Thursday, May 19, 2011

News Beat with Fereeha Idrees May 19 , 2011 SAMAA TV

President Obama Calls For Return To 1967 Borders In Israel!

Dunya TV-HASB-E-HAAL-19-05-2011

Capital talk - 19th may 2011


Watch live video from dayan0070 on Justin.tv

Watch live video from dayan0070 on Justin.tv

Dunya TV-NEWS WATCH-19-05-2011

Crime Scene May 19, 2011 SAMAA TV

AAP KI BAAT, May 19, 2011 SAMAA TV

Aaj kamran khan ke saath - 19th may 2011

Kal Tak ......... Javed Choudary 19 May 2011

News Night with Talat 19th May 2011

Reporter

Khari baat luqman ke saath - 19th may 2011

Islamabad Tonight 19th May 2011



سروے کے مطابق ستر فیصد پاکستانی امریکہ کو اور صرف دس فیصد بھارت کو بد ترین دشمن سمجھتے ہیں۔اعظم سواتی کی اسلام آباد ٹونائٹ میں گفتگو

عزت سے جینا ہے تو ہر صورت میں امریکہ کو چھوڑنا ہو گا۔اعظم سواتی

امریکہ نے ہمیشہ پاکستان سے اپنے مفاد کے لئیے تعلقات رکھے ہیں۔ نفیسہ شاہ

امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ڈکٹیٹروں کی حمایت کی ہے۔نفیسہ شاہ

امریکی اقدامات سے خطے میں دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ نفیسہ شاہ

ایوب خان امریکی سی آئی اے سے پیسے لیتا تھا۔ شاہد خاقان عباسی

ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم نے امریکہ کی دوستی میں کیا کھویا کیا پایا۔شاہد خاقان عباسی

سول حکومت کا کام ہے کہ پالیسی بنائے اور فوج اس پر عمل کرے۔ شاہد خاقان عباسی

فوج کو حق نہیں کہ خود سے امریکہ کے ساتھ معاملات کرے۔شاہد خاقان عباسی

ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ لوگوں کو بتایا کہ امریکہ ہی ہماری ترقی اور دفاع کا ضامن ہے۔ اعظم سواتی

آج پاکستان کی فوجی قیادت کہہ رہی ہے جتنی جلد امریکہ سے جان چھڑا لیں بہتر ہے۔ اعظم سواتی

محترمہ اس دفعہ تمام جہادی گروپوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کر کے پاکستان آئی تھیں۔ نفیسہ شاہ

ان کیمرہ سیشن میں ہم نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنے کا کہا ہے۔ نفیسہ شاہ

ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی

کل کے جہادی آج امریکہ کے خلاف لڑنے سے دہشت گرد بن گئے ہیں۔شاہد خاقان عباسی

پاکستان کی افغان اور کشمیر پالیسیاں بالکل ناکام ہیں۔ شاہد خاقان عباسی

جہادی گروپس پاکستان کی تباہی کا باعث بنے ہیں۔ اعظم سواتی

پاکستان کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں کہ دیکھے کہ جہادی گروپس ہمارے دوست ہیں یا دشمن۔اعظم سواتی

پہلی بار فوج نے پارلیمنٹ کے سامنے اپنی مجبوریاں بیان کیں۔ نفیسہ شاہ

پاکستان کی سیاسی قوتوں کو اس عمل کو جاری رکھنا ہو گا۔ نفیسہ شاہ

پاکستان نے بحران سے باہر نکلنا ہے تو معیشت کو مظبوط کرنا ہو گا۔ شاہد خاقان عباسی

آج بھی پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت ہم خیال نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی

جب تک فوج خود کو سول انتظامیہ کے سامنے جوابدہ نہیں کرے گی حالات درست نہیں ہو سکتے۔ شاہد خاقان عباسی

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خود کار ہتھیاروں کا لائسنس دیا جاتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی

فوری طور پر پاکستان کو ہتھیاروں سے پاک کرنا ہو گا۔ شاہد خاقان عباسی

پارلیمنٹ کے لوگوں کا کردار ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کے مسائل کی بات کریں۔ اعظم سواتی

مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے وقت کے ساتھ مثبت تبدیلی ضرور آئے گی۔ شاہد خاقان عباسی

Off The Record 19th May 2011

بند کمرہ اجلاس میں سیاسی جماعتوں نے کیا کیا


پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے رویے نے کئی دہائیوں پر مبنی سیاسی جماعتوں کے نظریات اور ان کے افعال میں تضاد کے بارے میں حقائق بہت سوں کے سامنے کھول کر رکھ دیئے۔
پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں دو مئی کے واقعات پر بحث تو ہوئی اور ایک قراداد کے ذریعے اس کی تحقیقات کا بھی حکم جاری کر دیا گیا لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ساڑھے نو گھنٹے جاری رہنے والے اس اجلاس نے فوج کے بارے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے نظریات کی بظاہر قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

بلوچستان کے ارکان پارلیمنٹ کا رویہ۔

پاکستان میں گزشتہ کئی برس سے بلوچستان میں فوج اور اس کے خفیہ اداروں کے کردار کے بارے میں بلوچ سیاسی قیادت مختلف الزامات عائد کرتی رہی ہے اور مختلف فورمز پر فوج کے خلاف جذبات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
پارلیمنٹ کے عام اجلاس میں بعض اوقات فوج کے خلاف دھواں دار تقاریر سننے میں آتی ہیں اور مختلف سیمیناروں میں بھی یہ ارکان پارلیمنٹ فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں بعض اوقات نازیبا حد تک گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جب فوج اور آئی ایس آئی کو مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ارکان سیاست میں مداخلت سے لے کر بعض دیگر معاملات میں براہ راست تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے تو بلوچستان کے ارکان کی جانب سے خاموشی دیکھنے میں آئی۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل بزنجو تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے صوبے کے بارے میں صرف ایک سینیٹر عبدالمالک بلوچ نے چند کلمات کہے جنہیں نہ ایوان میں کسی نے سنجیدگی سے سنا اور نہ ہی آئی ایس آئی کے سربراہ نے۔
اس دوران بلوچستان کے چودہ ارکان قومی اسمبلی اور اکیس ارکان سینیٹ یا تو اونگھتے نظر آئے یا آئی ایس آئی کے سربراہ اور ان کے حق میں ہونے والی تقریروں پر ڈیسک بجاتے رہے۔
میر حاصل بزنجو نے بی بی سی کے اصرار پر اپنے صوبے کے ارکان کے اپنے مسائل بیان نہ کرنے کے اس رویے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی صورتحال بہت عجیب ہے جس میں ارکان پارلیمنٹ کا کردار بہت محدود ہوتا جا رہا ہے۔
’بلوچستان کے ارکان سینیٹ اور قومی اسمبلی کی اکثریت ایسی ہے جو اپنی نشستیں خرید کر آئے ہیں یا پھر ان کا تعلق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ ایسے میں وہ اپنے حقوق یا اپنے عوام پر ہونے والے مظالم کی بات کیسے کرتے‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور فوج مخالف نظریات۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں اس کے اپنے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ اس کی سیاست’انٹی اسٹیبلشمنٹ‘ ہے۔ اس کی پارٹی کے رہنما اکثر یہ کہتے بھی سنے جاتے ہیں کہ ان کے حلقے میں ان کا ووٹ بنک بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جذبات رکھتا ہے۔
ایسے میں توقع کی جا رہی تھی کہ پیپلز پارٹی کے ارکان بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے اور ملکی تاریخ میں اپنے ساتھ فوج اور اس کی ایجنسیوں کی مبینہ زیادتیوں کا کم از کم ذکر ضرور کریں گے۔
اصل میں ہوا کیا۔ پیپلز پارٹی کے بعض ارکان پارلیمنٹ تسلیم کرتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے بیان کے دوران اس کے ارکان بار بار ڈیسک بجاتے رہے۔
سید ظفر علی شاہ کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور وہ اس کے ابتدائی ارکان میں شامل ہیں۔ ان کی توجہ جب ان کی جماعت کے اس رویے کی جانب دلوائی گئی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ پارلیمنٹ میں ان کی جماعت خاص طور پر سندھ کے عوام اور ملک بھر میں پھیلے اپنے ووٹرز کے جذبات کی درست ترجمانی نہیں کر پائی۔ وجہ اس کی انہوں نے کچھ یوں بتائی۔
’جناب آئیڈٹیلزم (نظریات) کی سیاست ختم ہو گئی۔اب عملیت کا دور ہے۔ اب تو ترجیح یہ ہے کہ حکومت کو کیسے قائم رکھا جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ہماری پارٹی میں یہ خرابی یا غلطی کہاں اور کیسے پیدا ہوئی۔ لیکن ایک بات ہے کہ یہ آخری موقع ہے کہ اس طرح کی سیاست چلے گی‘۔

متحدہ قومی موومنٹ کی محبت۔

جو ارکان پارلیمنٹ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقریر کے دوران ڈیسک بجانے میں پیش پیش رہے ان میں متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کی فوج کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ بات اب ریکارڈ پر بھی آ چکی ہے کہ متحدہ کے خلاف ایک سے زیادہ بار ہونے والی فوجی کارروائی میں اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
اس کے باوجود متحدہ کا فوج کے ایک افسر کی تقریر پر بار بار ڈیسک بجانا بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔ متحدہ کے رکن قومی اسمبلی اس کی وضاحت کرتے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ایسا فورم نہیں تھا کہ جہاں پرانے گلے شکوے کیے جاتے۔ اپنی غلطی پر شرمندگی کا اظہار کرنے والے کی حوصلہ افزائی میں ڈیسک بجانا بھی غلط نہیں ہے۔
’ہم اپنے اوپر ہونے والے برسوں پر مبنی ظلم کا تذکرہ کر سکتے تھے لیکن ہم نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ کیونکہ ہم وہاں پاکستان کو درپیش حالیہ چیلنج سے بچانے کے لیے گئے تھے۔ پاکستان سے ہماری محبت غیر مشروط ہے۔ اگر ہم نے ماضی میں تکلیفیں برداشت کی ہیں اور کر رہے ہیں، تو یہ پاکستان کی محبت پر قربان کی جا سکتی ہیں‘۔

نواز لیگ، مارشل لا کی پیدوار؟

پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی کے حق میں بننے والی اس فضا کو خراب اس جماعت نے کیا جسے اس کے مخالفین مارشل کا لگایا ہوا پودا قرار دیتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان پارلیمنٹ نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا اس کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ یہ جماعت فوج کے ہاتھوں بارہ سال پہلے حکومت کھو چکنے کے باعث کسی حد تک تازہ زخم خوردہ ہے۔
لیکن اس کے ارکان نے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کے سامنے جو رویہ اختیار کیا اس کی توقع شاید اس جماعت کو خود بھی نہیں تھی۔
مثلاً سینیٹر پرویز رشید کا آئی ایس آئی کے سربراہ کو مخاطب کر کے یہ جملہ کہنا کہ ’ہم یہاں سیاسی تقریر یا ڈانٹ سننے نہیں آئے۔ ہمارے سوالوں کا جواب دیا جائے‘۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان کا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے متعلق پوچھے گئے اپنے سوال کا جواب نہ ملنے پر آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقریر میں بار بار مداخلت کرنا اور اپنا جواب لیے بغیر ٹلنے سے انکار کرنا۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا کہ ’اگر آپ کی ایجنسیاں سیاستدانوں کا پیچھا کرنے کے بجائے اپنے اصل کام پر توجہ دیتیں تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا‘۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ ایسی صورتحال تھی جس نے دہائیوں پر مبنی سیاسی جماعتوں کے نظریات اور ان کے افعال میں تضاد کے بارے میں حقائق بہت سوں کے سامنے کھول کر رکھ دیئے۔

ضیاالحق نے جنرل چشتی سے کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘


 

’ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں‘
انیس سو ستتر میں چار اور پانچ جولائی کی درمیانی رات تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت الٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ آپریشن کا نام طے ہوچکا تھا ، آپریشن فیئر پلے۔
آپریشن شروع ہونے سے چند لمحے پہلے فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق اپنے دستِ راست اور راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل فیض علی چشتی سے ملے۔ آپریشن کی جُزیات ایک بار پھر دہرائی گئیں اور جب فیض علی چشتی مشن پر روانہ ہونے لگے تو مستقبل کے مردِ مومن نے چشتی کے کان میں کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘۔
یہ جنرل ضیاءالحق کا انداز دِلرُبائی تھا۔ وہ اپنے جونیئر کی انا کو ایسے سہلاتے کہ وہ اپنے آپ کو سینیئر محسوس کرنے لگتا اور وہ اپنے سینیئر کے قدموں سے ایسے لپٹتے کہ اسے اپنے اوپر خدا کا روپ اترتے ہوئے محسوس ہوتا۔
شاید جنرل ضیاء اندر سے ڈرپوک تھے ورنہ ڈرنے کی کوئی خاص بات نہیں تھی۔ جنرل فیض علی چشتی کی مونچھوں اور توپوں کے سامنے کون سی جمہوری حکومت ٹھہرسکتی تھی۔ چشتی نے نہ کسی کو مارا نہ کسی کو مروایا۔ پانچ جولائی کی صبح سحر خیزوں کو یہ مژدہ مِلا کہ ایک اور وردی پوش مسیحا نازل ہوچکا ہے۔
پانچ جولائی کی رات کو تو کوئی نہیں مرا لیکن آئندہ گیارہ برسوں میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ پھانسی گھاٹوں پر، ٹھوڑی پھاٹک پر ، بوہری بازار میں، اوجھڑی کیمپ میں، طالبِ علم، مزدور، سیاسی کارکن اور کئی جوگھر سے بازار صرف دودھ خریدنے آئے تھےاور سینکڑوں ایسے تھے جو فوج کے عقوبت خانوں میں سالہاسال موت کی دعا مانگتے رہے۔
جنرل ضیاء جب تک حیات رہے، ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی تھی کہ افغانستان کی ہانڈی ابلتی رہے، ابل کر باہر نہ گرے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہانڈی ابلتی رہے۔ افغانستان کی ہانڈی ابالتے ابالتے انہیں اپنے گھر میں لگنے والی آگ کی خبر نہ رہی۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس ہانڈی کو ابالنے کے لیے اتنا ایندھن جھونکا کہ پاکستان میں لاکھوں چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔
ملک کی جان اس وقت چھوٹی جب مردِ مومن و مردِ حق اپنے ساتھ ایک درجن سے زائد جرنیلوں سمیت ایک فضائی حاثے میں ہلاک ہوئے۔ اناللہِ واِناعلیہِ راجعون۔
جنرل ضیاء کے انتقال کے تیئیس سال بعد پاکستانی قوم میں بڑا تفرقہ ہے۔ ’بےغیرت گروپ‘ ’غیرت بریگیڈ‘ سے نبرد آزما ہے۔ بلوچ بندوقیں اٹھائے پہاڑوں پر جا بیٹھے ہیں۔ سندھی کہتے ہیں کہ ایک بار پھر زیادتی کرو توہم تمہیں بتاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض پر پھیلے سینکڑوں لشکر ’نصرمن اللہِ و الفتح قریب‘ کی بشارت دیتے ہیں۔
امریکا کی عمر رسیدہ رکھیلیں طلاق کی بھی دعوے دار ہیں اور اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ کبھی نکاح ہوا تھا۔ نسل در نسل امریکی مفادات کی دلاّلی کرنے والے اس بات پر گھتم گھتا ہیں کہ کمیشن کم کر دیا جائے یا پرانی تنخواہ پر کام کیا جائے۔ اور تو اور آئی ایس آئی چلانے والے اللہ کے پراسرار بندے بھی پارلیمنٹ کے دروازے بند کر کے کہتے ہیں کہ ’پتہ نہیں ہم کیا کرتے پھر رہے ہیں‘۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
لیکن مذ کورہ بالاگروہوں میں ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں۔
جنرل ضیاءالحق کا کوئی لے پالک سیاستدان، فوج کا کوئی ریٹائرڈ یا حاضرسروس جنرل شاہ فیصل مسجد کے صحن میں اس کے مزار پر سینہ ٹھونک کر نہیں کہتا کہ وہ ضیاءالحق کے مشن کی تکمیل کرےگا۔ ضیاء دور کے درس پڑھ کر بڑے ہونے والے ٹی وی اینکرز بھی یہ نہیں کہتے پائےجاتے کہ کاش اگر جنرل ضیاء حیات ہوتےتو ہم یوں راندہءِ درگاہ نہ ہوتے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کے سب مرحوم کے مشن کی تکمیل کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے رواں دواں ہیں۔
جنرل ضیاء جب تک حیات رہے، ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی تھی کہ افغانستان کی ہانڈی ابلتی رہے، ابل کر باہر نہ گرے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہانڈی ابلتی رہے۔
افغانستان کی ہانڈی ابالتے ابالتے انہیں اپنے گھر میں لگنے والی آگ کی خبر نہ رہی۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس ہانڈی کو ابالنے کے لیے اتنا ایندھن جھونکا کہ پاکستان میں لاکھوں چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔
پارلیمنٹ کے بند دروازوں کے پیچھے ہمارے سیاسی اور فوجی سپہ سالاروں میں جو مکالمہ ہوا اس میں ہر ایک کی طبع کے مطابق گیڈر بھبھکیاں بھی ہیں اور سینہ کوبی کا سامان بھی ہے۔ اگر کسی بات کا ذکر نہیں ہے تو یہ نہیں ہے کہ تیس سال پہلے جو ہم نے اپنے ہمسائے میں آگ لگا کر ہاتھ تاپنے کی قومی سلامتی پالیسی بنائی تھی اس پر بھی ایک نظر ڈالیں یا نہیں۔
کیا کبھی کسی فوجی جنرل یا مدبر سیاستدان نے اس بات پرغور کیا ہے کہ ہمارے افغان بھائی کمیونسٹوں سے لے کر طالبان تک ہم سے اتنے متنفر کیوں ہیں؟
فوجی قیادت اور پارلیمان کے درمیان مکالمہ نہ جانے بارہ گھنٹے کیوں جاری رہا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دروازے بند کرتے، گھٹنوں کے بَل گرجاتے اور گِڑگِڑا کرکہتے ’مرشد مروا نہ دینا‘۔

’آوارہ‘ سیاروں کی دریافت کا دعوٰی



فائل فوٹو
محققین کے مطابق یہ سیارے زیادہ فاصلے پر موجود ستاروں کی روشنی کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
جاپان کے ماہرینِ فلکیات نے ایسے سیاروں کا پتہ چلایا ہے جو کسی ستارے کے گرد نہیں گھوم رہے ہیں۔
ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیارہ مشتری کے حجم کے برابر دس ایسے سیارے دیکھے ہیں جو ستاروں کے کسی بھی نظام کے ساتھ منسلک نہیں ہو سکتے۔
ماہرین کو یقین ہے کہ دوسرے عام سیاروں کی طرح یہ سیارے کہکشاؤں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
محققین کے مطابق یہ سیارے زیادہ فاصلے پر موجود ستاروں کی روشنی کو موڑنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کی پیش گوئی کے مطابق یہ بڑے حجم کے سیارے روشنی کو موڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر بڑے حجم کا کوئی سیارہ زیادہ فاصلے پر موجود ستارے کے سامنے سے گزرے تو وہ اس ستارے کی شکل بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اس کی روشنی کو موڑ سکتا ہے۔
ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ سیارے عام ستاروں کی طرح اپنا راستہ کس طرح بناتے ہیں اور’تھرمونیوکلیئر اگنیشن‘ کے پوائنٹ تک پہنچنے میں ناکام کیوں ہوتے ہیں۔
پروفیسر ویمبسناس
محققین نے مائیکرولینزنگ سرویز کے ذریعے حاصل ہونے والے مواد کا مشاہدہ کیا جو ملکی وے کہکشاں کے مرکزی حصے میں پایا جاتا ہے۔ اسی دوران انہوں نے سیارہ مشتری کے سائز کے برابر دس ایسے سیارے دیکھے جن کے ’ایسٹرانومیکل یونٹس‘ کے قریب کوئی دوسرا ستارہ موجود نہیں تھا۔
ماہرین کے مطابق ایک ایسٹرانومیکل یونٹ کا فاصلہ زمین اور سورج کے مابین فاصلے کے برابر ہے۔ مزید تحقیق سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے سیاروں کے آبائی ستارے نہیں ہوتے۔
اوساکا یونیورسٹی جاپان کے ایسوسی ایٹ پروفیسر تکاہیرو سومی کاکہنا ہے کہ کہکشاں میں ایسے آوارہ سیارے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے آوارہ سیاروں کی موجودگی کی توقع کی جارہی تھی۔
یونیورسٹی آف ہیڈلبرگ جرمنی کے پروفیسر جوچم ویمبسناس جنہوں نے اس تحقیق کا مطالعہ کیاہے کا کہناہے کہ یہ بہت قابلِ تعریف تھیوری ہے۔
ان کے مطابق ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ سیارے عام ستاروں کی طرح اپنا راستہ کس طرح بناتے ہیں اور’تھرمونیوکلیئر اگنیشن‘ کے پوائنٹ تک پہنچنے میں ناکام کیوں ہوتے ہیں۔
سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی سینٹ اینڈریوز کے پروفیسر ڈاکٹر مارٹن ڈومینک نے اس تھیوری کے ساتھ اتفاق کیا ہے تاہم انہوں نے اس کے نتائج کے بارے میں مزید احتیاط برتنے پر زور دیا ہے۔

Pakistan And China Technology Sharing


             

Ghrebaan .............. Munnu Bahi 19 May 2011

Qalm Ke Awaz .......... Sayed Anwer Qadwaee 19 May 2011

Qalm Qman .......... Hamid Meer 19 May 2011

Savere Savere ,........Nazir Naji 19 May 2011

Naqshe Khyal .......Urfa Sadiqee 19May 2011

Chashme Tmasha ................... Amjad Islam Amjad 19 May 2011

Vaghera Vaghera ................Abdullah Tariq Sohail 19 May 2011

Andaze Jehan ............Asdullah Ghalib 19 May 2011

Zero point ............... Javed Choudry 19 May 2011

Gher Siyasi Baten .......Abdul Qader Hasan 19 May 2011

Pakistan Pochta He 18 May 2011

11th Hour 18th May 2011

Bolta Pakistan 18th May 2011

News Night with Talat 18th May 2011

Aaj Ki Khabar 18th May 2011

Kal Tak 18th May 2011

Islamabad Tonight 18th May 2011




TOPIC- PAK- AMERICAN RELATIONSHIP

GUESTS- IMRAN KHAN, KHWAJA MOHAMMAD ASIF

IMRAN KHAN CHAIRMAN PTI said that if parliament had not to follow its resolution against drone attacks then what was the purpose to pass it is. He said that the government expenses cost 55 thousand rupees per minute to the people of Pakistan. He questioned the difference between the dictatorship of Musharaf and current democratic government. He said that current government was formed by the virtue of NRO and every body knows this fact. He said that Turkish parliament rejected 35 billion US dollar offer just to let American troops go through their country to Iraq. He said that Pakistan has received only 20 billion US dollars and has sacrificed more than 34 thousand its citizens. He said that the government has given the foreign policy in the hands of military authorities. He said that people called me Taliban Khan on my suggestion to have dialog with Taliban. He said that now America is having direct dialogs with Taliban. He said that today are own people are calling terrorism to Jihad to please Americans. He said that Jihad is the name of struggle against oppression and injustice. He said that people of Pakistan never got freedom in its true sense. He said that both civil and military governments lie to the people of Pakistan about national issues. He said that we were killing our own people in East Pakistan and were telling people that they are Indian agents. He said that we were the one manipulating our own people for Jihad in Afghanistan for dollars and now we are the one calling it terrorism to get some dollars from America. He said that he will only debate with Mian Nawaz Sharif whether he is rallying against drone attacks with push of ISI or not. He said that he does not need to rally against drone attacks with the support of ISI. He said that he is against drone attacks from day one and he always sticks with his stance. He said that he never changed his point of view on war against terrorism. He said that he had many offers to be the part of the government but he always turned it down. He said that he met with DGISI once and he did not hide it from the public. He said that he met with DGISI to give his suggestion on war against terrorism and to understand DGISI point of view. He said that he never met with general Kyani though. He said that it is guaranteed that war against terrorism will be finished in 90 days if his suggestion is acted upon.

He said that the movement of change has begun in Pakistan. He said that Pakistani youth is very disappointed from current leaders and want to see a clean and clear change in the system. He said that the change of mood of the people will reflect in next elections. He said that Pakistan needs to balance its earnings and expenses. He said that US dollars are being used to raise living standards of elite class and not for the welfare of the people of Pakistan. He said that our rulers have their bank accounts in foreign countries and they will run away from Pakistan in any difficult situation. He said that Pakistani leaders should have their property on their name and in Pakistan. He said that if o body will support his cause he will rally all by himself. He appealed to the people of Pakistan to support him. He said that his job is to act and success will come from Allah Insha Allah.

KHWAJA MOHAMMAD ASIF OF PML (N) said that Shamsi air port was given to UAE government in 1990 on lease when PML (N) was in power. He said that it was Pervez Musharaf who gave Shamsi airport in American possession in 2004. He said that Imran Khan should rally against drone attacks in front of president house instead of different cities of Pakistan. He said that he will also join the rally if Imran Khan demonstrates in front president house. He said that Imran Khan is rallying against drone attacks with push of ISI.

Off The Record 18th May 2011

Dunya TV-CROSS FIRE-18-05-2011

Dunya TV-BANAM SARKAR-18-05-2011

Dunya TV-Khari Baat Lucman Kay Saath-18-05-2011

Dunya TV-NEWS WATCH-18-05-2011

Hal Kya Hai, May 18, 2011 SAMAA TV

Tonight with Jasmeen, May 18, 2011 SAMAA TV

News Beat with Fereeha Idrees May 18 , 2011 SAMAA TV

Crime Scene May 18, 2011 SAMAA TV

AAP KI BAAT, May 18, 2011 SAMAA TV

Hum Sab Umeed Say Hain Parody Song Government Badnam Hui

Apas ki baat - 18th may 2011

aaj kamran khan ke saath 18th may 2011

Capital talk - 18th may 2011

Lekin - 18th may 2011

aapas ki baat - 17th may 2011

Aaj kamran khan ke saath - 17th may 2011

Capital talk - 17th may 2011

Lekin - 17th may 2011 part