پاکستان کے شہر لاہور میں واقع تاریخی بازار حسن وہ بازار ہے جہاں پچاس کی دہائی میں قانونی طور پر ناچ گانے کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن ملک میں دہشت گردی کی لہر سے یہ ثقافتی مظہر بھی ویران ہوگیا ہے۔ راتوں کو جگمانے والے بازارِ حسن میں خاموشی کا راج ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لاہور کا بازارِ حسن شہر کا کلچرل حوالہ تھا جودہشت کی گرد میں دھندلا گیا ہے۔
رقص و موسیقی کی جو عظیم روایت نوابوں، جاگیرداروں، راجوں اور مہاراجوں کے درباروں میں پروان چڑھی تھی وہ تو جاگیروں اور راجواڑوں کے ساتھ ہی دم توڑ گئی لیکن بازارِ حسن کی شکل میں اس کی جو باقیات رہ گئی تھیں، اب وہ بھی آخری دموں پر ہیں۔ لاہور کا بازارِ حسن جسے پرانے لاہوری شہر کے ماتھے کا جھومر کہتے تھے، اب گمنامی کے اندھیرے میں کھو گیا ہے۔
لاہور میں واقع تاریخی بازارِ حسن میں ناچ گانے پر موجود حالات کی وجہ سے مکمل بندش کے بعد بازار میں واقع ان تمام کوٹھوں پر تالے پڑگئے ہیں جہاں روزانہ رات کو رقص کی محفلیں سجتی تھیں۔
یہ ملک کا وہ بازار حسن تھا جہاں پر پچاس کی دہائی میں قانونی طور پر ناچ گانے کی اجازت دی گئی لیکن ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر سے یہ بازار ویران ہوگیا ہے۔
تاہم بازار حسن کے باسیوں کا کہنا ہے کہ جہاں دہشتگردی کے خطرات کے پیش نظر بازار میں ناچ گانے کا سلسلہ بند کروا دیا گیا ہے وہیں اب یہ کاروبار شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا ہے۔
دس ماہ پہلے اس علاقے میں کم شدت کے دھماکے ہوئے تھے جس کے بعد یہاں رقص کرنے والے لوگ یہاں سے چلے گئے اور اس طرح برسوں پرانی ثفاقت ختم ہوگئی۔
ڈاکٹر شہزاد آصف، ایس پی لاہور
شہر کے اس قدیم بازار حسن میں لگ بھگ تین سو سے زیادہ کوٹھے تھے جہاں روزانہ رات کو تین گھنٹے کے لیے ناچ گانا ہوتا تھا اور دس بجے سے ایک بجے تک رقص دیکھنے کی قانونی اجازت دی گئی تھی جسے بعد میں کم کر کے گیارہ بجے سے ایک بجے تک کر دیا گیا تھا۔
لیکن اب رات کے وقت یہاں خاموشی کا راج ہوتا ہے۔
اس علاقے کی بااثر شخصیت ندیم علی کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر پولیس نے بازار میں رقص کا سلسلہ بند کروا دیا ہے۔ ان کے بقول اس اقدام سے کئی افراد بے روزگار ہوئے ہیں اور اب ان لوگوں کے لیے دس بیس روپے جیسی معمولی رقم بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔
انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ بازار حسن میں تو رقص کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے تاہم شہر کے دیگر علاقوں میں رقص کی محفلیں سجانے کا سلسلہ جاری ہے۔
گانے اور رقص کو تو بند کرا دیا گیا ہے مگر اس کی جگہ برائی کا کام شروع ہوگیا ہے۔جس کام کی اجازت ہے وہ بند ہوگیا ہے جس کام پر سزا ہے اس کی اجازت ہے۔
ندیم علی
ندیم علی نے کہا کہ بازار حسن کے جن گھروں میں گانے اور موسقی کی محفلیں ہوتی تھیں اب ان گھروں پر یا تالے پڑے ہیں یا ان عمارتوں کو کاروباری لوگ خرید رہے ہیں۔ ان کے بقول ’اب بازار میں جوتوں کے کارخانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے‘ ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ساتھ دے تو بازار حسن دوبارہ آباد ہوسکتا ہے اور یہاں رقص اور موسیقی کی محفلیں شروع ہو جائیں گی۔
ادھر لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ اس بازار میں رقص اور موسیقی کی محافل کی مکمل بندش کی بڑی وجہ دہشت گردی ہے۔
لاہور پولیس کے ایس پی ڈاکٹر شہزاد آصف خان کا کہنا ہے کہ دس ماہ پہلے اس علاقے میں کم شدت کے دھماکے ہوئے تھے جس کے بعد رقص کرنے والے لوگ یہاں سے چلے گئے اور اس طرح برسوں پرانی ثفاقت ختم ہوگئی۔
ڈاکٹر شہزاد نے اس تاثر کی نفی کی کہ پولیس نے خود بازار حسن سے رقص اور موسیقی کا کام بند کروایا ہے۔
بازارِ حسن میں رقص کی بندش سے متاثر ہونے والوں میں کوٹھوں پر کام کرنے والے سازندے بھی شامل ہیں۔ ایسے ہی ایک سازندے حیدر علی کا کہنا ہے کہ ناچ گانا ہونے سے انہیں بھی روزگار مل رہا تھا لیکن بازار بند ہونے سے ان کی آمدن بھی بند ہوگئی ہے۔
بازارِ حسن میں رقص کی بندش سے متاثر ہونے والوں میں کوٹھوں پر کام کرنے والے سازندے بھی شامل ہیں۔بازار بند ہونے سے ان کی آمدن بھی بند ہوگئی ہے۔ اب ان سازندوں کی آمدن کا دارومدار بنیادی طور پر اندرون ملک و بیرونِ ملک طائفے لے جانے والے ان پروموٹرز پر ہے جن کےدفاتر اس بازار میں کوٹھوں کی جگہ کھلے نظر آتے ہیں۔
اب ان سازندوں کی آمدن کا دارومدار بنیادی طور پر اندرون ملک و بیرونِ ملک طائفے لے جانے والے ان پروموٹرز پر ہے جن کےدفاتر اس بازار میں کوٹھوں کی جگہ کھلے نظر آتے ہیں۔
اس بازار سے رقص و موسیقی کی رخصت کا اثر کبھی یہاں سجنے والی محفلوں میں آنے والے شائقین کی خاطر بنائے گئے کھانے کے مراکز کی بِکری پر بھی پڑا ہے۔
اب ان دکانوں پر وہ رش دکھائی نہیں دیتا جو کبھی اس علاقے کی پہچان تھا۔ اس بازار میں واقع سری پائے کی ایک مشہور دکان پر موجود شہزادہ پرویز بھی مشکل کا شکار نظر آئے اور ان کا کہنا تھا کہ بازار کی بندش سے آنے والوں کا رش بھی کم ہوگیا ہے اور ان کا کاروبار پہلے سا نہیں رہا۔
ہیرا منڈی یا بازار حسن میں بچ جانے والے افراد کی آج بھی یہی خواہش ہے کہ ان کے علاقے میں وہی روشنیاں دوبارہ جگمائیں جو اس بازار کی پہچان تھیں اور یہاں کی رونقیں دوبارہ بحال ہوں تاہم ایسا ہونے کا اب کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
No comments:
Post a Comment