Saturday, February 12, 2011

سرے راہے

کیانی کو بتا دیا گیا کہ ریمنڈ رہا نہ ہوا تو امداد کم ہو سکتی ہے‘ صدر زرداری کا دورۂ امریکہ خطرے میں پڑ سکتا ہے‘ امداد کم ہو سکتی ہے۔ 
ہمارے بہادر جرنیل اور سی این سی سے میونخ میں ہلیری نے جو کچھ کہا‘ اس کا جواب جنرل صاحب نے وہی دیا جس کی روشنی میں ہمارے کور کمانڈروں نے فوج کا موقف واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں ہے‘ وہی فیصلہ کریگی‘ یہی موقف ہلیری کے سامنے جنرل کیانی نے بیان کر دیا تھا۔البتہ ایک لومڑی نے شیر کو دھمکی ضرور دی ہو گی۔ 
امریکہ کی ان دھمکیوں سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اسے ریمنڈ کے عدم اسثتناء کی خبر ہے‘ اس لئے وہ اپنے دو دو ٹکے کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ زرداری کا دورۂ امریکہ خطرے میں پڑنا‘ امداد کا کم ہونا‘ یہ تو تحائف ہونگے‘ جنہیں پاکستان بخوشی قبول کریگا۔ صدر اپنی جنت میں سرخرو ہو کر بیٹھے رہیں اور امداد نہ ملے تو اس سے بڑھ کر اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ 
ریمنڈ قاتل ہے‘ امریکہ بھی قاتل ہے‘ ظاہر ہے قاتل‘ ایک قاتل کی ہی حمایت کریگا۔ امریکہ کو اپنی دولت اور سپر طاقت ہونے کا غرور ہے کیا وہ نہیں جانتا کہ…؎
قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی 
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی 
زرداری زردار ہیں‘ امریکی امداد کے طلب گار نہیں اور پھر مردحر ہیں‘ امریکی گٹار کا سُر نہیں کہ امریکہ کے اشارے پر بج اٹھے گا۔ ہمارے آرمی چیف کو دھمکی سنانا یہ تاثر دینا ہے کہ امریکہ پاکستان کی فوج کو بھی دھمکا سکتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں‘ سیاست دانوں کو اب اندازہ لگا لینا چاہیے کہ امریکہ انہیں اور پورے پاکستان کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ ریمنڈ کا مقدمہ ہماری عدالت میں ہے‘ عدالتی فیصلہ ہی ہم مانیں گے۔ افغانستان میں جھاڑی اور پتھر سے ڈر جانیوالے امریکیوں کی گیدڑ بھبکیوں سے لاالٰہ پڑھنے والے نہیں ڈریں گے۔ 
٭…٭…٭…٭
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران قمر زمان کائرہ اور بابر اعوان نے تمام وزراء کو استعفے دینے کیلئے کہا‘ ایک وزیر نے استعفیٰ دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کیا آپ فوجی ہیں‘ بابر اعوان اور قمر کائرہ نے جواب دیا‘ نہیں حوالدار ہیں۔ 
یوں کہتے کہ ڈائریکٹ حوالدار ہیں‘ تو حقیقت کے زیادہ قریب ہوتا‘ تاہم جس وزیر نے استعفیٰ سے انکار کیا اور کہا آپ فوجی ہیں‘ اسکے ذہن میں مارشل لاء کا خوف گھسا ہوا تھا‘ اس لئے اس نے دونوں استعفیٰ طلب کرنیوالے وزیروں کو بھی فوجی سمجھا۔ اگر قمر کائرہ اور بابر عوان فوجی وردی پہن آتے تو وہ منکر وزیر بھی استعفیٰ دے دیتا۔ بہرصورت خود کو حوالدار ماننا بھی اپنی حیثیت کی صحیح پہچان ہے بلکہ اپنی پارٹی کو بھی پہچان رکھا ہے۔ ظاہر ہے کون نہیں جانتا کہ حوالدار کس محکمے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بھی ڈائریکٹ حوالدار۔ 
وفاقی کابینہ کو توڑنا تو دراصل اسے جوڑنا ہے‘ اس لئے نہیں کہ خدمت خلق صحیح انداز میں نہ کرنے کے باعث کابینہ کو توڑا جا رہا ہے بلکہ اسے موڑا جا رہا ہے۔ کابینہ تو تب ٹوٹے گی کہ وفاقی کابینہ صرف 14 وزراء پر مشتمل ہو اور 96 وزراء کا بوجھ قوم کے نحیف کاندھوں سے ہٹ جائے۔ 82 وزراء کم ہوں تو کتنے غم نہ ہونگے۔ امریکی امداد کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور فارغ ہونیوالے وزراء پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے اپنے حلقوں کی خدمت کر سکیں گے۔ 
محبوب جتنے کم ہونگے‘ عشاق اتنے ہی زیادہ ہونگے اور پاکستان میں جمہوریت عشق ٹھہرے گی۔ اگر کابینہ کا حجم کم کرنے کیلئے اسے توڑا جا رہا ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے‘ مگر یہ نہ ہو کہ تھوڑے وزیر زیادہ وزیروں جتنا خرچہ شروع کر دیں۔ 
٭…٭…٭…٭
بھارت کے ایک ریاستی وزیر نے کہا ہے‘ اندرا گاندھی کے برتن دھونے پر پریتیا پاٹیل کو صدارت ملی۔ 
کہتے ہیں کہ خانخاناں کہیں سے گزر رہے تھے کہ اچانک اایک مانگنے والی نے توے کا کالا حصہ انکے سفید براق ریشمی کپڑوں سے رگڑنا شروع کر دیا۔ خانخاناں نے سبب پوچھا تو اس مانگنے والی نے کہا‘ میں نے سنا تھا کہ اگر لوہے کو پارس سے رگڑا جائے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔ خانخاناں نے توے کے وزن کے برابر سونا دینے کا حکم جاری کر دیا۔ 
اندرا گاندھی ہو یا ہمارے حکمران‘ کوئی انکے پائوں دبادے‘ مالش کر دے‘ برتن دھو دے‘ انہیں کوئی بڑا عہدہ مل ہی جاتا ہے۔ اکثر لوگ ہوائی جہاز میں بھی اس تاڑ میں رہتے ہیں کہ حکمران کی لپک کر کوئی ایسی خدمت کر دی جائے کہ انکی کایا پلٹ جائے۔ بھارتی ریاستی وزیر کے بقول ممکن ہے بھارت کی موجودہ خاتون صدر نے اپنا ہنر دکھا دیا ہو اور موقع پا کر اندرا گاندھی کے برتن چمکا دیئے ہوں اور سونیا نے اپنی ساس کی لاج رکھتے ہوئے پریتیا پاٹیل کو عہدۂ صدارت عطا کر دیا ہو۔ آخر برتن دھونے کا کرشمہ رنگ لے ہی آیا۔ بھارتی کانگریس کے دوسرے بڑے عہدیداروں کی خدمات بھی سامنے آجانی چاہئیں۔ 
یہ سلسلہ عہدہ نوازی ہمارے عہدہ نوازوں کے ہاں بھی رائج ہے اور اڑتی اڑتی خبریں بعض خواتین و حضرات کے بارے میں پھیلتی رہتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان اگرچہ بالکل دو مختلف ملک ہیں‘ مگر بعض باتوں میں ہم زلف بھی ہیں۔ یہ تو کلمہ گوئی نے فرق ڈال دیا ہے‘ وگرنہ بعض فطرتیں تو ایک جیسی بھی ہیں۔

No comments:

Post a Comment