پاکستان میں ایک ڈاکٹر نے عوام کی سیکس سے آگاہی پر کتاب لکھی ہے لیکن اس کتاب پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔
ان کی کتاب ’سیکس ایجوکیشن فار مسلم‘ یعنی مسلمانوں کے لیے جنسی تعلیم کا مقصد اسلامی تناظر میں جنسی تعلیم کو فروغ ہے۔
اکاسی سالہ ڈاکٹر مبین اختر جنہوں نے یہ کتاب لکھی ہے کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیکس پر بات ممنوع ہے اور اسی وجہ سے سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ماہرِ نفسیات کے طور پر انہوں نے خود ان نتائج کو قریب سے دیکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب لکھنے کے بارے میں سوچا۔
’سیکس کو لے کر ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘
نوجوان بچے باالخصوص لڑکے جب بالغ ہوتے ہیں اور ان کے جسم میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں انہیں لگتا ہے وہ کوئی بیماری ہے۔ وہ مشت زنی کرنے لگتے ہیں لیکن انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ ان کی صحت کے لیے بہت خراب ہے یا یہ گناہ ہے۔‘
ڈاکٹر اختر بتاتے ہیں انہوں نے ایسے معاملات دیکھے ہیں جس میں نوجوانوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم کے ساتھ کیا ہورہا ہے تو وہ بہت مایوس ہوجاتے ہیں اور حد ہے کہ وہ خودکشی بھی کرلیتے ہیں۔
’میں خود عمر کے اس مرحلے سے گزرا ہوں جب آپ کو آپ کی جنسی تبدیلوں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتاتا۔ ان غلط فہمیوں کے بارے میں مجھے تب معلوم ہوا جب میں خود میڈیکل کالج تعلیم حاصل کرنے گیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ابھی بھی پاکستان میں بہت سے ڈاکٹر جنسی مسائل پر کھل کر بات نہیں کرتے، والدین اور اساتذہ بھی اس موضوع پر بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں سیکس ایجوکیشن ہے ہی نہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں سیکس پر بات کرنا صحیح نہیں سمجھا جاتا ہے اور مانا جاتا ہے کہ اگر سیکس پر نوجوانوں سے بات کی جائے تو اس سے ان کو غیر اسلامی عمل کرنے کی ترغیب ملے گی۔
’وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن کا کب آغاز ہونا چاہیے اور میرا جواب ہے کہ جب بچے بولنا شروع کردیں۔ بچوں کو جنسی اعضاء کے نام بھی اسی طرح بتانے چاہیے جس طرح ناک، ہاتھ وغیرہ کے نام بتائے جاتے ہیں۔‘
’ایک سیاستدان نے مجھے اپنے دفتر بلاکر کہا کہ میں پورنوگرافی کو فروغ دے رہا ہوں لیکن میں نے کہا میں ایسا کچھ بھی نہیں کررہا‘
ڈاکٹر اختر
ڈاکٹر اختر کا کہنا ہے ’جب بچے تھوڑے اور بڑے ہوتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ بچے کہاں سے آتے ہیں تو جواب میں آپ ان کو صحیح بتا سکیں۔ یہ سب بتانے سے بچے جنسی طور پر زیادہ ایکٹیو یا اخلاقی طور پر بگڑتے نہیں ہیں۔‘
ڈاکٹر اختر کا کہنا ہے کہ سیکس کے بارے میں بات کرنے میں کوئی غیر اسلامی بات نہیں ہے۔
مجھے سیکس کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے سب سے بہتر طریقہ کتاب لکھ کر سمجھانا لگا۔ اور اس کتاب میں سیکس ایجوکیشن کو اسلام کے مطابق سمجھایا گیا ہے۔
’جب میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ قرآن، اسلامی قانون اور علماء اس موضع پر کیا کہتے ہیں تو میں حیران ہو گیا کہ اسلام میں سیکس کے بارے میں بہت بات ہوئی ہے۔ جنسی موضوع پر کئی احادیث ہیں۔‘
سیکس سے متعلق جن موضوعات پر ڈاکٹر اختر نے اپنی کتاب میں بات کی اس میں مشت زنی پر اسلامی رائے، شادی شدہ زندگی کے مسائل اور جنسی عمل کے بعد غسل کے طریقے شامل ہیں۔
ڈاکٹر مبین کی اس کتاب سے پاکستان میں بہت سے لوگ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے دھمکیاں ملی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بہت کم دکانیں ان کی کتاب کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ایک سیاستدان نے مجھے اپنے دفتر بلاکر کہا کہ میں پورنوگرافی کو فروغ دے رہا ہوں لیکن میں نے کہا میں ایسا کچھ بھی نہیں کررہا
No comments:
Post a Comment