Friday, January 28, 2011

Aaj Kamran Khan Kay Saath 2011.01.27

<iframe title="YouTube video player" class="youtube-player" type="text/html" width="480" height="390" src="http://www.youtube.com/embed/m0N6Nsx7Deg" frameborder="0" allowFullScreen></iframe><iframe title="YouTube video player" class="youtube-player" type="text/html" width="480" height="390" src="http://www.youtube.com/embed/A_ZQsJ3X2hk" frameborder="0" allowFullScreen></iframe>

Dunya Today-27-01-2011

America's Got Talent

Future Funk, 5, 9 ~ America's Got Talent 2010, auditions LA

PHX Halftime Entertainment, HUMAN SLINKY

سرے راہے


جمعرات 22؍ صفر المظفر‘ 1432 ھ‘ 27؍ جنوری2011ء

ـ 23 گھنٹے 30 منٹ پہلے شائع کی گئی
وی آئی پی شخصیات کے سیکورٹی پلان اور پولیس کی انتہائی خفیہ فائلیں 15 روپے کلو کے حساب سے فروخت‘ راز رکھے جانیوالے کاغذوں میں سموسے اور جلیبیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔ 
ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ق) اور دیگر تانگہ پارٹیوں کے لاکھ اعتراضات و الزامات کے باوجود عوام کافی حد تک پنجاب پولیس کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے جب سے پنجاب پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے‘ تب سے رشوت پر بھی قابو نظر آتا ہے۔ 
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اگر خفیہ فائلوں میں آلو چھولے فروخت ہونگے تو پھر وی آئی پی شخصیات کی سیکورٹی بھی ریڑھی بانوں کو دے دینی چاہیے‘ جس ملک میں غریب لوگ روٹی کے حصول کیلئے اولاد کو فروخت کر رہے ہوں‘ عزتیں سربازار نیلام کی جا رہی ہوں‘ حصول زر اور خوشنودی زن کیلئے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو قتل کیا جا رہا ہو‘ وہاں پر خفیہ فائلوں میں سموسے اور جلیبیاں فروخت ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ 
’’قیمت زعفران چہ داند خر‘‘ (گدھا زعفران کی قیمت کیا جانے)۔ ایسے کون سے نااہل افسران سیکورٹی پلان ترتیب دیتے ہیں جن کو حساس فائلوں کا پتہ ہی نہیں کہ وہ کس چھولے فروش کے ہاتھوں میں جا چکی ہیں۔ آئی جی پنجاب اس بلنڈر کا نوٹس لیں۔ اس طرح راز ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں لگ گئے تو کتنی بڑی تباہی مچے گی…ع
تیری گود میں بیٹھوں اور تیری داڑھی نوچوں‘‘ 
اس کہاوت پر جو لوگ کاربند ہیں‘ ان کو فی الفور گھر کا راستہ دکھائیے۔ 
٭…٭…٭…٭
شاہ زین بگتی نے کہا ہے کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے‘ ملک کیخلاف کام کرنے والوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے۔ 
شاہ زین صبح و شام محب وطن ہونے کی یقین دہانی کرواتا ہے لیکن حکمران طبقہ اسکی جانب کان نہیں دھر رہا‘ کیا یہ بلوچستان کے مسائل حل نہ کرنے کی بات نہیں ہے۔ بلوچستان میں لگی آگ پر پانی چھڑکنے کے ساتھ ساتھ مٹی بھی پھینکنی چاہیے تھی تاکہ جلد اس پر قابو پایا جا سکتا لیکن حکومت بلوچستان میں محب وطنوں کو گرفتار اور دشمنوں کو کھلی چھٹی دے رہی ہے۔ احسان دانش نے کہا تھا…؎
وہ داستاں جو مصائب میں دفن ہے اب تک 
زبان خلق پہ جب آگئی تو کیا ہو گا 
بلوچستان میں محرومیوں کی آواز جب نقارہ خلق خدا بن گئی تو کیا طوفان آئیگا‘ کیا بلوچ صدر بلوچوں کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے؟ کہا جاتا ہے کہ سچی بات آدھی لڑائی ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ اندھے کو بھی اندھا کہہ دیں تو وہ سر کو آتا ہے۔ شاہ زین نے سرعام پھانسی کی بات تو کر دی ہے لیکن جب قطار اندر قطار غداروں کے چہروں سے پردہ اٹھے گا تو بات بگتی کے پوتوں تک آپہنچے گی۔ اس سچ بولنے کے بعد زین بگتی کو اپنی سیکورٹی مزید سخت کرلینی چاہیے۔ ’’ہر کہ گرگیں شدہ از گلہ بدر باید کرد ‘‘ (جو بکری ہو کر بھیڑیے کا کردار ادا کرے‘ اسے ریوڑ سے باہر نکال دیا جائے) جو پاکستانی ہو کر وطن کیخلاف ہتھیار اٹھائے‘ اسے پاکستانی کہلانے کا حق نہیں۔ 
٭…٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو 18ویں آئینی ترمیم کے تحت ملنے والے تمام اداروں میں بھرتی کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ 
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ وفاقی وزراء سے محکمے تو ویسے ہی لئے جا رہے ہیں‘ اب جاتے جاتے اپنے ماتحت افسران عزیز و اقارب اور بااثر ووٹروں کی جیبیں تو بھر جائیں۔ وزراء نے سوچا چلو کچھ لو اور کچھ دو کی بناء پر صوبوں پر لوڈ تو ڈالتے چلو۔ کہا جاتا ہے کہ کھویا ہوا وقت واپس نہیں ملتا۔ شاید اس کو بنیاد بنا کر وزیروں نے اپنے اپنے محکموں میں بھرتی شروع کر دی ہے کہ مسند اقتدار کبھی پھر نصیب ہو گی یا نہیں‘ اس لئے ’’لٹو اور پھٹو‘‘۔ وفاقی حکومت کو اصولی طور پر وزارتوں کی منتقلی کو خفیہ رکھنا چاہیے تھا‘ تاکہ لوٹ مار کا بازار گرم نہ ہوتا۔ 
ارسطو نے کہا تھا جو اپنا راز پوشیدہ رکھتا ہے‘ وہ اپنی ساری دولت گویا اپنے قبضے میں رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اعلان کرکے خزانے کے منہ کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ جس میں اپنی تجوریوں کے ساتھ ساتھ اپنے مزارعوں کی جیبیں بھی بھری جا رہی ہیں۔ وفاق صوبوں پر رحم کھاتے ہوئے اس سلسلہ کو بند کرے۔ غالب نے شاید ایسے لوگوں کے بارے میں کہا تھا…؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
٭…٭…٭…٭
مسلم لیگ (ن) کے ترجمان پرویز رشید نے کہا ہے کہ الطاف کا پنجاب میں مارشل لاء لگانے کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔
پرویز رشید نے مارشل لاء کا مزہ شاید کچھ زیادہ ہی چکھا ہے اس لئے وہ اسے مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ ٹیگور کا قول ہے کہ وقت اور عمر گنوانے کے بعد تجربہ حاصل ہوتا ہے‘ یہ مفت میں نہیں ملتا‘ اس لئے مارشل لاء کا جن کو مزہ آچکا ہے‘ وہی بخوبی جانتے ہیں کہ مارشل لاء میں کیسے آمر سے سازبار کرنی پڑتی ہے‘ باقی وزیر مشیر کسی کھاتے میں نہیں ہوتے۔ 
طاقت کا منبع صرف آمر ہوتا ہے‘ اسکی خوشنودی کیلئے 12مئی جیسے واقعات کئے جا سکتے ہیں‘ چھوٹے مرزے کو چھوڑ کر صرف وردی والے مرزے کو خوش رکھنے سے کام چلتا ہے لیکن جمہوریت میں تو مرزا سے لیکر گبول تک سب کو خوش کرنا پڑتا ہے‘ اس صورتحال میں تو پرویز رشید کو الطاف بھائی کیلئے یہ کہنا چاہیے کہ…؎ 
تو از چنگال گر گم در ربودی
چو دیدم عاقبت خود گرگ ود 
(تو مجھے بھیڑے کے چنگل سے تو چھڑا کر لے بھاگا اور جب میں نے دیکھا تو تو بھیڑیا نکلا۔) جمہوری قوتوں نے عوام کو مارشل لاء سے نکال کر جمہوری مارشل میں داخل کر دیا ہے‘ جہاں آمر کی طرح ہر خاندان کا پارٹی پر قبضہ ہے۔

”فوج بلانے کے آرزومند“

چنگیز خاں کے لشکر شہر پہ شہر فتح کرتے جب ایران کے شہر قُم پہنچے تو وہاں مسلمانوں کے دو گروہ شیعہ اور سنی موجود تھے۔ شیعہ گروہ نے تاتاری لشکر سے کہا کہ اگر وہ لوگ قُم میں سنی گروہ کو ختم کر دیں تو وہ یہ شہر انکے حوالے کر دیں گے۔تاتاریوں نے یہ شرط منظور کر لی لیکن جب فاتحانہ انداز میں شہر میں داخل ہوئے تو انہوں نے شیعہ اور سنی دونوں کو قتل کرد یا۔اسی طرح کا واقعہ تہران سے ملحق ایک عالیشان شہر کا ہے۔وہاں حنفی اور شافعی تھے۔جب تاتاری وہاں پہنچے تو اس وقت حنفی و شافعی کے مابین کسی مسجد کے جلائے جانے کا جھگڑا چل رہا تھا۔شافعیوں نے حنفیوں کی عداوت میں تاتاریوں کا خیر مقدم کیا اور انکے سامنے یہ شرط رکھی کہ وہ اس شرط پر شہر انکے حوالے کرنے پر تیار ہیں اگر وہ حنفیوںکو چن چن کر قتل کر دیں۔تاتاریوں نے حنفیوں کا کام تمام کرنے کے بعد شہر پر قابض ہو تے ہی شافیوںکا بھی صفایا کر دیا۔
بیرونی طاقتیں مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے اور انہیں آپس میں لڑانے کے منصوبے صدیوں سے بناتے چلی آ رہی ہیں اور دور حاضر میں بھی غیرملکی طاقتیں مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے در پے ہیں لیکن انڈو پاک کے مسلمان بیرونی سازشوں کا ہدف جان گئے ہیں لہذا فرقہ وارانہ اور فروعی اختلافات سے بالا تر ہو کر سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔خود کش دھماکوں ، ڈرونزحملوں اور توہین رسالت جیسے مسائل و واقعات کے خلاف متحد ہیں لہذا لاہور میںایک ہی دن ایک ہی مقام پر دو مکتبہ فکر کے محترم مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بناکر فرقہ واریت پھیلانے کی گھناﺅنی سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔امام بارگاہ اور داتا دربار کے قریب پیش آنے والا سانحہ تاتاریوں کے قبیلہ کا مکروہ فعل ہے ۔کراچی اور لاہور کے المناک واقعات کے پیچھے اندرونی و بیرونی سیاسی چالبازیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ میںکچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا مقصد فوج کو دعوت دیناہے۔ بالخصوص پنجاب حکومت کی رٹ کو چلینج کیا جا رہاہے۔شر پسندی کے واقعات سے فوج کو جواز پیش کیا جا رہاہے مگر فوج وائٹ ہاوس کے”گرین سگنل“ کے بغیر حرکت میںنہیں آتی ۔پاکستان کی زمین مذہبی وسیاسی انتشار کا شکار ہے جبکہ اللہ تعالیٰ زلزلوں کی صورت میں بھی مسلسل وارننگ دے رہے ہیں۔صرف پاکستان ہی نہیںپوری دنیا زمینی و آفاقی مصائب سے دوچار ہے۔پوری دنیا میں دھماکے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔امریکہ جیسا طاقتور ملک بھی زمینی و آسمانی آزمائشوں میں مبتلا ہے۔معاشی بحران کا شکار ہے۔دنیا کو غرور اور دور سے دیکھنے والا آج ہندوستان اور چین کے طواف کرنے پر مجبور ہے۔ سپر پاور کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے تو امریکہ کی مار کھانے والے کمزور اور غریب ملک پاکستان میںبحران متوقع تھا۔صرف پاکستان میں ہی قتل نہیں ہوتے امریکہ جیسے مہذب ملک میں بھی روزانہ قتل ہوتے ہیں ۔چونکہ اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے آزاد ، مضبوط اور منظم ہیں لہذا ظلم نے ابھی تشویشناک صورت اختیار نہیں کی ،اس کے باوجود صرف نیویارک میں 2010 کے دوران149 قتل ہو چکے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس شہر میں گزشتہ برس134 قتل ہوئے تھے۔اس میں خواتین بھی شامل ہیں جن کی آبروریزی کے بعد انہیں دریاﺅں اور سمندر کے پانی میں بہا دیا جاتا ہے۔قاتل اور مقتول کی فہرست میں پاکستانی باشندوں کے نام بھی شامل ہیں۔ امریکہ بھر میں 1960 میںقتل کے واقعات کی تعداد قریبََا9,110 بتائی جاتی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا قتل کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا رہا حتیٰ کہ 2009 میں یہ تعداد15,241 تک پہنچ گئی۔پاکستان سے دوگنا آبادی پر مشتمل امریکہ میں ہر روز 45 قتل ہوتے ہیں جبکہ امریکہ سے نصف آبادی والے ملک پاکستان میں قتل کے واقعات کی شرح تشویشناک اور افسوسناک ہے ، مزید ظلم یہ کہ مظلوم کی شنوائی نہیں ۔کمزور شہری کی کوئی ایف آئی آر کاٹنے کو تیار نہیں۔جسٹس جاوید اقبال پاکستان کی محترم شخصیت ہیں۔عدلیہ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں لہذا ان کے مرحوم والدین کے قاتل جلد گرفتار کر لئے گئے مگر ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن کے قاتل نا معلوم رہتے ہیں اور لواحقین کورٹ کچہریوں کے دھکے کھاتے مر جاتے ہیں جو کہ قتل سے بھی زیادہ اذیتناک جرم ہے۔امریکہ میں لا اینڈ آرڈر کی وجہ سے مجرموں کو گرفتار کر لیاجاتا ہے اور انہیں کیفر کردار تک بھی پہنچا دیا جاتا ہے۔جرائم میں اضافہ بُش پالیسی کے بعد ہوا ہے ۔ امریکہ کوبُش دور حکومت نے غیر محفوظ کیا ہے۔قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کی اکثریت نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔منشیات کے عادی گروہوں کے علاوہ بیروزگاری کا رد عمل بھی سامنے آ رہاہے مگر امریکی حکومتیں عوام کے ڈالروار آن ٹیرر میں پھونک رہے ہیں۔ امریکہ نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران انسداد دہشت گردی کے مختلف منصوبوں پر 1.2کھرب ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔رواں مالی سال میں امریکہ عراق اور افغانستان کی فوجی کاروائیوں میں مزید 159 ارب ڈالر کی رقم خرچ کرے گا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی جان اور اقتدار بچانے کی فکر پڑی ہے اور بے یارومددگار عوام دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔زمینی و آفاقی جھٹکوں اور دھماکوں نے قوم کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔امریکہ کو وار آن ٹیرر پر خرچ ہونے والی پائی پائی کا حساب چاہئے،اگر نام نہاد جمہوری حکومت ملکی حالات پر قابو پانے میں ناکام رہی تو ”فوج بلانے کے آرزومند“ مایوس نہیں کئے جائیں گے ۔جمہوری حکومتیں مت بھولیں کہ جی ایچ کیو میں تبادلے اور ترقیوں کا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میںہے۔!

کم خوابی رشتے بگڑنے کا سبب بنتی ہے


کم خوابی رشتے بگڑنے کا سبب بنتی ہے

فائل فوٹو
نیند کی کمی کئی بیماریوں کو جنم دی سکتی ہے
برطانیہ میں ایک اہم ادارے ’مینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن‘ کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ نیند کم آنا ایک اہم بیماری ہے جس کا علاج کرانا ضروری ہوتا ہے۔
فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’گریٹ برٹش سلیپ رپورٹ‘ میں کہا گيا ہے کہ ننید کی کمی اور خراب رشتے، توانائی کا کم ہونا اور توجہ مرکوز کرنے کی استطاعت ختم ہونے میں ربط پایا گیا ہے۔
یہ بات پہلے ہی معلوم ہوچکی ہے کہ صحیح طریقے سے نیند نہ آنے سے ڈپریشن، قوت دفاع میں کمی اور امراض قلب جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
اس سے پہلے برطانیہ میں ایک جائزے سے پتہ چلا تھا کہ برطانیہ تیس فیصد لوگ انسومینیا یعنی کم نیند آنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
ہم اس ملک میں نیند کے مسائل کو اب بہت زيادہ نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ ہماری صحت، اقتصادیات اور ہماری خوشیوں پر پر بری طرح اثر انداز ہورہے ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری کے لیے جو آن لائن سروے کیا گيا ہے اس میں تقریباً چھ ہزار آٹھ سو لوگوں نے حصہ لیا۔ برطانیہ میں اپنی نوعیت کا یہ سب سے بڑا سروے بتایا جا رہا ہے۔
اس میں حصہ لینے میں ان لوگوں نے زیادہ دلچسپی دکھائی جنہیں اپنی نیند کےتئیں تشویش لاحق تھی اور یہ پورے برطانیہ کی نمائندگی نہیں کرتا۔
لیکن اس سے اچھی نیند اور کم خوابی کے درمیان جو خلاء ہے اس کے متعلق لوگوں کے تجربات کا پتہ ضرور چلتا ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنہیں کم خوابی کی شکایت ہے ان کے رشتوں میں چار گنا مشکلات کا امکان ہے، تین گنا ان کے ڈپریشن کی شکایت ہونے کی گنجائش ہے اور تین گنا توجہ مرکوز کرنے میں مشکلیں آسکتی ہیں۔
مینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن میں سینیئر ریسرچر ڈاکٹر ڈین روبوتھم کا کہنا ہے کہ اس میں مبتلا افراد ایسی مشکل میں پھنس سکتے ہیں جہاں کم خوابی سے ان کا ذہنی بیماریوں کا شکار ہونے کا امکان ہے جو مزید نیند کی کمی کا باعث ہوسکتا ہے۔
’یہ اہم ہے کہ لوگ اس مشکل میں پھنسنے سے بچنے کے لیے اپنی نیند بہتر بنانے کے موثر طریقوں سے واقف ہو

Cheshme Tmasha

                                         

Zeero Point

                                    

Heran to Sada Loh hon ghe Ayaz Meer


News Night with Talat Hussain 27th January 2011

Islamabad Tonight 27th January 2011

Off The Record 27th January 2011


Dunya TV-HASB-E-HAAL-27-01-2011

Kal Tak 27th January 2011

,,

Capital Talk 27January 2011

, ,,,,

Tense Situation of Law & order In Pakistan