوالے فہیم کی بیوہ نے ملزم کی رہائی کے خدشے پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی۔
ریمنڈ ڈیوس کے اقبال جرم کے بعد اسے پروٹوکول دینا‘ مقتولین کے ورثاء کو ہراساں کرنا انہیں قاتل کو معاف کرنے پر دبائو ڈالنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ جب ورثاء کہہ رہے ہیں کہ انہیں خون کے بدلے خون چاہیے تو پاکستانی حکام دوستوں کے توسط سے دبائو کیوں ڈال رہے ہیں؟ کبھی امریکی سفارتخانہ سفارتی استثنیٰ کی بات کرتا ہے‘ کبھی امریکی ٹی وی فوکس ڈیوس کی جلد رہائی کا شوشہ چھوڑتا ہے۔ اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر فہیم کی بیوہ شمائلہ کنول نے احتجاجاً خودکشی کرلی ہے اور اسکے لواحقین کے بقول یہ قتل بھی ملزم ریمنڈ ہی کے سر ہے۔ امریکہ نے 2 ارب کی فوجی امداد کو اب ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے مشروط کر دیا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ آئندہ پیشی پر حکومت عدالت میں ڈیوس کا سفارتی استثنیٰ سرٹیفکیٹ پیش کر دیگی جس کے بعد اسے باعزت طور پر امریکہ بھجوا دیا جائیگا۔
ایک امریکی قاتل شہری کیلئے پوری امریکی حکومت متحرک ہو چکی ہے‘ ہماری حکومت امریکی جنگ لڑنے کیلئے عافیہ صدیقی کی واپسی کی شرط کیوں نہیں رکھتی؟ پاکستان ایک آزاد ملک ہے‘ خدا کیلئے اسے امریکہ کے پاس گروی مت رکھیں‘ ڈیوس کو اگر حکومت نے رہا کر دیا تو امریکہ سفیروں کے روپ میں قاتلوں اور مخبروں کو بھیجنا شروع کر دیگا۔ جو قوم کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔
حکومت ہوش کے ناخن لے اور ڈیوس کے ساتھ پاکستانی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور مقتول فہیم کی اہلیہ کی خودکشی کی وجوہات جاننے کیلئے عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ آخر کن وجوہات کی بناء پر اس نے خودکشی کی‘ دبائو ڈالنے والے کون ہیں؟ تاکہ پاکستانی قوم میں پائی جانیوالی بے چینی ختم ہو سکے۔ پاکستان آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ اسے اپنے مروجہ قوانین کے مطابق ڈیوس پر مقدمہ چلانا چاہئے۔ عدالت جو سزا دے اس پر عملدرآمد ہو۔ ایران کی مثال سامنے ہے۔ اس نے عراق سے ایران میں گھس آنے والے تین کوہ پیمائوں پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جس طرح ایران کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لایا پاکستانی حکمرانوں کو بھی کسی دبائو میں نہیں آنا چاہئے۔
You might also like:
غیرت اور موسمی پرندہ
وہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہوئی تھی۔ بے پناہ درد سے اس کا منہ نیلا اور پھر پیلا ہو رہا تھا۔ پورے بدن پر کپکپی طاری تھی ارد گرد گاڑیوں کا سمندر تھا۔ کوئی گاڑی حرکت نہیں کر رہی تھی۔ اسکے باپ نے بے بسی سے اسے دیکھا پھر رکی ہوئی گاڑیوں کے بے کنار سمندر کو دیکھا۔ اسکی ماں اسکی ہتھیلیاں مل رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آخری ہچکی لی۔ سائرن کی آوازیں آئی کہیں دور سے تیز رفتار گاڑیوں کا طوفانی قافلہ گزر رہا تھا۔ خدا خدا کر کے ٹریفک کا ٹھہرا ہوا دریا رواں ہوتا ہے۔ ٹیکسی جناح ہسپتال پہنچتی ہے۔ ’’افسوس! آپ کچھ دیر پہلے پہنچتے تو جان بچ سکتی تھی‘‘ ڈاکٹر مظلوم اور مجبور باپ کو بتاتے ہیں۔
یہ دلخراش واقعہ 29 مارچ2006ء کو پیش آیا۔ ظل ہماکراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی ہونہار طالبہ تھی۔ اس دن کراچی شہر میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف آئے ہوئے تھے۔ انکی جان کی حفاظت کیلئے کراچی کے راستے بند کر دیئے گئے تھے۔ جو گاڑی جہاں تھی وہیں روک دی گئی تھی۔ ظل ہما کے پیٹ میں درد اٹھا اور اسکے ماں باپ اسے ٹیکسی میں لٹا کر ہسپتال کی طرف بھاگے لیکن راستے تمام بند تھے۔ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔ اس سے پہلے سات جنوری کے دن پانچ افراد جنہیں دل کا دورہ پڑا تھا اور ہسپتال لے جائے جا رہے تھے، راستے میں موت کے گھاٹ اتر گئے کیوں کہ وی آئی پی کی حفاظت کیلئے ٹریفک بند تھی۔ بارہ ستمبر2010ء کو چلڈرن ہسپتال لاہور کے دروازے پر گوجرانوالہ کے فاروق کابچہ دنیا سے چل بسا۔ فاروق کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں وزیر اعلیٰ آئے ہوئے تھے، آمدورفت بند کر دی گئی تھی اسے ہسپتال کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا اور یہ تو گذشتہ ہفتے کا واقعہ ہے کہ پنجاب کے گورنر سیالکوٹ جارہے تھے۔ انکی گاڑیوں کے قافلے کی زد میں ایک ساٹھ سالہ بوڑھی عورت آ گئی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ دو ہفتے پیشتر سرگودھا میں ایک وزیر کی گاڑی نے ایک شخص کو ٹکر ماری۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا ان سارے واقعات اور ان جیسے بے شمار دوسرے واقعات کے نتیجے میں جو پاکستانی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ اسکا کوئی حساب کتاب ہوا؟ کیا جن لوگوں کی وجہ سے ٹریفک روکی گئی، ان پر کوئی مقدمہ چلا؟ کیا جن افسروں نے شہریوں پر یہ عذاب مسلط کیا، انہیں سزا ملی؟ کیا کوئی ایف آئی آر درج ہوئی؟ اگر پاکستان کے ان شہریوں کی جان کی قدر و قیمت کچھ نہیں تھی تو مجھے بتائیے کہ امریکی یا کوئی بھی غیر ملکی کسی پاکستانی کی زندگی کی قیمتی کیوں سمجھے؟
آٹھ سال پرویز مشر ف حکمران رہا۔ وہ جب بھی کراچی گیا، ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں۔ ایم کیو ایم سمیت کسی نے ہلکا سا احتجاج تک نہیں کیا۔ او پر کی سطور میں کراچی یونیورسٹی کی جس طالبہ کا ذکر کیا گیا ہے، اسکے قتل پر تو گورنر اور ناظم تک جو اس شہر کے ’’مڈل کلاس‘‘ پارٹی کے رہنما تھا، تعزیت کیلئے مظلوم مقتولہ کے گھر نہیں گئے۔ وزیراعظم جب بھی لاہور تشریف لے جاتے ہیں ٹریفک گھنٹوں بند رہتی ہے، یاسر عرفات لاہور آئے تو ٹریفک روک دی گئی اور پہروں رکی رہی، قصور کی ایک عورت نے فورٹریس سٹیڈیم کے سامنے سوزوکی ڈبے میں بچے کو جنم دیا اور اس وقت کی پنجاب حکومت کیخلاف ایف آئی آر کٹوانے دنیا سے رخصت ہو کر خدا کے حضور پہنچ گئی۔ ہمارے ملک میں انسانی جان کی اتنی بھی حرمت نہیں جتنی ایک مکھی یا ایک کاکروچ کی ہوتی ہے۔ اسکے باوجود ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکی، بھارتی اور اسرائیلی ہمارے شہریوں کی جانوں کو قیمتی گردانیں، ہمارے قوانین کا احترام کریں اور وہی کام جو پاکستانی دن میں کئی بار کرتے ہیں اور ان کا بال کوئی نہیں بیکا کر سکتا، اگر کوئی غیر ملکی کرے تو اسے چوک پر پھانسی دے دی جائے!
نہیں! ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا دنیا میں ہوا ہے نہ کبھی ہو گا۔ دنیا صرف ان لوگوں کا احترام کرتی ہے جن کا انکے اپنے ملک میں احترام کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی صرف اس ملک میں قانون کی پابندی کرتا ہے جس ملک کا حکمران طبقہ قانون کی پابندی کرتا ہے ‘ جس ملک میں پورا پورا دن مریض ہسپتال نہ پہنچ سکیں، بچے سکولوں سے گھروں میں واپس نہ آ سکیں‘ جس ملک میں عام شہری گاجر مولی کی طرح کٹتے ہوں اور اسمبلی کے ارکان کیلئے محفوظ سرنگیں بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہوں، اس ملک کے باشندوں کو قتل کرنے پر کسی ڈیوس ریمنڈ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ غیرت ایک ایسا مادہ ہے جو یا تو موجود ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ غیرت موسمی پرندہ نہیں جو ایک موسم میں حاضر ہو جائے اور دوسرے موسم میں اڑ کر دور چلا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ قاتل پاکستانی حکمران خود ہوں تو غیرت سو جائے اور قاتل غیر ملکی ہوں تو غیرت بیدار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اخباری اطلاعات کیمطابق گوری چمڑی والے قاتل کیلئے کھانا فائیو سٹار ہوٹل سے آتا ہے، وہ پولیس جو اپنے ہم وطنوں کو تفتیش کے دوران ہلاک کر دیتی ہے، اسے ’’سر‘‘ کہہ کر خطاب کرتی ہے اور رمق تک اس سے نہیں اگلوا سکی!
کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، مسئلہ واضح ہے اور آسان۔ اسے سمجھنے کیلئے فلسفہ درکار ہے نہ بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتیں، کوئی پی ایچ ڈی ہے تو وہ بھی اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے اور کوئی ان پڑھ ہے تو وہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جس دن پاکستانیوں کے پاکستانی قاتل پکڑ کر لٹکائے جائینگے۔ سات سات سالہ بچیوں پر کتے چھوڑنے والوں کو پکڑا جائیگا، ’’عوامی‘‘ نمائندے قانون کے دائرے کے اندر داخل کئے جائینگے اور ہر پاکستانی کی جان اتنی ہی قیمتی ہو جائیگی جتنی صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی، اس دن کسی ڈیوس ریمنڈ کی ہمت نہیں ہو گی کہ کسی پاکستانی کو گولی مارے اور پھر گاڑی سے اتر کر اسکی تصویریں لے۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو اسے پھانسی کے پھندے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی۔
یہ دلخراش واقعہ 29 مارچ2006ء کو پیش آیا۔ ظل ہماکراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی ہونہار طالبہ تھی۔ اس دن کراچی شہر میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف آئے ہوئے تھے۔ انکی جان کی حفاظت کیلئے کراچی کے راستے بند کر دیئے گئے تھے۔ جو گاڑی جہاں تھی وہیں روک دی گئی تھی۔ ظل ہما کے پیٹ میں درد اٹھا اور اسکے ماں باپ اسے ٹیکسی میں لٹا کر ہسپتال کی طرف بھاگے لیکن راستے تمام بند تھے۔ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔ اس سے پہلے سات جنوری کے دن پانچ افراد جنہیں دل کا دورہ پڑا تھا اور ہسپتال لے جائے جا رہے تھے، راستے میں موت کے گھاٹ اتر گئے کیوں کہ وی آئی پی کی حفاظت کیلئے ٹریفک بند تھی۔ بارہ ستمبر2010ء کو چلڈرن ہسپتال لاہور کے دروازے پر گوجرانوالہ کے فاروق کابچہ دنیا سے چل بسا۔ فاروق کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں وزیر اعلیٰ آئے ہوئے تھے، آمدورفت بند کر دی گئی تھی اسے ہسپتال کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا اور یہ تو گذشتہ ہفتے کا واقعہ ہے کہ پنجاب کے گورنر سیالکوٹ جارہے تھے۔ انکی گاڑیوں کے قافلے کی زد میں ایک ساٹھ سالہ بوڑھی عورت آ گئی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ دو ہفتے پیشتر سرگودھا میں ایک وزیر کی گاڑی نے ایک شخص کو ٹکر ماری۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا ان سارے واقعات اور ان جیسے بے شمار دوسرے واقعات کے نتیجے میں جو پاکستانی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ اسکا کوئی حساب کتاب ہوا؟ کیا جن لوگوں کی وجہ سے ٹریفک روکی گئی، ان پر کوئی مقدمہ چلا؟ کیا جن افسروں نے شہریوں پر یہ عذاب مسلط کیا، انہیں سزا ملی؟ کیا کوئی ایف آئی آر درج ہوئی؟ اگر پاکستان کے ان شہریوں کی جان کی قدر و قیمت کچھ نہیں تھی تو مجھے بتائیے کہ امریکی یا کوئی بھی غیر ملکی کسی پاکستانی کی زندگی کی قیمتی کیوں سمجھے؟
آٹھ سال پرویز مشر ف حکمران رہا۔ وہ جب بھی کراچی گیا، ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں۔ ایم کیو ایم سمیت کسی نے ہلکا سا احتجاج تک نہیں کیا۔ او پر کی سطور میں کراچی یونیورسٹی کی جس طالبہ کا ذکر کیا گیا ہے، اسکے قتل پر تو گورنر اور ناظم تک جو اس شہر کے ’’مڈل کلاس‘‘ پارٹی کے رہنما تھا، تعزیت کیلئے مظلوم مقتولہ کے گھر نہیں گئے۔ وزیراعظم جب بھی لاہور تشریف لے جاتے ہیں ٹریفک گھنٹوں بند رہتی ہے، یاسر عرفات لاہور آئے تو ٹریفک روک دی گئی اور پہروں رکی رہی، قصور کی ایک عورت نے فورٹریس سٹیڈیم کے سامنے سوزوکی ڈبے میں بچے کو جنم دیا اور اس وقت کی پنجاب حکومت کیخلاف ایف آئی آر کٹوانے دنیا سے رخصت ہو کر خدا کے حضور پہنچ گئی۔ ہمارے ملک میں انسانی جان کی اتنی بھی حرمت نہیں جتنی ایک مکھی یا ایک کاکروچ کی ہوتی ہے۔ اسکے باوجود ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکی، بھارتی اور اسرائیلی ہمارے شہریوں کی جانوں کو قیمتی گردانیں، ہمارے قوانین کا احترام کریں اور وہی کام جو پاکستانی دن میں کئی بار کرتے ہیں اور ان کا بال کوئی نہیں بیکا کر سکتا، اگر کوئی غیر ملکی کرے تو اسے چوک پر پھانسی دے دی جائے!
نہیں! ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا دنیا میں ہوا ہے نہ کبھی ہو گا۔ دنیا صرف ان لوگوں کا احترام کرتی ہے جن کا انکے اپنے ملک میں احترام کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی صرف اس ملک میں قانون کی پابندی کرتا ہے جس ملک کا حکمران طبقہ قانون کی پابندی کرتا ہے ‘ جس ملک میں پورا پورا دن مریض ہسپتال نہ پہنچ سکیں، بچے سکولوں سے گھروں میں واپس نہ آ سکیں‘ جس ملک میں عام شہری گاجر مولی کی طرح کٹتے ہوں اور اسمبلی کے ارکان کیلئے محفوظ سرنگیں بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہوں، اس ملک کے باشندوں کو قتل کرنے پر کسی ڈیوس ریمنڈ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ غیرت ایک ایسا مادہ ہے جو یا تو موجود ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ غیرت موسمی پرندہ نہیں جو ایک موسم میں حاضر ہو جائے اور دوسرے موسم میں اڑ کر دور چلا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ قاتل پاکستانی حکمران خود ہوں تو غیرت سو جائے اور قاتل غیر ملکی ہوں تو غیرت بیدار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اخباری اطلاعات کیمطابق گوری چمڑی والے قاتل کیلئے کھانا فائیو سٹار ہوٹل سے آتا ہے، وہ پولیس جو اپنے ہم وطنوں کو تفتیش کے دوران ہلاک کر دیتی ہے، اسے ’’سر‘‘ کہہ کر خطاب کرتی ہے اور رمق تک اس سے نہیں اگلوا سکی!
کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، مسئلہ واضح ہے اور آسان۔ اسے سمجھنے کیلئے فلسفہ درکار ہے نہ بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتیں، کوئی پی ایچ ڈی ہے تو وہ بھی اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے اور کوئی ان پڑھ ہے تو وہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جس دن پاکستانیوں کے پاکستانی قاتل پکڑ کر لٹکائے جائینگے۔ سات سات سالہ بچیوں پر کتے چھوڑنے والوں کو پکڑا جائیگا، ’’عوامی‘‘ نمائندے قانون کے دائرے کے اندر داخل کئے جائینگے اور ہر پاکستانی کی جان اتنی ہی قیمتی ہو جائیگی جتنی صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی، اس دن کسی ڈیوس ریمنڈ کی ہمت نہیں ہو گی کہ کسی پاکستانی کو گولی مارے اور پھر گاڑی سے اتر کر اسکی تصویریں لے۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو اسے پھانسی کے پھندے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی۔
You might also like:
Federal Cabinet allows used cars’ import on ECC’s ...
Nurses asked to wear ‘burqa’ to avoid doctors’ sexual ...
Sami Ullah Malik, Life and Death's Reality, extraordinary ...
Sami Ullah Malik, Izat e Nafas Orr Chitrool , Greatest ...
Way Of Justice ..... Javed Choudry
No comments:
Post a Comment