دوہرے قتل کے الزام میں گرفتار امریکی، ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے تناؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ کیا یہ تناؤ دونوں ممالک کے درمیان تصادم کی شکل اختیار کرسکتا ہے؟ کیا امریکہ اپنے ایک شہری کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے؟ کیا دنیا کی سب سے طاقتور اور خون آشام ریاست، اسے پاکستان کو ایک سبق سکھانے کا جواز بنا سکتی ہے؟کیا پاکستان ہمہ پہلو دباؤ کا مقابلہ کرسکے گا؟ کیا وفاقی حکومت پورے عزم کے ساتھ حکومت پنجا ب کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی؟
ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی یہ ہے کہ قتل کی یہ واردات لاہور میں ہوئی۔ معاملہ پنجاب اور شہباز شریف سے آپڑا۔ اگر یہ واقعہ اسلام آباد یا وفاقی حکومت کے براہ راست زیر اثر علاقے میں پیش آیا ہوتا تو صورت حال قطعی مختلف ہوتی۔ میں یہ بات کسی بدگمانی یا قیاس آرائی نہیں، ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ گزشتہ برس ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے دو سفارتکار اسلام آباد کے ایک ناکے پر پکڑے گئے۔ ان کے پاس ہینڈ گرنیڈز، جدید ترین رائفلیں اور اسلحہ کی ایک کھیپ تھی۔ تھانہ سیکریٹریٹ میں ایف آئی آر کے بجائے ایک عمومی نوعیت کی شکایت درج ہوئی۔امریکی سفارتخانے کے ایک ملازم سنی کرسٹوفر نے معاملے میں براہ راست مداخلت کی۔ خبروں سے اندازہ ہوا کہ شاید ایک بڑا اسکینڈل سامنے آنے کو ہے کہ ڈنمارک، امریکیوں کو ممنوعہ اسلحہ کی فراہمی کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن دو دنوں کے اندر اندر مطلع صاف ہوگیا۔ نہ کوئی مقدمہ درج ہوا، نہ تحقیق و تفتیش ہوئی نہ بات آگے بڑھی۔ اسلام آباد کے حکمرانوں نے گوروں کی خوشنودی خاطر کے لئے سب کچھ قالین کے نیچے چھپا دیا۔
یہ جون 2009ء کا ذکر ہے۔ پشاور سے آنے والی ایک ڈبل کیبن گاڑی کو اسلام آباد کی گولڑہ چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ گاڑی رکنے کے بجائے تیزی سے کروٹ بدل کر آگے گزر گئی۔ پولیس نے اسے مشکوک خیال کرتے ہوئے اگلی چیک پوسٹ کو خبردار کردیا۔ جی نائن فور کے خیبر چوک پر گاڑی روک لی گئی۔ گاڑی سے تین امریکن برآمد ہوئے۔ انکے نام جیفری، جیفڈک اور جیمز بل بتائے گئے۔ بینڈک نامی ڈرائیور بھی امریکی تھا۔ ان سب نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور چہروں پر داڑھیاں تھیں۔ ان سے چار ایم ۔4 ، مشین گنیں اور چار نائن ایم ایم کے پسٹل برآمد ہوئے۔ فوراً پولیس کے حکام بالا اور سرکار کو آگاہ کیا گیا۔ فرمان جاری ہوا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ رخصت کردو۔ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ باز پرس کی نوبت آئی نہ یہ پتہ چل سکا کہ افغانوں جیسا حلیہ رکھنے والے یہ اسلحہ بردار امریکی کس مشن پر تھے۔
یہ 5اگست 2009ء کا ذکر ہے۔ اسلام آباد پولیس کا انسپکٹر حاکم خان، اپنی بیوی کے ہمراہ ، اپنی گاڑی میں سوار امریکی سفارت خانے کے قریب بنی چیک پوسٹ کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ ایک امریکی اہلکار جان آرسو نے گاڑی روک لی۔ وہ میاں بیوی کو بڑا بھلا کہنے اور گالیاں دینے لگا۔ پولیس انسپکٹر نے کہا…”آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ایک پبلک شاہراہ پر گاڑیاں روک کر چیک کرتے پھرو؟“ امریکی نے اپنی کمر سے پسٹل نکالا اور انسپکٹر پر تانتے ہوئے کہا ”میں کچھ بھی کرسکتا ہوں“۔ انسپکٹر حاکم خان نے واقعے کی باقاعدہ رپورٹ اپنے حکام بالا کو دی لیکن کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اس واقعے کے صرف ایک ہفتہ بعد، 12اگست 2009ء کو سفارتی انکلیو میں رہنے والا ایک نوجوان، اپنے دو دوستوں کے ہمراہ سوزوکی گاڑی میں امریکی سفارت خانے کے سامنے والی سڑک سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک امریکی جوڑا واک کررہا تھا۔ امریکی جوڑے نے کار روک کر لڑکوں سے تلخ کلامی کی۔ اس کی گاڑی کا سائیڈ مرر توڑ دیا۔ انہیں گالیاں دیں۔ تینوں نوجوانوں نے اس رویے پر احتجاج کیا۔ اس پر امریکیوں نے انہیں قریبی چیک پوسٹ پرموجود امریکی سیکورٹی گارڈز کے حوالے کردیا۔ وہ چالیس منٹ تک غیر قانونی حراست میں رکھے گئے۔ انہیں اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ کبھی اس سڑک پر گاڑی نہیں چلائیں گے۔ کوئی شکایت، کوئی ایف آئی آر نہ کٹی۔
اس واقعے کہ دو ہفتے بعد 26اگست 2009ء کو دو امریکیوں نے شیل پٹرول پمپ سپر مارکیٹ کے مالک محسن بخاری کی گاڑی روک لی۔ معاملہ شاید ڈرائیونگ میں کسی بے احتیاطی کا تھا۔ امریکیوں نے تلخ کلامی کی۔ محسن بخاری کو پکڑ کر اس کے پٹرول پمپ لے آئے۔امریکی سفارتخانے کا ایک سیکورٹی اہلکار بھی وہاں پہنچ گیا۔ دیر تک خوف و ہراس کی کیفیت کے بعد محسن بخاری کی گلو خلاصی ہوئی۔ محسن پیپلزپارٹی کے سینیٹر نیر بخاری کا قریبی عزیز ہے لیکن معاملہ وہیں ٹھپ کردیا گیا۔
دو دن بعد 28اگست 2009ء کو کشمیر ہائی وے پر پشاور موڑ کے قریب اسلام آباد پولیس نے دو گاڑیوں کو روکا۔ ایک پراڈو تھی اور دوسری ڈبل کیبن۔ ان میں چار امریکن تشریف فرما تھے۔ چاروں کے پاس ایم۔4 رائفلیں تھیں اور ایمونیشن بھی۔ دونوں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس جعلی تھیں۔ چاروں نے بتایا کہ وہ امریکی فوجی ہیں۔ ان کے پاس اسلحے کا کوئی لائسنس تھا نہ سفارتخانے کا کوئی اجازت نامہ۔ ایک افغان باشندہ احمداللہ بھی ان کے ہمراہ تھا۔جس نے بتایا کہ وہ امریکی سفارت خانے میں قیام پذیر ہے۔ پولیس اہلکاروں نے اسلام آباد کے بڑوں کو اطلاع کی اور معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔
اور یہ جون 2010 ء کا ذکر ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والا گیری بروکس فاکنر نامی ایک شخص چترال سے گرفتار ہوا۔ اس کی تلاشی لی گئی۔ ایک پسٹل، ایک خنجر، چالیس انچ لمبی تلوار اور اندھیرے میں دیکھنے والی خصوصی عینک برآمد ہوئی۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ برس کے دوران وہ سات بار پاکستان آچکا ہے۔ تمام حقائق اسلام آباد کے حاکموں کے علم میں لائے گئے۔ حکم صادر ہوا کہ شہنشاہ عالم پناہ کی بارگاہ اقدس سے تعلق رکھنے والے معزز مہمان کو عزت و احترام کے ساتھ امریکی سفارتخانے پہنچا دیا جائے۔
یہ اور اس طرح کے درجنوں دوسرے واقعات نے امریکیوں کے حوصلے بڑھا دیئے۔ جعلی پلیٹوں والی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر جدید اسلحہ سمیت مٹر گشت کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اسلام آباد ان کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ سیکڑوں مکانات اب ان کی تحویل میں ہیں اور وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرگزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی ہوئی کہ وہ لاہور میں پکڑا گیا۔ آن واحد میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کو خبر دی گئی۔ ہدایت دو ٹوک اور واضح تھی…”مجھے قاتل کے نام اور قومیت سے کوئی غرض نہیں۔ اسے گرفتار کرو اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر قتل کا باضابطہ مقدمہ درج کرو۔ اسلام آباد یا کہیں سے بھی کوئی دباؤ آئے تو مجھے بتاؤ۔ اسی شام شہباز مقتولین کے گھروں میں پہنچے اور کہا۔ کسی پاکستانی کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ اگلے دن امریکی سفیر نے میاں نواز شریف کو فون کرکے واقعے پرمعذرت کی اور کہا۔ ریمنڈ ایک سفارتکار ہے ۔ اسے چھوڑ دیا جائے ۔ ہم امریکہ میں اس پر مقدمہ چلائیں گے“۔ نواز شریف نے مختصر سا جواب دیا۔ ایکسی لینسی! پوری پاکستانی قوم رنج و غم میں مبتلا ہے۔ معاملہ عدالتوں تک جاچکا ہے۔ آپ ہمارے نظام قانون و انصاف پر اعتماد کریں اور قانون کو اپنا راستہ لینے دیں۔
اگر ریمنڈ یہی کچھ اسلام آباد وفاقی حکومت کے حلقہ اثر میں کرتا تو وہ گرفتار ہوتا نہ مقدمہ چلتا۔ کم از کم ماضی کی وارداتیں یہی بتاتی ہیں۔ اب بھی خطرہ ہے کہ وفاقی حکومت یا دفتر خارجہ قانونی عمل پر اثر اندازنہ ہوں۔ انہیں چاہئے کہ سیاست سے بے نیاز ہو کہ اس معاملے کو قومی حوالے اور پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ حکومت پنجاب کا بھرپور ساتھ دیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے موقف اور حکمت عملی میں بال برابر فرق نہیں ہونا چاہئے کہ یہ صرف پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کا معاملہ ہے
ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی یہ ہے کہ قتل کی یہ واردات لاہور میں ہوئی۔ معاملہ پنجاب اور شہباز شریف سے آپڑا۔ اگر یہ واقعہ اسلام آباد یا وفاقی حکومت کے براہ راست زیر اثر علاقے میں پیش آیا ہوتا تو صورت حال قطعی مختلف ہوتی۔ میں یہ بات کسی بدگمانی یا قیاس آرائی نہیں، ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ گزشتہ برس ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے دو سفارتکار اسلام آباد کے ایک ناکے پر پکڑے گئے۔ ان کے پاس ہینڈ گرنیڈز، جدید ترین رائفلیں اور اسلحہ کی ایک کھیپ تھی۔ تھانہ سیکریٹریٹ میں ایف آئی آر کے بجائے ایک عمومی نوعیت کی شکایت درج ہوئی۔امریکی سفارتخانے کے ایک ملازم سنی کرسٹوفر نے معاملے میں براہ راست مداخلت کی۔ خبروں سے اندازہ ہوا کہ شاید ایک بڑا اسکینڈل سامنے آنے کو ہے کہ ڈنمارک، امریکیوں کو ممنوعہ اسلحہ کی فراہمی کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن دو دنوں کے اندر اندر مطلع صاف ہوگیا۔ نہ کوئی مقدمہ درج ہوا، نہ تحقیق و تفتیش ہوئی نہ بات آگے بڑھی۔ اسلام آباد کے حکمرانوں نے گوروں کی خوشنودی خاطر کے لئے سب کچھ قالین کے نیچے چھپا دیا۔
یہ جون 2009ء کا ذکر ہے۔ پشاور سے آنے والی ایک ڈبل کیبن گاڑی کو اسلام آباد کی گولڑہ چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ گاڑی رکنے کے بجائے تیزی سے کروٹ بدل کر آگے گزر گئی۔ پولیس نے اسے مشکوک خیال کرتے ہوئے اگلی چیک پوسٹ کو خبردار کردیا۔ جی نائن فور کے خیبر چوک پر گاڑی روک لی گئی۔ گاڑی سے تین امریکن برآمد ہوئے۔ انکے نام جیفری، جیفڈک اور جیمز بل بتائے گئے۔ بینڈک نامی ڈرائیور بھی امریکی تھا۔ ان سب نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور چہروں پر داڑھیاں تھیں۔ ان سے چار ایم ۔4 ، مشین گنیں اور چار نائن ایم ایم کے پسٹل برآمد ہوئے۔ فوراً پولیس کے حکام بالا اور سرکار کو آگاہ کیا گیا۔ فرمان جاری ہوا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ رخصت کردو۔ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ باز پرس کی نوبت آئی نہ یہ پتہ چل سکا کہ افغانوں جیسا حلیہ رکھنے والے یہ اسلحہ بردار امریکی کس مشن پر تھے۔
یہ 5اگست 2009ء کا ذکر ہے۔ اسلام آباد پولیس کا انسپکٹر حاکم خان، اپنی بیوی کے ہمراہ ، اپنی گاڑی میں سوار امریکی سفارت خانے کے قریب بنی چیک پوسٹ کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ ایک امریکی اہلکار جان آرسو نے گاڑی روک لی۔ وہ میاں بیوی کو بڑا بھلا کہنے اور گالیاں دینے لگا۔ پولیس انسپکٹر نے کہا…”آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ایک پبلک شاہراہ پر گاڑیاں روک کر چیک کرتے پھرو؟“ امریکی نے اپنی کمر سے پسٹل نکالا اور انسپکٹر پر تانتے ہوئے کہا ”میں کچھ بھی کرسکتا ہوں“۔ انسپکٹر حاکم خان نے واقعے کی باقاعدہ رپورٹ اپنے حکام بالا کو دی لیکن کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اس واقعے کے صرف ایک ہفتہ بعد، 12اگست 2009ء کو سفارتی انکلیو میں رہنے والا ایک نوجوان، اپنے دو دوستوں کے ہمراہ سوزوکی گاڑی میں امریکی سفارت خانے کے سامنے والی سڑک سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک امریکی جوڑا واک کررہا تھا۔ امریکی جوڑے نے کار روک کر لڑکوں سے تلخ کلامی کی۔ اس کی گاڑی کا سائیڈ مرر توڑ دیا۔ انہیں گالیاں دیں۔ تینوں نوجوانوں نے اس رویے پر احتجاج کیا۔ اس پر امریکیوں نے انہیں قریبی چیک پوسٹ پرموجود امریکی سیکورٹی گارڈز کے حوالے کردیا۔ وہ چالیس منٹ تک غیر قانونی حراست میں رکھے گئے۔ انہیں اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ کبھی اس سڑک پر گاڑی نہیں چلائیں گے۔ کوئی شکایت، کوئی ایف آئی آر نہ کٹی۔
اس واقعے کہ دو ہفتے بعد 26اگست 2009ء کو دو امریکیوں نے شیل پٹرول پمپ سپر مارکیٹ کے مالک محسن بخاری کی گاڑی روک لی۔ معاملہ شاید ڈرائیونگ میں کسی بے احتیاطی کا تھا۔ امریکیوں نے تلخ کلامی کی۔ محسن بخاری کو پکڑ کر اس کے پٹرول پمپ لے آئے۔امریکی سفارتخانے کا ایک سیکورٹی اہلکار بھی وہاں پہنچ گیا۔ دیر تک خوف و ہراس کی کیفیت کے بعد محسن بخاری کی گلو خلاصی ہوئی۔ محسن پیپلزپارٹی کے سینیٹر نیر بخاری کا قریبی عزیز ہے لیکن معاملہ وہیں ٹھپ کردیا گیا۔
دو دن بعد 28اگست 2009ء کو کشمیر ہائی وے پر پشاور موڑ کے قریب اسلام آباد پولیس نے دو گاڑیوں کو روکا۔ ایک پراڈو تھی اور دوسری ڈبل کیبن۔ ان میں چار امریکن تشریف فرما تھے۔ چاروں کے پاس ایم۔4 رائفلیں تھیں اور ایمونیشن بھی۔ دونوں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس جعلی تھیں۔ چاروں نے بتایا کہ وہ امریکی فوجی ہیں۔ ان کے پاس اسلحے کا کوئی لائسنس تھا نہ سفارتخانے کا کوئی اجازت نامہ۔ ایک افغان باشندہ احمداللہ بھی ان کے ہمراہ تھا۔جس نے بتایا کہ وہ امریکی سفارت خانے میں قیام پذیر ہے۔ پولیس اہلکاروں نے اسلام آباد کے بڑوں کو اطلاع کی اور معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔
اور یہ جون 2010 ء کا ذکر ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والا گیری بروکس فاکنر نامی ایک شخص چترال سے گرفتار ہوا۔ اس کی تلاشی لی گئی۔ ایک پسٹل، ایک خنجر، چالیس انچ لمبی تلوار اور اندھیرے میں دیکھنے والی خصوصی عینک برآمد ہوئی۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ برس کے دوران وہ سات بار پاکستان آچکا ہے۔ تمام حقائق اسلام آباد کے حاکموں کے علم میں لائے گئے۔ حکم صادر ہوا کہ شہنشاہ عالم پناہ کی بارگاہ اقدس سے تعلق رکھنے والے معزز مہمان کو عزت و احترام کے ساتھ امریکی سفارتخانے پہنچا دیا جائے۔
یہ اور اس طرح کے درجنوں دوسرے واقعات نے امریکیوں کے حوصلے بڑھا دیئے۔ جعلی پلیٹوں والی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر جدید اسلحہ سمیت مٹر گشت کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اسلام آباد ان کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ سیکڑوں مکانات اب ان کی تحویل میں ہیں اور وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرگزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی ہوئی کہ وہ لاہور میں پکڑا گیا۔ آن واحد میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کو خبر دی گئی۔ ہدایت دو ٹوک اور واضح تھی…”مجھے قاتل کے نام اور قومیت سے کوئی غرض نہیں۔ اسے گرفتار کرو اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر قتل کا باضابطہ مقدمہ درج کرو۔ اسلام آباد یا کہیں سے بھی کوئی دباؤ آئے تو مجھے بتاؤ۔ اسی شام شہباز مقتولین کے گھروں میں پہنچے اور کہا۔ کسی پاکستانی کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ اگلے دن امریکی سفیر نے میاں نواز شریف کو فون کرکے واقعے پرمعذرت کی اور کہا۔ ریمنڈ ایک سفارتکار ہے ۔ اسے چھوڑ دیا جائے ۔ ہم امریکہ میں اس پر مقدمہ چلائیں گے“۔ نواز شریف نے مختصر سا جواب دیا۔ ایکسی لینسی! پوری پاکستانی قوم رنج و غم میں مبتلا ہے۔ معاملہ عدالتوں تک جاچکا ہے۔ آپ ہمارے نظام قانون و انصاف پر اعتماد کریں اور قانون کو اپنا راستہ لینے دیں۔
اگر ریمنڈ یہی کچھ اسلام آباد وفاقی حکومت کے حلقہ اثر میں کرتا تو وہ گرفتار ہوتا نہ مقدمہ چلتا۔ کم از کم ماضی کی وارداتیں یہی بتاتی ہیں۔ اب بھی خطرہ ہے کہ وفاقی حکومت یا دفتر خارجہ قانونی عمل پر اثر اندازنہ ہوں۔ انہیں چاہئے کہ سیاست سے بے نیاز ہو کہ اس معاملے کو قومی حوالے اور پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ حکومت پنجاب کا بھرپور ساتھ دیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے موقف اور حکمت عملی میں بال برابر فرق نہیں ہونا چاہئے کہ یہ صرف پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کا معاملہ ہے