The principles of humanity-those values which act as a common bond of responsibilities Shared by faith and cultures throughout the world common humanity, responsibilities, Respect, compassion, truth and integrity, human solidarity
Saturday, February 5, 2011
یوم یکجہتی کشمیر۔۔۔!
مقبوضہ کشمیرکے ایک ٹاﺅن ”سوپور“ میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں دہشت گردی کے مزید دو المناک واقعات پیش آئے۔ دو جواں سالہ بہنوں ”عارفہ اور اختر“ کو سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ لڑکیوں کو بندوق کی نوک پر ان کے گھر سے اغوا کیا گیا اور دور لے جا کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے ہی ایک قصبے میں دو لڑکیوں”آسیہ اور نیلوفر“کی عصمت ریزی کے بعد انہیں قتل کر دیا گیا۔ جموں و کشمیر میں پیش آنے والے صرف ان دو حالیہ واقعات سے ہماری مظلوم کشمیری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو بھارت سرکارکی دہشت گردی کا کھلم کھلا ثبوت ہیں۔ اس مظلوم خطے میں آج تک بے شمار لوگوں کی دنیا اُجڑ چکی ہے ان میں مزید دو گھروں کا اضافہ ہو گیا ہے حالانکہ بھارتی فورسز کی جانب سے بیان جاری ہوا تھا کہ 2011ءکے دوران جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو گی اور یہ سال امن و آشتی کا سال ہو گا۔ بھارتی سرکار اور اس کے دوست دیکھ رہے ہیں کہ 63 سالوں سے جاری آزادی کشمیر کی جدوجہد میں کمی واقع ہونے کی بجائے شدت آتی جا رہی ہے۔کسی قوم کے جہد مسلسل کو جانچنے کے لئے63 برس کا عرصہ کافی ہوتا ہے مگر چشموں، پہاڑوں، دریاﺅں، وادیوں، باغات سے دستبردار ہونا بھارت کی شکست ہے، نقصان ہے، پسپائی ہے جبکہ اس طویل جدوجہد کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو ئے، ہزاروں معذور ہوئے، ہزاروں جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ، ہزاروں سرحد پر مارے گئے، برفوں تلے دب گئے، اغوا کرکے غائب کر دئیے گئے، لا تعداد خواتین آبروریزی کا نشانہ بنیں مگر نہ جدوجہد تھم رہی ہے اور نہ ہی ظلم اپنا ہاتھ روک رہاہے۔ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی چار نسلیں نگل چکی ہے۔ معاشی و تعلیمی اعتبار سے بھی کشمیری قوم محرومی کا شکار ہے۔ قلم دوات کی بجائے ہاتھوں میں پتھر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ غربت ،بیروزگاری ، ظلم، بے انصافی کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں مگر اقوام متحدہ نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے اور آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے جبکہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر فلسطین کے بعد دوسرا بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔ اس حساس مسئلہ پر پاکستان دو جنگیں لڑ چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان معاشی ، سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے کمزور ہو چکا ہے۔ اگرچہ قیام پاکستان کے بعد سے آزادی جموں و کشمیر کی جدوجہد کو تریسٹھ برس ہو چکے ہیں مگر آزادی حق کی یہ تحریک بہت پرانی ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے جب کشمیر کو انگریزوں سے خرید کر موجودہ ریاست جموں و کشمیر کی تشکیل کی تو کشمیریوں نے اپنے حقوق کی آزادی کی ”کشمیر جمہوریہ“ تحریک چلائی۔1931 میں کشمیری عوام نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں،آزادی کے لئے قربانیاں دیں۔ اس وقت پاکستان کا وجود نہ تھا۔ پاکستان کی قرارداد 1940ءمیں منظور ہوئی تو آزادی جموں وکشمیر کی تحریک قیام پاکستان کے بعد ایک سیاسی مسئلہ بن کر ابھری۔ کشمیریوں میں یہ احساس بہت پہلے سے موجود تھا کہ وہ ایک اس خطے میں ایک ریاست کے طور پر موجود ہیں۔ ان کی اپنی ایک شناخت ہے۔ 1947 میں جب پاکستان و بھارت کو آزادی حاصل ہوئی تو کشمیریوں کو بھی آزادی کی امید دکھائی دی مگر انگریز اور ہندو کی ملی بھگت سے جموں وکشمیر کو ”متنازعہ“ بنا دیا گیا اور بھارت یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ مسئلہ کشمیر کو دونوں ملکوں کی حکومتوں نے استعمال کیا۔1949 میں پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی کہ اس مسئلے کو مسئلہ جموں و کشمیر کی بجائے پاکستان و ہندوستان کے مابین تنازعہ کے طور پر سمجھا جائے۔ اس ترمیم کے بعد بین الاقوامی برادری نے جموں و کشمیر کو پاک بھارت کا متنازعہ مسئلہ قرار تو دے دیا مگر ان تریسٹھ برسوں میں پاکستان کو چار ایسے ملک نہ مل سکے جو بھارت کے خلاف کشمیر کے سلسلے میں اس قرارداد کی تائید کر سکتے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان لائن قرار دی گئی تھی۔ دونوں ملکوں کی جانب سے کئی ڈائیلاگ ہوئے،کئی عہد و پیمان ہوئے مگر مسئلہ کشمیر حل کی طرف جانے کی بجائے مزید الجھتا چلا گیا۔ مسلمان ممالک بھی آزادی کشمیر کے لئے بھارت پر دباﺅ ڈالتے ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ میں آواز اٹھاتے ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ ان کی کھربوں ڈالروں کی تجارت ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا ہے پھر بھی اس کے حکمران اس مسئلہ کے بارے میں سنجیدگی کے اس مقام تک نہیں پہنچ پائے جہاں جموں وکشمیر کی آزادی و خود مختاری ممکن ہو سکے۔ ایک حالیہ خبر ”پاکستان بہت جلد ایٹم بم بنانے کی دوڑ میں برطانیہ سے بھی آگے نکل جائے گا“ پڑھ کر پاکستان کی ”ترقی“ پر حیرانی ہوتی ہے۔ پاکستان جو ترقی کی دوڑ میں بھارت سے بہت پیچھے رہ گیا ہے بلکہ الٹے قدموں پر رینگ رہا ہے، مزید ایٹم بم بنا کر اس سے آگے نکل جائے گا ۔۔۔؟ امریکہ و اسرائیل کو مار گرائے گا ۔۔۔؟ یا پھر کشمیر کو آزاد کرا لے گا ۔۔۔؟ پاکستان میںہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جا تا ہے۔ عام تعطیل ہوتی ہے۔کشمیریوں کے ساتھ اظہار محبت کیا جاتا ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر زندہ رہتا ہے۔ تاریخ تازہ ہوتی رہتی ہے۔۔۔ مگر اس روز پاکستان کی اکثریت سو کر گزارتی ہے ، پاکستان میں عام تعطیل کا مطلب سونا اور کھانا سمجھا جاتا ہے ۔۔۔!
کچھ ”انجکشن“ اور اُس کے ”ری ایکشن“ پر!
جمعیتِ علمائے اسلام کے مرکزی راہ نما جناب حافظ حسین احمد مناسب مقدار میں ”آکسیجن“ فراہم ہوتے ہی ایک بار پھر میدانِ عمل میں سَر دَرکف اُتر آئے ہیں! اُنہوں نے ”آکسیجن ٹینٹ“ سے برآمد ہوتے ہی ارشاد فرما دیا کہ امریکا کے پاس ”سیاسی آکسیجن“ ختم ہو چکی ہے! موجودہ حکومت ”ہنگامی طبی امداد“ کے "EMERGENSHIA" میں پڑی ہے اور ایم کیو ایم کی فراہم کردہ ”ڈرپ“ کے سہارے مہیا ہونے والی توانائی پر چل رہی ہے!
جناب حافظ حسین احمد کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ”برقی توانائی“ کے ساتھ ساتھ ”سیاسی توانائی“ کے بحران کی لپیٹ میں بھی آچکا ہے! یہ تو جناب نواز شریف کی ذاتِ گرامی ہے کہ ایوانِ رئیس الوزراءکے مکین کی نیک نامی کے اضافے کے لئے درکار خیرسگالی کی بلاتعطل اور مستحکم فراہمی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے جبکہ جنابِ حافظ حسین احمد کے مطابق نون لیگ جناب سید یوسف رضا گیلانی کو بچانا اور پی پی قیادت اُنہیں ہٹانا چاہتی ہے! جناب حافظ حسین احمد نے ایک دل چسپ نکتہ پیدا کرتے ہوئے فرمایا، ”45 دن 90 دن کا نصف ہوتے ہیں جبکہ 90 دن ہر بار گیارہ سال پر محیط ہو جاتے ہیں! ایم کیو ایم نے پہلے پی پی پی پر ایک ”انجکشن“ آزمایا مگر ”ری ایکشن“ پر ایم کیو ایم کے حکماءکے ہاتھ پاﺅں پھول گئے اور اب موجودہ حکومت کو ”ڈرپ“ لگا کر سرہانے آبیٹھے ہیں! مریض Stable یا، مستحکم ہو، تو اپنا راستہ پکڑیں! جناب حافظ حسین احمد نے ”ڈرپ“ کے حوالے سے بھی ایک خوب صورت بات کی، ”ہونی کو ان ہونی کرنا اَن کے بس کی بات نہیں!“ جنابِ حافظ حسین احمد نے ایک اور بات بڑے مزے لے لے کر کی اور وہ یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے یہ اعلان فرما کر کہ انہوں نے بلوچستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچا دی ہے کہ پاکستانی سرحدوں کے اندر ڈرون حملے انہی کی اجازت سے جاری رہے اور جاری ہیں! انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کے عوام ڈرون حملے روکنے کی جرات رکھتے ہیں! ”حکم رانوں“ کو چاہئے کہ وہ اپنی حالتِ زار پر توجّہ دیں، بلوچستان کے عوام ڈرون حملوں سے خود نمٹ لیں گے! ہم بہت سی باتوں پر حاشیہ آرائی سے گریز کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ جناب آصف علی زرداری نے فرما دیا: نواز شریف تاثیر کے حوالے سے سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں!اگر میں نہ چاہتا تو سید یوسف رضا گیلانی شریف برادران کو ملوث ہونے سے کیسے بچا لیتے! یہ اکیلی بات اس امر پر شاہد ہے کہ حافظ حسین احمد ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ نون لیگ گیلانی سائیں کے قدم مضبوط کرنا چاہتی ہے اور پی پی قیادت گیلانی سائیں کو ساتھ بہا لے جانا چاہتی ہے! بہرطور جناب آصف زرداری کا فرمانا ہے کہ پیپلزپارٹی نعرہ بازی کی سیاست نہیں کرتی، یہ پارٹی مستقبل کی سیاست کرتی ہے لہٰذا پارٹی قیادت آئندہ عام انتخابات کے لئے تیار رہے اور اخبارات کی شاہ سرخیوں کی جگہ لوگوں پر نظر رکھے! اُن سے رابطے برقرار رکھے کیونکہ پنجاب میں ”گڈ گورننس کا فقدان“ پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے انتخابات لے اُڑنے کا سبب بن سکتا ہے!
مستقبل کس کے لئے باز و کشادہ رکھتا ہے؟ یہ تو مستقبل ہی بتائے گا! مگر عوام کا مستقبل کیا ہے؟ یہ کوئی نہ بتاتا ہے، نہ بتا سکتا ہے! کیونکہ عوام کس رُخ اڑان بھریں گے؟ یہ بات صرف عوام جانتے ہیں! اَن کے قائدین نہیں!
جناب حافظ حسین احمد کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ”برقی توانائی“ کے ساتھ ساتھ ”سیاسی توانائی“ کے بحران کی لپیٹ میں بھی آچکا ہے! یہ تو جناب نواز شریف کی ذاتِ گرامی ہے کہ ایوانِ رئیس الوزراءکے مکین کی نیک نامی کے اضافے کے لئے درکار خیرسگالی کی بلاتعطل اور مستحکم فراہمی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے جبکہ جنابِ حافظ حسین احمد کے مطابق نون لیگ جناب سید یوسف رضا گیلانی کو بچانا اور پی پی قیادت اُنہیں ہٹانا چاہتی ہے! جناب حافظ حسین احمد نے ایک دل چسپ نکتہ پیدا کرتے ہوئے فرمایا، ”45 دن 90 دن کا نصف ہوتے ہیں جبکہ 90 دن ہر بار گیارہ سال پر محیط ہو جاتے ہیں! ایم کیو ایم نے پہلے پی پی پی پر ایک ”انجکشن“ آزمایا مگر ”ری ایکشن“ پر ایم کیو ایم کے حکماءکے ہاتھ پاﺅں پھول گئے اور اب موجودہ حکومت کو ”ڈرپ“ لگا کر سرہانے آبیٹھے ہیں! مریض Stable یا، مستحکم ہو، تو اپنا راستہ پکڑیں! جناب حافظ حسین احمد نے ”ڈرپ“ کے حوالے سے بھی ایک خوب صورت بات کی، ”ہونی کو ان ہونی کرنا اَن کے بس کی بات نہیں!“ جنابِ حافظ حسین احمد نے ایک اور بات بڑے مزے لے لے کر کی اور وہ یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے یہ اعلان فرما کر کہ انہوں نے بلوچستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچا دی ہے کہ پاکستانی سرحدوں کے اندر ڈرون حملے انہی کی اجازت سے جاری رہے اور جاری ہیں! انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کے عوام ڈرون حملے روکنے کی جرات رکھتے ہیں! ”حکم رانوں“ کو چاہئے کہ وہ اپنی حالتِ زار پر توجّہ دیں، بلوچستان کے عوام ڈرون حملوں سے خود نمٹ لیں گے! ہم بہت سی باتوں پر حاشیہ آرائی سے گریز کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ جناب آصف علی زرداری نے فرما دیا: نواز شریف تاثیر کے حوالے سے سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں!اگر میں نہ چاہتا تو سید یوسف رضا گیلانی شریف برادران کو ملوث ہونے سے کیسے بچا لیتے! یہ اکیلی بات اس امر پر شاہد ہے کہ حافظ حسین احمد ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ نون لیگ گیلانی سائیں کے قدم مضبوط کرنا چاہتی ہے اور پی پی قیادت گیلانی سائیں کو ساتھ بہا لے جانا چاہتی ہے! بہرطور جناب آصف زرداری کا فرمانا ہے کہ پیپلزپارٹی نعرہ بازی کی سیاست نہیں کرتی، یہ پارٹی مستقبل کی سیاست کرتی ہے لہٰذا پارٹی قیادت آئندہ عام انتخابات کے لئے تیار رہے اور اخبارات کی شاہ سرخیوں کی جگہ لوگوں پر نظر رکھے! اُن سے رابطے برقرار رکھے کیونکہ پنجاب میں ”گڈ گورننس کا فقدان“ پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے انتخابات لے اُڑنے کا سبب بن سکتا ہے!
مستقبل کس کے لئے باز و کشادہ رکھتا ہے؟ یہ تو مستقبل ہی بتائے گا! مگر عوام کا مستقبل کیا ہے؟ یہ کوئی نہ بتاتا ہے، نہ بتا سکتا ہے! کیونکہ عوام کس رُخ اڑان بھریں گے؟ یہ بات صرف عوام جانتے ہیں! اَن کے قائدین نہیں!
سرے راہے
وفاقی وزیر خوراک و زراعت نذر گوندل نے کہا ہے‘ مہنگائی کم نہیں کر سکتے۔
نذر گوندل کو اپنے اس بیان خوش مقال پر نظر وٹو گلے میں باندھ لینا چاہیے کہ ایسی بات تو وفاقی نہیں‘ کوئی آفاقی وزیر ہی کہہ سکتا ہے۔ اگر مہنگائی کم نہیں کر سکتے‘ بڑھا تو سکتے ہیں اس لئے غریب عوام پر اور بوجھ ڈالیے تاکہ خودکشیوں کی تعداد اور بڑھے اور ثواب وزیر موصوف کو پہنچے۔ انہوں نے بیان جمع متکلم کے صیغے میں دیا ہے‘ یعنی انہوں نے اس درفنطنی میں پوری حکومت کو لپیٹا ہے۔ اس لئے اب اس ہرزہ سرا وزیر کے ساتھ وزیراعظم‘ صدر اور دیگر وزراء بھی گویا وہی کہہ رہے ہیں جو انہوں نے داغ دیا ہے۔ یعنی حکومت کی طرف سے صاف انکار ہو گیا‘ تو عوام کو بھی صاف انکار کردینا چاہیے‘ حکومت کو تسلیم کرنے سے‘ آج تک پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا پرکٹا بیان کسی نے نہیں دیا۔ جو نذر نے اپنی ’’وکھی‘‘ سے نکال کر قوم کی نذر کیا ہے۔ یہ ملک خوراک اور قدرتی وسائل کا مخزن ہے‘ بات صرف اتنی ہے کہ خزانوں پر حکمرانوں‘ سیاست دانوں کا قبضہ ہے‘ چینی کی ملوں سے ساری چینی ذخیرہ اندوزوں کو فروخت کر دی گئی اور بدنام پرچون والے ہو رہے ہیں۔ نذر گوندل صاحب نے ایک بار پہلے بھی یہ بیان چھوڑا تھا کہ چینی نہیں ملتی تو نہ استعمال کریں۔ یہ قربانی کے وزیر ہیں‘ یارقیب ہیں۔ برایں عقل و دانش بباید گریست۔ (اس عقل و دانش پر رونا چاہیے)
٭…٭…٭…٭
خبر گرم ہے کہ صدر آصف علی زرداری دولہا بن گئے ہیں۔ مگر صدارتی ترجمان نے تردید کی ہے کہ صدر نے دوسری شادی نہیں کی۔ افواہوں سے خاندان اور پارٹی کو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔
صدر گرامی قدرکو شادی کی ضرورت کیا ہے؟ وہ صدر ہیں‘ ان کیلئے صدارت ہی کافی ہے‘ انکی شادی تو صدارت سے ہو چکی ہے اگر افواہ ہی پھیلانی تھی تو 2013ء کے بعد پھیلاتے۔ ویسے صدر صاحب ملول نہ ہوں‘ نہ ہی انکے خاندان والے اور نہ پارٹی ممبرز‘ ویسے قطع نظر اس افواہ کے شادی کوئی شجر ممنوعہ نہیں کہ کوئی اسکی ٹہنیوں سے کھیل نہ سکے‘ اس کا پھل کھا نہ سکے‘ صدر صاحب مردحر ہیں اور مردِحر‘ مردِ درویش ہوتا ہے اور درویش کو کیا پڑی ہے کہ شادی کرے تو چھپا کے رکھے۔ ویسے بھی شہید زندہ ہوتا ہے‘ اس لئے شہید بینظیر کا شوہر رنڈوا نہیں ہو سکتا اور دونوں کا روحانی رابطہ برقرار رہتا ہے۔
ممکن ہے افواہ پھیلانے والے نے شادی کی ہو اور صدر کے سر منڈھ دی ہو۔ بہرحال جب تردید ہو گئی تو افواہ ساز مرتد ہو گیا بلکہ مردود ٹھہرا۔ آصف علی زرداری کاروبار حکومت میں اور پاکستان کی خدمت میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں ایسی افواہوں کی پرواہ ہی نہیں۔ انکے بچوں اور پارٹی کے بچونگڑوں کو بھی اس جھوٹی خبر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭…٭…٭…٭
گورنر نے کلمہ چوک کیلئے مختص فنڈز نارووال منتقل کر دیئے‘ 3 کروڑ 60 لاکھ روپے کے فنڈز نارووال کی کشادگی پر خرچ ہونگے۔ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
نارووال سے تو گورنر کا کوئی تعلق نہیں البتہ کسی روحانی تعلق کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اگر کلمہ چوک کے فنڈز نارووال پر خرچ کرنا ہیں تو جو وہاں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈز دیئے گئے ہیں‘ وہ کہاں خرچ ہونگے۔ وہ چاہتے تو یہ کہتے کہ کلمہ چوک پر اتنا خرچہ کرنے کے بجائے لاہور کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تعمیر کی جائیں‘ جہاں گیس نہیں‘ وہاں گیس دی جائے‘ آخر انکی نارووال سے گہری وابستگی بھی معلوم کرنا ہو گی کہ اسکی تہہ میں کوئی صدف تو نہیں جس میں موتی ہے۔
اگر گورنر صاحب نارووال کیلئے وہاں کے ارکانِ اسمبلی کو دیئے گئے فنڈز بچانا چاہتے ہیں تو پھر یہ ارکان نوازی کیوں؟ گورنر صاحب پہلے لاہور کے گھائو پر کرلیں‘ پھر نارووال کی طرف التفات فرمائیں۔ ممکن ہے نارووال سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں…؎
گڈی آئی گڈی آئی نارووال دی
دشمناں دے سینے اتے اگ بالدی
لطیف کھوسہ المعروف بوسہ پورے پنجاب کے گورنر ہیں‘ اس لئے وہ جہاں کے فنڈز ہیں‘ وہیں خرچ کرائیں‘ تاکہ ہر ضلع کو اس کا حق اسکے ارکان اسمبلی سے ملے وگرنہ اس طرح تو یہ فنڈز انکی جیب کی نذر ہو جائینگے۔ بہرحال گورنر پنجاب کے شیر ہیں‘ انڈہ یا بچہ کچھ بھی دینے کے مجاز ہیں۔
٭…٭…٭…٭
پیپلز پارٹی پنجاب نے نواز شریف کو صوبے کی بہتری کیلئے 19 نکاتی ایجنڈا بھجوا دیا۔
یہ ایجنڈا بمقابلہ ایجنڈا ہے یا ڈنڈا بمقابلہ ڈنڈا‘ ابھی تو میاں نواز شریف کے ایجنڈے پر عملدرآمد نہیں ہوا کہ پیپلز پارٹی نے جواب آں ایجنڈا پیش کر دیا۔ یہ سیاست ہے یا سانڈوں کی لڑائی۔ پنجاب حکومت تو اچھی بھلی چل رہی ہے‘ پھر یہ افتاد کیوں؟ سمجھ نہیں آتی کہ جس حزب اقتدار و حزب اختلاف کو ہم ایک سمجھتے تھے‘ وہ بھی ایک نہیں۔ چلو یہ تو اچھا ہوا کہ پیپلز پارٹی نے ازراہ کرم مسلم لیگ نون کو تعاون کی دلدل سے نکال کر عوام کیلئے کام کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔
لگتا ہے پنجاب ہی پاکستان ہے‘ اس لئے ہر جانب سے اسی پر یلغار ہو رہی ہے۔ گویا پنجاب کو مسٹر قربانو بنا دیا گیا ہے کہ وہ ہی پورے پاکستان کیلئے قربانیاں بھی دے اور ’’لِتر‘‘ بھی کھائے۔
پنجاب سے اسکے حصے کا پانی بھی لے لیا جاتا ہے اور اسے کالاباغ ڈیم بھی وہ نہیں بنانے دیتے جو اپنے پرکھوں کی خواہشات پوری کر رہے ہیں اور جب پاکستان بن رہا تھا تو وہ گاندھی کی دھوتی میں گھسے ہوئے تھے۔ یہ 19 نکاتی ایجنڈا پنجاب پورا کرنے کا پابند نہیں‘ البتہ نواز شریف کے ایجنڈے کو پورا ہونا چاہیے‘ جاگ اے نون‘ مسلم لیگ نون اب تو جاگ‘ ورنہ بھاگ اے مسلم لیگ نون بھاگ کیا ستم ہے کہ ملک میں گڈگورننس پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کی کلائی پکڑ کر نیچے کرنے کا مقابلہ ہے‘ جسے ایجنڈا کہتے ہیں۔
نذر گوندل کو اپنے اس بیان خوش مقال پر نظر وٹو گلے میں باندھ لینا چاہیے کہ ایسی بات تو وفاقی نہیں‘ کوئی آفاقی وزیر ہی کہہ سکتا ہے۔ اگر مہنگائی کم نہیں کر سکتے‘ بڑھا تو سکتے ہیں اس لئے غریب عوام پر اور بوجھ ڈالیے تاکہ خودکشیوں کی تعداد اور بڑھے اور ثواب وزیر موصوف کو پہنچے۔ انہوں نے بیان جمع متکلم کے صیغے میں دیا ہے‘ یعنی انہوں نے اس درفنطنی میں پوری حکومت کو لپیٹا ہے۔ اس لئے اب اس ہرزہ سرا وزیر کے ساتھ وزیراعظم‘ صدر اور دیگر وزراء بھی گویا وہی کہہ رہے ہیں جو انہوں نے داغ دیا ہے۔ یعنی حکومت کی طرف سے صاف انکار ہو گیا‘ تو عوام کو بھی صاف انکار کردینا چاہیے‘ حکومت کو تسلیم کرنے سے‘ آج تک پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا پرکٹا بیان کسی نے نہیں دیا۔ جو نذر نے اپنی ’’وکھی‘‘ سے نکال کر قوم کی نذر کیا ہے۔ یہ ملک خوراک اور قدرتی وسائل کا مخزن ہے‘ بات صرف اتنی ہے کہ خزانوں پر حکمرانوں‘ سیاست دانوں کا قبضہ ہے‘ چینی کی ملوں سے ساری چینی ذخیرہ اندوزوں کو فروخت کر دی گئی اور بدنام پرچون والے ہو رہے ہیں۔ نذر گوندل صاحب نے ایک بار پہلے بھی یہ بیان چھوڑا تھا کہ چینی نہیں ملتی تو نہ استعمال کریں۔ یہ قربانی کے وزیر ہیں‘ یارقیب ہیں۔ برایں عقل و دانش بباید گریست۔ (اس عقل و دانش پر رونا چاہیے)
٭…٭…٭…٭
خبر گرم ہے کہ صدر آصف علی زرداری دولہا بن گئے ہیں۔ مگر صدارتی ترجمان نے تردید کی ہے کہ صدر نے دوسری شادی نہیں کی۔ افواہوں سے خاندان اور پارٹی کو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔
صدر گرامی قدرکو شادی کی ضرورت کیا ہے؟ وہ صدر ہیں‘ ان کیلئے صدارت ہی کافی ہے‘ انکی شادی تو صدارت سے ہو چکی ہے اگر افواہ ہی پھیلانی تھی تو 2013ء کے بعد پھیلاتے۔ ویسے صدر صاحب ملول نہ ہوں‘ نہ ہی انکے خاندان والے اور نہ پارٹی ممبرز‘ ویسے قطع نظر اس افواہ کے شادی کوئی شجر ممنوعہ نہیں کہ کوئی اسکی ٹہنیوں سے کھیل نہ سکے‘ اس کا پھل کھا نہ سکے‘ صدر صاحب مردحر ہیں اور مردِحر‘ مردِ درویش ہوتا ہے اور درویش کو کیا پڑی ہے کہ شادی کرے تو چھپا کے رکھے۔ ویسے بھی شہید زندہ ہوتا ہے‘ اس لئے شہید بینظیر کا شوہر رنڈوا نہیں ہو سکتا اور دونوں کا روحانی رابطہ برقرار رہتا ہے۔
ممکن ہے افواہ پھیلانے والے نے شادی کی ہو اور صدر کے سر منڈھ دی ہو۔ بہرحال جب تردید ہو گئی تو افواہ ساز مرتد ہو گیا بلکہ مردود ٹھہرا۔ آصف علی زرداری کاروبار حکومت میں اور پاکستان کی خدمت میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں ایسی افواہوں کی پرواہ ہی نہیں۔ انکے بچوں اور پارٹی کے بچونگڑوں کو بھی اس جھوٹی خبر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭…٭…٭…٭
گورنر نے کلمہ چوک کیلئے مختص فنڈز نارووال منتقل کر دیئے‘ 3 کروڑ 60 لاکھ روپے کے فنڈز نارووال کی کشادگی پر خرچ ہونگے۔ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
نارووال سے تو گورنر کا کوئی تعلق نہیں البتہ کسی روحانی تعلق کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اگر کلمہ چوک کے فنڈز نارووال پر خرچ کرنا ہیں تو جو وہاں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈز دیئے گئے ہیں‘ وہ کہاں خرچ ہونگے۔ وہ چاہتے تو یہ کہتے کہ کلمہ چوک پر اتنا خرچہ کرنے کے بجائے لاہور کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تعمیر کی جائیں‘ جہاں گیس نہیں‘ وہاں گیس دی جائے‘ آخر انکی نارووال سے گہری وابستگی بھی معلوم کرنا ہو گی کہ اسکی تہہ میں کوئی صدف تو نہیں جس میں موتی ہے۔
اگر گورنر صاحب نارووال کیلئے وہاں کے ارکانِ اسمبلی کو دیئے گئے فنڈز بچانا چاہتے ہیں تو پھر یہ ارکان نوازی کیوں؟ گورنر صاحب پہلے لاہور کے گھائو پر کرلیں‘ پھر نارووال کی طرف التفات فرمائیں۔ ممکن ہے نارووال سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں…؎
گڈی آئی گڈی آئی نارووال دی
دشمناں دے سینے اتے اگ بالدی
لطیف کھوسہ المعروف بوسہ پورے پنجاب کے گورنر ہیں‘ اس لئے وہ جہاں کے فنڈز ہیں‘ وہیں خرچ کرائیں‘ تاکہ ہر ضلع کو اس کا حق اسکے ارکان اسمبلی سے ملے وگرنہ اس طرح تو یہ فنڈز انکی جیب کی نذر ہو جائینگے۔ بہرحال گورنر پنجاب کے شیر ہیں‘ انڈہ یا بچہ کچھ بھی دینے کے مجاز ہیں۔
٭…٭…٭…٭
پیپلز پارٹی پنجاب نے نواز شریف کو صوبے کی بہتری کیلئے 19 نکاتی ایجنڈا بھجوا دیا۔
یہ ایجنڈا بمقابلہ ایجنڈا ہے یا ڈنڈا بمقابلہ ڈنڈا‘ ابھی تو میاں نواز شریف کے ایجنڈے پر عملدرآمد نہیں ہوا کہ پیپلز پارٹی نے جواب آں ایجنڈا پیش کر دیا۔ یہ سیاست ہے یا سانڈوں کی لڑائی۔ پنجاب حکومت تو اچھی بھلی چل رہی ہے‘ پھر یہ افتاد کیوں؟ سمجھ نہیں آتی کہ جس حزب اقتدار و حزب اختلاف کو ہم ایک سمجھتے تھے‘ وہ بھی ایک نہیں۔ چلو یہ تو اچھا ہوا کہ پیپلز پارٹی نے ازراہ کرم مسلم لیگ نون کو تعاون کی دلدل سے نکال کر عوام کیلئے کام کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔
لگتا ہے پنجاب ہی پاکستان ہے‘ اس لئے ہر جانب سے اسی پر یلغار ہو رہی ہے۔ گویا پنجاب کو مسٹر قربانو بنا دیا گیا ہے کہ وہ ہی پورے پاکستان کیلئے قربانیاں بھی دے اور ’’لِتر‘‘ بھی کھائے۔
پنجاب سے اسکے حصے کا پانی بھی لے لیا جاتا ہے اور اسے کالاباغ ڈیم بھی وہ نہیں بنانے دیتے جو اپنے پرکھوں کی خواہشات پوری کر رہے ہیں اور جب پاکستان بن رہا تھا تو وہ گاندھی کی دھوتی میں گھسے ہوئے تھے۔ یہ 19 نکاتی ایجنڈا پنجاب پورا کرنے کا پابند نہیں‘ البتہ نواز شریف کے ایجنڈے کو پورا ہونا چاہیے‘ جاگ اے نون‘ مسلم لیگ نون اب تو جاگ‘ ورنہ بھاگ اے مسلم لیگ نون بھاگ کیا ستم ہے کہ ملک میں گڈگورننس پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کی کلائی پکڑ کر نیچے کرنے کا مقابلہ ہے‘ جسے ایجنڈا کہتے ہیں۔
پاکستان:جنسی تعلیم پر ’متنازعہ‘ کتاب
پاکستان میں ایک ڈاکٹر نے عوام کی سیکس سے آگاہی پر کتاب لکھی ہے لیکن اس کتاب پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔
ان کی کتاب ’سیکس ایجوکیشن فار مسلم‘ یعنی مسلمانوں کے لیے جنسی تعلیم کا مقصد اسلامی تناظر میں جنسی تعلیم کو فروغ ہے۔
اکاسی سالہ ڈاکٹر مبین اختر جنہوں نے یہ کتاب لکھی ہے کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیکس پر بات ممنوع ہے اور اسی وجہ سے سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ماہرِ نفسیات کے طور پر انہوں نے خود ان نتائج کو قریب سے دیکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب لکھنے کے بارے میں سوچا۔
’سیکس کو لے کر ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘
نوجوان بچے باالخصوص لڑکے جب بالغ ہوتے ہیں اور ان کے جسم میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں انہیں لگتا ہے وہ کوئی بیماری ہے۔ وہ مشت زنی کرنے لگتے ہیں لیکن انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ ان کی صحت کے لیے بہت خراب ہے یا یہ گناہ ہے۔‘
ڈاکٹر اختر بتاتے ہیں انہوں نے ایسے معاملات دیکھے ہیں جس میں نوجوانوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم کے ساتھ کیا ہورہا ہے تو وہ بہت مایوس ہوجاتے ہیں اور حد ہے کہ وہ خودکشی بھی کرلیتے ہیں۔
’میں خود عمر کے اس مرحلے سے گزرا ہوں جب آپ کو آپ کی جنسی تبدیلوں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتاتا۔ ان غلط فہمیوں کے بارے میں مجھے تب معلوم ہوا جب میں خود میڈیکل کالج تعلیم حاصل کرنے گیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ابھی بھی پاکستان میں بہت سے ڈاکٹر جنسی مسائل پر کھل کر بات نہیں کرتے، والدین اور اساتذہ بھی اس موضوع پر بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں سیکس ایجوکیشن ہے ہی نہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں سیکس پر بات کرنا صحیح نہیں سمجھا جاتا ہے اور مانا جاتا ہے کہ اگر سیکس پر نوجوانوں سے بات کی جائے تو اس سے ان کو غیر اسلامی عمل کرنے کی ترغیب ملے گی۔
’وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن کا کب آغاز ہونا چاہیے اور میرا جواب ہے کہ جب بچے بولنا شروع کردیں۔ بچوں کو جنسی اعضاء کے نام بھی اسی طرح بتانے چاہیے جس طرح ناک، ہاتھ وغیرہ کے نام بتائے جاتے ہیں۔‘
’ایک سیاستدان نے مجھے اپنے دفتر بلاکر کہا کہ میں پورنوگرافی کو فروغ دے رہا ہوں لیکن میں نے کہا میں ایسا کچھ بھی نہیں کررہا‘
ڈاکٹر اختر
ڈاکٹر اختر کا کہنا ہے ’جب بچے تھوڑے اور بڑے ہوتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ بچے کہاں سے آتے ہیں تو جواب میں آپ ان کو صحیح بتا سکیں۔ یہ سب بتانے سے بچے جنسی طور پر زیادہ ایکٹیو یا اخلاقی طور پر بگڑتے نہیں ہیں۔‘
ڈاکٹر اختر کا کہنا ہے کہ سیکس کے بارے میں بات کرنے میں کوئی غیر اسلامی بات نہیں ہے۔
مجھے سیکس کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے سب سے بہتر طریقہ کتاب لکھ کر سمجھانا لگا۔ اور اس کتاب میں سیکس ایجوکیشن کو اسلام کے مطابق سمجھایا گیا ہے۔
’جب میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ قرآن، اسلامی قانون اور علماء اس موضع پر کیا کہتے ہیں تو میں حیران ہو گیا کہ اسلام میں سیکس کے بارے میں بہت بات ہوئی ہے۔ جنسی موضوع پر کئی احادیث ہیں۔‘
سیکس سے متعلق جن موضوعات پر ڈاکٹر اختر نے اپنی کتاب میں بات کی اس میں مشت زنی پر اسلامی رائے، شادی شدہ زندگی کے مسائل اور جنسی عمل کے بعد غسل کے طریقے شامل ہیں۔
ڈاکٹر مبین کی اس کتاب سے پاکستان میں بہت سے لوگ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے دھمکیاں ملی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بہت کم دکانیں ان کی کتاب کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ایک سیاستدان نے مجھے اپنے دفتر بلاکر کہا کہ میں پورنوگرافی کو فروغ دے رہا ہوں لیکن میں نے کہا میں ایسا کچھ بھی نہیں کررہا
جنسی ہراساں کرنے کے رویے کی مذمت
کئی اور اداروں کی طرح، جنسی ہراس کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کے اتحاد آشا یعنی ’الائنس اگینسٹ سیکشول ہراسمنٹ‘ نے بھی اس سال کے آغاز پر کیلنڈر شائع کیا ہے مگر اس کیلنڈر پر نہ کوئی منظر کشی ہے اور نہ ہی حسین خواتین کی تصاویر ہیں۔
بلکہ ہر صفحے پر ایسے کردار ہیں جن سے خواتین کا اکثر واسطہ رہتا ہے۔
سڑکوں پر سیٹی بجانے والے حضرات، دفتر میں بےہودگی پر اتر آنےوالے افسران اور وہ جناب جو عورت کو دیکھتے ہی بدن کےمختلف اعضاء کھجانا شروع کر دیتے ہیں۔
مگر ان مزاحیہ کارٹونوں کےذریعے بنائےجانےوالےخاکوں کے پیچھے سوچ سنجیدہ ہے۔آشا کی بانی فوزیہ سعید نے پانچ سال پہلے معروف کارٹونسٹ صابر نذر کےساتھ ان کارٹون کی تخلیق کی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کارٹونوں کا مقصد جنسی ہراس کا شکار ہونے والی خواتین سے توجہ ہٹا کر ہراساں کرنے والوں پر ڈالنا ہے۔مگر جرم کو سمجھنے کے لیےمجرم کے کردار کو سمجھنا اہم ہے۔
نفسیات کی بنیاد پر ہراساں کرنے والوں کی اقسام مقرر کی گئیں۔ عمر، عادات، بچپن میں متاثر کرنے والے واقعات اور اس کے بعد یہ خاکے بنائے گئے۔
اس سال کے کیلنڈر کےلیے آشا نے اپنی ویب سائٹ پر پچھلے پانچ سالوں میں تیار کیےگئے کارٹون شائع کیےاور لوگوں سے اپنے پسندیدہ خاکوں کے لیے ووٹ کرنے کی درخواست کی۔ نتائج کے مطابق سب سے مقبول خاکے اس کیلنڈر میں شامل کیےگئے ہیں۔
خاکوں کےساتھ ان کی تحریری وضاحت بھی دی گئی ہے۔مثال کےطور پر ہاتھ میں ڈنڈا تھامے ہوئے’خدائی ٹھیکیدار‘ کی تعریف ہے کہ وہ اپنی ہی طے کردہ اخلاقیات ہر ایک پر ٹھونستے ہیں اور گھر سے باہر قدم رکھنے والی عورتووں کے چہروں پر تیزاب پھینکتے ہیں۔
’گائک جلابی‘ ان حضرات کے لیے ہے جن کو عورت کو دیکھتے ہی گانا گانے یا سیٹی بجانے کی بیماری ہو جاتی ہے۔اور ’گھورن چٹو‘ وہ افراد ہیں جو بس سٹاپس، بازاروں اور محفلوں میں عورتوں کو ’تاڑتے‘ ہیں۔
فوزیہ سعید اس مہم کا جواز یوں دیتی ہیں:’جن بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں وہ سوچنے لگتی ہیں کہ ان کی ہی غلطی ہوگی۔ آگے جا کر ان کی ازدواجی زندگی، ان کے شوہروں کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘
فوزیہ کہتی ہیں کہ ایسے کارٹونوں کا مقصد ان لڑکیوں کا حوصلہ بڑھانا ہے۔
’ٹھرکی بابا جیسے نام دینے سےجادو ٹوٹ جاتا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ لڑکیاں سہم کر اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے کے بجائےان مردوں کا مذاق اڑا کر ان کے خوف سے آزاد ہو جائیں۔‘
مگر ان مرد حضرات کا کیا جو ان خاکوں کو اپنی ذات کی توہین تصور کرتے ہیں؟ ان کے لیے، فوزیہ سعید کہتی ہیں، ’ہم مردوں کا مذاق نہیں اڑا رہے، ہم مزحیہ انداز میں اس طرح کے رویے کی مذمت کر رہے ہیں۔‘
بلوچستان: نیٹو کے سولہ آئل ٹینکرز تبا
صوبہ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے تیل لے جانے والے سولہ آئل ٹینکروں کو تباہ کر دیا ہے۔
نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک ڈرائیور بھی زخمی ہوا ہے۔
جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب کو پیش آنے والے واقعے کے بعد انتظامیہ نے ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے، لیکن آخری اطلاع تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
دریں اثنا کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے نیٹو ٹینکرز پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں بعض نامعلوم افراد نے افغانستان میں تعینات نیٹو فورسز کے لیے تیل لے جانے والے آئل ٹینکرز پر کلاشنکوف سے فائرنگ شروع کردی جس کے باعث آئل ٹینکروں میں آگ بھڑک اٹھی اور آگ کے شعلوں نے دیگر آئل ٹینکروں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔
آئل ٹینکروں میں لگنے والی آگ کی وجہ سے سندھ اور پنجاب کو بلوچستان سے ملانے والی قومی شاہراہ کئی گھنٹے تک ٹریفک کے لیے بند رہی تاہم ڈیرہ مراد جمالی انتظامیہ کی جانب سے آگ پر قابو پانے کے بعد سڑک عام ٹریفک کے لیے کھول دی ہے۔
ڈپٹی کمشنر نصیر آباد فتح علی خجک کے مطابق بیر چوکی کے قریب جمالی پیٹرول پمپ کے ساتھ مقامی ہوٹل پر رات دو بجے کے قریب ایک کار میں پانچ مسلح افراد آئے اور انہوں نے نیٹو آئل ٹینکرز پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں سولہ ٹینکرز لاکھوں لیٹر تیل سمیت مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
نامعلوم افرادکی فائرنگ سے ایک ڈرائیور محمد خان بھی زخمی ہوا ہے جنہیں فوری طور پر علاج کے لیے مقامی ہسپتال میں داخل کر دیاگیا ہے۔
آئل ٹینکروں میں لگنے والی آگ کی وجہ سے صوبہ سندھ اورصوبہ پنجاب کو بلوچستان سے ملانے والی قومی شاہراہ کئی گھنٹے تک ٹریفک کے لیے بند رہی، تاہم ڈیرہ مراد جمالی انتظامیہ کی جانب سے آگ پر قابو پانے کے بعد سڑک عام ٹریفک کے لیے کھول دی ہے۔
ڈیرہ مراد جمالی انتظامیہ کے مطابق واقعہ کے بعد نامعلوم ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے اُن تلاش شروع کردی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
نامہ نگار دلاور خان وزیر کے مطابق نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان نے کہا کہ مستقبل میں بھی نیٹو سپلائی پر حملے جاری رکھے جائیں گے۔
برطانوی پراسیکیوٹرز نے جمعہ کو تین پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف گزشتہ سال انگلینڈ میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران سپاٹ فکسنگ کے لیے رشوت لینے کے الزام میں فردِ جرم عائد کر دی ہے۔
برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) کے مطابق تینوں کھلاڑی سابق کپتان سلمان بٹ اور دو تیز بولر محمد آصف اور محمد عامر اور ایک سپورٹس ایجنٹ مظہر مجید کے خلاف کرپشن اور دھوکہ دہی کی سازش کا الزام ہے۔
سی پی ایس کے کرائم ڈویژن کے سربراہ سائمن کلیمنٹس کے مطابق یہ فردِ جرم ان الزامات کے بعد لگائی جا رہی ہے کہ مظہر مجید نے کسی تیسری پارٹی سے پیسے لے کر 26 اور 27 اگست 2010 کو لارڈز ٹیسٹ کے دوران ان کھلاڑیوں کو پہلے سے طے شدہ وقت پر نو بالز کروانے کے لیے کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس بات پر مطمئن ہیں کہ سزا کے حقیقی امکانات کے لیے کافی شواہد موجود ہیں اور مقدمہ چلانا عوام کے مفاد میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جب تک عدالت میں ان کے خلاف جرم ثابت نہیں ہوتے تب تک وہ بے قصور سمجھے جائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کھلاڑیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر الزامات کا سامنا کرنے کے لیے برطانیہ آئیں جیسا کہ انہوں نے گزشتہ سال ستمبر میں وعدہ کیا تھا کہ واپس آئیں گے۔
سائمن کلیمنٹس نے کہا کہ اگر مظہر مجید نہیں آتے تو ہم ان کو برطانیہ کے حوالے کرنے کی درخواست کریں گے۔
پاکستان کے تینوں کھلاڑیوں کے خلاف سپاٹ فکسنگ کے مقدمے کی سماعت کرنے والا ٹربیونل بھی دوحہ پانچ فروری یعنی کل اپنا فیصلہ سنانے والا ہے۔
تینوں کھلاڑی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
جنوری کے شروع میں ٹربیونل نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
اس وقت دوحہ میں ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے ٹربیونل کے سربراہ مائیکل بیلوف نے بتایا تھا کہ فیصلہ پانچ فروری کو دوبارہ سماعت پر سنایا جائے گا اور اس وقت تک تینوں کھلاڑی معطل رہیں گے۔
محمد عامر کے وکیل نے بھی ٹریبونل سے درخواست کی تھی کہ وہ فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرے اور تمام شواہد کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔
برطانوی وکیل مائیکل بیلوف کی سربراہی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے تین رکنی ٹریبونل نے چھ جنوری سے گیارہ جنوری تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تینوں کھلاڑیوں کے خلاف سپاٹ فکسنگ کے الزامات کی سماعت کی۔
گزشتہ سال اگست کو انگلینڈ کے اخبار نیوز آف دی ورلڈ نے دعوٰی کیا تھا کہ مظہر مجید نامی ایک ایجنٹ نے اس کے ایک نمائندے سے ڈیڑھ لاکھ برطانوی پونڈ اس لیے وصول کیے کہ انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میں دو پاکستانی فاسٹ بولر محمد آصف اور محمد عامر طے شدہ موقع پر نو بال کروائیں گے اور اخبار کے مطابق یہ کام کپتان سلمان بٹ کی مرضی سے ہوا۔
ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد مظہر مجید کو سکاٹ لینڈ یارڈ نے حراست میں لیا تاہم انہیں جلد ہی رہا کر دیا گیا۔ آئی سی سی نے پاکستان کے تین کھلاڑیوں پر کرکٹ کونسل کے آرٹیکل دو کی کئی دفعات کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے انہیں عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔ تینوں پاکستانی کھلاڑیوں سے شمالی لندن کے تھانے میں کرکٹ میں جوئے کے حوالے سے پوچھ گچھ بھی کی گئی۔
Subscribe to:
Posts (Atom)