Saturday, February 5, 2011

جنسی ہراساں کرنے کے رویے کی مذمت


کئی اور اداروں کی طرح، جنسی ہراس کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کے اتحاد آشا یعنی ’الائنس اگینسٹ سیکشول ہراسمنٹ‘ نے بھی اس سال کے آغاز پر کیلنڈر شائع کیا ہے مگر اس کیلنڈر پر نہ کوئی منظر کشی ہے اور نہ ہی حسین خواتین کی تصاویر ہیں۔
بلکہ ہر صفحے پر ایسے کردار ہیں جن سے خواتین کا اکثر واسطہ رہتا ہے۔
سڑکوں پر سیٹی بجانے والے حضرات، دفتر میں بےہودگی پر اتر آنےوالے افسران اور وہ جناب جو عورت کو دیکھتے ہی بدن کےمختلف اعضاء کھجانا شروع کر دیتے ہیں۔
مگر ان مزاحیہ کارٹونوں کےذریعے بنائےجانےوالےخاکوں کے پیچھے سوچ سنجیدہ ہے۔آشا کی بانی فوزیہ سعید نے پانچ سال پہلے معروف کارٹونسٹ صابر نذر کےساتھ ان کارٹون کی تخلیق کی تھی۔
خبیث آن ویل
وہ کہتی ہیں کہ ان کارٹونوں کا مقصد جنسی ہراس کا شکار ہونے والی خواتین سے توجہ ہٹا کر ہراساں کرنے والوں پر ڈالنا ہے۔مگر جرم کو سمجھنے کے لیےمجرم کے کردار کو سمجھنا اہم ہے۔
نفسیات کی بنیاد پر ہراساں کرنے والوں کی اقسام مقرر کی گئیں۔ عمر، عادات، بچپن میں متاثر کرنے والے واقعات اور اس کے بعد یہ خاکے بنائے گئے۔
اس سال کے کیلنڈر کےلیے آشا نے اپنی ویب سائٹ پر پچھلے پانچ سالوں میں تیار کیےگئے کارٹون شائع کیےاور لوگوں سے اپنے پسندیدہ خاکوں کے لیے ووٹ کرنے کی درخواست کی۔ نتائج کے مطابق سب سے مقبول خاکے اس کیلنڈر میں شامل کیےگئے ہیں۔
خاکوں کےساتھ ان کی تحریری وضاحت بھی دی گئی ہے۔مثال کےطور پر ہاتھ میں ڈنڈا تھامے ہوئے’خدائی ٹھیکیدار‘ کی تعریف ہے کہ وہ اپنی ہی طے کردہ اخلاقیات ہر ایک پر ٹھونستے ہیں اور گھر سے باہر قدم رکھنے والی عورتووں کے چہروں پر تیزاب پھینکتے ہیں۔
استاد لچا
’گائک جلابی‘ ان حضرات کے لیے ہے جن کو عورت کو دیکھتے ہی گانا گانے یا سیٹی بجانے کی بیماری ہو جاتی ہے۔اور ’گھورن چٹو‘ وہ افراد ہیں جو بس سٹاپس، بازاروں اور محفلوں میں عورتوں کو ’تاڑتے‘ ہیں۔
فوزیہ سعید اس مہم کا جواز یوں دیتی ہیں:’جن بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں وہ سوچنے لگتی ہیں کہ ان کی ہی غلطی ہوگی۔ آگے جا کر ان کی ازدواجی زندگی، ان کے شوہروں کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘
فوزیہ کہتی ہیں کہ ایسے کارٹونوں کا مقصد ان لڑکیوں کا حوصلہ بڑھانا ہے۔
’ٹھرکی بابا جیسے نام دینے سےجادو ٹوٹ جاتا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ لڑکیاں سہم کر اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے کے بجائےان مردوں کا مذاق اڑا کر ان کے خوف سے آزاد ہو جائیں۔‘
مگر ان مرد حضرات کا کیا جو ان خاکوں کو اپنی ذات کی توہین تصور کرتے ہیں؟ ان کے لیے، فوزیہ سعید کہتی ہیں، ’ہم مردوں کا مذاق نہیں اڑا رہے، ہم مزحیہ انداز میں اس طرح کے رویے کی مذمت کر رہے ہیں۔‘

No comments:

Post a Comment