بے شناخت قوموں کا انقلاب!...یہ زندگی…مسرت جبیں
ملکی اور بین الاقوامی حالات جب اس صورت کے ہوں کہ کسی بھی لمحے تیونس کی طرح ”انقلاب یاسمین“ دروازے پر دستک دیتا محسوس ہو تو کسی اور طرف، کسی اور مسئلے کی طرف دھیان جانا ممکن ہی نہیں اور کوئی اوربات کرنا زیب ہی نہیں دیتا ہے۔ پھر بھی میں آپ کو ایک چھوٹی سی بچی کی کہانی ضرور سنانا چاہوں گی۔ اس بچی کے ماں باپ نے اس کے پیدا ہوتے ہی سوچ لیا تھا کہ وہ اس کی کیسی تربیت کریں گے۔ خود ان کے اپنے خون اور سوچوں میں اپنی ثقافت اور اپنی زمین سے محبت کا رنگ بہت گہرا تھا، سو وہ اپنی اگلی نسل کو بھی ویسا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ پہلی اور بنیادی چیز انہوں نے یہ کی کہ بچی سے شروع میں سوائے اردو کے کوئی دوسرا لفظ کبھی نہیں بولا۔ اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم دونوں ماں باپ کی زندگیوں اور پروفیشنل دنیا میں انگریزی کا ہی راج تھا۔ لیکن انہوں نے کوشش کی کہ بچی کی اٹھان اردو اور صرف اردو پر ہی ہو تاکہ وہ اپنی بنیاد اور اپنے ورثے سے جڑی رہے۔ گھر کی دنیا تک تو یہ معاملہ بہت سیدھا رہا۔ بچی جب باقاعدہ بولنے لگی تو بے حد شستہ اردو اور خوب صورت لب و لہجہ، آج کے انگریزی زدہ اور کسی بھی زبان سے ناواقف ماحول میں بہت پُر لطف تھا۔ لیکن پھر زمانے کے چلن کے مطابق اسکول سے پہلے پری اسکول (PRE SCHOOL) جانے کا وقت آگیا۔ وہ دو ڈھائی سال کی بچی پہلے تو کچھ چپ چپ سی رہی۔ پھر اچانک ہی اپنی بات کہنے کے لئے انگریزی کا سہارا لینے لگی۔ ظاہر ہے اسکول اور باہر کی دنیا میں اس کا واسطہ اور رابطہ اسی زبان سے تھا۔ اب وہ بچی پانچ سال کی ہے۔ بہت کوشش کے باوجود اس کے منہ سے اردو کا ایک لفظ نہیں نکلتا۔ ہم اس سے ہمیشہ اردو میں بات کرتے ہیں۔ وہ ہماری پوتی ہے۔ لیکن جواب ہمیشہ بے حد رواں خوبصورت انگریزی میں ہی ملتاہے۔ اب تو اسکول والے بھی چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں کے بچے اپنی قومی زبان پر بھی ضرور عبور رکھیں۔ وہ گھر میں اردو بولنے پر بھی زور دیتے ہیں لیکن ہماری ساری کوششیں بے کار جا رہی ہیں بچی کا ایک ہی جواب ہوتا ہے۔ ”مجھے اردو اچھی نہیں لگتی“ "I Do'nt Like Urdu" کیوں؟ جواب آتا ہے "This is not the language of Fairies and Queens" ”یہ پریوں اور شہزادیوں کی زبان نہیں ہے“ بچی کا اشارہ ان کرداروں کی طرف تھا جن کی کہانیاں اور کارٹون وہ مختلف ٹی وی چینلز اور بازار سے ملنے والی وڈیوز اور ڈی وی ڈیز میں دیکھتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ پیدا ہوتے ہی اپنے بچے سے انگریزی میں بات کرتے تھے اور اسکول پہنچنے پر استاد بھی اس بات پر زور دیتے تھے کہ گھرمیں بھی بچے انگریزی میں ہی بات چیت کریں تاکہ وہ اس زبان پر عبور حاصل کر سکے۔ اب یہ وقت آگیا ہے کہ انگریزی کچھ لوگوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری گھریلو بولی بن گئی ہے۔ ویسے سچ پوچھیں تو سوائے اچھے انگریزی اسکولوں کے پڑھے لکھے بچوں کے، صحیح انگریزی تو شاید ہی کوئی بول سکتا ہو لیکن کہیں اس میں سارا نقصان اردو کا ہی ہوا ہے اب تو گھروں میں کام کرنے والی عورتیں اور ملازم لڑکے بھی ایک پورا فقرہ اردو کا نہیں بول سکتے۔ ہر دوسرے لفظ کے بعد ایک لفظ انگریزی کا ان کی گفتگو کا حصہ ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس میں بنیادی خرابی میڈیا کی ہے ہمارے کانوں میں دن رات جو زبان انڈیلی جا رہی ہے وہ پتہ نہیں کن کن زبانوں کا ملغوبہ ہے۔ اردو تو وہ ہرگز نہیں ہے ۔ کہیں اس سے بھی بڑی خرابی یہ ہے کہ اردو میں بچوں کی دلچسپی کے لئے نہ کوئی کتابیں، رسالے ہیں اور نہ جدید دور کے بچوں کے لئے کارٹون فلمیں ہی کسی چینل پر یا بازار میں وڈیوز اور ڈی وی ڈیز پرہی دستیاب ہیں۔ ان حالات میں بچوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی تہذیب اور معاشرت سے آگاہ رہیں گے اور خودکو اس کے قریب محسوس کریں گے۔ ناممکن ہے۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے کے ماں باپ کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ بازار میں بچوں کی دلچسپی کے لئے کوئی کتاب، کوئی رسالہ، کوئی کھیل ایسا دستیاب نہیں تھا جو اردو میں ہو اوراس کی ظاہری صورت بھی ایسی ہو کہ بچوں کو متوجہ کر سکے۔ جبکہ انگریزی میں بچوں کے لئے ایسی خوبصورت کتابیں اور اب کارٹون فلمیں دستیاب ہیں کے بچے تو بچے ، بڑے بھی پڑھنے اور دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ باہر کی دنیا سے آنے والی ان چیزوں سے بچے زبان کے علاوہ غیر شعوری طور پر اور کیا کیا سیکھتے ہیں یہ کسی کا مسئلہ یا درد سر نہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ پھر وہ اپنے ماضی، قومی اور ثقافتی ورثے سے بہر طور کٹ کر رہ جاتے ہیں، ان کی کوئی شناخت نہیں رہ جاتی۔ بے شناخت قوموں کا انجام۔ سوچ کر وحشت ہوتی ہے لیکن پرواہ کس کو ہے۔ جو صاحب حیثیت ہیں، یا سوچ سکتے ہیں انہوں نے تو اپنی جڑیں مٹی اور کھاد سمیت کہیں نہ کہیں دوسری سر زمین پر منتقل کر لی ہیں۔ رہ جاتے ہیں بیچارے کیڑے مکوڑے عوام۔ سو ان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ انہیں تو ہمیشہ رزق خاک ہی ہونا ہے۔ انقلاب یاسمین آئے یا انقلاب فرانس۔ ان کی حالت تو ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے!! |
بھارت میں فوج کے حاضرسروس جنرل کو اراضی کرپشن سکینڈل میں سزا سنادی گئی ، کرپٹ جنرل کی پندرہ سال کی پنشن اور دوسال کی سروس ضبط کرلی گئی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق عدالت نے لیفٹیننٹ جنرل پی کے راتھ کو اراضی سکینڈل کیس میں مجرم قرار دے دیا اوران کے خلاف تین الزامات ثابت ہوئے ہیں ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں جنرل راتھ کی دو سال کی سروس اور پندرہ سال کی پنشن ضبط کرنے کا حکم دیا ۔ جنرل راتھ کا کورٹ مارشل بھی ہوگا ۔ مقامی میڈیا کے مطابق بھارت میں پہلی مرتبہ کسی حاضر سروس فوجی افسر کے کورٹ مارشل کا حکم دیا گیا ہے۔
پاکستان میں اہل لوگ کہاں جائیں
ہمت ابھی مجھ میں نہیں۔ میں خود کرچی کرچی ہو چکا ہوں۔ ہمارا آئین اور آئینہ ایک ہی چیز بن گئے ہیں....
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
مگر آج میں ایک بہت ہی نفیس انسان ڈاکٹر ظفر الطاف کیلئے کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ ہم اپنے قابل آدمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیوں نہیں کرتے۔ میں صرف ایک بار ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملا ہوں۔ وہ بیوروکریٹ تھے اور ان کی شہرت اچھی ہے۔ اچھی شہرت کے افسران اب کہاں ملتے ہیں۔ یہ سن کر بھی حیرت ہوئی کہ صدر زرداری بھی انہیں پسند کرتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آتی رہی اور سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے مداخلت کرتی رہی ہے کہ شاید اچھے آدمی نہیں کہ ایسے آدمیوں کو مختلف اہم عہدوں پر لگایا جا رہا ہے جو ان کے قابل نہیں اور جن کی شہرت بھی اچھی نہیں۔
ایسے میں جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کو فیڈرل پبلک سروس کمشن کا چیئرمین بنایا گیا تو میری حیرانی میں ایک خوشگوار کیفیت پیدا ہوئی۔ جسٹس رانا نے عدالتی صورتحال کو ہموار کرنے میں بڑی دانائی اور دیانتداری سے تحمل اور تدبر کے ساتھ کوشش کی میں نے سوچا کہ ایسے فیصلے کچھ اور ہونا چاہئیں اور اچھے لوگوں کی دیانت استقامت اہلیت اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ صدر زرداری اس طرح بہتر صورتحال پیدا کر سکتے تھے مگر اور یہ مگر ہمارے ”مگر“ لگ گیا ہے۔ بلکہ ہمارے لئے مگرمچھ بن گیا ہے۔ یہ محاورہ ہمیں ڈراتا ہے ”دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر“ ہمیں اب کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ ہم کیا کریں۔
ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملاقات کوئی طے شدہ بات نہ تھی مگر اب ان سے ملنے کو دل کرتا ہے اور وہ اپنی جگہ پر نہیں ہیں۔ وہ پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے یہاں جو کام کیا ہے اسے کارنامہ کہنا چاہئے۔ ایسی معرکہ آرائی کرنے والے لوگ ہمارے پاس زیادہ نہیں ہیں۔ جوہیں ان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ ایک مفید ادارہ ہے اور ڈاکٹر ظفر الطاف تین بار اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی طرف سے بنائے ہوئے اس خودمختار ادارے میں وزیراعظم نوازشریف نے ان سے امید لگائی۔ انہیں سربراہ بنایا گیا اور وہ حکومت کی توقعات پر پورا اترے کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس ادارے کی سربراہی کے قابل صرف انہیں سمجھا۔ جب وہ ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھے تو انہوں نے بینظیر بھٹو کو گرفتار بھی کیا۔ مگر بی بی سے ملاقات کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب سے متاثر ہوئیں۔ اختلاف سرکاری تھے اور اعتراف غیر سرکاری تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ایک کتاب میں بی بی کا خط بھی موجود ہے۔ بی بی نے لکھا کہ جتنا مخلص ڈاکٹر ظفر الطاف اپنے کام سے ہے میں اتنی مخلص اس کے ساتھ نہیں ہوں۔ڈاکٹر ظفر الطاف زرعی معیشت کو زرعی معاشرت میں بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کینولہ (سرسوں) کے بیج اور کپاس کے بیج کے حوالے سے حیرت انگیز اور بہت مفید ریسرچ کی ہے۔ کینولہ کیلئے بیج کا نام ظفر 2000 ہے۔ یہ زراعت کی تاریخ میں ایک ایجاد کی طرح ہے جو ظفر صاحب کے نام سے موسوم ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے جس پر پوری قوم کو فخر کرنا چاہئے۔
کپاس کے بیجوں کیلئے ان کی تحقیق کمال کے درجے پر پہنچ گئی ہے۔ ان بیجوں کے اثرات ناقابل فراموش ثمرات کے حامل ہیں۔ نارمل بیج سے 220 دنوں میں فصل تیار ہوتی ہے جبکہ ڈاکٹر ظفر الطاف کی ریسرچ کے نتیجے میں جو بیج تیار ہوا ہے، اس کے ذریعے یہ فصل صرف ایک سو دنوں میں تیار ہو جاتی ہے۔ کسان اس طرح دو فصلیں حاصل کر سکتا ہے۔ بیج کم استعمال ہوتا ہے اور کھاد بھی کم پڑتی ہے۔ اس طرح کسان کا خرچہ کم اور آمدنی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کیلئے حکومت سے کوئی فنڈز نہیں لئے گئے۔ اب تک ساڑھے تین لاکھ ایکڑ اراضی کیلئے بیج تیار ہے۔ اس میدان میں جلدی جلدی خودکفیل ہونے کے بعد ایکسپورٹ کرنے کی تجویز بھی ہے۔ اب تک بیرون ملک سے جن ماہرین نے وزٹ کیا ہے، ان کے خیال میں اس بیج سے تیار ہونے والی کپاس کپڑا بنانے کیلئے بہترین ہے۔ وابستگی اور اخلاص کا کمال دیکھیں کہ ان بیجوں کو بی بی ون، بی بی ٹو اور بی بی تھری کے نام دئیے گئے ہیں۔ صدر زرداری نے ایک اچھا فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل میں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ صدر زرداری بھی شہید بی بی کی طرح ڈاکٹر ظفر الطاف کو پسند کرتے ہیں۔
نجانے کیوں وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اس بہتر صورتحال سے پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ اختلافات ڈاکٹر صاحب کو تو نہیں ہیں۔ وہ خوددارانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ادارے میں آنے سے روک دیا گیا۔ وہ زمین سے محبت رکھتے ہیں۔ نظری طور پر ایک کسان ہیں۔ ان کا گھر پھولوں اور پودوں سے بھرا رہتا ہے۔ خوشبو اور مٹھاس ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب نے جیل میں مجھے بتایا تھا کہ میں گھر جا کے اونٹوں اور بکریوں کے ساتھ وقت گزاروں گا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نہ ہوئے تو ایک تعمیری فلاحی اور اعلیٰ پراجیکٹ بند ہو جائے گا۔ یہ معلومات پہلے ویب سائٹ پر تھیں۔ اب نہیں ہیں۔ معلومات گم ہو سکتی ہیں۔ محسوسات کو کون گم کر سکتا ہے۔ وہ گم بھی ہو گئے تو ٹوٹے ہوئے دلوں میں ہی گم ہوں گے۔ پھر بیج باہر سے منگوایا جائے گا۔ خرچ بھی ہو گا اور کرپشن بھی ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا رشتہ یہ ہے کہ وہ اولڈ راوین ہیں۔ ایک چینی فلاسفر نے ک
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
مگر آج میں ایک بہت ہی نفیس انسان ڈاکٹر ظفر الطاف کیلئے کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ ہم اپنے قابل آدمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیوں نہیں کرتے۔ میں صرف ایک بار ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملا ہوں۔ وہ بیوروکریٹ تھے اور ان کی شہرت اچھی ہے۔ اچھی شہرت کے افسران اب کہاں ملتے ہیں۔ یہ سن کر بھی حیرت ہوئی کہ صدر زرداری بھی انہیں پسند کرتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آتی رہی اور سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے مداخلت کرتی رہی ہے کہ شاید اچھے آدمی نہیں کہ ایسے آدمیوں کو مختلف اہم عہدوں پر لگایا جا رہا ہے جو ان کے قابل نہیں اور جن کی شہرت بھی اچھی نہیں۔
ایسے میں جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کو فیڈرل پبلک سروس کمشن کا چیئرمین بنایا گیا تو میری حیرانی میں ایک خوشگوار کیفیت پیدا ہوئی۔ جسٹس رانا نے عدالتی صورتحال کو ہموار کرنے میں بڑی دانائی اور دیانتداری سے تحمل اور تدبر کے ساتھ کوشش کی میں نے سوچا کہ ایسے فیصلے کچھ اور ہونا چاہئیں اور اچھے لوگوں کی دیانت استقامت اہلیت اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ صدر زرداری اس طرح بہتر صورتحال پیدا کر سکتے تھے مگر اور یہ مگر ہمارے ”مگر“ لگ گیا ہے۔ بلکہ ہمارے لئے مگرمچھ بن گیا ہے۔ یہ محاورہ ہمیں ڈراتا ہے ”دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر“ ہمیں اب کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ ہم کیا کریں۔
ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملاقات کوئی طے شدہ بات نہ تھی مگر اب ان سے ملنے کو دل کرتا ہے اور وہ اپنی جگہ پر نہیں ہیں۔ وہ پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے یہاں جو کام کیا ہے اسے کارنامہ کہنا چاہئے۔ ایسی معرکہ آرائی کرنے والے لوگ ہمارے پاس زیادہ نہیں ہیں۔ جوہیں ان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ ایک مفید ادارہ ہے اور ڈاکٹر ظفر الطاف تین بار اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی طرف سے بنائے ہوئے اس خودمختار ادارے میں وزیراعظم نوازشریف نے ان سے امید لگائی۔ انہیں سربراہ بنایا گیا اور وہ حکومت کی توقعات پر پورا اترے کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس ادارے کی سربراہی کے قابل صرف انہیں سمجھا۔ جب وہ ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھے تو انہوں نے بینظیر بھٹو کو گرفتار بھی کیا۔ مگر بی بی سے ملاقات کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب سے متاثر ہوئیں۔ اختلاف سرکاری تھے اور اعتراف غیر سرکاری تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ایک کتاب میں بی بی کا خط بھی موجود ہے۔ بی بی نے لکھا کہ جتنا مخلص ڈاکٹر ظفر الطاف اپنے کام سے ہے میں اتنی مخلص اس کے ساتھ نہیں ہوں۔ڈاکٹر ظفر الطاف زرعی معیشت کو زرعی معاشرت میں بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کینولہ (سرسوں) کے بیج اور کپاس کے بیج کے حوالے سے حیرت انگیز اور بہت مفید ریسرچ کی ہے۔ کینولہ کیلئے بیج کا نام ظفر 2000 ہے۔ یہ زراعت کی تاریخ میں ایک ایجاد کی طرح ہے جو ظفر صاحب کے نام سے موسوم ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے جس پر پوری قوم کو فخر کرنا چاہئے۔
کپاس کے بیجوں کیلئے ان کی تحقیق کمال کے درجے پر پہنچ گئی ہے۔ ان بیجوں کے اثرات ناقابل فراموش ثمرات کے حامل ہیں۔ نارمل بیج سے 220 دنوں میں فصل تیار ہوتی ہے جبکہ ڈاکٹر ظفر الطاف کی ریسرچ کے نتیجے میں جو بیج تیار ہوا ہے، اس کے ذریعے یہ فصل صرف ایک سو دنوں میں تیار ہو جاتی ہے۔ کسان اس طرح دو فصلیں حاصل کر سکتا ہے۔ بیج کم استعمال ہوتا ہے اور کھاد بھی کم پڑتی ہے۔ اس طرح کسان کا خرچہ کم اور آمدنی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کیلئے حکومت سے کوئی فنڈز نہیں لئے گئے۔ اب تک ساڑھے تین لاکھ ایکڑ اراضی کیلئے بیج تیار ہے۔ اس میدان میں جلدی جلدی خودکفیل ہونے کے بعد ایکسپورٹ کرنے کی تجویز بھی ہے۔ اب تک بیرون ملک سے جن ماہرین نے وزٹ کیا ہے، ان کے خیال میں اس بیج سے تیار ہونے والی کپاس کپڑا بنانے کیلئے بہترین ہے۔ وابستگی اور اخلاص کا کمال دیکھیں کہ ان بیجوں کو بی بی ون، بی بی ٹو اور بی بی تھری کے نام دئیے گئے ہیں۔ صدر زرداری نے ایک اچھا فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل میں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ صدر زرداری بھی شہید بی بی کی طرح ڈاکٹر ظفر الطاف کو پسند کرتے ہیں۔
نجانے کیوں وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اس بہتر صورتحال سے پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ اختلافات ڈاکٹر صاحب کو تو نہیں ہیں۔ وہ خوددارانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ادارے میں آنے سے روک دیا گیا۔ وہ زمین سے محبت رکھتے ہیں۔ نظری طور پر ایک کسان ہیں۔ ان کا گھر پھولوں اور پودوں سے بھرا رہتا ہے۔ خوشبو اور مٹھاس ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب نے جیل میں مجھے بتایا تھا کہ میں گھر جا کے اونٹوں اور بکریوں کے ساتھ وقت گزاروں گا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نہ ہوئے تو ایک تعمیری فلاحی اور اعلیٰ پراجیکٹ بند ہو جائے گا۔ یہ معلومات پہلے ویب سائٹ پر تھیں۔ اب نہیں ہیں۔ معلومات گم ہو سکتی ہیں۔ محسوسات کو کون گم کر سکتا ہے۔ وہ گم بھی ہو گئے تو ٹوٹے ہوئے دلوں میں ہی گم ہوں گے۔ پھر بیج باہر سے منگوایا جائے گا۔ خرچ بھی ہو گا اور کرپشن بھی ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا رشتہ یہ ہے کہ وہ اولڈ راوین ہیں۔ ایک چینی فلاسفر نے ک
Pakistani newspapers cartoons on January 22
Cartoon on police operation in Sindh
Cartoon on Rehman-Malik
Cartoon on Current account
Cartoon on Chaudhry-Shujahat
Cartoon on revolution in Tunisia