خفیہ امریکی سفارتی مراسلے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف چیف جسٹس کو بحال نہ کرنے پر متفق تھے۔ ایک اور مراسلے میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو ایران کی جانب سے کم قیمت پر تیل کی فراہمی کی پیشکش قبول کرنےکی مخالفت کی تھی۔
پاکستان کے انگریزی روزنامے ڈان نے وکی لیکس کےاشتراک سے خفیہ امریکی مراسلے شائع کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اس بات پر متفق تھے کہ افتخار محمد چوہدری کو بحال نہیں کیا جائےگا اور عبدالحمید ڈوگر کو نہیں ہٹایا جائے گا۔
بھوربن اعلامیے پر دستخط کےاگلے روز آصف زرداری نے امریکی سفیر کو بتایا کہ وہ اور میاں نواز شریف دونوں نے نجی طور اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ افتخار چوہدری کو چیف جسٹس کی حیثیت سے بحال نہیں کیا جائے گا مگر وہ ان کی مسلسل نظربندی سے پریشان ہیں۔ آصف زرداری نے امریکی سفیر کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے عبدالحمید ڈوگر سے کہا ہے کہ انہیں بھوربن اعلامیے سے فکرمند ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
بھوربن اعلامیے پر فروری دوہزار آٹھ میں ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والے دونوں جماعتوں نے نو مارچ دو ہزار آٹھ کو دستخط کیے تھے جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ تین نومبر کو پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ہٹائے جانے والے تمام جج تیس دن کے اندر بحال کردیے جائیں گے۔
اس ساری گفتگو کی تفصیل اس وقت کی امریکی سفیر این پیٹرسن نے دس مارچ دوہزار آٹھ کو واشنگٹن کو لکھے جانے والے خفیہ مراسلے میں تحریر کی۔
این پیٹرسن نے لکھا کہ جب انہوں نے آصف زرداری سے تیس دن کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کے بعد کیا ہوگا تو آصف زرداری ہنس پڑے اور کہا کہ سیاست میں تیس دن اسی نوے دن بن جاتے ہیں۔
آصف زرداری اپنی مستقبل میں بننے والی حکومت کے امیج کے بارے میں ججوں کی نظربندی کی وجہ سے فکر مند تھے اور ان کا کہنا تھا کہ کوئی جمہوری حکومت ججز کو نظر بند نہیں رکھ سکتی خاص کر چیف جسٹس اور ان کے معذور بچے کو، اس لیے انہیں کچھ کرنا پڑے گا۔
این پیٹرسن کے مطابق آصف زرداری نے یہ بات آئی ایس آئی کے سربراہ ندیم تاج اور قومی سلامتی کے مشیر طارق عزیز سے بھی کہی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ افتخار چوہدری اور ان کے خاندان کو کوئٹہ منتقل کر دیا جائے مگر حکومت نے یہ بات تسلیم نہیں کی۔
آصف زرداری نے این پیٹرسن کو یقین دلایا تھا کہ وہ حالات کی تبدیلی کے لیے خود کچھ نہیں کریں گے۔ انہوں نے صدر مشرف اور خصوصاً طارق عزیز کے ساتھ کام کرنے کا یقین دلایا تھا جن کے ساتھ ان کے بقول وہ آسانی محسوس کرتے ہیں۔
وہ چاہتے تھے کہ مشرف آرام کریں اور چیف جسٹس کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔ ان کے بقول وہ چاہتے ہیں کے پیپلز پارٹی کو کاروبار کے لیے دوستانہ ماحول دینے کی ضرورت ہے اور وہ امریکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔
عام انتخابات دوہزار آٹھ کے بعد بیس فروری دو ہزار آٹھ کو این پیٹرسن نے اپنے مراسلہ میں لکھا کہ آصف زرداری مسلم لیگ قاف کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں اگر وہ چوہدریوں کا ساتھ چھوڑ دیں۔ این پیٹر سن کے مطابق زرداری نے کہا کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ نہیں کام کرنا چاہیں گے کیونکہ انہیں حال ہی میں انتخابات میں شرمناک شکست ہوئی ہے اور پھر قاف لیگ کے بہت سے ارکان ان کے ساتھ ملنے کے لیے تیار ہیں۔
این پیٹرسن نے اپنے تجزیہ میں لکھا کہ آصف زرداری اپنی مرحوم اہلیہ کی نسبت بہت کم جذباتی ہیں اور عملیت پسند ہونے کے ساتھ بہت سنگ دل بھی ہیں تاہم اُن کی سیاسی صلاحیتوں کا امتحان ابھی باقی ہے۔