Thursday, May 5, 2011

کمانڈو اترتےدیکھے


کاکول میں پولیس اہلکار
پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی تفصیلات موضوع بحث ہیں۔ایبٹ آباد کے بلاول ٹاؤن میں ایک مکان میں مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کے خلاف کی جانی والی امریکی کارروائی کو قریب سے دیکھنے والے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ’یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی فوج کو ابتداء میں اس ساری کارروائی کے بارے میں بظاہر کچھ علم نہیں تھا۔‘
پولیس افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ’اتوار کی رات کو انھیں ساڑھے بارہ بجے اور ایک بجے کے درمیان مختلف لوگوں کی طرف سے ٹیلفون کالیں آنا شروع ہوگئیں کہ دھماکے ہوئے اور ہیلی کاپٹر گرا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ابتداء میں صورت حال غیر واضح تھی کہ یہ دھماکے کہا ہوئے ہیں اور ہم نے مختلف اطراف میں پولیس اہلکار بھیجے اور میں نے خود بلال ٹاؤن کا رخ کیا۔
پولیس افسر نے کہا کہ ’جب میں اس مکان کے چند سو گز کے فاصلے پر پہنچا تو میں نے دھماکے کی آواز سنی اور ہیلی کاپٹر سے کمانڈو اترتے دیکھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پہلے میں یہ سمجھا کہ یہ اپنی فوج ہے اور صورت حال کی سنگینی کی وجہ سے ہم نے بہتری اسی میں سمجھی کہ ہم پیچھے ہٹ جائیں۔
انھوں نے کہا کہ پندرہ بیس منٹ کے دوران ایک اور دھماکہ ہوا اور ہیلی کاپڑ واپس جاتے ہوئے دیکھے اور ہم دوبارہ آگے بڑھے۔ پولیس افسر کے مطابق اس اثناء میں پاکستان کی فوج بھی پہنچ گئی اور ہم بھی ان کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔
پندرہ بیس منٹ کے دوران ایک اور دھماکہ ہوا اور ہیلی کاپڑ واپس جاتے ہوئے دیکھے اور ہم دوبارہ آگے بڑھے۔ اس اثناء میں پاکستان کی فوج بھی پہنچ گئی اور ہم بھی ان کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔
ایک پولیس اہلکار
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کے اہلکار تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر بولے کہ ’یہ تو ہمارا ہیلی کاپٹر ہی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’صورت حال کی سنگینی کو دیکھ کر پاکستان کی فوج نے ہم سے کہا کہ ہم بیرونی حصار بنائیں اور خود پاکستان کی فوج کے اہلکار اس مکان میں داخل ہوئے جس میں کارروئی کی گئی تھی۔‘
پولیس افسر نے کہا کہ جس مکان میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اس مکان میں کارروائی کے بعد کتنے لوگ موجود رہ گئے تھے اور یہ کہ ان میں سے کتنے لوگ زخمی تھے فوج نے اس بارے میں پولیس کو کچھ نہیں بتایا۔
پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اگلی صبح امریکی صدر کے بیان کے بعد ہی صورت حال بالکل واضح ہوگئی کہ بلال ٹاؤن کے اس مکان میں امریکی کمانڈو نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔
ایک مقامی شخص نے بھی بتایا کہ انھوں نے بھی تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کے بارے میں پاکستانی فوجی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہ تو ہمارا ہیلی کاپٹر ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے اور اگلی صبح خبروں کے ذریعے پتہ چلا کہ امریکہ نے اس کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔
بلال ٹاؤن میں اکثر لوگ پولیس افسر کے اس بیان کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر واپس جانے کے دس سے پندہ منٹ بعد فوج اور پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تھی۔
جائے وقوعہ سے ہزار گز کے فاصلے پر مقیم مقامی سیاست دان راجہ کامران کا موقف بھی دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں البتہ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس رات پولیس کی ان کے بقول غیر معولی سرگرمی دیکھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس رات تقریباً نو بجے بعض پولیس اہلکار غیر معمولی طور پر لوگوں سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے دیکھے۔
انھوں نے کہا کہ ’عمومی طور پر اس روڈ پر فوج ہی گشت کرتی ہے اور پولیس نہیں ہوتی اور اس اس لحاظ سے یہ غیر معمولی بات تھی۔‘ راجہ کامران نے کہا کہ انھوں نے یہ سوچا کوئی اہم شخصیت آرہی ہوگی یا واپس جارہی ہوگی جس کی وجہ سے اس روڈ پر پولیس گشت کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چند گھنٹوں کے بعد ہیلی کاپٹروں کی پروازیں اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’اس دوران فوج یا پولیس علاقے میں موجود نہیں تھی اور وہ ہیلی کاپٹروں کے واپس جانے کے بعد وہاں پہنچے تھے۔‘

شاید وہ زندہ ہو!


فائل فوٹو
صدر اوبامہ تصاویر جاری کرنے کے حق میں نہیں
سوال یہ ہے کہ جب امریکی گوانتانامو کے پابہ زنجیر قیدیوں کی تصاویر اور ویڈیوز دکھا سکتے ہیں، ابو غریب کی تصاویر افشا ہوسکتی ہیں، صدام حسین کی گرفتاری کے مناظر کو بطور ٹرافی ہر زاویے سے دکھایا جاسکتا ہے ، صدام کے بیٹوں اودے اور قصی کی لاشوں کی تصاویر ریلیز ہوسکتی ہیں ، القاعدہ کے خالد شیخ محمد کی بعد از حراست اور ابو مصعب الزرقاوی کی بعد از مرگ تصاویر جاری ہوسکتی ہیں تو پھر امریکہ اپنے دشمن نمبر ایک اسامہ بن لادن کی تصاویر جاری کرنے سے کیوں انکاری ہے۔
یہ وہ سوال ہے جو اس وقت پاکستان کے عام لوگوں میں بالخصوص اور باقی دنیا میں بالعموم گفتگو کا محور ہے اور کوئی واضح جواب نہ ملنے کا خلا چے مے گوئیوں اور بھانت بھانت کی قیاس آرائیوں سے پر ہو رہا ہے۔
صدر اوبامہ اس لیے تصاویر جاری کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ ان کے خیال میں سر پر دو گولیاں لگنے کے سبب اسامہ چہرہ مسخ ہو گیا تھا اور ایسی تصاویر جاری کرنے سے مسلمان دنیا میں بالخصوص اشتعال پھیل سکتا ہے۔
امریکی ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ اسامہ کی لاش کو سمندر برد کرنے سے پہلے نہ صرف کفنایا گیا بلکہ نیوی کے ایک مسلمان اہلکار نے اس کی نمازِ جنازہ بھی ادا کی۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ اسامہ واقعی غیر مسلح تھا تو پھر اسے زندہ پکڑنے کے بجائے گولی کیوں ماری گئی۔ کیا امریکہ کا نمبر ایک دشمن امریکہ کے لیے زندہ زیادہ قیمتی تھا یا مردہ ۔اگر اس کے گھر سے برآمد ہونے والا مواد امریکی قیمتی سمجھ کر ساتھ لے جا سکتے ہیں تو انتہائی ماہر انتیس کمانڈوز غیر مسلح زندہ اسامہ کو ساتھ لے جانے کے بجائے اس کی لاش کیوں لے گئے۔
میری ایک ریٹائرڈ پولیس افسر سے بات ہوئی جسے بہت سے دیگر لوگوں کی طرح تصاویر جاری نہ کرنے کا امریکی جواز خاصا کمزور لگ رہا ہے۔بقول اس کے ’جو ملزمان پولیس مقابلوں میں سر پر گولیاں لگنے سے مارے جاتے ہیں ان کے خون آلود چہرے بھی کفنانے سے پہلے پانی سے صاف کر کے زخموں کو روئی یا کسی اور شے سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ چہرہ کم ازکم اس قابل ضرور ہو جائے کہ اس کی تصویر بنائی جاسکے۔کیا یہ بات امریکی نہیں جانتے ؟‘
بقولِ پولیس افسر امریکی حکام نے پہلے یہ کہا کہ اسامہ کو اس لیے ہلاک کیا گیا کہ وہ مسلح تھا، پھر ایک روز بعد یہ کہا گیا کہ وہ غیر مسلح تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب امریکی صدر سمیت نیشنل سیکورٹی کونسل کی پوری قیادت یہ مقابلہ براہِ راست بذریعہ وڈیو دیکھ رہی تھی تو کیا اسے یہ نظر نہیں آیا کہ اسامہ مسلح ہے یا غیر مسلح۔ اس کے بعد بھی قومی سلامتی کے مشیر جان برینن کو اپنی بریفنگ میں مسلح اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کو اپنی بریفنگ میں اسامہ کو غیر مسلح کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ اسامہ واقعی غیر مسلح تھا تو پھر اسے زندہ پکڑنے کے بجائے گولی کیوں ماری گئی۔ کیا امریکہ کا نمبر ایک دشمن امریکہ کے لیے زندہ زیادہ قیمتی تھا یا مردہ ۔اگر اس کے گھر سے برآمد ہونے والا مواد امریکی قیمتی سمجھ کر ساتھ لے جا سکتے ہیں تو انتہائی ماہر کمانڈوز غیر مسلح زندہ اسامہ کو ساتھ لے جانے کے بجائے اس کی لاش کیوں لے گئے۔
فی الحال تو جو بھی کہانی آ رہی ہے وہ امریکی یا حساس پاکستانی ذرائع سے ٹکڑوں کی شکل میں آرہی ہے۔اگر عینی شاہدوں کی وڈیو جاری ہوجائے تو پھر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی کہ امریکی حکومت تصاویر جاری کرتی ہے یا نہیں کرتی۔
بقولِ پولیس افسر امریکی حکام اگر تصاویر جاری کرنے سے ہچکچا رہے ہیں تو پھر میری عقل بھی یہ تسلیم کرنے سے ہچکچا رہی ہے کہ وہ مردہ اسامہ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ سرکاری ریکارڈ میں ہلاکت دکھائے جانے کے باوجود اسامہ اب تک کسی امریکی تفتیشی کمرے میں زندہ ہو اور اس سے القاعدہ نیٹ ورک اور ایمن الظواہری سمیت القاعدہ کے روپوش ارکان کے بارے میں ہر ممکن راز اگلوانے کی کوشش کی جارہی ہو اور پھر اسے ہلاک کرکے کسی نامعلوم قبر یا سمندر میں اتار دیا جائے۔
لیکن میری یہ تھیوری غلط بھی ہوسکتی ہے بشرطیکہ پاکستانی حکام اسامہ کی زندہ بیوی یا بیٹی کی ویڈیو جاری کردیں جو اس کارروائی کے سب سے اہم عینی شاہد ہیں۔
فی الحال تو جو بھی کہانی آ رہی ہے وہ امریکی یا حساس پاکستانی ذرائع سے ٹکڑوں کی شکل میں آ رہی ہے۔اگر عینی شاہدوں کی وڈیو جاری ہوجائے تو پھر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی کہ امریکی حکومت تصاویر جاری کرتی ہے یا نہیں کرتی۔
مجھے نہیں معلوم کہ آپ اس ریٹائرڈ پولیس افسر کے دلائل کو سنجیدگی سے لیتے ہیں یا نہیں لیکن جب تک پورا سچ سامنے نہیں آتا چے مے گوئیوں کا بازار اسی طرح گرم رہے گا۔

Ghoain Diar

Palaan B

What are Realities

Taloo .............Irshad Ahmad Arif 5 May 2011

Choraha ..............Hasan Nasar 5 May 2011

Qalm Kman ........ Hamid Meer 5 May 2011

Rozne Dewar ........... Attah Ul Haq Qasmi 5 May 2011

Naqshe Khyal ..............Urfan Sadiqi 5 May 2011

Akher Kayoon .......... Raoof Kalasra 5 May 2011

Vaghera Vaghera ...... Abdulah Tariq Sahail 5 May 2011

Andaze Jehan .....Asdulh Ghalib 5 May 2011

Gher Siyasi Baten .......Abdul Qader Hasan 05 May 2011

 

Apas ki baat – 4th may 2011

Bolta Pakistan 4th May 2011

Aaj kamran khan ke saath - 4th may 2011

Dunya TV-BANAM SARKAR-04-05-2011

Dunya TV-Khari Baat Lucman Kay Saath-04-05-2011

Dunya TV-NEWS WATCH-04-05-2011

11th Hour 4th May 2011

Awaaz with Kamran Shahid, May 04, 2011 SAMAA TV