The principles of humanity-those values which act as a common bond of responsibilities Shared by faith and cultures throughout the world common humanity, responsibilities, Respect, compassion, truth and integrity, human solidarity
Friday, February 11, 2011
سرے راہے
جمعۃ المبارک ‘ 7 ؍ ربیع الاول 1432 ھ‘ 11؍ فروری ‘ 2011ء
ـ 5 گھنٹے 32 منٹ پہلے شائع کی گئیکیانی کو بتا دیا گیا کہ ریمنڈ رہا نہ ہوا تو امداد کم ہو سکتی ہے‘ صدر زرداری کا دورۂ امریکہ خطرے میں پڑ سکتا ہے‘ امداد کم ہو سکتی ہے۔
ہمارے بہادر جرنیل اور سی این سی سے میونخ میں ہلیری نے جو کچھ کہا‘ اس کا جواب جنرل صاحب نے وہی دیا جس کی روشنی میں ہمارے کور کمانڈروں نے فوج کا موقف واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں ہے‘ وہی فیصلہ کریگی‘ یہی موقف ہلیری کے سامنے جنرل کیانی نے بیان کر دیا تھا۔البتہ ایک لومڑی نے شیر کو دھمکی ضرور دی ہو گی۔
امریکہ کی ان دھمکیوں سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اسے ریمنڈ کے عدم اسثتناء کی خبر ہے‘ اس لئے وہ اپنے دو دو ٹکے کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ زرداری کا دورۂ امریکہ خطرے میں پڑنا‘ امداد کا کم ہونا‘ یہ تو تحائف ہونگے‘ جنہیں پاکستان بخوشی قبول کریگا۔ صدر اپنی جنت میں سرخرو ہو کر بیٹھے رہیں اور امداد نہ ملے تو اس سے بڑھ کر اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔
ریمنڈ قاتل ہے‘ امریکہ بھی قاتل ہے‘ ظاہر ہے قاتل‘ ایک قاتل کی ہی حمایت کریگا۔ امریکہ کو اپنی دولت اور سپر طاقت ہونے کا غرور ہے کیا وہ نہیں جانتا کہ…؎
قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی
زرداری زردار ہیں‘ امریکی امداد کے طلب گار نہیں اور پھر مردحر ہیں‘ امریکی گٹار کا سُر نہیں کہ امریکہ کے اشارے پر بج اٹھے گا۔ ہمارے آرمی چیف کو دھمکی سنانا یہ تاثر دینا ہے کہ امریکہ پاکستان کی فوج کو بھی دھمکا سکتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں‘ سیاست دانوں کو اب اندازہ لگا لینا چاہیے کہ امریکہ انہیں اور پورے پاکستان کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ ریمنڈ کا مقدمہ ہماری عدالت میں ہے‘ عدالتی فیصلہ ہی ہم مانیں گے۔ افغانستان میں جھاڑی اور پتھر سے ڈر جانیوالے امریکیوں کی گیدڑ بھبکیوں سے لاالٰہ پڑھنے والے نہیں ڈریں گے۔
٭…٭…٭…٭
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران قمر زمان کائرہ اور بابر اعوان نے تمام وزراء کو استعفے دینے کیلئے کہا‘ ایک وزیر نے استعفیٰ دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کیا آپ فوجی ہیں‘ بابر اعوان اور قمر کائرہ نے جواب دیا‘ نہیں حوالدار ہیں۔
یوں کہتے کہ ڈائریکٹ حوالدار ہیں‘ تو حقیقت کے زیادہ قریب ہوتا‘ تاہم جس وزیر نے استعفیٰ سے انکار کیا اور کہا آپ فوجی ہیں‘ اسکے ذہن میں مارشل لاء کا خوف گھسا ہوا تھا‘ اس لئے اس نے دونوں استعفیٰ طلب کرنیوالے وزیروں کو بھی فوجی سمجھا۔ اگر قمر کائرہ اور بابر عوان فوجی وردی پہن آتے تو وہ منکر وزیر بھی استعفیٰ دے دیتا۔ بہرصورت خود کو حوالدار ماننا بھی اپنی حیثیت کی صحیح پہچان ہے بلکہ اپنی پارٹی کو بھی پہچان رکھا ہے۔ ظاہر ہے کون نہیں جانتا کہ حوالدار کس محکمے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بھی ڈائریکٹ حوالدار۔
وفاقی کابینہ کو توڑنا تو دراصل اسے جوڑنا ہے‘ اس لئے نہیں کہ خدمت خلق صحیح انداز میں نہ کرنے کے باعث کابینہ کو توڑا جا رہا ہے بلکہ اسے موڑا جا رہا ہے۔ کابینہ تو تب ٹوٹے گی کہ وفاقی کابینہ صرف 14 وزراء پر مشتمل ہو اور 96 وزراء کا بوجھ قوم کے نحیف کاندھوں سے ہٹ جائے۔ 82 وزراء کم ہوں تو کتنے غم نہ ہونگے۔ امریکی امداد کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور فارغ ہونیوالے وزراء پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے اپنے حلقوں کی خدمت کر سکیں گے۔
محبوب جتنے کم ہونگے‘ عشاق اتنے ہی زیادہ ہونگے اور پاکستان میں جمہوریت عشق ٹھہرے گی۔ اگر کابینہ کا حجم کم کرنے کیلئے اسے توڑا جا رہا ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے‘ مگر یہ نہ ہو کہ تھوڑے وزیر زیادہ وزیروں جتنا خرچہ شروع کر دیں۔
٭…٭…٭…٭
بھارت کے ایک ریاستی وزیر نے کہا ہے‘ اندرا گاندھی کے برتن دھونے پر پریتیا پاٹیل کو صدارت ملی۔
کہتے ہیں کہ خانخاناں کہیں سے گزر رہے تھے کہ اچانک اایک مانگنے والی نے توے کا کالا حصہ انکے سفید براق ریشمی کپڑوں سے رگڑنا شروع کر دیا۔ خانخاناں نے سبب پوچھا تو اس مانگنے والی نے کہا‘ میں نے سنا تھا کہ اگر لوہے کو پارس سے رگڑا جائے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔ خانخاناں نے توے کے وزن کے برابر سونا دینے کا حکم جاری کر دیا۔
اندرا گاندھی ہو یا ہمارے حکمران‘ کوئی انکے پائوں دبادے‘ مالش کر دے‘ برتن دھو دے‘ انہیں کوئی بڑا عہدہ مل ہی جاتا ہے۔ اکثر لوگ ہوائی جہاز میں بھی اس تاڑ میں رہتے ہیں کہ حکمران کی لپک کر کوئی ایسی خدمت کر دی جائے کہ انکی کایا پلٹ جائے۔ بھارتی ریاستی وزیر کے بقول ممکن ہے بھارت کی موجودہ خاتون صدر نے اپنا ہنر دکھا دیا ہو اور موقع پا کر اندرا گاندھی کے برتن چمکا دیئے ہوں اور سونیا نے اپنی ساس کی لاج رکھتے ہوئے پریتیا پاٹیل کو عہدۂ صدارت عطا کر دیا ہو۔ آخر برتن دھونے کا کرشمہ رنگ لے ہی آیا۔ بھارتی کانگریس کے دوسرے بڑے عہدیداروں کی خدمات بھی سامنے آجانی چاہئیں۔
یہ سلسلہ عہدہ نوازی ہمارے عہدہ نوازوں کے ہاں بھی رائج ہے اور اڑتی اڑتی خبریں بعض خواتین و حضرات کے بارے میں پھیلتی رہتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان اگرچہ بالکل دو مختلف ملک ہیں‘ مگر بعض باتوں میں ہم زلف بھی ہیں۔ یہ تو کلمہ گوئی نے فرق ڈال دیا ہے‘ وگرنہ بعض فطرتیں تو ایک جیسی بھی ہیں۔
ہمارے بہادر جرنیل اور سی این سی سے میونخ میں ہلیری نے جو کچھ کہا‘ اس کا جواب جنرل صاحب نے وہی دیا جس کی روشنی میں ہمارے کور کمانڈروں نے فوج کا موقف واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں ہے‘ وہی فیصلہ کریگی‘ یہی موقف ہلیری کے سامنے جنرل کیانی نے بیان کر دیا تھا۔البتہ ایک لومڑی نے شیر کو دھمکی ضرور دی ہو گی۔
امریکہ کی ان دھمکیوں سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اسے ریمنڈ کے عدم اسثتناء کی خبر ہے‘ اس لئے وہ اپنے دو دو ٹکے کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ زرداری کا دورۂ امریکہ خطرے میں پڑنا‘ امداد کا کم ہونا‘ یہ تو تحائف ہونگے‘ جنہیں پاکستان بخوشی قبول کریگا۔ صدر اپنی جنت میں سرخرو ہو کر بیٹھے رہیں اور امداد نہ ملے تو اس سے بڑھ کر اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔
ریمنڈ قاتل ہے‘ امریکہ بھی قاتل ہے‘ ظاہر ہے قاتل‘ ایک قاتل کی ہی حمایت کریگا۔ امریکہ کو اپنی دولت اور سپر طاقت ہونے کا غرور ہے کیا وہ نہیں جانتا کہ…؎
قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی
زرداری زردار ہیں‘ امریکی امداد کے طلب گار نہیں اور پھر مردحر ہیں‘ امریکی گٹار کا سُر نہیں کہ امریکہ کے اشارے پر بج اٹھے گا۔ ہمارے آرمی چیف کو دھمکی سنانا یہ تاثر دینا ہے کہ امریکہ پاکستان کی فوج کو بھی دھمکا سکتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں‘ سیاست دانوں کو اب اندازہ لگا لینا چاہیے کہ امریکہ انہیں اور پورے پاکستان کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ ریمنڈ کا مقدمہ ہماری عدالت میں ہے‘ عدالتی فیصلہ ہی ہم مانیں گے۔ افغانستان میں جھاڑی اور پتھر سے ڈر جانیوالے امریکیوں کی گیدڑ بھبکیوں سے لاالٰہ پڑھنے والے نہیں ڈریں گے۔
٭…٭…٭…٭
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران قمر زمان کائرہ اور بابر اعوان نے تمام وزراء کو استعفے دینے کیلئے کہا‘ ایک وزیر نے استعفیٰ دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کیا آپ فوجی ہیں‘ بابر اعوان اور قمر کائرہ نے جواب دیا‘ نہیں حوالدار ہیں۔
یوں کہتے کہ ڈائریکٹ حوالدار ہیں‘ تو حقیقت کے زیادہ قریب ہوتا‘ تاہم جس وزیر نے استعفیٰ سے انکار کیا اور کہا آپ فوجی ہیں‘ اسکے ذہن میں مارشل لاء کا خوف گھسا ہوا تھا‘ اس لئے اس نے دونوں استعفیٰ طلب کرنیوالے وزیروں کو بھی فوجی سمجھا۔ اگر قمر کائرہ اور بابر عوان فوجی وردی پہن آتے تو وہ منکر وزیر بھی استعفیٰ دے دیتا۔ بہرصورت خود کو حوالدار ماننا بھی اپنی حیثیت کی صحیح پہچان ہے بلکہ اپنی پارٹی کو بھی پہچان رکھا ہے۔ ظاہر ہے کون نہیں جانتا کہ حوالدار کس محکمے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بھی ڈائریکٹ حوالدار۔
وفاقی کابینہ کو توڑنا تو دراصل اسے جوڑنا ہے‘ اس لئے نہیں کہ خدمت خلق صحیح انداز میں نہ کرنے کے باعث کابینہ کو توڑا جا رہا ہے بلکہ اسے موڑا جا رہا ہے۔ کابینہ تو تب ٹوٹے گی کہ وفاقی کابینہ صرف 14 وزراء پر مشتمل ہو اور 96 وزراء کا بوجھ قوم کے نحیف کاندھوں سے ہٹ جائے۔ 82 وزراء کم ہوں تو کتنے غم نہ ہونگے۔ امریکی امداد کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور فارغ ہونیوالے وزراء پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے اپنے حلقوں کی خدمت کر سکیں گے۔
محبوب جتنے کم ہونگے‘ عشاق اتنے ہی زیادہ ہونگے اور پاکستان میں جمہوریت عشق ٹھہرے گی۔ اگر کابینہ کا حجم کم کرنے کیلئے اسے توڑا جا رہا ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے‘ مگر یہ نہ ہو کہ تھوڑے وزیر زیادہ وزیروں جتنا خرچہ شروع کر دیں۔
٭…٭…٭…٭
بھارت کے ایک ریاستی وزیر نے کہا ہے‘ اندرا گاندھی کے برتن دھونے پر پریتیا پاٹیل کو صدارت ملی۔
کہتے ہیں کہ خانخاناں کہیں سے گزر رہے تھے کہ اچانک اایک مانگنے والی نے توے کا کالا حصہ انکے سفید براق ریشمی کپڑوں سے رگڑنا شروع کر دیا۔ خانخاناں نے سبب پوچھا تو اس مانگنے والی نے کہا‘ میں نے سنا تھا کہ اگر لوہے کو پارس سے رگڑا جائے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔ خانخاناں نے توے کے وزن کے برابر سونا دینے کا حکم جاری کر دیا۔
اندرا گاندھی ہو یا ہمارے حکمران‘ کوئی انکے پائوں دبادے‘ مالش کر دے‘ برتن دھو دے‘ انہیں کوئی بڑا عہدہ مل ہی جاتا ہے۔ اکثر لوگ ہوائی جہاز میں بھی اس تاڑ میں رہتے ہیں کہ حکمران کی لپک کر کوئی ایسی خدمت کر دی جائے کہ انکی کایا پلٹ جائے۔ بھارتی ریاستی وزیر کے بقول ممکن ہے بھارت کی موجودہ خاتون صدر نے اپنا ہنر دکھا دیا ہو اور موقع پا کر اندرا گاندھی کے برتن چمکا دیئے ہوں اور سونیا نے اپنی ساس کی لاج رکھتے ہوئے پریتیا پاٹیل کو عہدۂ صدارت عطا کر دیا ہو۔ آخر برتن دھونے کا کرشمہ رنگ لے ہی آیا۔ بھارتی کانگریس کے دوسرے بڑے عہدیداروں کی خدمات بھی سامنے آجانی چاہئیں۔
یہ سلسلہ عہدہ نوازی ہمارے عہدہ نوازوں کے ہاں بھی رائج ہے اور اڑتی اڑتی خبریں بعض خواتین و حضرات کے بارے میں پھیلتی رہتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان اگرچہ بالکل دو مختلف ملک ہیں‘ مگر بعض باتوں میں ہم زلف بھی ہیں۔ یہ تو کلمہ گوئی نے فرق ڈال دیا ہے‘ وگرنہ بعض فطرتیں تو ایک جیسی بھی ہیں۔
خونیں انقلاب کی دستک--- لمحہ فکریہ
خونیں انقلاب کی دستک--- لمحہ فکریہ
پروفیسر محمد مظفر مرزا ـ 5 گھنٹے 20 منٹ پہلے شائع کی گئیمسلمان اس وقت جاگتا ہے جب ذلت و خواری اور موت کا گہرا کنواں اپنے سامنے نظر آتا ہے عالم اسلام کے جتنے بھی ممالک جن کی تعداد تقریباً57 ہے۔ امت مسلمہ کا حصہ تو ہیں لیکن امت واحدہ اور قرآنی و نظریات و تصورات کی روشنی میں یک جا نہیں ہو سکے۔ سیاسی، معاشی قومی، دینی اور نظریاتی اور مفاداتی مصلحتوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ حسنی مبارک نے تقریباً 30 سال امریکہ کا باجگزار اور خادم ہونے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بالآخر اسلام کے پیروکاروں کو اور قرآنی نظریات کے علمبرداروں کو اتنے عرصے کے بعد شرم و حیا تو آئی اور انہوں نے تمام مصر کو آگ و خون کی نذر کرنا شروع کر دیا لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصری قوم کو 30 سال کے بعد ہوش آنا تھا کہ ہم کسی غیر آقا کے علمبردار اور باجگزار بن گئے ہیں کیا مصری حکمرانوں کو شرم نہ آئی کہ وہ مسلمان ہونے کے ناطے کن لوگوں کے غلام ہو گئے۔ آج حسنی مبارک پر کائنات کی تمام زمین تنگ ہو رہی ہے اور یہی کیفیت رضا شاہ پہلوی جنہوں نے ایران کو دوسرا امریکہ بنا دیا تھا اسی طرح ہی زمین تنگ ہو گئی تھی اور ان کو پناہ دینے والا کوئی نہ تھا۔ تیونس کے احوال ہمارے سامنے ہیں اور حکمرانوں کے لئے عالم اسلام کیلئے لمحہ فکریہ ہے جن پر عالم اسلام کے علاوہ اللہ کی ساری زمین تنگ ہو کر رہ گئی ہے۔ لیبیا کے معمر قذافی کا حشر عنقریب ہونے والا ہے اور مصر جیسے حالات و واقعات ہونے والے ہیں۔ دیگر وہ ممالک جن میں اردن بھی شامل ہے ان کی بھی عنقریب قیمت خیز حالات کی گھنٹی بجنے والی ہے۔ مخلص مسلمان ملک سوڈان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اسرائیلیت اور امریکی زہر اس سرزمین
میں سرایت کر گیا ہے۔ مشرق وسطی اور افریقہ کے اسلامی ممالک اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے انحراف نہیں کر سکتے یہ اکیسویں صدی کی انتہائی اہم تحاریک ہیں اور دنیائے سیاست کیلئے ایک چیلنج لہذا اب اسلامی ممالک کو انتہائی احتیاط اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اپنی اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس ضمن میں پاکستان صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاں خونیں انقلاب دستک دیتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
میں سرایت کر گیا ہے۔ مشرق وسطی اور افریقہ کے اسلامی ممالک اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے انحراف نہیں کر سکتے یہ اکیسویں صدی کی انتہائی اہم تحاریک ہیں اور دنیائے سیاست کیلئے ایک چیلنج لہذا اب اسلامی ممالک کو انتہائی احتیاط اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اپنی اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس ضمن میں پاکستان صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاں خونیں انقلاب دستک دیتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
کابینہ نابینا اور آنکھوں والے وزیر شذیر
وزیراعظم نے کابینہ تحلیل کر دی ہے۔ صدر زرداری نے گول میز کانفرنس بلا لی ہے۔ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ جن سے تہلکہ مچ گیا ہے۔ میں نے کل کے کالم میں گول میز کانفرنس کو گول مول کانفرنس کہا تھا۔ آج ایک مزاحیہ شعر مجھے یاد آتے آتے رہ گیا ہے اس میں کہا گیا کہ کابینہ کو تحلیل کیا گیا کہ اکثر وزیر شذیر نابینا تھے۔ کابینہ اور نابینا کے قافیے نے بڑا کیف دیا ہے۔ ایک نابینا نے وزیر بننے کا مطالبہ کر دیا۔ پوچھا گیا کہ تم تو اندھے ہو۔ کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ ”میں انھی پا دیاں گا“ اسے کہا گیا ابھی آنکھوں والوں کو تو فارغ ہو لینے دو۔ کچھ وزراءبہت آنکھیں رکھتے تھے۔ ساری کابینہ کو توڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس سے اہل اور نااہل کی تفریق نہیں رہی۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش ہوئی ہے۔ لاٹھی کو ڈنڈا بھی کہتے ہیں۔ ”ڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا“ وزیراعظم گیلانی پیر تو ہیں۔ مگر ہیں بہت شریف آدمی۔
کسی وزیر کو گیلانی صاحب نے ڈانٹا بھی نہ ہو گا جب کہ کچھ وزیر شذیر تھے جن کو بنچ پر دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا کرنے کی ضرورت تھی۔ چند ایک جو کچھ کر کرا رہے تھے۔ انہیں کان پکڑوانے کا حکم دیا جا سکتا تھا۔ وہ یہ بھی کر گزرتے کہ جو کچھ وزیر بن کے مزا آتا ہے اس کے لئے کچھ بھی برداشت کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسے بھی تھے کہ انہیں کان پکڑنے کے لئے کہا جاتا تو وہ وزیراعظم گیلانی کے کان پکڑ لیتے۔ انہیں دیکھ کے پوری قوم اپنے کان پکڑ کے توبہ توبہ کرتی رہی۔ مگر شاید توبہ کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ آج کل دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ اب تو ستم زدگان کی بددعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ ورنہ یہ کابینہ کچھ دیر پہلے تحلیل ہو گئی ہوتی۔ اصل میں وزیراعظم گیلانی مروت والے آدمی ہیں۔ مستعفی ہونے والے وزراءکی مایوسی دیکھ کر اور رفاقت کا خیال کرکے وہ آب دیدہ ہو گئے۔ کچھ دوسروں نے بادل نخواستہ استعفے دیئے۔ یہ استعفے لئے گئے تھے۔ ہمارے ملک میں استعفیٰ دینے کا رواج نہیں۔ یہ رواج مسلمان ملکوں میں بھی نہیں ہے۔ صدر حسنی مبارک ابھی تک کس ڈھٹائی سے ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دوڑ جاتے ہیں یا نکالے جاتے ہیں۔؟
میانوالی قریشیاں ضلع رحیم یار خاں کے وزیر مخدوم شہاب نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور قمر الزمان کائرہ سے کہا کہ تم فوجی ہو۔ اس کا خیال ہو گا کہ یہاں صرف فوجی ہی استعفی لیتے ہیں۔ مگر نواز شریف نے اٹک قلعہ میں جنرل محمود کی بدتمیزی کے باوجود استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ استعفیٰ تو صدر رفیق تارڑ نے بھی نہیں دیا تھا۔ نواز شریف کو جلاوطن کیا گیا اور رفیق تارڑ کو گھر بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور قمر الزمان کائرہ نے بھی استعفیٰ دیا ہے مگر مخدوم شہاب نے سمجھا کہ وہ صرف استعفی لے رہے ہیں۔ دونوں نے جواب دیا کہ ہم فوجی نہیں حوالدار ہیں۔ فوج میں حوالدار ہوتا ہے مگر اس کے پاس حوالات نہیں ہوتی۔ یہ دونوں ڈائریکٹ حوالدار ہیں۔ ان دونوں کے لئے یقین ہے کہ دوبارہ وزیر بن رہے ہیں۔ مجھے تو دو چار کے علاوہ کسی وزیر کا نام بھی نہیں آتا۔ مگر انہوں نے بھی سیاسی طور پر کوئی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کے علاوہ کئی وزیروں نے یہ کام بھی نہیں کیا۔ یہ کام بھی ان لوگوں نے کیا ہے جو وزیر وغیرہ نہ تھے۔ فوزیہ وہاب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سنا ہے وہ وزیر بنائی جا رہی ہیں۔ وہ وزیر نہ رہ کے اتنی مستعد ہیں تو وزیر بن کے کچھ نہ کچھ تو کر دکھائیں گی۔ کائرہ صاحب نے کہا ہے کہ کابینہ چھوٹی ہو گی۔ صرف 49 وزیر ہوں گے۔ ایک اور وزیر کے بعد پورے 50 ہو جائیں گے۔ ایک آدمی نے اپنے مہمان کے لئے پوری 50 روٹیاں پکائیں وہ بڑا ناراض ہوا۔ اس نے کہا اوئے تو نے مجھے پیٹو سمجھا ہوا ہے۔ ایک اٹھا لے۔ آہستہ آہستہ کابینہ اسی مقام اور مقدار پر آ کھڑی ہو گی جہاں کھڑی تھی۔ اور لوگ سوچ رہے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ وزیروں کو کرسی سے بڑا پیار ہوتا ہے۔ ہمارے میانوالی کا ایک ایم پی اے جب واش روم جانے لگا تو اپنی ٹوپی کرسی پر چھوڑ گیا کسی نے پوچھا تو کہا کہ کیا پتہ کوئی خالی کرسی دیکھ کر بیٹھ جائے تو پھر میں کیا کروں گا؟
آصف ہاشمی پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ وہ بھی وزیراعظم گیلانی کی طرح مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ وزیراعظم گیلانی کے بہت دوست اور مداح ہیں وہ گیلانی صاحب سے کہتے رہتے ہیں کہ کچھ کام بہت پہلے کرنے والے ہوتے ہیں۔ پارٹی ڈسپلن اور حکومت کی کارکردگی کے لئے کئی اقدامات اٹھانے چاہئیں کسی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ آصف ہاشمی اور جاوید ہاشمی میں کیا رشتہ ہے؟ مولانا فضل الرحمان نے بظاہر نئی کابینہ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ انہیں اپوزیشن میں پوزیشن بنانے کا ہنر آتا ہے۔ بابر غوری نے بھی انکار کر دیا ہے۔ جے یو آئی اور ایم کیو ایم میں آج کل یہ کیسا اشتراک ہے؟ نواز شریف بھی حیران ہیں کہ وہ بھی نئی کابینہ میں نہیں ہوں گے۔ تو یہ کیسا اشتراک ہے۔ بہرحال آصف ہاشمی کہتے ہیں کہ کابینہ کی تحلیل اور گول میز کانفرنس دونوں بڑے اقدام ہیں۔ مجید نظامی نے نظریہ پاکستان کانفرنس میں گول میز کانفرنس کو گول مال کانفرنس کہا ہے۔ سیاست دانوں کے لئے نظریہ پاکستان کانفرنس میں شرکت لازمی ہونی چاہئے تھی۔ !
کسی وزیر کو گیلانی صاحب نے ڈانٹا بھی نہ ہو گا جب کہ کچھ وزیر شذیر تھے جن کو بنچ پر دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا کرنے کی ضرورت تھی۔ چند ایک جو کچھ کر کرا رہے تھے۔ انہیں کان پکڑوانے کا حکم دیا جا سکتا تھا۔ وہ یہ بھی کر گزرتے کہ جو کچھ وزیر بن کے مزا آتا ہے اس کے لئے کچھ بھی برداشت کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسے بھی تھے کہ انہیں کان پکڑنے کے لئے کہا جاتا تو وہ وزیراعظم گیلانی کے کان پکڑ لیتے۔ انہیں دیکھ کے پوری قوم اپنے کان پکڑ کے توبہ توبہ کرتی رہی۔ مگر شاید توبہ کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ آج کل دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ اب تو ستم زدگان کی بددعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ ورنہ یہ کابینہ کچھ دیر پہلے تحلیل ہو گئی ہوتی۔ اصل میں وزیراعظم گیلانی مروت والے آدمی ہیں۔ مستعفی ہونے والے وزراءکی مایوسی دیکھ کر اور رفاقت کا خیال کرکے وہ آب دیدہ ہو گئے۔ کچھ دوسروں نے بادل نخواستہ استعفے دیئے۔ یہ استعفے لئے گئے تھے۔ ہمارے ملک میں استعفیٰ دینے کا رواج نہیں۔ یہ رواج مسلمان ملکوں میں بھی نہیں ہے۔ صدر حسنی مبارک ابھی تک کس ڈھٹائی سے ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دوڑ جاتے ہیں یا نکالے جاتے ہیں۔؟
میانوالی قریشیاں ضلع رحیم یار خاں کے وزیر مخدوم شہاب نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور قمر الزمان کائرہ سے کہا کہ تم فوجی ہو۔ اس کا خیال ہو گا کہ یہاں صرف فوجی ہی استعفی لیتے ہیں۔ مگر نواز شریف نے اٹک قلعہ میں جنرل محمود کی بدتمیزی کے باوجود استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ استعفیٰ تو صدر رفیق تارڑ نے بھی نہیں دیا تھا۔ نواز شریف کو جلاوطن کیا گیا اور رفیق تارڑ کو گھر بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور قمر الزمان کائرہ نے بھی استعفیٰ دیا ہے مگر مخدوم شہاب نے سمجھا کہ وہ صرف استعفی لے رہے ہیں۔ دونوں نے جواب دیا کہ ہم فوجی نہیں حوالدار ہیں۔ فوج میں حوالدار ہوتا ہے مگر اس کے پاس حوالات نہیں ہوتی۔ یہ دونوں ڈائریکٹ حوالدار ہیں۔ ان دونوں کے لئے یقین ہے کہ دوبارہ وزیر بن رہے ہیں۔ مجھے تو دو چار کے علاوہ کسی وزیر کا نام بھی نہیں آتا۔ مگر انہوں نے بھی سیاسی طور پر کوئی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کے علاوہ کئی وزیروں نے یہ کام بھی نہیں کیا۔ یہ کام بھی ان لوگوں نے کیا ہے جو وزیر وغیرہ نہ تھے۔ فوزیہ وہاب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سنا ہے وہ وزیر بنائی جا رہی ہیں۔ وہ وزیر نہ رہ کے اتنی مستعد ہیں تو وزیر بن کے کچھ نہ کچھ تو کر دکھائیں گی۔ کائرہ صاحب نے کہا ہے کہ کابینہ چھوٹی ہو گی۔ صرف 49 وزیر ہوں گے۔ ایک اور وزیر کے بعد پورے 50 ہو جائیں گے۔ ایک آدمی نے اپنے مہمان کے لئے پوری 50 روٹیاں پکائیں وہ بڑا ناراض ہوا۔ اس نے کہا اوئے تو نے مجھے پیٹو سمجھا ہوا ہے۔ ایک اٹھا لے۔ آہستہ آہستہ کابینہ اسی مقام اور مقدار پر آ کھڑی ہو گی جہاں کھڑی تھی۔ اور لوگ سوچ رہے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ وزیروں کو کرسی سے بڑا پیار ہوتا ہے۔ ہمارے میانوالی کا ایک ایم پی اے جب واش روم جانے لگا تو اپنی ٹوپی کرسی پر چھوڑ گیا کسی نے پوچھا تو کہا کہ کیا پتہ کوئی خالی کرسی دیکھ کر بیٹھ جائے تو پھر میں کیا کروں گا؟
آصف ہاشمی پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ وہ بھی وزیراعظم گیلانی کی طرح مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ وزیراعظم گیلانی کے بہت دوست اور مداح ہیں وہ گیلانی صاحب سے کہتے رہتے ہیں کہ کچھ کام بہت پہلے کرنے والے ہوتے ہیں۔ پارٹی ڈسپلن اور حکومت کی کارکردگی کے لئے کئی اقدامات اٹھانے چاہئیں کسی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ آصف ہاشمی اور جاوید ہاشمی میں کیا رشتہ ہے؟ مولانا فضل الرحمان نے بظاہر نئی کابینہ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ انہیں اپوزیشن میں پوزیشن بنانے کا ہنر آتا ہے۔ بابر غوری نے بھی انکار کر دیا ہے۔ جے یو آئی اور ایم کیو ایم میں آج کل یہ کیسا اشتراک ہے؟ نواز شریف بھی حیران ہیں کہ وہ بھی نئی کابینہ میں نہیں ہوں گے۔ تو یہ کیسا اشتراک ہے۔ بہرحال آصف ہاشمی کہتے ہیں کہ کابینہ کی تحلیل اور گول میز کانفرنس دونوں بڑے اقدام ہیں۔ مجید نظامی نے نظریہ پاکستان کانفرنس میں گول میز کانفرنس کو گول مال کانفرنس کہا ہے۔ سیاست دانوں کے لئے نظریہ پاکستان کانفرنس میں شرکت لازمی ہونی چاہئے تھی۔ !
این آئی سی ایل سکینڈل : ہائیکورٹ سے مرکزی ملزم حبیب اللہ وڑائچ سمیت 6ملزموں کی ضمانتیں منظور
ـ 4 گھنٹے 13 منٹ پہلے شائع کی گئی
- Adjust Font Size
لاہور (وقائع نگار خصوصی + اپنے نمائندے سے + خبرنگار) لاہور ہائیکورٹ نے این آئی سی ایل سکینڈل کے مرکزی ملزم حبیب اللہ وڑائچ سمیت 6ملزموں کی درخواست ضمانتیں منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے مونس الٰہی کو اشتہاری قرار دینے کےخلاف درخواست مسترد کر دی جبکہ ایف آئی اے نے الیکشن کمشن، سٹیٹ بنک اور تمام ہاﺅسنگ سوسائٹیوں سے مونس الٰہی کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس منظور احمد ملک نے حبیب اللہ وڑائچ کو ایک کروڑ روپے اوردیگرملزمان کو 20 20لاکھ روپے کے مچلکے بطور زر ضمانت جبکہ حر گردیزی کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے بطور زر ضمانت داخل کروانے کی ہدایت کی ہے۔ ایف آئی اے کے وکیل نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے قبضے سے قومی خزانے سے لوٹی جانے والی ایک ارب 68 کروڑ روپے کی رقم برآمد کر لی گئی ہے جبکہ ابھی مزید رقم برآمد کروانا باقی ہے لہٰذا عدالت ملزمان کی درخواستیں منظور نہ کرے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ حبیب اللہ وڑائچ کے بیٹے اس کیس کے مرکزی ملزم ہیں، انہیں اس کیس میں بلاوجہ پھنسایا گیا ہے جبکہ انہوں نے تمام رقم بھی ادا کر دی ہے لہٰذا عدالت انہیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کرے جبکہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج انوارالحق نے چودھری مونس الٰہی کو این آئی سی سکینڈل مےں عدم حاضری کی بناءپر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روکنے کے لئے دائر درخواست خارج کر دی ہے جبکہ مونس الٰہی کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے خلاف دائر دوسری درخواست پر ایف آئی اے سے 12فروری کو جواب طلب کر لیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے فاضل عدالت کو بتایا کہ مونس الٰہی کو محض انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کے لئے بے بنیاد الزامات کے تحت این آئی سی سکینڈل مےں ملوث کیا جا رہا ہے ان کے خلاف غیر قانونی طور پر اشتہاری قرار دینے اور وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی کارروائی بیک وقت کی جا رہی ہے لہٰذا فاضل عدالت اس کو کالعدم قرار دے۔ دریں اثناءایف آئی نے الیکشن کمشن، سٹیٹ بنک اور تمام ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کو خط لکھے ہےں کہ مونس الٰہی کے تمام ڈیکلیئر اثاثوں، اکاﺅنٹس اور پلاٹوں سے متعلق آگاہ کیا جائے۔ دریں اثناءایف آئی اے نے وفاقی وزارت تجارت کو چٹھی بھجوا دی جس مےں کرپشن مےں ملوث چیئرمین این آئی سی ایل ایاز خان نیازی، ممبران بورڈ آف گورنرز امین قاسم دادا، جاوید سید، حر ریامی گردیزی، نوید حسن زیدی اور جنرل مینجرز اظہر نقوی، سید زاہد حسین، شیخ اعجاز احمد، محمد ظہور اور ایوب صدیق بٹ ملازمتوں سے برخاست کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کیس اور گ ول میز کانفرنس
http://www.awaztoday.com/
http://www.zemtv.com/2011/02/
ISLAMABAD TONIGHT
WITH NADEEM MALIK
09-02-2011
TOPIC- RESIGNATION OF THE CABINET
GUESTS- QAZI HUSSAIN AHMED, NAZAR MOHAMMAD GONDAL, KASHMALA TARIQ, RAZA HAROON
QAZI HUSSAIN AHMED OF JI said that no murderer can have diplomatic immunity according to international laws. He said that America is shamelessly demanding the release of Raymond Davis. He said that Pakistan does not need dollars to be the slave of America. He said that the government needs to change its boasting attitude. He said that three years is not enough time to change the system but at least direction would have been set. He said that the country was looted under every dictator rule. He said that our military generals have become billionaires and we need a people's army. He said that nation has been divided into casts and sects. He said that Pakistan needs revolution to resolve its problems. He said that the situation in Pakistan can only improve if we say no to America on its so called war against terrorism. He said that ten innocent people are being killed to get rid of one suspected terrorist.
NAZAR MOHAMMAD GONDAL OF PPPP said that it takes some time to change the system and three years time is not enough. He said that it was impossible to bring reforms in the country because of the discontinuation of democracy. He said that Egypt and Tunis type revolution is impossible in Pakistan. He said that media and judiciary are free in Pakistan. He said that every dictator introduced a new system in Pakistan and they all failed. He said that despite of the precarious economic situation Pakistan's reserves have been reached to 17 billion dollars and export increase is 25 percent. He said that Pakistan is in war like situation. He said that people who criticize us for supporting America have been American allies during Afghan war against soviets. He said that we should not be emotional about Raymond Davis case because it is in the court to decide. He said that he can not tell the exact number but the new cabinet will be smaller one.
KASHMALA TARIQ OF PML (Q) said that as log the names of the new cabinet are not announced it is difficult to judge the honesty of the government. She said that if people of previous cabinet are going to be the part of new one then nothing is going to change. She said that soon PML (N) will throw out PPPP ministers from Punjab government. She said that after getting rid of PPPP ministers PML (N) will play the role of real opposition for six months and finally will demand new elections early next year. She said that her party demands information from government on American presence in the country but their demand is always turned down. She said that Americans have rented about 250 residences in Islamabad. She said that new cabinet should be consisting of capable and honest people. She said that government already has their best in the cabinet and it will be difficult for them to find better people.
RAZA HAROON OF MQM said that MQM will not be the part of the cabinet for the time being. He said that no body can say any thing for sure in politics. He said that Pakistan is unable to clear its policy to America in last 63 years. He said that Pakistan needs to stand on its own feet. He said that on the cruel punishment of Dr Afia president Obama said that courts are free in America. He said that we should also support our courts on Raymond Davis case. He said that government needs to be wise on the decision of smaller cabinet. He said that if new cabinet fail to deliver then good decision will be termed as bad one.
--
Subscribe to:
Posts (Atom)