The principles of humanity-those values which act as a common bond of responsibilities Shared by faith and cultures throughout the world common humanity, responsibilities, Respect, compassion, truth and integrity, human solidarity
Sunday, February 20, 2011
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حمایت سے متعلق چینی پالیسیوں پر بھارت کی تشویش
اس خطہ میں امریکی بھارتی عزائم کا توڑ چین کے تعاون سے ہی ممکن ہے
بھارت نے چین کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کا اعتراف کرتے ہوئے بیجنگ پر زور دیا ہے کہ اسے پاکستان کے معاملے میں بھارت کے تحفظات کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ایک بھارتی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپما رائو نے اپنے دورۂ نیویارک کے دوران ایک سکول میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کیخلاف نہیں ہے تاہم بھارت کو اسلام آباد اور بیجنگ کے مابین تعلقات کے بعض پہلوئوں کے بارے میں کچھ حقیقی خدشات ہیں۔ انکے بقول چین کی جانب سے پاکستان کے جوہری پروگرام کی حمایت پر بھارت کو چنتاہے اور ہم چاہتے ہیں کہ چین مزید وضاحت کرے اور شفافیت کا مظاہرہ کرے۔ ہم اس پر کھلے مذاکرات کا خیرمقدم کرینگے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت نے چین کی طرف سے کشمیریوں کو اضافی کاغذ پر ویزہ کے اجراء اور آزاد کشمیر میں اسکی موجودگی پر سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکی سرپرستی میں بھارت اس خطے کی تھانیداری کے جنون میں پاکستان ہی نہیں، چین اور خطے کے دوسرے ممالک کی سلامتی کیلئے بھی سخت خطرے کی علامت بن چکا ہے۔ پاکستان کو تو اس نے شروع دن سے ہی ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے قبول نہیں کیا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کی نیت کے تحت وہ پاکستان پر چار جنگیں مسلط کرچکا ہے۔ اسے دولخت کرچکا ہے اور باقیماندہ پاکستان کو بھی اپنے جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کی زد میں لاتے ہوئے اسکی سالمیت کیلئے مسلسل خطرہ بنا رہتا ہے۔ 1974ء میں اس نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کی سالمیت کیلئے ہی خطرے کی گھنٹی بجائی تھی۔ اگر اسکے جارحانہ عزائم کا توڑ کرنے کیلئے اس وقت کے وزیراعظم بھٹو مرحوم نے ملک کو ایٹمی صلاحیتوں کے حصول کی راہ پر گامزن نہ کیا ہوتا اور یہ نعرہ نہ لگایا ہوتا کہ ’’ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ تو بھارت اپنی ایٹمی طاقت کی خرمستی میں کب کا ہماری سالمیت پر اوچھا وار کرچکا ہوتا۔ اسکی جانب سے مئی 1998ء میں دوبارہ ایٹمی دھماکے کرنے کا مقصد بھی پاکستان پر اپنی برتری کا احساس دلانا اور اسکی سالمیت کیخلاف اپنے مکارانہ جارحانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تھا۔ چنانچہ اسکا نشہ ہرن کرنے کیلئے میاں نوازشریف کے دور حکومت میں امریکی دھمکیوں اور ترغیات کے باوجود پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کرنا ضروری سمجھا۔ اب پاکستان واحد اسلامی اور ساتویں ایٹمی قوت ہے تو اسکے نتیجہ میں ہی ہمارا یہ مکار دشمن ہم پر جارحیت کے ارتکاب سے باز آیا ہے جبکہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے سے خطے میں طاقت کا توازن بھی بحال ہوا ہے اور امریکہ، بھارت، اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کا بھی موثر توڑ ہوگیا ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں ہمارے ایٹمی قوت بننے کی امریکہ اور بھارت کو یکساں تکلیف ہوئی ہے اور وہ الگ الگ بھی اور مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت بھی ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جس کیلئے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار مبینہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا ڈراوا دیا جاتا ہے۔بہرحال ایران کے باقاعدہ ایٹمی قوت بننے کے بعد ان کا دماغ درست ہو جائیگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور چین دوستی اس خطے کی ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی کی ضمانت بن چکی ہے اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت یہ دونوں ممالک اس خطے میں امریکہ، بھارت جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ہی ایک دوسرے کیساتھ ایٹمی، دفاعی اور اقتصادی تعاون پر متحد و متفق ہوئے ہیں جس کے دوررس اثرات برآمد ہونا بھی شروع ہوگئے ہیں اور یقیناً اس صورتحال کو بھانپ کر ہی بھارت پاک چین تعلقات اور باہمی تعاون پر اپنے تحفظات و خدشات کا اظہار کررہا ہے۔ چین بھی چونکہ اروناچل پردیش کے تنازعہ میں 1962ء میں بھارتی جارحیت کا سامنا کرچکا ہے۔ بیشک اس جارحیت میں بھی بھارت کو چین کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی اور اسکے بعد بھارت کو اروناچل پردیش پر اپنا حق جتانے کی جرأت نہیں ہوئی پھر بھی چین کو مکمل احساس ہے کہ یہ شیطان کسی وقت بھی دوبارہ چین کی خودمختاری کو چیلنج کر سکتا ہے‘ بالخصوص اس مرحلہ میں جب سابق بھارتی آرمی چیف دیپک کپور نے امریکی شہ پر بدمستی میں یہ بڑ ماری تھی کہ بھارت اپنی ایٹمی دفاعی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسلام آباد اور بیجنگ کو 96 گھنٹے میں بیک وقت ٹوپل کر سکتا ہے‘ پاکستان چین دفاعی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت محسوس کی گئی اور اس تناظر میں دونوں برادر پڑوسی ممالک میں ایٹمی تعاون کا معاہدہ طے پایا جس پر بھارت ہی نہیں‘ اسکے سرپرست امریکہ نے بھی ایٹمی کلب میں چیخ و پکار کی۔ اس معاہدے کو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں چیلنج بھی کیا اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا جس کے جواب میں چین نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے ایٹمی سپلائر گروپ کو اس معاہدے کے مندرجات سے آگاہ کرنے سے بھی معذرت کی اور امریکہ اور بھارت کے تحفظات کو بھی مسترد کرتے ہوئے معاہدے کیمطابق پاکستان کیساتھ ایٹمی تعاون جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپمارائو کی جانب سے پاکستان چین ایٹمی تعاون پر بھارتی خود ساختہ خدشات کا اظہار درحقیقت امریکہ بھارت مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ چین پاکستان ایٹمی تعاون پر اصل تکلیف دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے دعویدار امریکہ ہی کو ہوئی ہے‘ جو عالمی منڈی میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے بھی پریشان ہے اور پاکستان چین ایٹمی تعاون کے نتیجہ میں اسے بھارت کو علاقے کی تھانیداری دیکر اس خطہ میں اپنے توسیع پسندانہ کروسیڈی عزائم کی تکمیل کرانے کی راہ میں بھی رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں مسلم امہ کیخلاف اپنے مفادات کی جنگ کا آغاز کرکے پاکستان کے جرنیلی اور سول حکمرانوں کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا مگر ایٹمی تعاون کا معاہدہ بھارت کے ساتھ کیا جو خود مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 60 سال سے زائد عرصہ سے ننگی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں بھی اسکی ایجنسی ’’را‘‘ کا ہاتھ ہے جس کے تربیت یافتہ دہشت گرد شدت پسندوں کے روپ میں افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے رہتے ہیں۔ اگر پاکستان کے اصرار پر بھی امریکہ اسکے ساتھ بھارت جیسا ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوا تو اسکی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ درحقیقت وہ خود بھی اور بھارت کے ہاتھوں بھی پاکستان کی سالمیت کو اپنے مخصوص ایجنڈہ کے تحت نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ چنانچہ اس صورتحال میں جب چین کو بھی امریکی بھارتی جارحانہ عزائم کا ادراک ہو اور پاکستان بھی اسی شیطان اتحاد ثلاثہ کے گٹھ جوڑ کے مقاصد کو سمجھتا ہو‘ پاکستان چین ایٹمی دفاعی تعاون سے ہی اس خطہ میں امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے۔
امریکہ تو ویسے ہی طوطا چشم ہے اور ہمارے ساتھ دوستی کے بھیس میں بدترین دشمنی کا مرتکب ہو رہا ہے‘ وہ ہمارے خلاف بھارتی جارحیت کے ارتکاب کے وقت تو وعدوں کے باوجود کبھی ہماری مدد کو نہیں آیا جبکہ ہمارے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے والے بھارت کو اسکی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ وہ پہلے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ہمیں ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوشش میں ناکامی پر ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے ہمارا ناطقہ تنگ کرنے کی سازش کر چکا ہے‘ جبکہ اب ہمارے معصوم شہریوں کے قاتل ریمنڈ کی خاطر بھی وہ ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور ہماری مالی امداد اور قرضے کی قسطیں روکنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے اس لئے پاکستان کو اپنی بقاء کی خاطر متبادل آپشن کا بہرصورت سوچنا ہے‘ جس کیلئے چین بہترین ہی نہیں‘ واحدمتبادل آپشن ہے اور یہ چین کی اپنی بھی ضرورت ہے‘ اس لئے پاکستان چین دوستی اور دفاعی تعاون پر بے شک بھارت کی بنیاء ذہنیت سٹپٹاتی رہے اور بے شک امریکہ کی جبینِ نیاز پر بل پڑتے رہیں‘ خطے کی امن و سلامتی کی خاطر اور پرامن بقائے باہمی کے جذبے کے تحت یہ تعاون برقرار رہے گا اور دوررس مثبت نتائج کی نوید بنے گا۔ کشمیر کے بارے میں بھی چین نے حقائق کا ادراک کرکے ہی پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے اور کشمیری باشندوں کو ویزے کی نرمی کی سہولتیں فراہم کی ہیں اس لئے پاکستان کو کشمیری باشندوں کے ویزے کیلئے چینی حکمت عملی کا بھی کھل کر ساتھ دینا چاہیے اور کسی بھارتی احتجاج کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے‘ پاکستان اور چین کا ایک دوسرے کے ساتھ سٹریٹجیکل تعاون بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ امریکہ اگر فی الواقع علاقائی اور عالمی امن کا خواہاں ہے تو اسے پاکستان چین ایٹمی تعاون کے معاہدے پر معترض نہیں ہونا چاہیے۔
کیری لوگر امداد بند ہونے کی صورت میں متبادل حکومتی اقدامات
ریمنڈ کے امریکہ کے حوالے نہ کرنے کے نتیجے میں کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد کی بندش کی دھمکی کے بعد صدر اور وزیراعظم نے متبادل امدادی ذرائع پر غور و خوض شروع کر دیا ہے۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ حکومت ریمنڈ کیس کے عدالتی فیصلے کے ریمنڈ کیخلاف صادر ہونے کی صورت میں ریمنڈ کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے اور امریکی امداد رک جانے کے نتیجے میں متبادل امداد حاصل کرنے پر کام شروع کر دیا ہے بلکہ یہ بات اور بھی اچھی ہے کہ حکمران امریکی امداد کو ٹھکرا کر اپنے اخراجات میں کمی لائیں اور راجہ ریاض کی تجویز کیمطابق وزراء کرام بڑے بنگلوں سے نکل کر دس مرلے کے گھروں میں آجائیں اور امداد کیلئے دیگر اسلامی و غیراسلامی ملکوں سے رجوع کریں اور ریمنڈ کیس کے حوالے سے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں کیونکہ امریکہ سے خلاصی پانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ وزیراعظم گیلانی اس سلسلے میں کویت روانہ ہو چکے ہیں اور صدر انکے بعد کویت جائینگے۔ اسکے علاوہ جاپان سے بھی امداد طلب کرنے کا پروگرام ہے۔ امریکی امداد کے رک جانے سے پیپلز پارٹی کو آئندہ بجٹ بنانے میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ مگر ہمت مرداں مدد خدا‘ اگر امریکہ پاکستان کی بے تحاشہ قربانیوں اور تعاون کے باوجود امداد کی قسط روکنا چاہتا ہے تو پھر معلوم شد کہ حاجی نیست کے مصداق ہمیں بھی ہوش سنبھال کر ریمنڈ کیس کا معاملہ عدالتی فیصلے کے مطابق نمٹانا چاہیے‘ اگر آج امریکی دبائو کی مزاحمت کی گئی تو ہمیشہ کیلئے امریکہ بے جا دبائو ڈالنے سے باز رہے گا۔
بسنت پر پابندی، احسن فیصلہ
حکومت پنجاب نے بسنت پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان کیمطابق لاہور سمیت صوبہ کے دیگر اضلاع میں بسنت سے سینکڑوں افراد کیمیائی اور خطرناک ڈور سے زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی مفاد میں بسنت پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ایک تو بسنت خونیں کھیل ہے، دوسرا اسکا اسلامی ثقافت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ خالصتاً ہندوانہ کلچر کا حصہ ہے۔ ہندو یہ تہوار صدیوں سے مناتے چلے آرہے ہیں لیکن باقاعدگی اور جوش و خروش سے منانے کا سلسلہ توہین رسالت پر ہندو طالبعلم حقیقت رائے کو گورنر لاہور زکریا خان کی طرف سے ہر دبائو کو مسترد کرتے ہوئے سزائے موت سے ہمکنار کرنے سے شروع ہوا۔ حقیقت رائے کی مڑھی لاہور میں ہے۔ یہاں اسکو دی جانیوالی پھانسی کے روز میلہ ہوتا ہے۔ یہیں سے بسنت لاہوریوں اور بعدازاں دیگر علاقوں میں پھیل گئی جس کی کشش کے اعلیٰ ایوانوں کے مکین بھی اسیر ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے اس کھیل پر پابندی لگائی تو صدر پرویز مشرف وردی کی طاقت سے پابندی کے باوجود اپنا شوق بے حمیتی پروان چڑھا تے رہے۔ اس وقت کی پنجاب حکومت اپنے مربی و آقا کی راہ میں پلکیں بچھاتی رہی۔ اب بھی کچھ لوگ پتنگ بازی کی حسرت دل میں لئے بیٹھے ہیں۔ وہ اس کھیل کی شروعات پر غور کریں، اسکے نقصانات کا جائزہ لیں تو انکے ضمیر ضرور کہہ اٹھیں گے کہ یہ واقعی خوفناک کھیل ہے اور ساتھ توہین رسالت کا ارتکاب بھی۔ پنجاب حکومت نے پابندی کو برقرار رکھنے کا احسن فیصلہ کیا ہے اور اس پر سختی سے عمل بھی ہونا چاہئے البتہ جشن بہاراں بے شک جوش و خروش سے منایا جا ئے جو ضروری نہیں کہ قاتل پتنگیں اڑا کر ہی منایا جائے۔
یوسف ہارون اور جہانداد خان کا انتقال پرملال
تحریک پاکستان کے رہنما سر عبداللہ ہارون کے صاحبزادے سابق گورنر مغربی پاکستان یوسف ہارون نیو یارک میں اور سابق گورنر سندھ جہانداد خان راولپنڈی میں انتقال کر گئے۔ہر ذی روح کو اس فانی دنیا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہے۔ سابق گورنر مغربی پاکستان یوسف ہارون اور سابق گورنر سندھ جہانداد خان کی رحلت ایک عظیم سانحہ ہے دونوں احباب کی خدمات قابل تحسین تھیں۔ انکے انتقال سے پیدا ہونیوالا خلا پر ہونا ناممکن ہے۔ یوسف ہارون نے قائداعظم کے شانہ بشانہ چل کر حصول پاکستان کیلئے کوششیں کیں پاکستان بننے کے بعد کراچی کے میئر کی حیثیت سے احسن طریقے سے نظام کو سنبھالا 1949ء میں وزیراعلیٰ سندھ بننے پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پھر 1969ء میں گورنر کے طور پر مغربی پاکستان کے الجھے مسائل کو حل کیا۔ انکے یہ کارنامے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائینگے۔ سابق گورنر سندھ جہانداد خان دکھی انسانیت کا درد رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے راولپنڈی میں الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال قائم کیا تھا۔ جہاں لاکھوں غریب لوگوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال اچھے انداز سے کی جاتی ہے جہانداد خان کا یہ صدقہ جاریہ انکے نام کو روشن رکھے گا۔ گورنر سندھ کی حیثیت سے بھی انہوں نے اچھے انداز سے فرائض منصبی سرانجام دئیے‘ دونوں شخصیات کی وفات پر سیاسی زعما نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انکے اہلخانہ اور محبین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
بھارت نے چین کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کا اعتراف کرتے ہوئے بیجنگ پر زور دیا ہے کہ اسے پاکستان کے معاملے میں بھارت کے تحفظات کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ایک بھارتی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپما رائو نے اپنے دورۂ نیویارک کے دوران ایک سکول میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کیخلاف نہیں ہے تاہم بھارت کو اسلام آباد اور بیجنگ کے مابین تعلقات کے بعض پہلوئوں کے بارے میں کچھ حقیقی خدشات ہیں۔ انکے بقول چین کی جانب سے پاکستان کے جوہری پروگرام کی حمایت پر بھارت کو چنتاہے اور ہم چاہتے ہیں کہ چین مزید وضاحت کرے اور شفافیت کا مظاہرہ کرے۔ ہم اس پر کھلے مذاکرات کا خیرمقدم کرینگے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت نے چین کی طرف سے کشمیریوں کو اضافی کاغذ پر ویزہ کے اجراء اور آزاد کشمیر میں اسکی موجودگی پر سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکی سرپرستی میں بھارت اس خطے کی تھانیداری کے جنون میں پاکستان ہی نہیں، چین اور خطے کے دوسرے ممالک کی سلامتی کیلئے بھی سخت خطرے کی علامت بن چکا ہے۔ پاکستان کو تو اس نے شروع دن سے ہی ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے قبول نہیں کیا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کی نیت کے تحت وہ پاکستان پر چار جنگیں مسلط کرچکا ہے۔ اسے دولخت کرچکا ہے اور باقیماندہ پاکستان کو بھی اپنے جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کی زد میں لاتے ہوئے اسکی سالمیت کیلئے مسلسل خطرہ بنا رہتا ہے۔ 1974ء میں اس نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کی سالمیت کیلئے ہی خطرے کی گھنٹی بجائی تھی۔ اگر اسکے جارحانہ عزائم کا توڑ کرنے کیلئے اس وقت کے وزیراعظم بھٹو مرحوم نے ملک کو ایٹمی صلاحیتوں کے حصول کی راہ پر گامزن نہ کیا ہوتا اور یہ نعرہ نہ لگایا ہوتا کہ ’’ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ تو بھارت اپنی ایٹمی طاقت کی خرمستی میں کب کا ہماری سالمیت پر اوچھا وار کرچکا ہوتا۔ اسکی جانب سے مئی 1998ء میں دوبارہ ایٹمی دھماکے کرنے کا مقصد بھی پاکستان پر اپنی برتری کا احساس دلانا اور اسکی سالمیت کیخلاف اپنے مکارانہ جارحانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تھا۔ چنانچہ اسکا نشہ ہرن کرنے کیلئے میاں نوازشریف کے دور حکومت میں امریکی دھمکیوں اور ترغیات کے باوجود پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کرنا ضروری سمجھا۔ اب پاکستان واحد اسلامی اور ساتویں ایٹمی قوت ہے تو اسکے نتیجہ میں ہی ہمارا یہ مکار دشمن ہم پر جارحیت کے ارتکاب سے باز آیا ہے جبکہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے سے خطے میں طاقت کا توازن بھی بحال ہوا ہے اور امریکہ، بھارت، اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کا بھی موثر توڑ ہوگیا ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں ہمارے ایٹمی قوت بننے کی امریکہ اور بھارت کو یکساں تکلیف ہوئی ہے اور وہ الگ الگ بھی اور مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت بھی ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جس کیلئے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار مبینہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا ڈراوا دیا جاتا ہے۔بہرحال ایران کے باقاعدہ ایٹمی قوت بننے کے بعد ان کا دماغ درست ہو جائیگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور چین دوستی اس خطے کی ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی کی ضمانت بن چکی ہے اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت یہ دونوں ممالک اس خطے میں امریکہ، بھارت جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ہی ایک دوسرے کیساتھ ایٹمی، دفاعی اور اقتصادی تعاون پر متحد و متفق ہوئے ہیں جس کے دوررس اثرات برآمد ہونا بھی شروع ہوگئے ہیں اور یقیناً اس صورتحال کو بھانپ کر ہی بھارت پاک چین تعلقات اور باہمی تعاون پر اپنے تحفظات و خدشات کا اظہار کررہا ہے۔ چین بھی چونکہ اروناچل پردیش کے تنازعہ میں 1962ء میں بھارتی جارحیت کا سامنا کرچکا ہے۔ بیشک اس جارحیت میں بھی بھارت کو چین کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی اور اسکے بعد بھارت کو اروناچل پردیش پر اپنا حق جتانے کی جرأت نہیں ہوئی پھر بھی چین کو مکمل احساس ہے کہ یہ شیطان کسی وقت بھی دوبارہ چین کی خودمختاری کو چیلنج کر سکتا ہے‘ بالخصوص اس مرحلہ میں جب سابق بھارتی آرمی چیف دیپک کپور نے امریکی شہ پر بدمستی میں یہ بڑ ماری تھی کہ بھارت اپنی ایٹمی دفاعی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسلام آباد اور بیجنگ کو 96 گھنٹے میں بیک وقت ٹوپل کر سکتا ہے‘ پاکستان چین دفاعی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت محسوس کی گئی اور اس تناظر میں دونوں برادر پڑوسی ممالک میں ایٹمی تعاون کا معاہدہ طے پایا جس پر بھارت ہی نہیں‘ اسکے سرپرست امریکہ نے بھی ایٹمی کلب میں چیخ و پکار کی۔ اس معاہدے کو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں چیلنج بھی کیا اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا جس کے جواب میں چین نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے ایٹمی سپلائر گروپ کو اس معاہدے کے مندرجات سے آگاہ کرنے سے بھی معذرت کی اور امریکہ اور بھارت کے تحفظات کو بھی مسترد کرتے ہوئے معاہدے کیمطابق پاکستان کیساتھ ایٹمی تعاون جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپمارائو کی جانب سے پاکستان چین ایٹمی تعاون پر بھارتی خود ساختہ خدشات کا اظہار درحقیقت امریکہ بھارت مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ چین پاکستان ایٹمی تعاون پر اصل تکلیف دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے دعویدار امریکہ ہی کو ہوئی ہے‘ جو عالمی منڈی میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے بھی پریشان ہے اور پاکستان چین ایٹمی تعاون کے نتیجہ میں اسے بھارت کو علاقے کی تھانیداری دیکر اس خطہ میں اپنے توسیع پسندانہ کروسیڈی عزائم کی تکمیل کرانے کی راہ میں بھی رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں مسلم امہ کیخلاف اپنے مفادات کی جنگ کا آغاز کرکے پاکستان کے جرنیلی اور سول حکمرانوں کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا مگر ایٹمی تعاون کا معاہدہ بھارت کے ساتھ کیا جو خود مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 60 سال سے زائد عرصہ سے ننگی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں بھی اسکی ایجنسی ’’را‘‘ کا ہاتھ ہے جس کے تربیت یافتہ دہشت گرد شدت پسندوں کے روپ میں افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے رہتے ہیں۔ اگر پاکستان کے اصرار پر بھی امریکہ اسکے ساتھ بھارت جیسا ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوا تو اسکی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ درحقیقت وہ خود بھی اور بھارت کے ہاتھوں بھی پاکستان کی سالمیت کو اپنے مخصوص ایجنڈہ کے تحت نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ چنانچہ اس صورتحال میں جب چین کو بھی امریکی بھارتی جارحانہ عزائم کا ادراک ہو اور پاکستان بھی اسی شیطان اتحاد ثلاثہ کے گٹھ جوڑ کے مقاصد کو سمجھتا ہو‘ پاکستان چین ایٹمی دفاعی تعاون سے ہی اس خطہ میں امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے۔
امریکہ تو ویسے ہی طوطا چشم ہے اور ہمارے ساتھ دوستی کے بھیس میں بدترین دشمنی کا مرتکب ہو رہا ہے‘ وہ ہمارے خلاف بھارتی جارحیت کے ارتکاب کے وقت تو وعدوں کے باوجود کبھی ہماری مدد کو نہیں آیا جبکہ ہمارے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے والے بھارت کو اسکی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ وہ پہلے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ہمیں ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوشش میں ناکامی پر ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے ہمارا ناطقہ تنگ کرنے کی سازش کر چکا ہے‘ جبکہ اب ہمارے معصوم شہریوں کے قاتل ریمنڈ کی خاطر بھی وہ ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور ہماری مالی امداد اور قرضے کی قسطیں روکنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے اس لئے پاکستان کو اپنی بقاء کی خاطر متبادل آپشن کا بہرصورت سوچنا ہے‘ جس کیلئے چین بہترین ہی نہیں‘ واحدمتبادل آپشن ہے اور یہ چین کی اپنی بھی ضرورت ہے‘ اس لئے پاکستان چین دوستی اور دفاعی تعاون پر بے شک بھارت کی بنیاء ذہنیت سٹپٹاتی رہے اور بے شک امریکہ کی جبینِ نیاز پر بل پڑتے رہیں‘ خطے کی امن و سلامتی کی خاطر اور پرامن بقائے باہمی کے جذبے کے تحت یہ تعاون برقرار رہے گا اور دوررس مثبت نتائج کی نوید بنے گا۔ کشمیر کے بارے میں بھی چین نے حقائق کا ادراک کرکے ہی پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے اور کشمیری باشندوں کو ویزے کی نرمی کی سہولتیں فراہم کی ہیں اس لئے پاکستان کو کشمیری باشندوں کے ویزے کیلئے چینی حکمت عملی کا بھی کھل کر ساتھ دینا چاہیے اور کسی بھارتی احتجاج کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے‘ پاکستان اور چین کا ایک دوسرے کے ساتھ سٹریٹجیکل تعاون بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ امریکہ اگر فی الواقع علاقائی اور عالمی امن کا خواہاں ہے تو اسے پاکستان چین ایٹمی تعاون کے معاہدے پر معترض نہیں ہونا چاہیے۔
کیری لوگر امداد بند ہونے کی صورت میں متبادل حکومتی اقدامات
ریمنڈ کے امریکہ کے حوالے نہ کرنے کے نتیجے میں کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد کی بندش کی دھمکی کے بعد صدر اور وزیراعظم نے متبادل امدادی ذرائع پر غور و خوض شروع کر دیا ہے۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ حکومت ریمنڈ کیس کے عدالتی فیصلے کے ریمنڈ کیخلاف صادر ہونے کی صورت میں ریمنڈ کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے اور امریکی امداد رک جانے کے نتیجے میں متبادل امداد حاصل کرنے پر کام شروع کر دیا ہے بلکہ یہ بات اور بھی اچھی ہے کہ حکمران امریکی امداد کو ٹھکرا کر اپنے اخراجات میں کمی لائیں اور راجہ ریاض کی تجویز کیمطابق وزراء کرام بڑے بنگلوں سے نکل کر دس مرلے کے گھروں میں آجائیں اور امداد کیلئے دیگر اسلامی و غیراسلامی ملکوں سے رجوع کریں اور ریمنڈ کیس کے حوالے سے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں کیونکہ امریکہ سے خلاصی پانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ وزیراعظم گیلانی اس سلسلے میں کویت روانہ ہو چکے ہیں اور صدر انکے بعد کویت جائینگے۔ اسکے علاوہ جاپان سے بھی امداد طلب کرنے کا پروگرام ہے۔ امریکی امداد کے رک جانے سے پیپلز پارٹی کو آئندہ بجٹ بنانے میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ مگر ہمت مرداں مدد خدا‘ اگر امریکہ پاکستان کی بے تحاشہ قربانیوں اور تعاون کے باوجود امداد کی قسط روکنا چاہتا ہے تو پھر معلوم شد کہ حاجی نیست کے مصداق ہمیں بھی ہوش سنبھال کر ریمنڈ کیس کا معاملہ عدالتی فیصلے کے مطابق نمٹانا چاہیے‘ اگر آج امریکی دبائو کی مزاحمت کی گئی تو ہمیشہ کیلئے امریکہ بے جا دبائو ڈالنے سے باز رہے گا۔
بسنت پر پابندی، احسن فیصلہ
حکومت پنجاب نے بسنت پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان کیمطابق لاہور سمیت صوبہ کے دیگر اضلاع میں بسنت سے سینکڑوں افراد کیمیائی اور خطرناک ڈور سے زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی مفاد میں بسنت پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ایک تو بسنت خونیں کھیل ہے، دوسرا اسکا اسلامی ثقافت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ خالصتاً ہندوانہ کلچر کا حصہ ہے۔ ہندو یہ تہوار صدیوں سے مناتے چلے آرہے ہیں لیکن باقاعدگی اور جوش و خروش سے منانے کا سلسلہ توہین رسالت پر ہندو طالبعلم حقیقت رائے کو گورنر لاہور زکریا خان کی طرف سے ہر دبائو کو مسترد کرتے ہوئے سزائے موت سے ہمکنار کرنے سے شروع ہوا۔ حقیقت رائے کی مڑھی لاہور میں ہے۔ یہاں اسکو دی جانیوالی پھانسی کے روز میلہ ہوتا ہے۔ یہیں سے بسنت لاہوریوں اور بعدازاں دیگر علاقوں میں پھیل گئی جس کی کشش کے اعلیٰ ایوانوں کے مکین بھی اسیر ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے اس کھیل پر پابندی لگائی تو صدر پرویز مشرف وردی کی طاقت سے پابندی کے باوجود اپنا شوق بے حمیتی پروان چڑھا تے رہے۔ اس وقت کی پنجاب حکومت اپنے مربی و آقا کی راہ میں پلکیں بچھاتی رہی۔ اب بھی کچھ لوگ پتنگ بازی کی حسرت دل میں لئے بیٹھے ہیں۔ وہ اس کھیل کی شروعات پر غور کریں، اسکے نقصانات کا جائزہ لیں تو انکے ضمیر ضرور کہہ اٹھیں گے کہ یہ واقعی خوفناک کھیل ہے اور ساتھ توہین رسالت کا ارتکاب بھی۔ پنجاب حکومت نے پابندی کو برقرار رکھنے کا احسن فیصلہ کیا ہے اور اس پر سختی سے عمل بھی ہونا چاہئے البتہ جشن بہاراں بے شک جوش و خروش سے منایا جا ئے جو ضروری نہیں کہ قاتل پتنگیں اڑا کر ہی منایا جائے۔
یوسف ہارون اور جہانداد خان کا انتقال پرملال
تحریک پاکستان کے رہنما سر عبداللہ ہارون کے صاحبزادے سابق گورنر مغربی پاکستان یوسف ہارون نیو یارک میں اور سابق گورنر سندھ جہانداد خان راولپنڈی میں انتقال کر گئے۔ہر ذی روح کو اس فانی دنیا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہے۔ سابق گورنر مغربی پاکستان یوسف ہارون اور سابق گورنر سندھ جہانداد خان کی رحلت ایک عظیم سانحہ ہے دونوں احباب کی خدمات قابل تحسین تھیں۔ انکے انتقال سے پیدا ہونیوالا خلا پر ہونا ناممکن ہے۔ یوسف ہارون نے قائداعظم کے شانہ بشانہ چل کر حصول پاکستان کیلئے کوششیں کیں پاکستان بننے کے بعد کراچی کے میئر کی حیثیت سے احسن طریقے سے نظام کو سنبھالا 1949ء میں وزیراعلیٰ سندھ بننے پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پھر 1969ء میں گورنر کے طور پر مغربی پاکستان کے الجھے مسائل کو حل کیا۔ انکے یہ کارنامے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائینگے۔ سابق گورنر سندھ جہانداد خان دکھی انسانیت کا درد رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے راولپنڈی میں الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال قائم کیا تھا۔ جہاں لاکھوں غریب لوگوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال اچھے انداز سے کی جاتی ہے جہانداد خان کا یہ صدقہ جاریہ انکے نام کو روشن رکھے گا۔ گورنر سندھ کی حیثیت سے بھی انہوں نے اچھے انداز سے فرائض منصبی سرانجام دئیے‘ دونوں شخصیات کی وفات پر سیاسی زعما نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انکے اہلخانہ اور محبین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
جاندار قوموں کا مردہ قوموں سے کیا مقابلہ؟
بیرسٹر ظہور بٹ (لندن) ........
میرا پاکستان بھی ایک عجیب ملک ہے اسکے اندر رہنے والے لوگ کیسے عجیب ہیں اور ان سے بھی عجیب اس ملک کے نام نہاد دانشور ہیں جو لوگوں کے اصل مسائل کو چھوڑ کر اُلٹی پُلٹی ناکارہ اور فضول بحثوں میں عوام کو الجھا رہے ہیں کوئی ریمنڈ ڈیوس پر پاکستان کے قوانین کیمطابق دوہرے قتل کا مقدمہ چلانا چاہتا ہے اور جانتے ہوئے بھی نہیں ماننا چاہتا کہ اگر امریکہ کہتاہے کہ ریمنڈڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے تو بات ختم ہو جاتی ہے اور نہ بھی ہو تو ہماری مفلوج حکومت امریکہ کا حکم ماننے سے کیسے انکار کر سکتی ہے؟ کوئی 55 سالوں سے ہمارے سیاستدان اور طالع آزما فوجی جرنیل بھیک کا کاسہ ہاتھوں میں اٹھائے واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر کھڑے ہاتھ جوڑے ’’دے جا سخیا راہ خدا‘‘ کی صدائیں دے دیکر ملک چلا رہے ہیں اور اس تمام عرصے میں پاکستان کے عوام کا مستقبل بھی امریکہ کے حوالے کر چکے ہیں اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ ہماری کوئی بھی حکومت امریکی ڈالروں کی آکسیجن کے بغیر ایک منٹ کیلئے بھی زندہ نہیں رہ سکتی تو پھر ریمنڈڈیوس کا واہ ویلا کرنے کا کیا فائدہ؟ ہم کیوں اپنے عوام کے جذبات کو ابھار رہے ہیں اور کیوں انہیں جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں کیونکہ ہونا تو وہی ہے جو امریکہ چاہے گا، جو صدر بارک اوباما چاہے گا اور جو اب سابق صدارتی امیدوار جان کیری کہے گا؟
ویسے بھی 1961کی ویانا کنونشن کے آرٹیکل 29 کے مطابق سفارتکاروں کو کسی بھی قسم کے سول یا فوجداری جرائم کے الزامات میں گرفتار نہیں کیا جاسکتا البتہ ان سفارتکاروں کو بھیجنے والا ملک اگر چاہے تو آرٹیکل 32 کے مطابق جرم کرنیوالے سفارتکار کے استثنیٰ کے حقوق ختم کر سکتاہے تاکہ جس ملک میں جرم ہوا ہے اس ملک کے قوانین کیمطابق اس سفارتکار پر مقدمہ چلایا جا سکے خاص طور پر اس صورت میں جب جرم انتہائی سنگین ہو اور اسکا کوئی بھی تعلق اسکے معمول کے فرائض سے نہ ہو لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکہ کمزور ملکوں کا بازو مروڑ کر اپنے مجرم سفارتکار کو چھڑا کر لے جاتا ہے اور سنگین جرم کی صورت میں اس پر اپنے ملک میں مقدمہ چلاتا ہے اور اگر جرم ثابت ہوجائے تو اسے جیل کی سزا بھی ہو جاتی ہے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں ریمنڈڈیوس کے معاملے میں ہمارا دفتر خارجہ، امریکی دفتر خارجہ اور امریکی سفارت خانہ ابھی تک یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ آیا ریمنڈڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے بھی یا نہیں یہ کام ہماری عدالتوں کا نہیں وہ تو صرف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے مطابق قانونی کارروائی ہی کر سکتی ہیں۔
ایک اور فضول بحث جس میں ہم بیکار الجھے ہوئے ہیں وہ ہے کہ پاکستانی افواج کے طالع آزما جرنیلوں کا سیاست میں کوئی رول ہونا چاہیے یا نہیں پاکستان کا آئین تو اس کا جواب نفی میں دیتا ہے مگر جب فوج اقتدار سنبھالتی ہے تو وہ آئین کی پرواہ نہیں کیا کرتی جرنل ضیا نے آئین کو ردی کا ایک ٹکڑا کہہ کر جب اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا تو ہم نے یا ہماری عدلیہ نے اس کا کیا بگاڑ لیا تھا؟
پاکستان کے یہ طالع آزما جرنیل تو 1956 سے ہی علانیہ پاکستان کی سیاست میں ملوث رہے ہیں اور اسکی بنیادی وجہ بھی ہمارے خود غرض اور لالچی سیاستدان ہی رہے ہیں فوج صرف ان ملکوں کی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرتی یا نہیں کر سکتی جن ملکوں میں میٖڈیا آزاد ہو، جن کے تمام ادارے اپنی اپنی جگہ فعال ہوں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کر رہے ہوں، جہاں عدلیہ آزاد ہو، جہاں جمہوری کلچر ترقی کرکے مستحکم ہو چکا ہو، جہاں سیاسی جماعتیں بنیادی سطح سے لیکر اوپر تک منظم ہوں، جہاں سیاسی جماعتوں کی پالیسی سازی میں ان جماعتوں کے کارکنوں اور ممبروں کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاں حکمران عوام کی دولت لوٹ کر اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے اپنے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کو اپنا ایمان بنائے ہوئے ہوں۔ اسکے برعکس اگر پاکستان کی طرح کسی ملک میں کوئی جمہوری کلچر ہی نہ ہو، سیاسی جماعتیں کسی فردواحد کی مٹھی میں بند ہوں، اس جماعت کے کسی بھی کارکن یا چھوٹے لیڈر کو جماعت کے صدر کیخلاف منہ کھولنے کی جرأت نہ ہو، اس جماعت کے حکمران دونوں ہاتھوں سے ملک کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہوں اور انکی دیکھا دیکھی اس حکومت کے وزراء کی فوج ظفر موج بھی یہی وطیرہ اپنا لے تو اس ملک کے تمام سرکاری ملازمین بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دیا کرتے ہیں۔
حضرت عمرؓ سے ایک روائت ہے کہ ان کے خلیفہ بننے کے کچھ عرصہ بعد یمن کے ایک سردار ان سے ملنے مدینہ آئے تو نذرانے کے طور پر انہیں انڈوں کی ایک ٹوکری پیش کی لیکن حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ اگر حاکم انڈوں کی ٹوکری کا تحفہ قبول کر لے گا تو اسکے گورنر اپنے علاقوں کے تمام مرغی خانوں کا سفایا کردینگے آج جس بیدردی سے پاکستان کو لوٹا جارہا ہے، وزیر اعظم سے لیکر نیچے تک آوے کا آوا ہی الٹا ہوا ہے، رولز رائس گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، وزراء تو کیا انکے بیٹے بھی اربوں روپوں کے گھپلوں کے الزامات میں مطلوب ہیں تو کیا ہمارے جرنیلوں کے منہ میں پانی نہیں آئیگا؟ اگر کسی ٹیم کی کارکردگی ناکارہ ہو جائے تو سب سے پہلے اس ٹیم کے کپتان کے گریبان پہ ہاتھ ڈالا جاتا ہے مگر ہمارے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے مرکزی کابینہ توڑ کر نئی کابینہ تشکیل دے دی جاتی ہے تو نہ صرف وزیراعظم وہی رہتا ہے بلکہ کرپشن میں بد ترین شہرت رکھنے والے وزراء بھی اپنی اپنی کرسیوں پر ویسے کے ویسے ڈٹے رہتے ہیں ان حالات میں ہمارے عوام ایک مدت سے یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ حکمرانی کیلئے ہمارے سیاستدان اور طالع آزما جرنیل تھوڑے تھوڑے عرصے بعد اپنی اپنی باریاں لیتے رہتے ہیں کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں تو کوئی اس بہتی گنگا میں ڈبکیاں لیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی تصویر کا تیسرا رخ بھوک بیماری اور بیکاری سے پٹے ہوئے ہمارے عوام تو ہیں مگر یہ نہ ہونے کے برابر ہیں مہنگائی اور بیکاری سے تنگ آکر آئے دن یہ اپنے خاندان سمیت خود کشیاں تو کرتے رہتے ہیں مگر انہیں خود کشیوں پر مجبور کرنیوالے اپنے حاکموں کے گلے پکڑنے کی آج تک جرأت نہیں ہوئی ہمارے کئی دانشور تیونس اور مصر کے عوام کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ جاندار قوموں سے بھلا مردہ قوموں کا کیا مقابلہ؟
میرا پاکستان بھی ایک عجیب ملک ہے اسکے اندر رہنے والے لوگ کیسے عجیب ہیں اور ان سے بھی عجیب اس ملک کے نام نہاد دانشور ہیں جو لوگوں کے اصل مسائل کو چھوڑ کر اُلٹی پُلٹی ناکارہ اور فضول بحثوں میں عوام کو الجھا رہے ہیں کوئی ریمنڈ ڈیوس پر پاکستان کے قوانین کیمطابق دوہرے قتل کا مقدمہ چلانا چاہتا ہے اور جانتے ہوئے بھی نہیں ماننا چاہتا کہ اگر امریکہ کہتاہے کہ ریمنڈڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے تو بات ختم ہو جاتی ہے اور نہ بھی ہو تو ہماری مفلوج حکومت امریکہ کا حکم ماننے سے کیسے انکار کر سکتی ہے؟ کوئی 55 سالوں سے ہمارے سیاستدان اور طالع آزما فوجی جرنیل بھیک کا کاسہ ہاتھوں میں اٹھائے واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر کھڑے ہاتھ جوڑے ’’دے جا سخیا راہ خدا‘‘ کی صدائیں دے دیکر ملک چلا رہے ہیں اور اس تمام عرصے میں پاکستان کے عوام کا مستقبل بھی امریکہ کے حوالے کر چکے ہیں اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ ہماری کوئی بھی حکومت امریکی ڈالروں کی آکسیجن کے بغیر ایک منٹ کیلئے بھی زندہ نہیں رہ سکتی تو پھر ریمنڈڈیوس کا واہ ویلا کرنے کا کیا فائدہ؟ ہم کیوں اپنے عوام کے جذبات کو ابھار رہے ہیں اور کیوں انہیں جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں کیونکہ ہونا تو وہی ہے جو امریکہ چاہے گا، جو صدر بارک اوباما چاہے گا اور جو اب سابق صدارتی امیدوار جان کیری کہے گا؟
ویسے بھی 1961کی ویانا کنونشن کے آرٹیکل 29 کے مطابق سفارتکاروں کو کسی بھی قسم کے سول یا فوجداری جرائم کے الزامات میں گرفتار نہیں کیا جاسکتا البتہ ان سفارتکاروں کو بھیجنے والا ملک اگر چاہے تو آرٹیکل 32 کے مطابق جرم کرنیوالے سفارتکار کے استثنیٰ کے حقوق ختم کر سکتاہے تاکہ جس ملک میں جرم ہوا ہے اس ملک کے قوانین کیمطابق اس سفارتکار پر مقدمہ چلایا جا سکے خاص طور پر اس صورت میں جب جرم انتہائی سنگین ہو اور اسکا کوئی بھی تعلق اسکے معمول کے فرائض سے نہ ہو لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکہ کمزور ملکوں کا بازو مروڑ کر اپنے مجرم سفارتکار کو چھڑا کر لے جاتا ہے اور سنگین جرم کی صورت میں اس پر اپنے ملک میں مقدمہ چلاتا ہے اور اگر جرم ثابت ہوجائے تو اسے جیل کی سزا بھی ہو جاتی ہے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں ریمنڈڈیوس کے معاملے میں ہمارا دفتر خارجہ، امریکی دفتر خارجہ اور امریکی سفارت خانہ ابھی تک یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ آیا ریمنڈڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے بھی یا نہیں یہ کام ہماری عدالتوں کا نہیں وہ تو صرف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے مطابق قانونی کارروائی ہی کر سکتی ہیں۔
ایک اور فضول بحث جس میں ہم بیکار الجھے ہوئے ہیں وہ ہے کہ پاکستانی افواج کے طالع آزما جرنیلوں کا سیاست میں کوئی رول ہونا چاہیے یا نہیں پاکستان کا آئین تو اس کا جواب نفی میں دیتا ہے مگر جب فوج اقتدار سنبھالتی ہے تو وہ آئین کی پرواہ نہیں کیا کرتی جرنل ضیا نے آئین کو ردی کا ایک ٹکڑا کہہ کر جب اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا تو ہم نے یا ہماری عدلیہ نے اس کا کیا بگاڑ لیا تھا؟
پاکستان کے یہ طالع آزما جرنیل تو 1956 سے ہی علانیہ پاکستان کی سیاست میں ملوث رہے ہیں اور اسکی بنیادی وجہ بھی ہمارے خود غرض اور لالچی سیاستدان ہی رہے ہیں فوج صرف ان ملکوں کی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرتی یا نہیں کر سکتی جن ملکوں میں میٖڈیا آزاد ہو، جن کے تمام ادارے اپنی اپنی جگہ فعال ہوں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کر رہے ہوں، جہاں عدلیہ آزاد ہو، جہاں جمہوری کلچر ترقی کرکے مستحکم ہو چکا ہو، جہاں سیاسی جماعتیں بنیادی سطح سے لیکر اوپر تک منظم ہوں، جہاں سیاسی جماعتوں کی پالیسی سازی میں ان جماعتوں کے کارکنوں اور ممبروں کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاں حکمران عوام کی دولت لوٹ کر اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے اپنے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کو اپنا ایمان بنائے ہوئے ہوں۔ اسکے برعکس اگر پاکستان کی طرح کسی ملک میں کوئی جمہوری کلچر ہی نہ ہو، سیاسی جماعتیں کسی فردواحد کی مٹھی میں بند ہوں، اس جماعت کے کسی بھی کارکن یا چھوٹے لیڈر کو جماعت کے صدر کیخلاف منہ کھولنے کی جرأت نہ ہو، اس جماعت کے حکمران دونوں ہاتھوں سے ملک کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہوں اور انکی دیکھا دیکھی اس حکومت کے وزراء کی فوج ظفر موج بھی یہی وطیرہ اپنا لے تو اس ملک کے تمام سرکاری ملازمین بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دیا کرتے ہیں۔
حضرت عمرؓ سے ایک روائت ہے کہ ان کے خلیفہ بننے کے کچھ عرصہ بعد یمن کے ایک سردار ان سے ملنے مدینہ آئے تو نذرانے کے طور پر انہیں انڈوں کی ایک ٹوکری پیش کی لیکن حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ اگر حاکم انڈوں کی ٹوکری کا تحفہ قبول کر لے گا تو اسکے گورنر اپنے علاقوں کے تمام مرغی خانوں کا سفایا کردینگے آج جس بیدردی سے پاکستان کو لوٹا جارہا ہے، وزیر اعظم سے لیکر نیچے تک آوے کا آوا ہی الٹا ہوا ہے، رولز رائس گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، وزراء تو کیا انکے بیٹے بھی اربوں روپوں کے گھپلوں کے الزامات میں مطلوب ہیں تو کیا ہمارے جرنیلوں کے منہ میں پانی نہیں آئیگا؟ اگر کسی ٹیم کی کارکردگی ناکارہ ہو جائے تو سب سے پہلے اس ٹیم کے کپتان کے گریبان پہ ہاتھ ڈالا جاتا ہے مگر ہمارے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے مرکزی کابینہ توڑ کر نئی کابینہ تشکیل دے دی جاتی ہے تو نہ صرف وزیراعظم وہی رہتا ہے بلکہ کرپشن میں بد ترین شہرت رکھنے والے وزراء بھی اپنی اپنی کرسیوں پر ویسے کے ویسے ڈٹے رہتے ہیں ان حالات میں ہمارے عوام ایک مدت سے یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ حکمرانی کیلئے ہمارے سیاستدان اور طالع آزما جرنیل تھوڑے تھوڑے عرصے بعد اپنی اپنی باریاں لیتے رہتے ہیں کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں تو کوئی اس بہتی گنگا میں ڈبکیاں لیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی تصویر کا تیسرا رخ بھوک بیماری اور بیکاری سے پٹے ہوئے ہمارے عوام تو ہیں مگر یہ نہ ہونے کے برابر ہیں مہنگائی اور بیکاری سے تنگ آکر آئے دن یہ اپنے خاندان سمیت خود کشیاں تو کرتے رہتے ہیں مگر انہیں خود کشیوں پر مجبور کرنیوالے اپنے حاکموں کے گلے پکڑنے کی آج تک جرأت نہیں ہوئی ہمارے کئی دانشور تیونس اور مصر کے عوام کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ جاندار قوموں سے بھلا مردہ قوموں کا کیا مقابلہ؟
سرے راہے
اتوار ‘ 16 ؍ ربیع الاول 1432 ھ20؍ فروری ‘ 2011ء
ـ 2 گھنٹے 9 منٹ پہلے شائع کی گئیصدر آصف علی زرداری نے کہا ہے‘ ’’متحدہ امارات بلوچستان‘‘ بنانے کی تیاریاں تھیں‘ ناکام بنایا۔ محاذ آرائی کی وجہ سے ملک تڑوا کر بنگلہ دیش بنوا چکے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ مردحر اپنی حریت کو روز افزوں اجاگر کرتے جا رہے ہیں اور وہ ملک کے ٹوٹنے کو نہ بھولتے ہوئے اب بلوچستان کے بارے میں بیدار ہیں اور شاید وہ پیپلز پارٹی کے ایسے لیڈر ہیں جو پارٹی کی سابقہ غلطیوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں اور انہیں دہرانا نہیں چاہتے۔ بس یہی اک بات ہے اچھی مرے دیوانے کی۔
ہم سمجھتے تھے کہ وہ بے خبر ہیں یا دانستہ نوٹس نہیں لینا چاہتے مگر اب جب انہوں نے بلوچستان میں فروخت شدہ زمینیں جو غیر پاکستانیوں کو دی گئی تھیں‘ سب کی سب واپس لے لی ہیں‘ دل خوش ہو گیا۔ متحدہ امارات بلوچستان کی کوئی اساس ہے یا نہیں مگر بلوچستان میں غیروں کو زمینوں کی فروخت کینسل کر دینا صدر کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے دفع دخلِ مقدر یعنی پوشیدہ خطرے کا سدباب کر دیا ہے۔ اگر وہ یہ کر سکتے ہیں تو ریمنڈ کے حوالے سے بھی ایسا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ امریکہ کے اوباما کو اپنی تڑی اندھے کی چھڑی لگنے لگے۔ بنگلہ دیش ٹوٹا نہیں تڑوایا گیا ہے‘ اسے پیوند لگ سکتا ہے اور مزید بخیئے اسے اور مضبوط کرکے اندرا گاندھی کی راکھ میں چنگاریاں بھر سکتی ہیں تاکہ اسکی آتما انگاروں پر لوٹنے لگے اور جسے وہ ڈبونا چاہتی تھی۔ وہ بحری بیڑہ بن کر بحیرہ ہند سے ٹکرا جائے اور قائداعظم کا پاکستان لوٹ آئے۔
بلوچستان میں چند ’’ٹوٹرو‘‘ اس انداز کے شوشے چھوڑتے ہیں کہ بلوچستان الگ ہونیوالا ہے مگر صدر نے بلوچستان میں دوسروں کو فروخت شدہ زمینیں واپس لے کر حفظ ماتقدم کرلیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سپریم کورٹ پہلے ہی بدیسیوں کو ارض پاک کی فروخت پر پابندی لگا چکی ہے۔
٭…٭…٭…٭
بینظیر قتل میں براہ راست اعانت کا الزام‘ مشرف کا نام مرکزی ملزموں میں شامل‘ بلیک بیری سے ایک ای میل میں بینظیر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مشرف انہیں قتل کرا سکتے ہیں‘ مشرف کے نئے وارنٹ گرفتاری لئے جائینگے۔
’’دانہ نہ چگدی تے کیوں پھاسدی‘‘ آخر مشرف نے جہاں لال مسجد میں سینکڑوں ہم وطنوں کے خون سے ہاتھ رنگا‘ وہاں اسکے دامنِ داغ داغ پر بینظیر کے قتل کا امکانی ٹھپہ بھی لگ چکا ہے‘ لال مسجد کے شہیدوں کا خون شاید بہ ایں طور رنگ لائے…؎
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
باللعجب ! کہ جس کی آستینوں سے خون اور باچھوں سے مدھرا ٹپک رہی ہے‘ وہ آل پاکستان مسلم لیگ کا موجد ہے‘ سربراہ نہیں‘ جو بٹیر افگن اور دوسرے تیسرے معدودے چند گنجانِ ملت پرویز مشرف کی سکندری و دارائی کے امیدوار ہیں‘ وہ بچشم عدالت دیکھ لیں کہ انکے ڈبہ پیر کا نام بینظیر قتل کیس کے مرکزی ملزموں میں شامل ہو چکا ہے اور وارنٹ گرفتاری بار دگر جاری ہو چکے ہیں۔ کیا اب بھی وہ اپنی عقیدت کا بھانڈا بیچ چوراہے نہ توڑیں گے؟
اس ملک میں وہ دن بھی دور نہیں جب لٹیرے حکمرانوں کے گریباں میں عوام الناس کا ہاتھ ہو گا اور انکی لوٹی ہوئی دولت بھاگتی ہوئی پاکستان کے خزانے کا رخ کریگی۔ کیونکہ اب موسم بدل گئے ہیں اور …ع
چلی ہے رسم کہ سب سر اٹھا کے چلیں
آج پرویز کو سب مشرف کہتے ہیں‘ گویا اس نے اپنے ساتھ اپنے والد کا نام بھی ڈبو دیا۔ ایسی اولاد تو پسر نوحؑ کی ہمسر ہے۔ پرویز مشرف کو لندن کے قحبہ خانوں سے لانے کا جتن کیا جائے تاکہ پہنچے وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
٭…٭…٭…٭
سینئر صوبائی وزیر پنجاب حکومت راجہ ریاض احمد نے کہا ہے‘ پنجاب حکومت سے نکالا گیا تو داتا دربار جا کر نفل ادا کرینگے۔
راجہ صاحب کے انداز تخاطب سے لگتا ہے کہ وہ وزارت کے متمنی ہیں‘ وگرنہ داتا دربار جا کر نفل پڑھنے کی کیا ضرورت تھی‘ کیونکہ وہاں تو لوگ مرادیں پانے جاتے ہیں اور ایک خدانخواستہ خارج شدہ سینئر وزیر کی اسکے سوا کیا مراد ہو سکتی ہے کہ وہ پھر سے اپنی کرسی پالے۔ اگر ثواب کمانا ہوتا تو وہ ہر جمعرات کو دربار جا کر نوافل ادا کرتے‘ اگر پنجاب حکومت کی اکثریتی پارٹی نے کوئی ایجنڈا دیا ہے جس پر 23 فروری تک عملدرآمد درکار ہے تو اس میں کیا حرج ہے کہ محرومی کی حالت میں نفل ادا کرنے کے بجائے‘ بھرے دامن کے ساتھ داتا صاحب جا کر نفل ادا کئے جائیں۔ بسااوقات بے جا ضد اور انا کا مسئلہ انسان کو جنت سے ایک بالشت کے فاصلے پر روک لیتا ہے۔
بہتر تو یہی ہے کہ پنجاب حکومت میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) گلے لگے رہیں کیونکہ یہاں بہت سے اور لوگ گلے ملنے والے ہیں۔ راجہ ریاض احمد پہلے ہی راجہ ہیں اور سینئر وزیر ہونا راجہ ہونے سے کم تو نہیں۔ دس نکاتی ایجنڈے میں تو قومی مفاد پوشیدہ ہے‘ جیسا کہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے‘ مگر وہ ان دس نکات منوانے کیلئے اوباما کا لہجہ اختیار نہ کریں‘ باقی یہ کہ نوافل ادا کرنے اور حکومت سے نکلنے کی تمنا ہے تو بھی کوئی روک ٹوک نہیں۔ وہ جب چاہیں‘ پنجاب حکومت کو 23 تاریخ سے پہلے چھوڑ کر داتا صاحب بیٹھ جائیں‘ بہرحال ہم تو کہیں گے کہ وزیراعلیٰ اور رانا ثناء ہتھ ہولا رکھیں اور نوافل کی نوبت کسی اور طرح سے آنے دیں۔
یوں لگتا ہے کہ مردحر اپنی حریت کو روز افزوں اجاگر کرتے جا رہے ہیں اور وہ ملک کے ٹوٹنے کو نہ بھولتے ہوئے اب بلوچستان کے بارے میں بیدار ہیں اور شاید وہ پیپلز پارٹی کے ایسے لیڈر ہیں جو پارٹی کی سابقہ غلطیوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں اور انہیں دہرانا نہیں چاہتے۔ بس یہی اک بات ہے اچھی مرے دیوانے کی۔
ہم سمجھتے تھے کہ وہ بے خبر ہیں یا دانستہ نوٹس نہیں لینا چاہتے مگر اب جب انہوں نے بلوچستان میں فروخت شدہ زمینیں جو غیر پاکستانیوں کو دی گئی تھیں‘ سب کی سب واپس لے لی ہیں‘ دل خوش ہو گیا۔ متحدہ امارات بلوچستان کی کوئی اساس ہے یا نہیں مگر بلوچستان میں غیروں کو زمینوں کی فروخت کینسل کر دینا صدر کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے دفع دخلِ مقدر یعنی پوشیدہ خطرے کا سدباب کر دیا ہے۔ اگر وہ یہ کر سکتے ہیں تو ریمنڈ کے حوالے سے بھی ایسا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ امریکہ کے اوباما کو اپنی تڑی اندھے کی چھڑی لگنے لگے۔ بنگلہ دیش ٹوٹا نہیں تڑوایا گیا ہے‘ اسے پیوند لگ سکتا ہے اور مزید بخیئے اسے اور مضبوط کرکے اندرا گاندھی کی راکھ میں چنگاریاں بھر سکتی ہیں تاکہ اسکی آتما انگاروں پر لوٹنے لگے اور جسے وہ ڈبونا چاہتی تھی۔ وہ بحری بیڑہ بن کر بحیرہ ہند سے ٹکرا جائے اور قائداعظم کا پاکستان لوٹ آئے۔
بلوچستان میں چند ’’ٹوٹرو‘‘ اس انداز کے شوشے چھوڑتے ہیں کہ بلوچستان الگ ہونیوالا ہے مگر صدر نے بلوچستان میں دوسروں کو فروخت شدہ زمینیں واپس لے کر حفظ ماتقدم کرلیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سپریم کورٹ پہلے ہی بدیسیوں کو ارض پاک کی فروخت پر پابندی لگا چکی ہے۔
٭…٭…٭…٭
بینظیر قتل میں براہ راست اعانت کا الزام‘ مشرف کا نام مرکزی ملزموں میں شامل‘ بلیک بیری سے ایک ای میل میں بینظیر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مشرف انہیں قتل کرا سکتے ہیں‘ مشرف کے نئے وارنٹ گرفتاری لئے جائینگے۔
’’دانہ نہ چگدی تے کیوں پھاسدی‘‘ آخر مشرف نے جہاں لال مسجد میں سینکڑوں ہم وطنوں کے خون سے ہاتھ رنگا‘ وہاں اسکے دامنِ داغ داغ پر بینظیر کے قتل کا امکانی ٹھپہ بھی لگ چکا ہے‘ لال مسجد کے شہیدوں کا خون شاید بہ ایں طور رنگ لائے…؎
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
باللعجب ! کہ جس کی آستینوں سے خون اور باچھوں سے مدھرا ٹپک رہی ہے‘ وہ آل پاکستان مسلم لیگ کا موجد ہے‘ سربراہ نہیں‘ جو بٹیر افگن اور دوسرے تیسرے معدودے چند گنجانِ ملت پرویز مشرف کی سکندری و دارائی کے امیدوار ہیں‘ وہ بچشم عدالت دیکھ لیں کہ انکے ڈبہ پیر کا نام بینظیر قتل کیس کے مرکزی ملزموں میں شامل ہو چکا ہے اور وارنٹ گرفتاری بار دگر جاری ہو چکے ہیں۔ کیا اب بھی وہ اپنی عقیدت کا بھانڈا بیچ چوراہے نہ توڑیں گے؟
اس ملک میں وہ دن بھی دور نہیں جب لٹیرے حکمرانوں کے گریباں میں عوام الناس کا ہاتھ ہو گا اور انکی لوٹی ہوئی دولت بھاگتی ہوئی پاکستان کے خزانے کا رخ کریگی۔ کیونکہ اب موسم بدل گئے ہیں اور …ع
چلی ہے رسم کہ سب سر اٹھا کے چلیں
آج پرویز کو سب مشرف کہتے ہیں‘ گویا اس نے اپنے ساتھ اپنے والد کا نام بھی ڈبو دیا۔ ایسی اولاد تو پسر نوحؑ کی ہمسر ہے۔ پرویز مشرف کو لندن کے قحبہ خانوں سے لانے کا جتن کیا جائے تاکہ پہنچے وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
٭…٭…٭…٭
سینئر صوبائی وزیر پنجاب حکومت راجہ ریاض احمد نے کہا ہے‘ پنجاب حکومت سے نکالا گیا تو داتا دربار جا کر نفل ادا کرینگے۔
راجہ صاحب کے انداز تخاطب سے لگتا ہے کہ وہ وزارت کے متمنی ہیں‘ وگرنہ داتا دربار جا کر نفل پڑھنے کی کیا ضرورت تھی‘ کیونکہ وہاں تو لوگ مرادیں پانے جاتے ہیں اور ایک خدانخواستہ خارج شدہ سینئر وزیر کی اسکے سوا کیا مراد ہو سکتی ہے کہ وہ پھر سے اپنی کرسی پالے۔ اگر ثواب کمانا ہوتا تو وہ ہر جمعرات کو دربار جا کر نوافل ادا کرتے‘ اگر پنجاب حکومت کی اکثریتی پارٹی نے کوئی ایجنڈا دیا ہے جس پر 23 فروری تک عملدرآمد درکار ہے تو اس میں کیا حرج ہے کہ محرومی کی حالت میں نفل ادا کرنے کے بجائے‘ بھرے دامن کے ساتھ داتا صاحب جا کر نفل ادا کئے جائیں۔ بسااوقات بے جا ضد اور انا کا مسئلہ انسان کو جنت سے ایک بالشت کے فاصلے پر روک لیتا ہے۔
بہتر تو یہی ہے کہ پنجاب حکومت میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) گلے لگے رہیں کیونکہ یہاں بہت سے اور لوگ گلے ملنے والے ہیں۔ راجہ ریاض احمد پہلے ہی راجہ ہیں اور سینئر وزیر ہونا راجہ ہونے سے کم تو نہیں۔ دس نکاتی ایجنڈے میں تو قومی مفاد پوشیدہ ہے‘ جیسا کہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے‘ مگر وہ ان دس نکات منوانے کیلئے اوباما کا لہجہ اختیار نہ کریں‘ باقی یہ کہ نوافل ادا کرنے اور حکومت سے نکلنے کی تمنا ہے تو بھی کوئی روک ٹوک نہیں۔ وہ جب چاہیں‘ پنجاب حکومت کو 23 تاریخ سے پہلے چھوڑ کر داتا صاحب بیٹھ جائیں‘ بہرحال ہم تو کہیں گے کہ وزیراعلیٰ اور رانا ثناء ہتھ ہولا رکھیں اور نوافل کی نوبت کسی اور طرح سے آنے دیں۔
ریمنڈ ڈیوس کے امریکی سی آئی اے سے تعلقات کا ثبوت مل گیا
ـ 53 منٹ پہلے شائع کی گئی
- Adjust Font Size
لاہور (سلیم بخاری / اشرف ممتاز / دی نیشن رپورٹ) آئی ایس آئی کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دو بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کے امریکی سی آئی اے کے ساتھ تعلقات ہیں‘ آئی ایس آئی کے ذرائع نے ”دی نیشن“ کو بتایا کہ اس المناک واقعہ کے بعد سی آئی اے کے رویہ نے دونوں ممالک کے درمیان شراکت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقاصد کی ہم آہنگی سے قطع نظر یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہو گا کہ آیا پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اسی سطح پر قائم رہ سکیں گے جو کہ ریمنڈ ڈیوس کے اس واقعہ سے قبل تھے۔ دونوں ممالک کی ایجنسیوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی تمام تر ذمہ داری سی آئی اے پر ہو گی۔ اس ذریعہ کے مطابق آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان پیشہ وارانہ تعلقات قریبی اور مستحکم رہے ہیں‘ ان میں نشیب و فراز آتے رہے مگر یہ کہنا کہ 9/11 کے واقعہ کے بعد یہ بدترین ہو گئے تھے یہ درست نہ ہو گا۔ ٹریک ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے ہیں‘ امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں اس ذریعے نے کہا کہ یہ صرف سی آئی اے کا آپریشن ہے‘ پاکستان یا آئی ایس آئی ہدف کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دے رہے۔ ان اطلاعات کے مطابق کہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد ڈرون حملے رک گئے کیونکہ پاکستان اب اہداف کی نشاندہی نہیں کر رہا‘ آئی ایس آئی نے اسے سراسر بے بنیاد قرار دیا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان بھرپور طور پر جنوبی وزیرستان ایجنسی میں تحریک طالبان پنجاب کے خلاف آپریشنز کر رہا ہے اور یہاں سے ٹھوس نتائج برآمد ہونے کے بعد یہ شمالی وزیرستان کی صورتحال سے نمٹا جائے گا۔ واضح رہے کہ امریکہ وہاں آپریشن کےلئے بھرپور دباو ڈال رہا ہے۔ ان الزامات پر کہ آئی ایس آئی حقانی گروپ کے تحفظ کےلئے مدد دے رہی ہے اس ذریعے نے کہا کہ یہ محض ایک درپردہ الزام ہی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق میڈیا کو ایسی رپورٹیں سی آئی ا ے کے تعاون سے دی جا رہی ہیں‘ یہ بات قابل افسوس ہے کہ متعدد مواقع پر سی آئی اے کی قیادت نے دونوں ایجنسیوں کے درمیان تعلقات کا احترام نہیں کیا اور آئی ایس آئی کے ساتھ متکبرانہ رویہ اختیار کیا گیا جس سے روابط کمزور ہوئے۔ ذرائع کے مطابق یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ سی آئی اے کی قیادت یہ سمجھنے میں ناکام رہی ہے کہ سی آئی اے کی خواہشات کی پروا کئے بغیر آئی ایس آئی اپنے ملک کے مفاد کےلئے کام کرتی ہے اور یہ کرتی رہے گی۔ ایک اور سوال پر ان ذرائع نے کہا کہ دباو کے ذریعے شراکت کے بارے میں سی آئی اے کی اس دقیانوسی اپروچ کے الٹ نتائج برآمد ہوں گے اور سی آئی اے تن تنہا ہو کر رہ جائے گی۔ آئی ایس آئی کا کہنا ہے کہ دشمنوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے پراپیگنڈا مہم کا آغاز کر دیا ہے اور مختلف ویب سائٹس کے ذریعے ملک پر بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء”یورپی ٹائمز“ کی ویب سائٹ "eutimes.net" کی رپورٹ کے مطابق روسی فارن انٹیلی جنس سروس (SVR) نے بتایا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس سے سی آئی اے کی انتہائی خفیہ دستاویزات برآمد ہوئی ہیں جن سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس علاقے میں کام کرنے والی امریکی ٹاسک فورس (TF373) القاعدہ کے دہشت گردوں کو ایٹمی اور جراثیمی مواد فراہم کر رہی ہے جسے بعدازاں امریکہ کے خلاف استعمال کرایا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ایسی جنگ شروع ہو گی جس کا مقصد عالمی اقتصادیات پر مغرب کی بالادستی کو ازسرنو قائم کرنا ہے جس کے بارے میں یہ خبردار کیا گیا ہے کہ چند ماہ کے اندر یہ تباہی کے دہانے پر پہنچنے والی ہے۔ ایس وی آر نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کھلی جنگ شروع ہونے والی ہے جس سے برصغیر کی صورتحال انتہائی گھمبیر ہو جائے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کا وزیرستان میں موبائل فون ٹریک ہونے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ القاعدہ سے رابطے کر رہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ریمنڈ ڈیوس نے فائرنگ کی جس مہارت کا اظہار کیا اور اس کی گرفتاری کے بعد جو دستاویزات برآمد ہوئیں اس سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ امریکی ٹاسک فورس 373 بلیک آپریشنز یونٹ اس وقت افغان جنگ میں کام کر رہی ہے۔ پاکستانی قبائلی علاقے میں امریکی سپیشل فورسز کے سپاہی‘ سی آئی اے کے جاسوس اور فری لانس فوجی دندنا رہے ہیں۔ 1962ءمیں امریکہ میں نارتھ وڈز ”فالس فلیگ“ آپریشن کی تجاویز دی گئی تھیں جن کے مطابق سی آئی اے اور اس کے ایجنٹوں سے کہا گیا تھا کہ وہ امریکی شہروں اور دوسرے مقامات پر حملے کریں اور ان حملوں کا الزام کیوبا پر دیا جانا تھا تاکہ کمیونسٹ رہنما فیڈل کاسترو اور کیوبا کے خلاف کارروائی کا جواز پیش کیا جا سکے۔ ان تجاویز میں ہائی جیکنگ اور بم دھماکے وغیرہ کرنا شامل تھا۔ رپورٹ میں امریکی قومی سلامتی کے محکمہ کی اس وارننگ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ 9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ پر حملوں کے شدید خطرات پائے جاتے ہیں۔ وکی لیکس بھی امریکی خفیہ دستاویزات کے حوالے سے بتا چکی ہے کہ القاعدہ امریکہ کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے ہی والی ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)