The principles of humanity-those values which act as a common bond of responsibilities Shared by faith and cultures throughout the world common humanity, responsibilities, Respect, compassion, truth and integrity, human solidarity
Thursday, February 3, 2011
یونیفکیشن بلاک کے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں الگ نشستوں کی الاٹمنٹ کے لئے سپیکر کو درخواست دے دی
مسلم لیگ (ق) پنجاب کے یونیفکیشن بلاک نے ڈاکٹر طاہر علی جاوید کو پنجاب اسمبلی میں اپنا پارلیمانی لیڈر نامزد کر دیا۔گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کمیٹی ہال اے میں یونیفکیشن بلاک کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں پنجاب اسمبلی کے 47 اراکین نے شرکت کی۔اجلاس میں یونیفکیشن بلاک کے رہنماءمیاں عطاءمحمد مانیکا نے ڈاکٹر طاہر علی جاوید کا نام پارلیمانی لیڈر کے لئے باضابطہ طور پر پیش کیا ، ایم پی اے شوکت بھٹی نے ان کی تائید کی۔بعد ازاں یونیفکیشن گروپ کے 47 ارکان کی طرف سے دستخط شدہ ایک درخواست سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان کو دی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ صوبائی اسمبلی فلور پر یونیفکیشن گروپ کو اکثریت حاصل ہے اس لئے انہیں الگ نشستیں الاٹ کی جائیں اور ڈاکٹر طاہر علی جاوید کی باضابطہ طورپر پارلیمانی لیڈر نامزدگی کی جائے
انقلاب.... ؟
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس اگر عدالتی فیصلے، امریکی دباﺅ یا کسی تیسری صورت کی وجہ سے امریکہ کے حوالے کر دیا جائے تو بھی پاکستان میں انقلاب کا امکان نہیں کہ پاکستانیوں کا مزاج تیونس اور مصر والوں سے مختلف ہے البتہ کچھ اندرونی قوتیں پاکستان میں تیونس اور مصر کے حالات پیدا کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ انقلاب ہو یا جہاد،کسی رہنماءکا بیٹا شہید ہوتا ہے اور نہ ہی بنگلوں اور محلات والے سڑکوں پر آتے ہیں۔ انقلاب ڈرائنگ روم سے نہیں، گلیوں سے اٹھتا ہے جبکہ پاکستان کی گلیوں سے صرف غم و غصہ کا دھواں اٹھتا ہے، انقلاب کے بادل ابھی دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان کے کسی نہ کسی حصے میں مظاہرے ہوتے رہتے ہیں مگر پھر ”ٹھس“....! زرداری حکومت بلا شبہ محترمہ کے ”تعزیتی“ ووٹوں سے ایوانوں تک پہنچی ہے مگر کہلاتی تو جمہوریت ہے لہذا جمہوری حکومت کا مصر اور تیونس کی بوسیدہ آمریت کے ساتھ موازنہ مناسب نہیں البتہ ڈیوس کی امریکہ روانگی کو ”کیش“ کرایا جا سکتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا پاکستان کی قید میں رہنا نہ صرف امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے لئے منفی ثابت ہو گا بلکہ زرداری حکومت کی رخصتی کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ امریکہ کے پاکستانیوں کو اپنی جان کی نہیں ملک و قوم کے امان کی فکر ہے البتہ پاکستان میں سیاسی بحران فوج کی آمد کا جواز بن سکتا ہے۔ امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن پاکستان کو تیونس اور مصر جیسے بحران کی ”شوگر کوٹڈ دھمکی“ دے چکے ہیں اور جب امریکہ کسی کے درپے ہو جائے تو اسے عراق، افغانستان، تیونس، مصر....کچھ بھی بنا سکتا ہے اور پرانے دوستوں کی جگہ نئے دوستوں کو لا سکتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ کا نیا اور پرانا دوست ”فوج“ ہے۔”فوج کے لئے اقتدار کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہو چکے ہیں“ کی خوش فہمی سے نکل آنا چاہئے....! پاکستانیوں کو زمینی حقائق کا سامنا کرنا چاہئے، اگر وہ کسی بڑے انقلاب کے متحمل نہیں ہیں تو پھر ہمیشہ کی غلامی پر راضی جائیں اور ”پھس پھسے“ احتجاج سے ملک کے حالات مزید خراب مت کریں۔ تیونس، مصر ، یمن اور سوڈان میں معاشی بحران،کرپشن اور بیروزگاری کے خلاف عوامی احتجاج نے انقلاب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ انڈونیشیا کے عوام بھی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں.... ڈاکٹر عافیہ جیسے ہزاروں افراد لا پتہ ہو گئے مگر پاکستان میں انقلاب نہیں آیا، ڈاکٹرعافیہ کو چھیاسی برس کی سزا سنا دی گئی انقلاب نہیں آیا، پاکستان میں 2010ءمیں 1,310 لوگوں نے خود کشیاں کیں انقلاب نہیں آیا، صرف ایک سال میں 147 دہشت گردی کے واقعات پیش آئے انقلاب نہیں آیا، ایک سال میں 52 بڑے خود کش حملے ہو ئے مگر انقلاب نہیں آیا، صرف کراچی شہر میںایک سال میں 1,981 لوگ قتل ہوئے، بیشتر ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے مگر انقلاب نہیں آیا۔ 177 ڈرونز حملے اور2 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے مگر انقلاب نہیں آیا، یہ ملک دنیا کا 12واں مہنگا ترین ملک بن گیا مگر انقلاب نہیں آیا جب کہ تیونس میں مہنگائی کی شرح 3.5 اور مصر میں13 فیصد ہو ئی تو انقلاب آ گیا.... پاکستان میں 14.2فیصد مہنگائی ہے مگر انقلاب نہیں آیا۔ مصر میں جب بیروزگاری 9.3 فیصد تک پہنچی تو لوگ سڑکوں پر آ گئے، تیونس میں مہنگائی 13فیصد تک آئی تو عوامی مظاہرے شروع ہو گئے.... پاکستان میں بیروزگاری 15.2فیصد تک آ گئی مگر انقلاب نہیں آیا۔ تیونس اور مصر میں حج سکینڈل، بجلی، پی آئی اے، پٹرول،گیس، ڈیزل اور دیگر کرپشن کے سنگین واقعات بھی پیش نہیں آئے پھر بھی انقلاب آ گیا....؟ تیونس اور مصر میں ایک سال میں دہشت گردی کے 9 واقعات پیش آئے ، کوئی خود کش حملہ نہیں ہوا ،ایک سال میں صرف 42 افراد قتل ہوئے اور کوئی ڈرون حملہ بھی نہیں ہو اس کے باوجود وہاں انقلاب آ گیا....؟ پاکستان میں جب بھی انقلاب آیا اس نے صرف انسان تبدیل کیا نظام نہیں۔جنرل ایوب خان کو نکال باہر کیا،جنرل پرویز مشرف کو نکال باہر کیا.... اسے انقلاب نہیں آمریت کے خلاف غم و غصہ کہتے ہیں۔ انقلاب لاہور سے گوجرانوالہ تک پہنچا تھا کہ عدلیہ بحال ہو گئی اور مٹھائیوں کے ڈبے اٹھائے گھروں کو لوٹ آئے....! اسلام آباد تک پہنچ جاتے تو نظام بھی تبدیل ہو جاتا مگر پاکستان میں عارضی انقلاب آتے ہیں، چہرے تبدیل کر دئیے جاتے ہیں اور پھر ”ٹھس“....! ریمنڈ ڈیوس امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا، یہ فیصلہ خواہ عدالتی ہو یا سفارتی مگر ڈیوس کی پاکستان میں قید خود پاکستان کے لئے بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ ڈیوس ایک امریکی جاسوس ہی نہیں، امریکہ اور پاکستان کا ”وکی لیکس“ بھی ہے لہذا اس کی پاکستان میں موجودگی امریکہ کے لئے بھی تشویشناک ہے۔ عام حالات میں ایسے موقع پر عدالت کے ذریعہ قانونی کاروائی پر ہی انحصار کرنا چاہئے تاہم اس کیس میں چونکہ ایک دوسری حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ ان کے باشندے کو بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے لہذا اب اس بات کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے کہ اگر کسی بھی حوالے سے کسی بھی بین الاقوامی فورم پر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ اس شخص کو استثنیٰ حاصل ہے تو عدالتی کارروائی میں ہونے والے کسی بھی فیصلے کی صورت میں پاکستان کو انتہائی سنگین مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جب کہ موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ اس حساس کیس کو جذباتیت سے نہیں بلکہ بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر فہم و فراست اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے حل کیا جائے تاکہ وطن عزیز کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچے۔ امریکہ کو بھی چاہئے کہ وہ بھی دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے جس طرح بین الاقوامی طور پر قیدیوں کا تبادلہ ہوتا ہے اسی طرح دونوں ملکوں کے عوام اور حکومت کی خواہش کے مطابق اس مسئلے کو حل کرے۔ امریکہ بھی آگاہ ہے کہ پاکستان میں انقلاب تو شاید نہ آ سکے مگر بحران اور انتشار میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
مصر سے پاکستان تک امریکہ ہی امریکہ
محمد البرادی مصر کے لوگوں کا نمائندہ کیسے ہو گیا؟ حسنی مبارک ظالم آمر جابر ہے مگر محمد البرادی، حسنی مبارک سے ہزاروں درجے برا آدمی ہے۔ وہ امریکی ایجنٹ ہے ایٹمی پھیلاﺅ کی روک تھام کی آڑ میں امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرتا رہا ہے۔ وہ آئی اے ای اے کا چیئرمین رہا ہے امریکہ کا اتنا منظور نظر غلام ہے کہ اسے کئی بار ایکسٹنشن دی گئی امریکہ ہمیشہ اپنے لوگوں کو نوبل پرائز دلاتا ہے مگر یہ البرادی کے لئے سرپرائز تھا کہ اسے نوبل انعام دیا گیا ہے۔ اس نے ایٹمی پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ صرف اس بہانے مسلمان ملکوں کو برباد کروایا۔ اس نے عراق کو برباد کرانے میں صدر بش سے بھی زیادہ برا کردار ادا کیا ہے۔ عراق کی بربادی کے بعد کہا گیا تھا کہ کوئی ملک اگر عزت مندی کے ساتھ سلامت رہنا چاہتا ہے تو وہ البرادی کے ہتھے نہ چڑھے۔ البرادی کے ایٹمی انسپکٹروں سے اپنے ایٹمی اثاثوں کا معائنہ نہ کرائے۔ مسلمان حکام جتنے غلام امریکہ کے ہیں جتنے کرپٹ عیاش اور بے غیرت ہیں البرادی حکمران نہ ہوتے ہوئے ان سے بڑا ”حکمران“ ہے۔ وہ مصر کے پسے ہوئے لٹے پٹے محروم، مظلوم، محکوم، مجبورومقہور لوگوں کا لیڈر کیسے بن گیا؟ ذلت اور اذیت کے دلدل میں ڈوبتے لوگوں کے لئے کنارے پر کھڑا البرادی کوئی نیا امریکی کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ چند گھنٹوں کے لئے نظر بند ہوا تو امریکہ نے اسے فوراً رہا کروا لیا۔ یہ ساری تحریک امریکہ نے چلوائی ہے وہ سادہ اور بے خبر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتا رہتا ہے۔ کراتا امریکہ ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا حکمران ہمارا دشمن ہے۔ دشمن تو وہ ہے مگر اصل دشمن امریکہ ہے۔ حسنی مبارک کو 36 برس تک امریکہ نے اپنی گود میں لئے رکھا۔ اب اس کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے اپنی خفگی کا احساس دلوانا چاہتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال ہمیشہ امریکہ کے حق میں جاتی ہے۔ اینٹی امریکہ عوام پر پھر پرو امریکہ حکام مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ صرف ایران میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف امریکہ کی طرف سے چلائی جانے والی تحریک آوٹ آف کنٹرول ہو گئی اور اب تک امریکہ ایران کے غم و غصے کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔ پہلے ”مرگ بر امریکہ“ کا نعرہ ایران سے چلا تھا جو امریکہ مردہ باد کی شکل میں پورے عالم اسلام میں پھیل گیا۔ امریکہ کو حسنی مبارک جیسے حکمران ہر مسلمان ملک میں مل جاتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ صدر انوارالسادات کو کس نے قتل کرایا؟ جمال عبدالناصر کی جراتوں پر کس نے پانی پھیرا۔ حتی کہ یاسر عرفات کے غبارے سے ہوا کس نے نکالی۔ لوگوں کو لیلیٰ خالد کا نام ہی بھول گیا ہے جس نے طیارہ اغوا کرکے پوری دنیا میں فلسطینی حریت پسند خواتین کی دلیری اور دلبری کی دھاک بٹھا دی تھی۔ بے چارہ یاسرعرفات ایک کمرے میں مقید ہو کے رہ گیا تھا۔ وہ اسرائیلیوں کی اجازت کے بغیر غسل خانے تک نہ جا سکتا تھا۔ مجھے یاسرعرفات کی آنکھوں میں بے بسی کی جھلکیاں دیکھ کر دکھ ہوا تھا۔ اب مصر کو بھی امریکی غلامی کی چھاﺅں میں اسرائیلی سلامی کے لئے ہر وقت سرگرم رہنا پڑتا ہے۔ صدام کی وفاداری بھی اس کے کام نہ آئی۔ اسے امریکہ کے کہنے پر ایران پر چڑھ دوڑنے کی جزا کی بجائے پھانسی کی سزا ملی۔ مگر صدام نے تختہ ¿ دار پر جس عظمت اور عزیمت کا ثبوت دیا۔ وہ امریکہ کے منہ پر تھوک کے مترادف ہے۔ اس کی ساری زندگی کی غلطیوں کی دھول گلاب کے پھول کی خوشبو کی طرح اس کی موت کے ایک لمحے کے ارد گرد پھیل گئی۔ امریکہ نے ہی سعودی عرب کے شاہ فیصل کو ان کے اپنے کسی عزیز کے ہاتھوں قتل کروایا کہ وہ عالم اسلام کے لیڈر کے طور پر پاکستان کے بھٹو صاحب کے ساتھ سامنے آ رہے تھے۔ بھٹو کو لانے والا بھی امریکہ تھا۔ بھٹو صاحب اینٹی امریکہ تاثر لے کر آئے پھر کچھ عرصہ وہ پروامریکہ رہے مگر جونہی ایٹمی ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی اور نیشنلزم اس کے خیالوں میں ظاہر ہوئی تو اسے بدنام کرانے کی کوشش ہوئی جو امریکہ کا حربہ ہے اور پھر اسے پھانسی چڑھایا دیا گیا اس کے آرمی چیف جنرل ضیا نے ظلم کیا۔ افسوس تو یہ ہے کہ منتخب وزیراعظم کے خلاف تحریک بابائے جمہوریت نے چلوائی۔ نواب زادہ نصر اللہ کا بیٹا ضیا حکومت کا وزیر بنا رہا۔ جمہوریت کے بابے ایسے ہوتے ہیں آج کل نواز شریف اور صدر زرداری نے یہ جھنڈا اٹھایا ہوا ہے۔ تحریک نظام مصطفی کا کیا حشر امریکہ نے کیا۔ امریکہ عالم اسلام میں کوئی لیڈر زندہ نہیں رہنے دیتا۔
اب سنی تحریک میں دیوبندی مولانا فضل الرحمان کی شمولیت بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ وہ امریکہ کے آدمی ہےں۔ یہاں سارے کے سارے امریکہ کے آدمی ہیں۔ لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کی آوارہ گردی اور دہشت گردی بھی امریکہ کی کوئی چال ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو شرمناک سزا دی گئی۔ کسی کی ایک نہ سنی مگر قاتل امریکی کی رہائی کا مطالبہ تین بار یعنی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ ہماری حکومت ابھی تک ڈٹی ہوئی ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ تحریک چلنے والی ہے حکومت اس امریکی قاتل کو رہا کرے گی اور پھر لوگ سڑکوں پر آئیں گے یہی امریکہ چاہتا ہے۔ خانہ جنگی شروع ہو گی اور پاکستان کی ہر طرح کی کمزوری اپنے انجام کو پہنچے گی۔ امریکہ پاکستان کو اب توڑنا نہیں چاہتا۔ مگر وہ پاکستان کو کچھ بننے بھی نہیں دے گا۔ پاکستانیوں کو نہ زندہ رہنے دے گا نہ مرنے دے گا۔ جو بائیڈن نے کہا کہ مصر جیسے حالات پاکستان میں بھی ہو سکتے ہیں۔ ریڈکراس کے سربراہ ٹیڈاٹروکو نے کہا ہے کہ صدر زرداری کو بھی صدر حسنی مبارک جتنا خطرہ ہے۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کے لئے لاپروائی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، لوگوں کا اضطراب اور عدم اعتماد مصر سے کم نہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے سرکاری معصومیت میں کہا ہے کہ پاکستان میں مصر جیسے حالات نہیں۔ جب عراق اور افغانستان میں امریکی دہشت گردی کا بہانہ بنا کے غنڈہ گردی کر رہے تھے تو کہا گیا تھا کہ پاکستان کی باری بھی آنے والی ہے۔ تو تب کے حکمران اور اس کے وزیروں، شذیروں، بے ضمیروں نے کہا تھا کہ پاکستان عراق یا افغانستان نہیں ہے مگر اب پاکستان میں ان دونوں ملکوں سے زیادہ برے حالات ہیں۔ وہاں دہشت گردی تقریباً ختم ہو گئی ہے اور یہاں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہمارے لوگ تو نشانہ ہیں ہماری قبریں بھی محفوظ نہیں۔ نہ مجلس محفوظ ہے، نہ مزار محفوظ، ہے۔ کسی وزیراعظم نے لیاقت علی خان، بھٹو صاحب، جنرل ضیا اور بے نظیر بھٹو کی عبرت ناک شہادت سے سبق نہیں سیکھا۔ کسی صدر اور جرنیل نے صدر جنرل ضیاالحق کے انجام پر نظر نہیں رکھی۔ سب حکمران امریکی مرضی اور امداد سے آئے اور گئے بھی امریکی غصے اور درندگی کی بھینٹ چڑھ کر۔ صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی، نواز شریف اور شہباز شریف کو اللہ محفوظ رکھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دھمکی ملتی رہتی ہے اور چھوٹا موٹا جھٹکا بھی لگتا رہتا ہے مگر بندہ دولت اور حکومت کے لئے اندھا بلکہ دل کا اندھا ہو جاتا ہے۔ فلسطین کی داستان حریت بھی اب امریکہ میں لکھی جاتی ہے اور کشمیر کی لہولہان کہانی کا عنوان بھی امریکہ میں بنتا ہے۔ بے چارے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے۔ کہ حکمران جائے گا تو انقلاب آ جائے گا۔ صدر ایوب، بھٹو صاحب، جنرل ضیا، بی بی، میاں صاحب اور مشرف کے جانے کے لئے نعرے لگانے والے اب کیا نعرے لگا رہے ہیں۔ مشرف کو دس سال امریکہ نے بچایا۔ اب پھر وہ امریکہ کے کندھوں پر بیٹھ کر آ جائے گا۔ شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے لوگ اب کہاں ہیں اور حسین حقانی کون ہے۔ بے نظیر بٹھو نہ مرتی تو کیا آصف زرداری صدر بن سکتے تھے اور بی بی کو معلوم تھا کہ اس کے عظیم باپ کو امریکہ نے مروایا ہے۔ کیا نواز شریف یا کوئی سیاستدان امریکہ کے خلاف بات کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔ کوئی آرمی چیف امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں بنتا اور وہ مارشل لا بھی امریکہ کے اشارے پر لگاتا ہے۔
مصر کا آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل سمیع حافظ عنان امریکی پٹھو ہے اور تحریک سے چند دن پہلے امریکہ سے ہو کر آیا ہے۔ تحریک کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ انٹیلی جنس چیف کو آرمی چیف نے نائب صدر بنوایا ہے۔ وہ بیمار بوڑھا آدمی ہے۔ نائب صدر بلکہ صدر خود آرمی چیف ہے۔ ریٹائرڈ ایڈمرل فوجی حسنی مبارک کو شرم نہیں آتی کہ امریکہ اس کی خدمت گزاریوں کا کیا صلہ دے رہا ہے؟ پاکستان میں بھی حکرانوں کے ساتھ ہمیشہ یہی کچھ ہوا ہے۔ معذرت کے ساتھ تھوڑی سی ترمیم کے بعد ایک مشہور مصرع عرض ہے....ع
وہی ہو گا جو منظور ”امریکہ“ ہو گا
اب سنی تحریک میں دیوبندی مولانا فضل الرحمان کی شمولیت بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ وہ امریکہ کے آدمی ہےں۔ یہاں سارے کے سارے امریکہ کے آدمی ہیں۔ لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کی آوارہ گردی اور دہشت گردی بھی امریکہ کی کوئی چال ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو شرمناک سزا دی گئی۔ کسی کی ایک نہ سنی مگر قاتل امریکی کی رہائی کا مطالبہ تین بار یعنی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ ہماری حکومت ابھی تک ڈٹی ہوئی ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ تحریک چلنے والی ہے حکومت اس امریکی قاتل کو رہا کرے گی اور پھر لوگ سڑکوں پر آئیں گے یہی امریکہ چاہتا ہے۔ خانہ جنگی شروع ہو گی اور پاکستان کی ہر طرح کی کمزوری اپنے انجام کو پہنچے گی۔ امریکہ پاکستان کو اب توڑنا نہیں چاہتا۔ مگر وہ پاکستان کو کچھ بننے بھی نہیں دے گا۔ پاکستانیوں کو نہ زندہ رہنے دے گا نہ مرنے دے گا۔ جو بائیڈن نے کہا کہ مصر جیسے حالات پاکستان میں بھی ہو سکتے ہیں۔ ریڈکراس کے سربراہ ٹیڈاٹروکو نے کہا ہے کہ صدر زرداری کو بھی صدر حسنی مبارک جتنا خطرہ ہے۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کے لئے لاپروائی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، لوگوں کا اضطراب اور عدم اعتماد مصر سے کم نہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے سرکاری معصومیت میں کہا ہے کہ پاکستان میں مصر جیسے حالات نہیں۔ جب عراق اور افغانستان میں امریکی دہشت گردی کا بہانہ بنا کے غنڈہ گردی کر رہے تھے تو کہا گیا تھا کہ پاکستان کی باری بھی آنے والی ہے۔ تو تب کے حکمران اور اس کے وزیروں، شذیروں، بے ضمیروں نے کہا تھا کہ پاکستان عراق یا افغانستان نہیں ہے مگر اب پاکستان میں ان دونوں ملکوں سے زیادہ برے حالات ہیں۔ وہاں دہشت گردی تقریباً ختم ہو گئی ہے اور یہاں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہمارے لوگ تو نشانہ ہیں ہماری قبریں بھی محفوظ نہیں۔ نہ مجلس محفوظ ہے، نہ مزار محفوظ، ہے۔ کسی وزیراعظم نے لیاقت علی خان، بھٹو صاحب، جنرل ضیا اور بے نظیر بھٹو کی عبرت ناک شہادت سے سبق نہیں سیکھا۔ کسی صدر اور جرنیل نے صدر جنرل ضیاالحق کے انجام پر نظر نہیں رکھی۔ سب حکمران امریکی مرضی اور امداد سے آئے اور گئے بھی امریکی غصے اور درندگی کی بھینٹ چڑھ کر۔ صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی، نواز شریف اور شہباز شریف کو اللہ محفوظ رکھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دھمکی ملتی رہتی ہے اور چھوٹا موٹا جھٹکا بھی لگتا رہتا ہے مگر بندہ دولت اور حکومت کے لئے اندھا بلکہ دل کا اندھا ہو جاتا ہے۔ فلسطین کی داستان حریت بھی اب امریکہ میں لکھی جاتی ہے اور کشمیر کی لہولہان کہانی کا عنوان بھی امریکہ میں بنتا ہے۔ بے چارے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے۔ کہ حکمران جائے گا تو انقلاب آ جائے گا۔ صدر ایوب، بھٹو صاحب، جنرل ضیا، بی بی، میاں صاحب اور مشرف کے جانے کے لئے نعرے لگانے والے اب کیا نعرے لگا رہے ہیں۔ مشرف کو دس سال امریکہ نے بچایا۔ اب پھر وہ امریکہ کے کندھوں پر بیٹھ کر آ جائے گا۔ شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے لوگ اب کہاں ہیں اور حسین حقانی کون ہے۔ بے نظیر بٹھو نہ مرتی تو کیا آصف زرداری صدر بن سکتے تھے اور بی بی کو معلوم تھا کہ اس کے عظیم باپ کو امریکہ نے مروایا ہے۔ کیا نواز شریف یا کوئی سیاستدان امریکہ کے خلاف بات کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔ کوئی آرمی چیف امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں بنتا اور وہ مارشل لا بھی امریکہ کے اشارے پر لگاتا ہے۔
مصر کا آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل سمیع حافظ عنان امریکی پٹھو ہے اور تحریک سے چند دن پہلے امریکہ سے ہو کر آیا ہے۔ تحریک کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ انٹیلی جنس چیف کو آرمی چیف نے نائب صدر بنوایا ہے۔ وہ بیمار بوڑھا آدمی ہے۔ نائب صدر بلکہ صدر خود آرمی چیف ہے۔ ریٹائرڈ ایڈمرل فوجی حسنی مبارک کو شرم نہیں آتی کہ امریکہ اس کی خدمت گزاریوں کا کیا صلہ دے رہا ہے؟ پاکستان میں بھی حکرانوں کے ساتھ ہمیشہ یہی کچھ ہوا ہے۔ معذرت کے ساتھ تھوڑی سی ترمیم کے بعد ایک مشہور مصرع عرض ہے....ع
وہی ہو گا جو منظور ”امریکہ“ ہو گا
تیونس کے بعد کون کون؟
تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کے معزولی کے بعد مبصرین نے اس کا خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ موازنہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ یہاں پر بھی ایسا ہی سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جیسے انیس سو نواسی میں مشرقی یورپ میں کمیونسٹ حکومتوں کے خاتمے کے موقع پر دیکھنے میں آیا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ملکوں میں نوجوان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے، بے روزگاری اور سیاسی نمائندگی کے فقدان جیس مسائل کا سامنا ہے۔
ان میں سے کچھ ملکوں میں اقتدار پر ڈھلتی عمر کے مطلق العنان حکمران قابض ہیں اور انہیں اپنی جانشینی کے سلسلے میں مسائل کا سامنا ہے۔
ایسے کون کونسے ملک ہیں جہاں تبدیلی آ سکتی ہے اور تبدیلی کے اس امکان کی حقیقت کیا ہے؟
مصر
مصر میں ریاست کی روایتی طاقت اور مضبوط بنیادوں کی وجہ سے اب تک یہ سوچنا بھی ناممکن تھا کہ یہاں برسراقتدار حکومت انتشار کا شکار ہو جائے گی۔ لیکن تیونس کے طرح یہاں بھی شہریوں کو معاشی مشکلات، سرکاری اداروں میں کرپشن اور سیاسی نمائندگی کے حق سے محرومی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
پچیس جنوری کو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ احتجاج کرتے ہوئے اس تعداد میں قاہرہ اور دیگر بڑے شہروں کی سڑکوں پر آئے جس تعداد میں وہ ستر کی دہائی میں روٹی پر ہونے والے مظاہروں کے بعد سے کبھی بھی نہیں آئے تھے۔
ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو مصر کے ساتھ ساتھ تیونس کا پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے۔
اس دن سے لیکر آج تک مصر کی گلیوں اور بازاروں میں احتجاج ایک معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے صدر حسنی مبارک کی حکومت بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔
- حکمران: صدر حسنی مبارک
- طاقت میں: 1981 سے
- آبادی: 84.5 ملین
کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس چیز کی غمازی کرتی ہے کہ مصر میں اصل تبدیلی اب ایک ناگزیر عمل ہے۔ تاہم یہ تبدیلی کیسی ہوگی اس بات کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے۔
مغربی ملکوں کو خدشہ ہے کہ صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے سے کو خلاء پیدا ہو گا اور جو افراتفری پھیلے گی اس سے مسلح اسلام پسند گروپوں کو پنپنے کا موقع ملے گا۔
امریکہ نے جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے پرامن انتقال اقتدار کا مطالبہ کیا ہے۔
اگر مصر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے تو امید ہے کہ کھلے عام اسلام پسند اور رجعت پسند جماعت الاخوان المسلمین کے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔
لیکن اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ جمہوری اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اپنے اسلامی ریاست کے قیام کے منشور پر قائم رہ پائے گی۔
اور اگر وہ برسراقتدار آ گئی تو کیا وہ مصر کے امریکی اور اسرائیل سے تعلقات کو برقرار رکھ پائے گی؟
یمن
یمن میں بھی بڑھتی ہوئی غربت اور سیاسی آزادیوں کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہونے والے غصہ گلیوں اور بازاروں میں احتجاجی مظاہروں کی شکل میں ظاہر ہو چکا ہے۔
تیونس اور مصر میں ہونے والے واقعات کے بعد یمن کے ہزاروں شہریوں نے دارالحکومت ثنا میں میں ستائیس جنوری کو احتجاج کیا اور صدر علی عبداللہ صالح کے اکتیس سالہ اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
نوجوان سیاسی کارکنوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور معاشی اصلاحات اور کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
جنوبی شہر عدن میں بھی نسبتاً چھوٹے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
- حکمران: صدر علی عبداللہ صالح
- طاقت میں: 1978 سے
- آبادی: 24.3 ملین
یمن عرب دنیا کا سب سے غریب ملک ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی دو ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کر رہی ہے۔
بڑھتے ہوئے عوامی غصے کو کم کرنے کے لیے صدر علی عبداللہ صالح نے تئیس جنوری کو انکم ٹیکس کی شرح کو نصف کرنے اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ وہ اقتدار اپنے بیٹے احمد کو منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
حکومت نے ان چھتیس افراد کی رہائی کا بھی حکم دیا جنہیں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ رہائی پانے والے افراد میں انسانی حقوق کے معروف کارکن توکل کامران بھی شامل ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ صدر علی عبداللہ نے سرکاری ملازمین اور فوجیوں کی تنخواہوں میں اضافہ کا بھی اعلان کیا۔
الجزائر
جیسے جیسے تیونس میں احتجاجی مظاہروں میں شدت آئی، اس کے مغربی ہمسایہ ملک الجزائر میں بھی نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ تیونس کی طرح یہاں بھی احتجاج کی فوری وجہ معاشی مشکلات خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ تھا۔
الجزائر میں سن انیس سو بانوے سے ایمرجنسی نافذ ہے جس کے تحت اس کے دارالحکومت میں میں جلسے جلوسوں پر پابندی ہے۔ الجزائر میں گاہے بگاہے احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں پہلی بار دارالحکومت الجزائر سمیت ملک بھر میں ایک احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اس ساتھ ساتھ چند مقامات سے خود سوزی کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔
- حکمران: عبدالعزیز بوتفلیکا
- طاقت میں: 1999 سے
- آبادی: 35.4 ملین
تاہم الجزائر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اس طرح شدت نہیں آئی جیسے شدت تیونس میں دیکھی گئی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ سکیورٹی فورسز کا محتاط رویہ اور حکومت کی طرف سے قیمتوں میں کمی کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات تھے۔
الجزائر میں حکومت کے پاس تیل اور گیس کی برآمد کی وجہ سے کافی دولت موجود ہے اور اس نے سماجی اور معاشی شکایات کے ازالے کے لیے ایک بہت بڑی ترقیاتی پروگرام پر عمل درآمد شروع کیا ہے۔ تاہم ملک میں بے روزگاری، کرپشن، بیوروکریسی اور سیاسی اصلاحات کا فقدان جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔
تیونس کے برعکس الجزائر کی حالیہ تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔ ملک کے سیاسی نظام میں سن انیس سو اٹھاسی میں اصلاحات کی گئی تھیں جس کے نتیجے میں میڈیا پر پابندیوں کا خاتمہ ہوا اور کثیر الجماعتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا۔ اس کا نتیجہ سکیورٹی افواج اور اسلامی شدت پسندوں کے مابین خونی تصادم کی شکل میں سامنے آیا۔
لیبیا
تیونس میں حکومت کے خاتمے کے موقع پر لیبیا کے سربراہ کرنل معمر قذافی نے کہا کہ تیونس کو کا انتظام کوئی بھی بن علی سے بہتر نہیں چلا سکتا۔ ’تیونس اب خوف میں مبتلا ہے۔‘
تیونس میں ہونے والے واقعات پر کرنل قذافی کا ردِ عمل پورے خطے میں تبدیلی کے حوالے سے ان کی اپنی پریشانی کا غماز ہے۔ وہ گزشتہ اکتالیس سال سے اقتداد پر قابض ہیں اور اس طرح مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے سب سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہنے والے حکمران ہیں۔
- حکمران: معمر قذافی
- طاقت میں: 1969 سے
- آبادی: 6.5 ملین
لیبیا میں کسی بھی طرح کے احتجاج پر پابندی ہے لیکن حال ہی میں لیبیا کے شہر البائدہ سے احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
حکومت نے عوام کے بڑھتے ہوئے غصے کو کم کرنے کے لیے حال ہی میں ہاؤسنگ سیکٹر میں مزید سرمایہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔
اردن
ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے پیش نظر اردن کے شاہ عبداللہ نے یکم فروری کو حکومت کو برخاست کر دیا ہے اور نئے وزیر اعظم معروف بخت کو کہا ہے کہ وہ ملک میں سیاسی اصلاحات لائیں۔
خطے کے دیگر ملکوں کی طرح اردن میں بھی بے روز گاری اور غربت پر غصہ پایا جاتا ہے اور مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم کو بلا واسطہ انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جائے۔
- حکمران: شاہ عبداللہ دوئم
- طاقت متں: 1999 سے
- آبادی: 6.5 ملین
اردن کی سب سے طاقتور اسلامی اپوزیشن جماعت دی اسلامسٹ ایکشن فرنٹ کا کہنا ہے کہ وہ شاہ عبداللہ کو ہٹانے کے کے حق میں نہیں ہے، تاہم وہ نئے وزیر اعظم بخت کی تعیناتی کے خلاف ہیں۔
اردن میں شاہی خاندان کی حکومت ہے اور معاشرے کے کچھ حلقے بادشاہت کے وفادار ہیں۔ شہ عبداللہ کو ابھی تک مظاہرین نے اپنے غصے کا نشانہ نہیں بنایا۔
مراکش
تیونس کی طرح مراکش میں بھی عوام معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی کرپشن کے چرچے ہیں۔
مراکش کی شہرت حال ہیں میں وکی لیکس کے سامنے آنے کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی ہے جن میں ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن خاص طور پر شاہی خاندان کے کاروباری معاملات اور شاہ محمد ششم کے قریبی لوگوں کے لالچ کا ذکر کیا گیا ہے۔
- حکمران: شاہ محمد ششم
- طاقت میں: 1999 سے
- آبادی: 32.3 ملین
تیونس میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے لکھے جانے والے ایک مراسلے میں صدر زین العابدین بن علی کے قریبی حلقے میں بھی ایسے مسائل کا ذکر کیا تھا۔
تاہم مراکش بھی مصر اور الجزائر کی طرح محدود حد تک اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے اور ابھی تک وہاں پر ہونے والے مظاہرے زیر کنٹرول رہے ہیں۔
اردن کی طرح یہاں بھی بادشاہت ہے جسے عوامی حلقوں کی طرف سے بہت مضبوط حمایت حاصل ہے۔
سلیکستان‘ صرف بالغوں کے لیے
عنبر شمسی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان میں سینسر بورڈ کا دفتر اسلام آباد میں انیس سو ساٹھ کے زمانے کی ایک شکستہ حال عمارت میں واقع ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں سینسر بورڈ کے قوائد و ضوابط بھی پچھلی صدی کے ہیں۔
ایسی رائے رکھنے والوں میں سے ایک پاکستانی ہدایت کار حماد خان ہیں جن کی فلم ’سلیکستان‘ قوانین کی قینچی تلے کٹ گئی ہے۔ سینسر بورڈ نے کافی سوچ وبچار کے بعد اس دستاویزی طرز کی فلم کو ’اڈلٹ ریٹنگ‘ یا اٹھارہ سال سے بڑی عمر کے بالغوں کے لیے مناسب قرار دیا ہے۔ حماد خان کے حامی اور بعض پاکستانی انگریزی اخباروں نے سینسر بورڈ کے خلاف اس فیصلے پر ایک مہم سی چلا دی ہے اور یہ شاید کامیاب بھی ہو جائے۔
سینسر بورڈ کے سربراہ ملک شاہنواز نون کے دفتر میں جگہ جگہ سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے ساتھ بنائی گئی تصاویر لگی ہیں جس سے ان کے سیاسی پس منظر کا پتہ چلتا ہے۔
بورڈ کے سارے اراکین نے یہ فلم دیکھی تھی اور ان کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ فلم تو بہت اچھی ہے لیکن اس کی زبان غیرشائستہ تھی
ملک شاہنواز، سربراہ سینسر بورڈ
دفاعی موقف اختیار کرتے ہوئے، شاہنواز نے مجھے بتایا: ’دیکھیے، میں ایک وکیل ہوں اور میں نے قانون و ضوابط کے تحت کام کرنا ہے۔ اس فلم کے ساتھ بھی میں نے وہی کیا ہے۔ بورڈ کے سارے اراکین نے یہ فلم دیکھی تھی اور ان کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ فلم تو بہت اچھی ہے لیکن اس کی زبان غیر شائستہ ہے‘۔ اسی بات چیت کے دوران ان کی روایتی دفتری میز پر رکھا فون بار بار بج رہا تھا۔
’جب سے یہ خبر اخبار میں چھپی ہے، مجھے بار بار میڈیا اور لوگوں سے فون آ رہے ہیں کہ ہم نے فلم پر پابندی کیوں عائد کی ہے‘، شاہ نواز نے مجھے بتایا۔
’سلیکستان‘ ایک چھوٹے پیمانے کی فلم ہے جو اسلام آباد کے رہائشی تین نوجوانوں کے بارے میں ہے۔ ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کے پس منظر میں اس فلم میں ان تین ابہام کے شکار امیر نوجوانوں کا سفر دکھایا جاتا ہے۔
مگر سینسر بورڈ کا نکتۂ نظر ہے کہ فلم میں گالی گلوچ، شراب نوشی کے سین، ہم جنس پسندی کے حوالے، داڑھی کا مذاق اور اسامہ بن لادن کا نام کٹ جانا چاہیے۔
لندن سے ٹیلفون پر بات کرتے ہوئے فلم کے ہدایت کار حماد خان نے کہا: ’میں نے پورا سکرپٹ چھانا ہے اور اسامہ بن لادن کا حوالہ مجھے کہیں نہیں ملا۔ بات یہ نہیں ہے کہ فلم سے کتنے منٹ کاٹے گئے ہیں، یہ ساری باتیں پوری فلم میں پائی جاتی ہیں۔ کٹ کرنے سے فلم بےمقصد ہو جائے گی‘۔
دوسری جانب، شاہنواز نے کہا: ’آپ میری طرف سے حماد خان کو پیغام دیں کہ وہ سینسر بورڈ کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی کر سکتے ہیں‘۔
البتہ حماد خان کا کہنا ہے کہ یہ فلم ایک طرح کا تجربہ ہے کہ ’کیا ایک پاکستانی آزاد فلم بنا سکتا ہے اور اس کی نمائش پاکستان میں ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اور کیا پاکستانی ناظرین یہ فلم دیکھ سکتے ہیں۔‘
پاکستانی فلم صنعت کا ویسے ہی برا حال ہے اور پچھلے سال ملک میں صرف سات فلمیں ہی ریلیز ہوسکیں تھیں، جن میں سے ایک ہی اردو فلم تھی اور باقی پنجابی۔ اس کے بر عکس، بھارت میں سن دو ہزار دس میں سو سے زائد ہندی فلمیں ریلیز ہوئیں۔
حماد خان کو شکایت تھی کہ حکومت نے ایک پاکستانی کے لیے فلم بنانا کتنا مشکل کر دیا ہے۔ ’میں ہالی وڈ اور بالی وڈ کی بات نہیں کر رہا۔ ایک میری فلم دیکھ لیں اور بھارتی فلمیں دیکھ لیں جو انہوں نے منظور کی ہیں اور سینما میں چل رہی ہیں۔‘
لوگوں کو پاکستان کے بارے میں فلم دیکھنے میں بڑی دلچسپی ہے، چاہے وہ جس قسم کی بھی ہو۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں اس فلم کو دکھانا عذاب بن گیا ہے
حماد خان، ڈائریکٹر
سینسر بورڈ کے سربراہ نے سینما میں دکھائی جانے والی بھارتی فلموں کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’ہمارے پاس تو ایک ہی پرنٹ آتا ہے۔ اب سینما والے کیا چلاتے ہیں، اس پر ہمارا محدود اختیار ہے۔ ہمارے پاس تو فلم انسپکٹر ہی بہت کم ہیں۔‘
سینسر بورڈ اور حماد خاد کے درمیان بحث تو پاکستانی معاشرے میں کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے، اور وہ بھی صرف فلم کے شعبے میں نہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ سینسر شپ کی حد کیا ہے، اور خاص کر کیا بالغ افراد کے لیے کوئی واضح حدود ہیں۔
حماد خان کا موقف ہے کہ اگر فلم کی نمائش صرف اٹھارہ سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے کی جائے گی، تو اتنے کٹ کیوں لگائے گئے۔ ادھر شاہنواز کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو بھی کیا، وہ موشن پکچر آرڈننس 1979 کے تحت کیا اور اس حوالے سے تازہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔
’وہ قانون تو ایک فوجی آمر کے دور میں بنایا گیا تھا، اب تو جمہوریت ہے‘۔
حماد کا کہنا ہے کہ ’یہ فلم لندن، برلن، فرانس، بھارت اور نیو یارک میں دکھائی گئی تھی اور یقین کریں کے نیو یارک میں سینما کہ باہر سڑک کے آخر تک لائن لگی تھی۔ لوگوں کو پاکستان کے بارے میں فلم دیکھنے میں بڑی دلچسپی ہے، چاہے وہ جس قسم کی بھی ہو۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں اس فلم کو دکھانا عذاب بن گیا ہے‘۔
Subscribe to:
Posts (Atom)