The principles of humanity-those values which act as a common bond of responsibilities Shared by faith and cultures throughout the world common humanity, responsibilities, Respect, compassion, truth and integrity, human solidarity
Monday, June 13, 2011
افغان مصالحت کے لیے مشترکہ کمیشن ’دو دھاری تلوار‘
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے ہونے والی عالمی کوششوں میں پاکستان کی باضابطہ شمولیت پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے تقویت کا باعث تو ہے لیکن بعض مبصرین اسے پاکستان کے لیے دو دھاری تلوار بھی قرار دے رہے ہیں۔
سنیچر کو پاکستان اور افغانستان نے افغان مصالحت کے لیے قائم مشترکہ کمیشن کی ایک ذیلی کمیٹی قائم کی جسے پاکستانی سرزمین پر موجود ان جنگجو گروہوں کے ساتھ رابطے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے جو افغانستان میں اثر رکھتے یا کارروائیاں کرتے ہیں۔
اس کمیشن اور اس کی سب کمیٹی کا قیام پاکستان کی گزشتہ چند ماہ سے جاری ان کوششوں کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے جو پاکستانی سول اور فوجی حکام اعلیٰ ترین سطح پر کرتے رہے ہیں۔ افغانستان میں جاری سیاسی اور مفاہمتی عمل میں پاکستان کو حصہ نہ ملنے پر شاکی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ کچھ عرصے میں اعلیٰ سطح کے رابطوں کے ذریعے افغان حکومت کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کوشش میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
پاکستانی حکام اس کمیشن کے قیام کو اپنی کامیابی تو قرار دے رہے ہیں کہ اس کے بعد اب پاکستان کو افغان مفاہمتی عمل میں باضابطہ کردار مل گیا ہے لیکن بعض حکام اس بات کو بھی سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کو کئی برسوں سے جاری اس ’دوغلی‘ پالیسی سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جس کا الزام عالمی برادری پاکستان پر لگاتی رہی ہے۔
افغانستان میں مفاہمت کی کوششوں کا یہ سب سے اہم موقع ہے اور اگر ان کوششوں میں ناکامی ہوئی تو اس سے نا صرف افغانستان سے انخلاء کی امریکی حکمتِ عملی کو زک پہنچے گی بلکہ افغانستان اور اس کے ساتھ پاکستان بھی شورش اور بدامنی کی ایسی دلدل میں پھنس سکتا ہے جس سے نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
امریکی حکام طویل عرصے سے پاکستانی حکومت اور فوج پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ پاکستانی سرحد میں چھپے ان جنگجوؤں کے خلاف ٹھوس اور فیصلہ کن کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہیں جو افغانستان میں امریکی افواج پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ان میں اہم طالبان رہنماء جلال الدین حقانی کا نام بار بار لیا جاتا ہے جن کے بارے میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پناہ دے رکھی ہے یا کم از کم اتنا تو ضرور ہے کہ پاکستان ان کے ’نیٹ ورک‘ کے خلاف کارروائی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
اب جبکہ پاکستان حقانی نیٹ ورک سمیت بعض دیگر جنگجو گروہوں کے خلاف فوجی کارروائی کی بجائے انہیں مفاہمت کے ذریعے افغانستان کے سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی اپنی پالیسی پر دیگر فریقوں کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ سب غیر مشروط طریقے سے نہیں ہوا ہے۔
سنیچر کو افغان صدر حامد کرزئی کی اسلام آباد موجودگی کے دوران افعانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں اور مشترکہ کمیشن میں ہونے والی گفتگو سے آگاہ بعض پاکستانی عہدیدار کہتے ہیں کہ پاکستان سے کارروائی کرنے والے افغان طالبان گروہوں کے ساتھ رابطوں کے لیے پاکستانی اور افغان فوجی اور انٹیلی جنس حکام پر مبنی ذیلی کمیٹی کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے ایک بہت ’مخصوص‘ مدت اور مینڈیٹ دیا گیا ہے۔
ایک سینئر پاکستانی اہلکار کے مطابق ’اس کمیٹی کو آئندہ چند ہفتوں کے دوران اپنی کارکردگی دکھانا ہو گی اگر اس معاملے (مفاہمتی عمل میں پاکستانی کردار) کو آگے بڑھنا اور برقرار رہنا ہے۔‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس مفاہمتی عمل میں شریک کرنے پر امریکی تحفظات کو دور کرنے میں افغان صدر حامد کرزئی نے اہم کردار ادا کیا۔ سنیچر کو پاکستانی حکام سے اپنی ملاقاتوں میں افغان صدر نے ملفوف انداز میں پاکستانی سول اور فوجی قیادت کو یہ باور بھی کروادیا ہے کہ اس مشن کی کامیابی صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔
افغان حکام کا اسلام آباد میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں بار بار کہنا تھا کہ افغانستان میں مفاہمت کی کوششوں کا یہ سب سے اہم موقع ہے اور اگر ان کوششوں میں ناکامی ہوئی تو اس سے نا صرف افغانستان سے انخلاء کی امریکی حکمتِ عملی کو زک پہنچے گی بلکہ افغانستان اور اس کے ساتھ پاکستان بھی شورش اور بدامنی کی ایسی دلدل میں پھنس سکتا ہے جس سے نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)