Thursday, February 10, 2011

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا



جاوید قریشی ـ 1 دن 1 گھنٹہ پہلے شائع کی گئی
یوں تو کہنے کو ملک میں جمہوریت قائم ہے کہ عام انتخابات کے بعد جن سےاسی جماعتوں کو عوام نے ووٹ دئےے وہی ملک کے صوبوں اور وفاق پر حکمران ہےں۔ سوائے سندھ مےں پےپلز پارٹی کے کسی اےک جماعت کو انتخابات مےںکہےں قطعی اکثرےت حاصل نہ ہو سکی۔ ہرجگہ مخلوط حکومتےں قائم ہےں اور مخلوط حکومتوں کو فےصلے کرتے وقت بہت سے عوامل کو پےش نظر رکھنا ہوتا ہے کہ کہےںکچھ کولےشن پارٹنرز کی مرضی اور منشاءکے خلاف نہ ہو جائے۔ کولےشن اےسی حکومتےں بالعموم کمزور ہوتی ہےں اور اہم فےصلے کرنے سے گرےز کرتی ہےں۔ےہ بات پاکستان مےں وفاق اور صوبائی حکومتوں کودےکھ کر آسانی سے سمجھ مےں آجاتی ہے۔ سندھ وفاق کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں اےک ہی جماعت (پےپلز پارٹی) کو صوبائی اسمبلی مےں قطعی اکثرےت حاصل تھی اور پےپلز پارٹی اس پوزےشن مےں تھی کہ خود صوبہ مےں حکومت بنا لےتی لےکن پارٹی کے بڑوں نے فےصلہ کےا کہ سندھ مےں مخلوط حکومت قائم کی جائے۔ پےپلز پارٹی کی قےادت شروع سے کہتی آئی تھی کہ وہ قومی مفاہمت اور ےکجہتی کی خاطر تمام پارٹےوں کو ساتھ لےکر چلنا چاہتی ہے۔ اس سوچ کو بڑھاوا دےنے کی خاطر ےا پھر ےہ دےکھتے ہوئے کہ سندھ کے شہری علاقوں مےں متحدہ کا اثر و رسوخ پےپلز پارٹی سے کہےں زےادہ ہے ۔حکومت سازی مےں اس جماعت کو ساتھ رکھ لےا جائے تو حکومت کرنا نسبتاً آسان ہو جائےگا، سندھ مےں بھی مخلوط حکومت قائم کرنے کا فےصلہ کےا گےا۔ مخلوط حکومتےں قائم کرنے کا خمےازہ ےہ بھگتنا پڑا کہ ہرجگہ بڑی بڑی کابےنہ وجود مےں آئی۔ ےہ غرےب ملک زبردست قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو ا ہے بڑی بڑی کابےناﺅں کا متحمل نہےں ہو سکتا۔ کروڑوں اربوں روپے غےر ترقےاتی خراجات پر خرچ ہونے لگے۔ حکومتوں کی کارگزاری بھی ماےوس کن رہی۔ ہر طرف سے کرپشن اور بدعنوانی کی صدائےں بلند ہونا شرع ہو ئےں۔ کابےنہ کے وزےر نام لے لےکر اےک دوسرے پر رشوت ، بے اےمانی اور بدعنوانی کا الزام لگاتے رہے۔الزام تراشی سے حکومت کی مقتدر ترےن شخصےات بھی محفوظ نہ رہ سکےں کرپشن ، لاکھوں نہےں کروڑوں نہےں اربوں تک جاپہنچی۔
اےک طرف غرےب نادار عوام دوسری طرف زرق برق لباس مےں ملبوس ارب پتی حکمران‘ اگر ملک کے سےاسی رہنماﺅں پر نظر ڈالی جائے تو معدودے چند بےشتر ”رہنمائ“ اےسے ہےں جو مختلف آمروں کے دور مےں ضلعوں کی سطح پرسےاست مےں داخل ہوئے ۔ ہر آمر نے لوکل گورنمنٹ پر توجوہ دی اور ان اداروں کو اپنی طاقت اور توانائی کےلئے استعمال کےا۔ ضلع کی سطح پر جو لوگ ابھر کر سامنے آئے وہی وزےر، مشےر اور وزرا اعلیٰ وغےرہ بنے۔ ان لوگوں کے ذہن اور اہلےت ضلع کی سطح سے اوپر نہ جا سکی۔ حکومت کی نااہلی کی بڑی وجہ ےہی ہے۔
حکومت کی نااہلی کے ساتھ لاءاےنڈ آرڈر کی صورت اس قدر خراب ہے کہ اس سے پہلے کبھی دےکھنے مےں نہےں آئی۔ ڈکےتی، رہزنی، اغوا برائے تاوان ، اراضی اور املاک پر ناجائز قبضے ، خواتےن کی تکلےف دہ صورت حال، عزت کےلئے قتل (Honour Killing) ، خواتےن پر تےزاب پھےنک دےنے کے بڑھتے ہوئے واقعات جس سے وہ عمر بھر اےک انمٹ عذاب مےں مبتلا ہو جائےں، اےسے سنگےن واقعات ہےں جن سے عوام پرےشان اور خوف زدہ ہےں لےکن جن کا کوئی حل ےا علاج حکومت کے بس مےں نظر نہےں آتا۔ حکمرانوں کو شوق ہوتا ہے ”اصلاحات“ کرانے کا۔ خواہ ےہ کتنی ہی سطحی ، غےر ضروری اور مضر کےوں نہ ہوں۔ 
سابق صدر مشرف نے بھی اپنی دانست مےں کچھ اےسی ہی اصلاحات لوکل گورنمنٹ اور ڈسٹرکٹ اےڈمنسٹرےشن کے نظام مےں ”بہتری“ کےلئے نافذ کےں لےکن چونکہ اصلاح متعارف کرانےوالوں کو ان نظاموں کا کوئی ادراک نہےں تھا نتےجہ ان دونوں کی بربادی مےں نکلا۔ مدتوں سے قائم ڈسٹرکٹ اےڈمنسٹرےشن کا نظام جسے عوام خوب سمجھتے تھے اور جس نے کسی موقعہ پر عوام کو ماےوس نہےں کےا اس لئے ختم کر دےا گےا کہ مشرف صاحب کے اےک منہ چڑھے جرنےل اےک ڈپٹی کمشنر سے ناجائز مراعات حاصل کرنے مےں ناکام رہے۔ فےصلہ ہوا کہ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر وغےرہ کے عہدے ہی ختم کر دئےے جائےں اور انکی جگہ اےسے عہدے دار مقرر کئے جن کے عہدوں کے نام اور ختےارات سے عوام کو قطعی آشنائی نہےں تھی، عوام پر مسلط کر دئےے گئے۔
لاکھ سمجھانے کی کوششےں کی گئےں کہ اتنا بڑا فےصلہ محدود پےمانے پر آزما کر دےکھ لےا جائے تاکہ اسکے حسن و قبح کا ادراک ہو سکے لےکن عقل کی کسی بات کی شنوائی نہےں ہوئی۔ آج ہم دےکھتے ہےں کہ ضلع جو ہمارا مضبوط انتظامی ےونٹ تھا اس کا والی وارث کوئی نہےں۔پہلے اےک ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع کے ہر مسئلہ مسائل کا ذمہ دار ہوتا تھا اورانہےں حل کرنے مےں ماےوس نہےں کرتا تھا۔ اب صورتحال مختلف ہے لےکن سنا ہے حکومت کو اپنے پےش رو کی غلطی کا احساس ہوگےاہے اور اصلاح کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس سے بد تر حال پولےس کا ہے۔ پولےس ےوں تو نےک نام کبھی بھی نہےں رہی اور بد عنوانی اور کرپشن مےں کافی اوپر کی سطح پر گنی جاتی تھی لےکن پولےس آرڈر 2001 نے تو پولےس کو مدر پدر آزادی دے دی۔ اب پولےس عملاً کسی کو جوابدہ نہےں۔ پنجاب کے اےڈووکےٹ جنرل نے سپرےم کورٹ کے سامنے تسلےم کےا کہ پولےس رےاست مےں رےاست کی حےثےت اختےار کر چکی ہے جس پر اب حکومت کا بھی اختےار نہےں چلتا۔ عوام اس صورت حال سے انتہائی پرےشان ہےں۔ پولےس کی زےادتےوں کی کہانےاں اخبارات کی زےنت بنتی ہےں۔
مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی ، معاشی بدحالی کے علاوہ ملک کو در پےش خطرناک ترےن مسائل ہےں۔ راقم نے کالموں مےں بار بار عرض کےا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کا راستہ اگر نہ روکا جائے تو ےہ دہشت گردی مےں تبدےل ہو جاتی ہے جس کی بدولت ملک مےں سےنکڑوں ہزاروں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہےں۔ امام بارگاہوں اور مساجدپرحملے، مذہبی جلوسوں پر دہشت گردی، اقلےتوں پر بے جا مظالم، انکی عبادت گاہوں اور گھروں پر حملے، ٹارگٹ کلنگ، بے گناہ جانوں کا اتلاف اسی ذےل مےں آتا ہے۔ اسکے علاوہ بزرگان دےن کے مقدس آستانوں پر حملوں مےں بھی سےنکڑوں بے گناہ ذائرےن زندگی سے ہاتھ دھو بےٹھے۔ ےہ ان بزرگان دےن کا ذکر ہے جنہوں نے پےار ، محبت اور اپنے کردار کی پاکےزگی کے ذرےعہ اللہ تعالی کا پےغام اس کی مخلوق تک پہنچاےا اور جن کی کوششوں اور تقلےد مےں بے شمار لوگوں نے برصغےر مےں اسلام قبول کےا۔ 
قارئےن کو ےاد ہو گا خےبر پختون کے شمالی علاقہ جات سے لےکر کراچی عبداللہ شاہ غازی کے مزار تک ادھر لاہور مےں داتا گنج بخش کے دربار سے لےکر پاکپتن مےں بابا فرےد گنج شکر کے مزار سب ہی دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے جس مےں سےنکڑوں زائرےن ہلاک ہوئے‘ ےہ واقعات مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے رونما ہوئے جن کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ تازہ ترےن حملہ لاہور مےں حےدر سائےں دربار پر ہوا۔ خوش قسمتی سے ےہاں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد نسبتاً کم رہی لےکن ہلاکتےں ہوئےں تو۔ مذہبی انتہا پسندی کےساتھ ساتھ ہمارا ملک دہشت گردی کا بھی شکار ہے۔ جس سے نہ مساجد محفوظ ہےں نہ نمازی، نہ چلتے پھرتے بے گناہ شہری، نہ دفتروں مےں کام کرنےوالے ملازم۔ صوبہ پختون خواہ دہشت گردی کا سب سے بڑا ٹارگٹ رہا ہے۔ پختون خواہ کے علاقے مالا کنڈ ، فاٹا، جنوبی وزےرستان، سوات وغےرہ مےں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے مےں فوج نے بڑی کامےابےاں حاصل کےں اور بڑی قربانےاں بھی دی ہےں لےکن ےہ کہنا شاےد ابھی درست نہ ہو کہ دہشت گردی کا فتنہ مکمل طور پر ختم کر دےا گےا۔ آج پشاور شہر اور اسکے گرد و نواح مےں واقع اےجنسےز دہشت گردوں کی دست برد سے مکمل طور پر محفوظ نہےں۔
ادھر معےشت تباہی کے کنارے پہنچ چکی۔ بےروزگاری اور مہنگائی نے غرےبوں کا جےنا حرام کر دےا ہے۔ بجلی اور گےس کی ناہوت نے رہے سہے کارخانوں کو بھی بند ہو جانے پر مجبور کر دےا ہے۔ روزگار ختم ہو جانے کی وجہ سے مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے ہوتے جا تے ہےں۔ آئے دن اخبارات مےں خودکشی کی خبرےں چھپتی ہےں لےکن حکومت ٹس سے مس نہےں ہوتی۔ مہنگائی بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ےہ ہے کہ حکومت ملکی سطح پر ان قوتوں پر قابو نہےں پا سکی جو مہنگائی بڑھانے کا سبب ہےں۔ اس سلسلہ مےں جن کی مثال دی جا سکتی ہے اس مےں عدلےہ کے واضح احکامات اور حکومتی وعدوں کے باوجود چےنی کی قےمت کم نہ کی جا سکی اور لوگ ابھی تک زےادہ قےمت پر عام استعمال کی ہر چےز خرےدنے پر مجبور ہےں۔ اسی طرح ذخےرہ کرنےوالے منافع خور مافےا کو بھی کنٹرول نہےں کےا جا سکا۔ےہی وجہ ہے کہ ملک مےں افراط زرکی شرح اب 16فےصد جا پہنچی ہے۔ افراط زر بڑھنے کی اےک وجہ حکومت کی جانب سے سٹےٹ بےنک اور دےگر ذرائع سے بے انداز قرض حاصل کرنا ہے جو بڑھتے بڑھتے 9.47کھرب روپے تک جا پہنچی ہے۔ قرضوں مےں اس قدر اضافہ بےن الاقوامی سطح پر مقرر کردہ حد سے تجاوز ہے۔ان قرضوں کے سود کی ادائےگی ہمارے جی ڈی پی کا 40فےصد سے زےادہ ہے جو کہ مقررہ حد 30فےصد سے متجاوز ہے۔قرضوں کا حجم بڑھتے بڑھتے جی ڈی پی کے 66فےصد تک جا پہنچی ہے۔ ےہ بہت تشوےشناک صورتحال ہے۔ےہ بھی سننے مےں آےا ہے کہ حکومت نئے نوٹ چھاپ چھاپ کر اپنی ضرورےات پوری کر رہی ہے۔ اس سے ضروری اشےاءکی قےمتوں پر مزید دباﺅ پڑتا ہے۔ حکومت ٹےکس اصلاحات نافذ کرنے مےں ابھی تک کامےاب نہےں ہو سکی۔ ادھر I.M.Fنے حکومت پر واضح کر دےا ہے کہ منظور شدہ قرض کی اگلی قسط کا اجراءٹےکس اصلاحات کے نفاذ سے مشروط ہے۔ ملک مےں ان مشکلات کو حل کرنے کے ذرائع بھی موجود ہےں۔ تھر کے علاقے مےں کوئلہ کے دنےا بھر مےں دوسرے نمبر کے ذخائر موجود ہےں جن کو اگر بجلی بنانے کےلئے استعمال کےا جائے تو 60 ہزار مےگاواٹ بجلی تےار کی جا سکتی ہے۔بلوچستان مےں رےکوڈک کی کان مےں سونے اور تانبے کے ارب ہا ڈالر کے ذخائرموجود ہےں لےکن ان سے استفادہ نہےں کےا گےا اور نہ ہی مستقبل قرےب مےں اسکا امکان نظر آتا ہے۔ 
تو ہی ناداں چند کلےوں پر قناعت کر گےا 
ورنہ گلشن مےں علاج تنگی داماں بھی تھا 
اےسے لگتا ہے کہ حکمران اقتدار پر قابض رہ کر جےبےں بھرنے کے علاوہ کسی اور چےز مےں دلچسپی نہےں رکھتے۔

No comments:

Post a Comment