The principles of humanity-those values which act as a common bond of responsibilities Shared by faith and cultures throughout the world common humanity, responsibilities, Respect, compassion, truth and integrity, human solidarity
Saturday, April 2, 2011
ایک ’دعا‘ کے قبول ہو جانے پر!
صدر مملکت پارلیمان سے خطاب کر رہے تھے! محترمہ بے نظیر بھٹو انتہائی باوقار انداز میں خاموش کھڑی تھیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمان رقص کی تال پر ’گو بابا! گو!‘ کے نعرے سر کر رہے تھے! صدر مملکت بار بار رومال سے ہونٹ صاف کر رہے تھے اور تقریر پڑھتے چلے جا رہے تھے! یہ منظر ایسا ہولناک تھا کہ صدر مملکت نے وردی میں بھی اپنی ”آفریدہ اسمبلی‘ سے بھی کبھی خطاب کرنے کا نہ سوچا اور ایک سوال کے جواب میں کہا، ’میں ایسے بدتمیز لوگوں کے درمیان تقریر کرنا پسند نہیں کرتا!‘ حالانکہ یہ لوگ انہیں وردی میں دس بار منتخب کرنے کا عزم بالجزم کم از کم سو بار دوہرا چکے تھے!
گزشتہ روز صدر مملکت نے چوتھی بار پارلیمانی اجلاس سے خطاب فرمایا۔ قبل ازیں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی اپنے منتخب کردہ صدر مملکت کے تین خطاب انتہائی باوقار سکون کے ساتھ سماعت فرما چکے تھے، لہٰذا صدر مملکت کا چوتھا خطاب ایک نئی مگر بہت پرانی ’روش سماع‘ کا امکان واضح تر کرتا نظر آ رہا تھا اور ہو سکتا تھا کہ اس ’سماع‘ کے دوران پیر سائیں کے برگشتہ مرید پر ’حال‘ آ جاتا اور وہ کچھ یوں تڑپتا کہ صدر مملکت پر فرض ہو جاتا کہ وہ اپنا وہ فقرہ دوہراتے ہی چلے جاتے، جسے سنتے ہی وہ ان حالوں جا پہنچا! کہ ’آداب سماع‘ یہی کہتے ہیں!
ایم کیو ایم، حکمران اتحاد کا حصہ ہو کر بھی روٹھی بیٹھی ہے اور تالیاں بجانے اور بجاتے ہی چلے جانے پر راضی نہیں کیونکہ اب اسے یہ پریشانی لاحق ہے کہ اسے ’اتحاد‘ تو مل گیا مگر ’حکمرانی‘ ابھی تک نہیں دی گئی! ایم کیو ایم نہ صرف یہ کہ ’وزارت اعلی‘ سے محروم کر دی گئی بلکہ ’وزارت عظمیٰ‘ کے قریب نہ پھٹکنے دی گئی! حالانکہ اگر ’وزارت عظمیٰ‘ ان کے پاس ہوتی تو وہ ’ڈرون حملے‘ بہت پہلے بند کروا چکے ہوتے اور دہشت گردوں سے ان کے گھروں کے دروازوں پر نمٹا کر دکھا دیتے!
پاکستان مسلم لیگ ’نون‘ کا رونا یہ ہے صدر مملکت ان کے ’بین‘ تو سن لیتے ہیں مگر ’دست فریاد رس‘ بڑھانے سے ممکن حد تک گریز کرتے رہتے ہیں!
پاکستان مسلم لیگ قاف کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے قائدین کے گھٹنے خراب ہو کر صرف پیٹ کی طرف مڑے رہتے ہیں اور انہیں آج کل عوام کے مستقبل سے زیادہ مونس الہیٰ کے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے! وہ مونس الہیٰ کے سلسلے میں صدر مملکت کے دم دلاسے پر یقین کرنے کے لئے محض یوں تیار نہیں کہ وہ ’دلاسے‘ قرآن اور حدیث کی روشنی میں بھی کسی ’حرمت‘ کے حامل اور ’ایفا کے لائق‘ نہیں سمجھتے! اور ان کے اس بیان پر اہل دین ودانش کی ’بے وقار خاموشی‘ سے ڈرے بیٹھے ہیں! لہٰذا ’ایم کیو ایم‘ نے اپنے ووٹروں سے رابطے بحال کر دیئے ہیں تاکہ ممکنہ قبل از وقت انتخابات میں اپنی نشستیں قبل از وقت مخصوص کروا سکیں اور اس فلم کی نمائش پر پہلے دن کے پہلے شو کے دوران ہی کھڑکی توڑ ’ہفتوں‘ کی فراہمی کا بندوبست یقینی ہو جانے کی ضمانت مہیا ہو جائے! دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون کے قائدین بھی ممکنہ انتخابات کے ابتدائی مگر انتہائی ضروری اقدامات اٹھا چکے ہیں! جناب نواز شریف بروقت ’انجیو پلاسٹی‘ کروا کے تازہ دم ہو چکے ہیں اور اب انہیں انتخابی مہم کے دوران اعصابی دباﺅ سے نبردآزما ہونے کے لئے جسمانی طور پر بھی لیس سمجھا جا سکتا ہے جب کہ ’جناب شہباز شریف بھی ’صحت مند برطانوی خون‘ کے پمپنگ سٹیشن سے ’ری سائیکل‘ ہو کر اپنے بھائی کے شانہ بشانہ دوڑنے کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ’قاف‘ کے بزرگ راہنما بھی سیاسی راج ہنس کی حیثیت سے ’متحدہ مسلم لیگ‘ کی طرف اڑان بھرتے ’پنچھیوں‘ کو قابو کرنے اور انہیں راہ پر لانے کے لئے ابھی ابھی پیر سائیں کے ’ٹیلی فونک سماع‘ پر کان نہ دھرنے کا اعلان کر چکے ہیں تاکہ ان کی اگلی ’چال‘ کسی نوع کے ’حال‘ کا پرتو نہ سمجھی جا سکے! اور ان کی ’لغزش پا‘، ’رقص‘ نہ سمجھی جا سکے! کیونکہ ان کا مسئلہ ’عوام کی قیادت‘ نہیں بلکہ ’قحط قیادت‘ کے دوران ’قیادت‘ ازخود ان کی جھولی میں آن گرنے کے امکان کا درست تر تعین ہے! پاکستان پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ ان کی ’دوربین‘ نگاہ انہیں دھوکا دے رہی ہے، لہٰذا انہیں کسی ’منیب نگاہ‘ کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں تاکہ صحیح صورتحال کا علم ہو سکے کہ تمام مذہبی سیاسی جماعتیں مل جل کر کون سا چاند چڑھانے والی ہیں اور اس نوع کی فرقہ وارانہ تنظیمیں کس نہج پر قدم بڑھانے والی ہیں! پیپلز پارٹی کے ’زعما‘ سمجھتے ہیں کہ ’علما‘ جتنی تیزی سے زور پکڑیں گے ان کے ’ووٹر‘ اسی تیزی سے پیپلز پارٹی میں واپسی کا راستہ اختیار کریں گے اور مقتدر ایوانوں میں بیٹھے لوگ الٹے پاﺅں لوٹتے اراکین کے نکتہ ارتکاز کے تحفظ کی خاطر اگلے پانچ سال در دروازے بھیڑ کر صرف ’حکومت‘ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے!
ہم، پارلیمانی اجلاس کے دوران ’پریس گیلری‘ میں کھڑے دیکھ رہے تھے کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں راجہ ریاض احمد اور ان کے ساتھیوں کا ’فنگاما‘ پارلیمان میں بدنامی کے سونامی کا ’ِسر کا راما‘ بن رہا تھا اور پاکستان کی ’جمہوری ریاست‘ کے لئے جاپان کے جزیروں سے زیادہ ’تباہ کن‘ اثرات ساتھ لا رہا ہے!
کاش ایسا نہ ہو! اور اگر ہو تو بہت خاموشی سے چپ چاپ کھسک لینا بھی احتجاج کا زیادہ، موثر راستہ ثابت ہو سکتا ہے! کاش ہم سیاست اور تہذیب کے چولی اور دامن کے ساتھ کی طرح مقدس جان سکیں اور اپنا پیٹ دکھانے سے احتراز کر سکیں! ورنہ جناب اعجاز کنور راجہ نے کیا خوب کہہ رکھا ہے! ....
خوف ہمسائیگی ایسا ہے کہ اپنی اپنی !
چھت گرا دیتے ہیں، دیوار اٹھانے کے لئے
اور اللہ تبارک و تعالی نے ہماری یہ دعا قبول فرما لی! اور ایوان میں پوری کارروائی پرسکون رہی!
گزشتہ روز صدر مملکت نے چوتھی بار پارلیمانی اجلاس سے خطاب فرمایا۔ قبل ازیں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی اپنے منتخب کردہ صدر مملکت کے تین خطاب انتہائی باوقار سکون کے ساتھ سماعت فرما چکے تھے، لہٰذا صدر مملکت کا چوتھا خطاب ایک نئی مگر بہت پرانی ’روش سماع‘ کا امکان واضح تر کرتا نظر آ رہا تھا اور ہو سکتا تھا کہ اس ’سماع‘ کے دوران پیر سائیں کے برگشتہ مرید پر ’حال‘ آ جاتا اور وہ کچھ یوں تڑپتا کہ صدر مملکت پر فرض ہو جاتا کہ وہ اپنا وہ فقرہ دوہراتے ہی چلے جاتے، جسے سنتے ہی وہ ان حالوں جا پہنچا! کہ ’آداب سماع‘ یہی کہتے ہیں!
ایم کیو ایم، حکمران اتحاد کا حصہ ہو کر بھی روٹھی بیٹھی ہے اور تالیاں بجانے اور بجاتے ہی چلے جانے پر راضی نہیں کیونکہ اب اسے یہ پریشانی لاحق ہے کہ اسے ’اتحاد‘ تو مل گیا مگر ’حکمرانی‘ ابھی تک نہیں دی گئی! ایم کیو ایم نہ صرف یہ کہ ’وزارت اعلی‘ سے محروم کر دی گئی بلکہ ’وزارت عظمیٰ‘ کے قریب نہ پھٹکنے دی گئی! حالانکہ اگر ’وزارت عظمیٰ‘ ان کے پاس ہوتی تو وہ ’ڈرون حملے‘ بہت پہلے بند کروا چکے ہوتے اور دہشت گردوں سے ان کے گھروں کے دروازوں پر نمٹا کر دکھا دیتے!
پاکستان مسلم لیگ ’نون‘ کا رونا یہ ہے صدر مملکت ان کے ’بین‘ تو سن لیتے ہیں مگر ’دست فریاد رس‘ بڑھانے سے ممکن حد تک گریز کرتے رہتے ہیں!
پاکستان مسلم لیگ قاف کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے قائدین کے گھٹنے خراب ہو کر صرف پیٹ کی طرف مڑے رہتے ہیں اور انہیں آج کل عوام کے مستقبل سے زیادہ مونس الہیٰ کے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے! وہ مونس الہیٰ کے سلسلے میں صدر مملکت کے دم دلاسے پر یقین کرنے کے لئے محض یوں تیار نہیں کہ وہ ’دلاسے‘ قرآن اور حدیث کی روشنی میں بھی کسی ’حرمت‘ کے حامل اور ’ایفا کے لائق‘ نہیں سمجھتے! اور ان کے اس بیان پر اہل دین ودانش کی ’بے وقار خاموشی‘ سے ڈرے بیٹھے ہیں! لہٰذا ’ایم کیو ایم‘ نے اپنے ووٹروں سے رابطے بحال کر دیئے ہیں تاکہ ممکنہ قبل از وقت انتخابات میں اپنی نشستیں قبل از وقت مخصوص کروا سکیں اور اس فلم کی نمائش پر پہلے دن کے پہلے شو کے دوران ہی کھڑکی توڑ ’ہفتوں‘ کی فراہمی کا بندوبست یقینی ہو جانے کی ضمانت مہیا ہو جائے! دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون کے قائدین بھی ممکنہ انتخابات کے ابتدائی مگر انتہائی ضروری اقدامات اٹھا چکے ہیں! جناب نواز شریف بروقت ’انجیو پلاسٹی‘ کروا کے تازہ دم ہو چکے ہیں اور اب انہیں انتخابی مہم کے دوران اعصابی دباﺅ سے نبردآزما ہونے کے لئے جسمانی طور پر بھی لیس سمجھا جا سکتا ہے جب کہ ’جناب شہباز شریف بھی ’صحت مند برطانوی خون‘ کے پمپنگ سٹیشن سے ’ری سائیکل‘ ہو کر اپنے بھائی کے شانہ بشانہ دوڑنے کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ’قاف‘ کے بزرگ راہنما بھی سیاسی راج ہنس کی حیثیت سے ’متحدہ مسلم لیگ‘ کی طرف اڑان بھرتے ’پنچھیوں‘ کو قابو کرنے اور انہیں راہ پر لانے کے لئے ابھی ابھی پیر سائیں کے ’ٹیلی فونک سماع‘ پر کان نہ دھرنے کا اعلان کر چکے ہیں تاکہ ان کی اگلی ’چال‘ کسی نوع کے ’حال‘ کا پرتو نہ سمجھی جا سکے! اور ان کی ’لغزش پا‘، ’رقص‘ نہ سمجھی جا سکے! کیونکہ ان کا مسئلہ ’عوام کی قیادت‘ نہیں بلکہ ’قحط قیادت‘ کے دوران ’قیادت‘ ازخود ان کی جھولی میں آن گرنے کے امکان کا درست تر تعین ہے! پاکستان پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ ان کی ’دوربین‘ نگاہ انہیں دھوکا دے رہی ہے، لہٰذا انہیں کسی ’منیب نگاہ‘ کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں تاکہ صحیح صورتحال کا علم ہو سکے کہ تمام مذہبی سیاسی جماعتیں مل جل کر کون سا چاند چڑھانے والی ہیں اور اس نوع کی فرقہ وارانہ تنظیمیں کس نہج پر قدم بڑھانے والی ہیں! پیپلز پارٹی کے ’زعما‘ سمجھتے ہیں کہ ’علما‘ جتنی تیزی سے زور پکڑیں گے ان کے ’ووٹر‘ اسی تیزی سے پیپلز پارٹی میں واپسی کا راستہ اختیار کریں گے اور مقتدر ایوانوں میں بیٹھے لوگ الٹے پاﺅں لوٹتے اراکین کے نکتہ ارتکاز کے تحفظ کی خاطر اگلے پانچ سال در دروازے بھیڑ کر صرف ’حکومت‘ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے!
ہم، پارلیمانی اجلاس کے دوران ’پریس گیلری‘ میں کھڑے دیکھ رہے تھے کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں راجہ ریاض احمد اور ان کے ساتھیوں کا ’فنگاما‘ پارلیمان میں بدنامی کے سونامی کا ’ِسر کا راما‘ بن رہا تھا اور پاکستان کی ’جمہوری ریاست‘ کے لئے جاپان کے جزیروں سے زیادہ ’تباہ کن‘ اثرات ساتھ لا رہا ہے!
کاش ایسا نہ ہو! اور اگر ہو تو بہت خاموشی سے چپ چاپ کھسک لینا بھی احتجاج کا زیادہ، موثر راستہ ثابت ہو سکتا ہے! کاش ہم سیاست اور تہذیب کے چولی اور دامن کے ساتھ کی طرح مقدس جان سکیں اور اپنا پیٹ دکھانے سے احتراز کر سکیں! ورنہ جناب اعجاز کنور راجہ نے کیا خوب کہہ رکھا ہے! ....
خوف ہمسائیگی ایسا ہے کہ اپنی اپنی !
چھت گرا دیتے ہیں، دیوار اٹھانے کے لئے
اور اللہ تبارک و تعالی نے ہماری یہ دعا قبول فرما لی! اور ایوان میں پوری کارروائی پرسکون رہی!
ریمنڈ بھی چھوٹ گیا اور کیچ بھی ۔۔۔ !
موہالی میں کھیلے جانے والے سیمی فائنل کرکٹ میچ کے دوران نہ صرف سر زمین پاکستان بلکہ اس کی شہہ رگ وادی کشمیر سے بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہو تے رہے جس پر بھارتی پولیس کا میٹر گھوم گیا اور انہوں نے اپنا غصہ کشمیریوں کے ٹی وی سیٹ توڑ کر ٹھنڈاکیا۔ کشمیریوں کے پاکستانی ٹیم کے حق میں فلک شگاف نعروں نے بھارتی فوجیوں کو سیخ پا کر دیا۔ جموں و کشمیر کے مختلف مقامات پر بھارتی پولیس اور کشمیری شائقین کے درمیان جھڑپیں ہو گئیں،کشمیری عوام پاکستان کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگاتے رہے ۔۔۔! یہ ہمارے وہ کشمیری بہن بھائی ہیں جنہیں ہم دھیرے دھیرے بھول رہے ہیں۔ جن کی قربانیوں اور پاکستان کے ساتھ محبت کو آہستہ آہستہ فراموش کر رہے ہیں۔ نئی نسلوں کو امن کا دھوکہ دے رہے ہیں۔کبھی امن کی آشا اور کبھی امن کے چھکے لگانے کا ڈھونگ رچا کر پاکستان بھارت کے درمیان حساس ترین مسئلہ کشمیر کو زندہ درگور کرنے کی سازش بُن رہے ہیں۔ نظریہ پاکستان کو بھارتی ریل پر بٹھا کر دہلی کی پٹری پر چلانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی ”شہہ رگ“ کو امن کی میٹھی چھری سے کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان پڑوسی ملک اور اپنے ازلی دشمن بھارت کے خلاف کرکٹ میچ ہار گیا ۔ جیت جاتا تو پاکستانیوں کے زخموں پر کچھ تو مرہم رکھا جاتا۔ ریمنڈ ڈیوس کی با عزت رہائی کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ کرکٹ میں ناکامی نے مزید اداس کر دیا ۔۔۔ پہلے ریمنڈ کا مقدمہ ہارا اور اب بھارت کے ساتھ کرکٹ کا میچ بھی ہار گئے ۔۔۔کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے مگر یہاں تو ہر میدان میں شکست کا سامنا ہے۔ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر امریکہ نے میچ جیت لیا اور پاکستان کو ہرا کر بھارت نے میچ جیت لیا ۔۔۔ پاکستان کے ہاتھ کیا آیا ۔۔۔؟ جی ہاں ۔۔۔ امن ۔۔۔! پیارے بچو ۔۔۔ امن کسے کہتے ہیں ۔۔۔؟ امن اس فاختہ کا نام ہے جس کے بھارت اور اس کے اتحادیوں نے پر کاٹ دئیے ہیں اور جو صرف ان کی منڈیر پر بیٹھ سکتی ہے ۔۔۔! امن کے چمپئن امریکہ کے صدر اوباما کو تو امن کا نوبل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ بھارت بھی امریکہ کی امن فلاسفی کا قائل ہے کہ مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ صدر اوباما نے امن ایوارڈ کو مزید اعزاز بخشتے ہوئے لیبیا پر بھی بمباری شروع کر دی ہے۔ امریکہ اور بھارت کی نظر میں ”امن“ مسلمانوں کی ہڈی پسلی ایک کرنے کا نام ہے۔ پاکستانی ہوش کے ناخن لیں اور اپنے سر ریت سے باہر نکالیں۔ جھوٹی تسلیوں اور خوش فہمیوں کے فریب سے نکلیں۔ میڈیا اور ہجوم سے ہٹ کر چند لمحے اپنی ذات کے ساتھ گزاریں گے تو انہیں علم ہو گا کہ ”امن کے ایوارڈ یافتہ“ چھکے لگانے پہنچ رہے ہیں۔آنکھوں سے غفلت کی پٹی اتاریں گے تو انہیں ہر میدان میں شکست کے پس پردہ وجوہات کا ادراک ہو سکے گا۔اب وقت آچکا ہے کہ پاکستانی اپنے اصل کی جانب لوٹ جائیں۔ بھولی ہوئی تاریخ کو پھر دہرائیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد اور مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کا ازسرنو جائزہ لیں۔ دوستی اور تعلقات برابری کی سطح پر ہوتے ہیں۔ برابری کے لئے کردار پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم اپنے روائتی لباس میں ملبوس پاکستان کے سوٹڈ بوٹڈ وزیراعظم کے ساتھ اس اعتماد سے بیٹھے تھے جس یقین کے ساتھ وہ صدر اوباما کے ساتھ بیٹھا کرتے ہیں۔ وائٹ ہاﺅس کی تقریبات میں بھی سردار جی کا وہی روایتی سفید لباس ہوتا ہے۔ اعتماد لباس سے نہیں اخلاص سے آتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اپنے ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہے۔ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی سابق صدر ضیاالحق اور صدر پرویز مشرف کی طرح امن و دوستی کی ”جگالی“ کرتے ہوئے گھر لوٹ آئے ہیں۔ ہم ایک کرکٹ میچ ہار گئے تو کیا ہوا ۔۔۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم ہار گئے ہیں ۔۔۔کشمیر کا مسئلہ ہم ہار گئے ہیں ۔۔۔ عافیہ صدیقی کا کیس ہم ہار گئے ہیں ۔۔۔ ریمنڈ کا مقدمہ ہم ہار گئے ہیں ۔۔۔ بھارت کی سازش اور امریکہ کی چالیں ۔۔۔ ہم بہت کچھ ہار گئے ہیں ۔۔۔ اس کے باوجودایک چیز ایسی ہے جو ہر ناکامی اور مایوسی میں ہمیں ایک نئی امنگ ایک نئی امید دلاتی ہے اور وہ ہے پاکستانی قوم کی”حب الوطنی“۔۔۔!اس دولت کا مشاہدہ پاک بھارت کرکٹ میچ کے دوران ہوتا ہے۔ وادی کشمیر سے بھارت مخالف نعرے یونہی تو بلند نہیں ہو تے ۔۔۔! پاکستان کے حق میں نعرے بے سبب تو نہیں ۔۔۔!کشمیریوں کو بھی معلوم ہے کہ ” پاکستانی ایک جذباتی قوم ہے۔“ غیرت مند ہی جذباتی ہوا کرتے ہیں ۔۔۔!
Gonna Have To Face It, You’re Addicted To Zionism
Posted on 01 April 2011.
NOVANEWS
by crescentandcross
Ed note–in light of the fact IsraHell is about to unleash YET ANOTHER bloodbath of Gentiles in Lebanon and Gaza, it might be worth revisiting this piece dealing with the addiction to blood from which the Jewish state seems to suffer.
It’s a general rule that people with addictions usually don’t keep their “issues” private. They’ve just GOT to be lettin’ it all hang out–LARG AND IN CHARGE–and in your face. Whether it’s the economic problems they bring upon their families by losing job after job or pulverizing innocent people with their cars or the life of crime they eventually find themselves neck-deep in, addiction is seldom a victimless situation, despite what the victimizers themselves claim. It is a simple issue of gravity–Rather than pull themselves up to a higher level, they must instead drag everyone else down to theirs.And it only gets worse as the substances get more powerful and society becomes less resilient and more interconnected. As one domino falls, it lands on its neighbor, and so on, and so on.The problem for us as a society trying to get a handle on all this is that the conventional wisdom limits it all to powders, liquids, seeds, leaves, etc, and the paraphernalia used in transporting them from point A to point B with needles, pipes or tiny straws.
The truth however is that the really dangerous ones, the ones that don’t just wipe out entire families but rather entire nations are those that enter the bloodstream of consciousness as ideas–irrational ones–that by their very nature are intrinsically destructive to any normally-functioning/healthy society. Consider the lone nut with the doomsday mindset who’s gotten hooked on the idea that progress is bad and decides that the final solution to it all is to bring the house down around him by dumping a computer virus into the “town well” known as the internet.They are everywhere, these dangerous intellectual substances that pollute the mind, causing it to mutate from a life-giving/life-sustaining miracle-machine into a weapon of mass destruction.
And of all of them out there on the street, the one most responsible for turning God’s green earth into one giant ghetto and that’s caused the most damage–both real and collateral–is the one sitting atop all major world affairs these days and, it is Zionism. Truly, as current events are proving now on a daily basis, it is the deadliest of all addictions.The chemical makeup of this highly-addictive poison is simple–pure, distilled, undiluted and uncut narcissism. In it’s rawest form it is the idea that the creator of the entire universe–God–loves one tiny, microscopic sect of people above and beyond everything and everyone else. Not only does He love them more, He’s given them the keys to the kingdom and the means of holding on to those keys, including (but not limited to) stealing, lying, cheating, exploitation and–when necessary–murdering entire nations and races of people if it results in something good coming the addict’s way. Like the remorseless crack-head who sticks a knife into an innocent old lady in order to steal her purse and walk away with a fistful of dollars, the folks under the influence of this mind-destroying drug known as Zionist thinking have done it over and over again, literally for the last 6,000 years.
The only difference between the gangstas of yesteryear vs the gangstas of today is that today’s thugs are not armed with spears and swords but rather nukes, deadly biological agents that could destroy the planet in a matter of minutes and total control of the world’s economy.And the REALLY amazing thing about all of it is that–despite the very-visible destruction these dope dealers and dopeheads have brought on the world throughout history, no one of any real substance has bothered looking into the matter with anything other than junk science. Those who should have known better–the doctors of the soul charged with maintaining public health standards never warned us.
Whether we’re talking about presidents, prime ministers, princes, popes, priests, preachers, professors, pastors or politicians, the fact is that the bribes they were taking from the manufacturers and distributors of this stuff was just too tempting and as a result they all kept their mouths shut.There is no such thing as “recreational use’ Of Zionism. Try it once and you’re hooked. One need only look at today’s “Christian” addicts as proof positive of this. Supposed followers of the Prince of Peace, now having shot themselves up with the Ecstasy of Zionist thinking and now they are simply out of their minds, incapable of rational thought and as much out for innocent blood as if they were a race of vampires.
Try taking the needle out of their arm by telling them how diabolical the wars being fought against innocent Muslim men, women and children are and see for yourself, as you find yourself fighting for your life against a brood of vipers and a pack of rabid dogs.The truth and the tragedy of it all however is that “man the wise” should have known it would come to this. It was a no-brainer from the beginning. After all, the whole affair began when one guy named Abraham–wandering around the desert as high as kite–suddenly started hearing voices in his head telling him he is Superman, and then the next thing you know he’s got a knife to his son’s throat and is about to kill him and incinerate his body in appeasing the voices in his head.
It was all downhill after that.The problem today is that no one recognizes this poison for what it is. The snake oil salesmen peddle it as the cure for all society’s ills and the people keep ingesting it. Even when its deadly effects are manifested in all the carnage that occurs in places such as Gaza, Lebanon, Iraq, Afghanistan and so on, an army of detractors and spin artists come stampeding forward to get their faces and voices in front of the mic to tell the world that the product itself is “safe” and that the latest tragedy is all the result of something else.Take for example the recent comments from Ovadiah Yosef, one of the most powerful dealers of this junk known as Judaism in the world.
In his capacity as capo of one of the most powerful political parties in Israel–the orthodox party ‘Shas’–he was recently heard begging God for YET ANOTHER (imagine that) Holocaust of non-Jews, as if we haven’t seen enough already as of late. “May our enemies (the Arabs) and all evil people who hate us be put to an end and be made gone from the world” were his exact words, specifying his preferred brand of “perishment” with something found–not in the hated Koran, guys and gals, but rather–in the Jews’ Old Testament, saying “The Holy One, Blessed be He, should smite them with plague, them and these Palestinians”.Now, lest some think the elderly man is just succumbing to the effects of his advancing years, keep in mind this isn’t the first time Ovadiah (or his colleagues) has stunk the place up with such comments.
Nary a week goes by where he isn’t polluting and corrupting the minds and hearts of his flock of wolves with the poison that killing Arabs is biblically-sanctioned business for good, bible-believing Jews. One of his more memorable quotes–an oldie but a goodie for sure–has him saying “It is forbidden to be merciful to them…You must send missiles to them and annihilate them. They are evil and damnable.”Now, for those (and particularly in America) who have already given themselves over whole-hog to the anti-Islamic/anti-Arab hysteria sweeping the West like an epidemic of swine flu these days and who are therefore not particularly bothered by the ol’ rebbe’s comments concerning Palestinians, pay close attention to what we’re saying here–He is referring to you as well, due to the accidental circumstances of your birth as non-Jews.See, this is the rub that today’s Judeophiles don’t seem to understand.
Hardcore, died-in-the-wool Chosenite junkies such as the rebbe and his followers are non-discriminating when it comes to their hatred. Using their religion as the recipe book in creating this deadly stew of pathological narcissism, they are equal opportunity bigots whose contempt for “the other” operates without borders or distinction, and you–today’s brain-dead Gentile worshippers of all things Jewish–can be rest assured that after you have outlived your usefulness in fighting Israel’s wars for her that these same people you’ve made into graven images will set their sights (and their fangs) on doing to you what they are doing to the “AYRABS” today. Just something for you to consider.Now, as shocked as some may be at hearing comments of this kind coming from a “distinguished” Jewish religious leader, the fact of the matter is this–it’s as new as the world’s oldest profession.
Israel’s religious and political leaders have been saying things like this since, well, since the release of best sellers such as Genesis, Exodus, Leviticus, Deuteronomy and Numbers, when guys such as Moses, Joshua and the rest of the gang quickly realized how much dough could be had by murdering people and stealing their land from them.And yet, despite the fact this latest display on the part of the rebbe (and others) is proof positive of the destructive properties of this poison known as Zionism, what is the reaction from around the world to this? For the most part, the aforementioned public health officials ignore it while others chime in to say that all is well and that this latest side-effect is not the norm. Groups such as Neturei Karta, the “good rabbis” who “oppose Zionism” (sort of) made the ridiculous claim that the statements by the rebbe were “not representative of true Judaism”. The White House characterized the remarks as‘offensive’ and “harmful” to the efforts of peace.
Keep in mind that, as we said earlier, poisonous statements such as these from Ovadiah Josef are (and have been FOR YEARS) made in one form or another by Jewish leaders in Israel on a daily basis, and yet there is no mind paid to them nor an ounce of commentary.The only possible explanation as to why some interests now feel it necessary to make comment on matters such as these is that technology–namely the internet–has outpaced their ability to keep the destructive properties of this stuff under wraps as they have in years past. Now that the average person–from New York to New Guinea–has instantaneous access to raw information at literally the touch of a button, the conspiracy of silence now must be replaced with a conspiracy of lying.Now, as difficult a thing as this may be to do, let us–for the sake of historical accuracy and medical science, take just a brief stroll down memory lane and consider a few crime scenes where this drug known as Judaism played a factor. I apologize for having to do this, but in the interests of accurate accounting, it’s got to be done–Remember this?
Or this?
–White phosphorus being rained down upon helpless Christian and Muslim Palestinian in Gaza during Zio-Nazi Operation Cast Lead. Thousands were killed or wounded and addicts of Judaism worldwide, both as individuals and as groups–either defended or stayed quiet about it. Or this–
A little Palestinian boy whose name we don’t know but no doubt loved beyond words by many people, SHOT TWICE by some scumbag Zio-Nazi assassin during the same aforementioned “Cast Lead”. Addicts of Judaism worldwide, both as individuals and as groups–either defended or stayed quiet about it.
Oh, and how ‘bout this one, featuring these nice IsraHelli Jewish girls autographing warheads MADE IN AMERICA with messages dripping with hatred such as “From Israel, With Love”before they were launched against helpless Palestinian families–Christian and Muslim–In IsraHell’s war against Lebanese civilians in 2006. Addicts of Judaism worldwide, both as individuals and as groups–either defended or stayed quiet about it.
Oh, here was a good one–Zio-Nazi soldiers wearing t-shirts laughing at and celebrating what they do to Palestinians on a daily basis. One t-shirt not pictured here featured an Palestinian mother kneeling at the grave of her dead child and a caption written in the typically callous, snickering, sneering tone that is the trademark of “Zionist humor” reading “Should have used a condom”. Another one, equally horrific in its absolute barbarity, featured the reticles of a sniper rifle’s telescopic sight aimed at the belly of a pregnant Palestinian, the caption reading “1 shot, 2 Kills.” Addicts of Zionism worldwide, both as individuals and as groups–either defended or stayed quiet about it.
Definitely one of my favorites taking place during Operation Cast Lead–Dopeheads coming out to watch the ensuing Holocaust. Notice–no looks of shock or moral outrage. It might as well be a comedy number or some display of war porn to which they are hooked. Addicts of Zionism worldwide, both as individuals and as groups–either defended or stayed quiet about it.
Here is a recent top 10 hit that made the rounds–Eden Abergil, an Nazi chick who posted these adorable pix of her with her captured prey saying ‘I would gladly kill Arabs – even slaughter them’. Addicts of Nazism worldwide, both as individuals and as groups–either defended or stayed quiet about it.
And finally, the “coup de grace” as far as I am concerned concerning how Nazi Ovadiah Yosef’s comments are not “representative of true Judaism”–Zio-Nazi members and their Zionist cohorts gathered in front of the Torah as they read (no doubt from Leviticus, Deuteronomy or one of the other books that sanction the wholesale slaughter of non-Israelites) in search of “the right words” in justifying the slaughter of “the other”. Addicts of Zionism worldwide, both as individuals and as groups–either defended or stayed quiet about it.Now, as much as these things cause the blood to boil in normal, non-genocidal people, the fact of the matter is this–I don’t condemn the rabbi’s comments. In fact, I am jumping for joy whenever he or one of his fellow travelers shits their pants like this in front of the entire world. I wish they would ALL do it on a regular basis. Why? Because the first step in any recovery/rehab program is to–(1) recognize the toxicity of the substance in question, and(2) admit there is a ‘problem’.For too many years–6,000 to be exact–mankind has refused to look at this “wonder drug” known as Zionism and consider its inevitable side-effects.
The reason for this is that the shylocks, shysters, and schmoozers peddling this stuff for 60 centuries have had free reign to lie about both its dangerous properties and deadly inevitable side-effects. Therefore when someone such as the rebbe Ovadiah Josef lets loose with a slip of the tongue and reveals to all what kind of creature truly lurks under the pretty facade, we should all fall on our knees and thank the Almighty for this little piece of heaven-sent truth, as ugly as it may be.As I consider the situation we face today, I cannot help but think back to the lyrics of that song by the singer Robert Palmer (may he rest in peace) “Addicted To Love”–The lights are on, but you’re not home
Your mind…is not your own
Your heart sweats, your body shakes
Another kiss is all it takes
You can’t sleep, you can’t eat
There’s no doubt, you’re in deep
Your throat is tight, you can’t breathe
Another kiss is all you needYou like to think that you’re immune to this stuff, oh yeah…
But it’s closer to the truth to say you can’t get enoughYou see the signs, but you can’t read
You’re runnin’ at–a different speed
Your heart beats in double time
Another kiss and you’ll be mineA one track mind, you can’t be saved
Oblivion is all you crave
If there’s some left for you,
You don’t mind if you doYou like to think that you’re immune to this stuff, oh yeah
But it’s closer to the truth to say you can’t get enough,You know you’re gonna have to face it, you’re addicted to love…Oh, if only love were the addiction in question…‘What a wonderful world’ as that other famous old song goes. But when it comes to Israel and her people, weain’t talkin’ ‘bout love here, unless of course it’s a case of “Magic mirror, on the wall…who’s the fairest of them all?..’ Jewish thinking–it’s not some miracle drug, it’s a poison, and if we entertain the idea of drying ourselves out and transforming our ghetto from a crime-ridden slum into a peaceful, productive neighborhood, we’re gonna have to face it–We’re addicted.
Glennnomorewarsforisrael@gmail.comhttp://theugytruth.podbean.com
Subscribe to:
Posts (Atom)