پاکستانی انٹیلی جنس اور فوجی حکام نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ کے بعد اس سال جنوری کے اواخر سے پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ انٹیلی جنس آپریشن منجمد ہو چکے ہیں جبکہ یہ صورت حال افغانستان اور عسکریت پسندوں کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے باہمی تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ خبر رساں ایجنسی ”رائٹر“ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کی یہ کشیدگی دونوں ممالک کے سفارتی تنازعات کے باعث اس سال مزید بڑھ گئی ہے اور 27 جنوری کو ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کے قتل اور 18 مارچ کو دتہ خیل میں امن جرگے پر کئے گئے ڈرون حملوں نے اس کشیدگی کو بڑھانے میں نمایاں کام کیا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے ایک انٹیلی جنس افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس کشیدگی کے باعث انٹیلی جنس سے متعلق امریکی سی آئی اے کے متعدد کنٹریکٹر خاموشی سے پاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ اب ڈرون حملوں کی رفتار بھی پہلے سے بہت کم ہو چکی ہے اورگذشتہ سال ستمبر 2010ءکے 22 ڈرون حملوں کے مقابلہ میں گذشتہ ماہ مارچ میں صرف 9 ڈرون حملے ہوئے۔ رپورٹ میں پاکستان کی مسلح افواج کے ایک افسر کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن کے بقول ڈرون طیاروں کی مداخلت ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں اور ہمیں ان ڈرونز کو مار گرانا چاہئے۔
دوسری جانب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو دوبارہ ٹریک پر لانے کےلئے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا آج 11 اپریل کو واشنگٹن روانہ ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر بھی 20 اور 21 اپریل کو واشنگٹن میں وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام سے ملاقات کریں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے اور آئندہ ماہ مئی میں اسلام آباد میں ہونے والے پاکستان امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے دوسرے راﺅنڈ میں متوقع طور پر امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کریں گی۔
امریکی نائین الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد اس وقت کے امریکی وزیر دفاع اور نائب وزیر خارجہ کی ٹیلی فونک دھمکیوں کی بنیاد پر جرنیلی آمر مشرف نے جس وارفتگی کے ساتھ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا اور پھر اس کے ”ڈو مور“ کے تقاضوں کی فدویانہ تعمیل کی وہ ہماری آزادی و خودمختاری ہی نہیں، غیرتِ ملی کے تقاضوں کے بھی قطعی منافی تھا۔ مگر مشرف نے قومی مفادات کی پاسداری کی نہ شہری آزادیوں پر مبنی عوام کے حقوق کا خیال رکھا اور ڈالروں کے چند ٹکڑوں کے عوض ملک کے شہریوں کو چن چن کر امریکہ کے حوالے کیا جاتا رہا جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی انسانیت سوز سزائے قید ہماری ہزیمتوں کی بڑی مثال ہے اسی طرح امریکی ایماءپر ملک کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر قدیر خاں کو ٹی وی پر لا کر ان سے اعترافی بیان دلوایا گیا اور پھر انہیں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ عراق جنگ کے بعد نیٹو افواج نے جب افغانستان میں ڈیرے ڈالے، تو پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کی وجہ سے ہی انہیں اپنی زمینی اور فضائی کارروائیوں کےلئے پاکستان کی جانب سے ملنے والی لاجسٹک سپورٹ کے باعث افغان جنگ میں نمایاں کامیابیاں ملیں اور افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹوپل کرنا ان کےلئے ممکن ہوا جبکہ افغانستان میں امریکی پٹھو کرزئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغان باشندوں اور شدت پسندوں کی مزاحمت کو روکنے کےلئے بھی نیٹو فورسز کو اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کے تعاون کی ضرورت پڑی جس میں ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت کبھی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور انہیں اکثر اوقات مانگے سے بھی زیادہ تعاون ملتا رہا۔ اگر نیٹو افواج کو پاکستان کی جانب سے لاجسٹک سپورٹ حاصل نہ ہوتی جس میں تیل، خوراک، ادویات کی سپلائی بھی شامل ہے تو افغان دھرتی پر نیٹو فورسز کے قدم کبھی جم ہی نہیں سکتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے بدقسمتی سے نہ صرف امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا ساتھ دیا بلکہ اس جنگ کو اپنی جنگ بھی قرار دے ڈالا جس کے باعث اپنی دھرتی پر نیٹو افواج کی مزاحمت کرنے والے افغان باشندوں کے ذہنوں میں پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہونا فطری امر تھا جبکہ امریکہ کے ایماءپر قبائلی علاقوں میں ہماری سکیورٹی فورسز کی جانب سے شروع کئے گئے فوجی آپریشن کے باعث پاکستان کے عوام کا اپنی افواج کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بھی کمزور ہوا اور اس آپریشن کے ردعمل میں ملک کے مختلف شہروں میں خودکش حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جن میں بعد ازاں امریکی ڈرون حملوں کے باعث زیادہ شدت پیدا ہوئی چنانچہ حکمرانوں کے امریکی فرنٹ لائن اتحادی والے کردار نے نہ صرف ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کیا بلکہ ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ اہم سیاسی اور سکیورٹی فورسز کی شخصیات کا خونِ ناحق بہنے اور ملکی و قومی املاک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچنے کی صورت میں ملک میں عدم تحفظ کی فضا بھی پیدا ہوئی اور قومی ترقی کا پہیہ بھی جامد ہو گیا۔ ملکی اور قومی تباہی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اس کے باوجود واشنگٹن انتظامیہ نے اس خطہ میں اپنے مفادات کی جنگ میں پاکستان کے کردار پر کبھی اعتبار نہیں کیا اور اس کی ایجنسیوں نے اپنے مشاق اہلکاروں اور ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے حساس علاقوں میں پھیل کر ہماری سالمیت کے خلاف اپنی مذموم سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر دیا بالخصوص ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی اور تنصیبات کی جاسوسی ان کے پاکستان آپریشن کا حصہ ہے۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی مذموم سرگرمیاں بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھیں جس کے ہاتھوں لاہور میں دو شہریوں کے قتل کے بعد امریکی انٹیلی جنس کی خفیہ سرگرمیاں بے نقاب ہونے لگیں تو ملک کی سلامتی کی ذمہ دار ہماری سکیورٹی فورسز میں تشویش کی فضا پیدا ہونا بھی فطری امر تھا۔ چنانچہ اسی پس منظر میں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے مابین کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی جو ہماری سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے حوالے سے یقیناخوش آئند ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغان جنگ کے دوران بھی اور اب افغانستان سے نیٹو افواج کی محفوظ واپسی کے مراحل طے کرنے کےلئے بھی امریکہ کو ہر قدم پر پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو افغان دھرتی امریکی نیٹو افواج کا قبرستان بن جائے گی۔ چنانچہ اسی پس منظر میں امریکہ کے سول اور فوجی حکام اس وقت بھی پاکستان کے ساتھ لجاجت والا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تھے جب امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پاکستان کے اندر ایک چیک پوسٹ پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد ہماری عسکری قیادت کے دباﺅ پر پاکستان کے راستہ نیٹو فورسز کی سپلائی بند کی گئی جبکہ اب دتہ خیل امن جرگے پر ڈرون حملوں کے ردعمل میں ہماری عسکری قیادتوں نے امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں تو اس کے ہوش ٹھکانے پر آنے لگے ہیں اور ڈرون گرانے کی محض دھمکی پر اب تک امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ رکا ہوا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی مفادات کی جس جنگ میں ہمارے ملک کی پرامن دھرتی اپنے ہی شہریوں کے خونِ ناحق سے رنگین ہوئی ہے اور ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہے، اسے اپنے مفادات کی جنگ بنا کر اب تک اس میں شریک رہنا کیوں ضروری سمجھا جا رہا ہے جبکہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کے تحت تو اس جنگ کو ہمیں اپنی سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے خلاف اپنے مکار دشمن کی جنگ سمجھنا چاہئے اور اسی بنیاد پر دشمن کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔
اب جبکہ ملک کی عسکری قیادتوں کو مکمل ادراک ہو چکا ہے کہ امریکی نیٹو افواج کی اس خطہ میں موجودگی ہماری سلامتی کےلئے انتہائی خطرناک ہے تو ہماری حکومتی سیاسی قیادتوں کو بھی اس کا ادراک ہونا چاہئے اور امریکی مفادات کی جنگ سے خلاصی پانے کےلئے فوری اور مشترکہ حکمت عملی طے کی جانی چاہئے، اب تک جو ہو چکا سو ہو چکا مگر اب طوطا چشم امریکہ سے تعاون کا ہاتھ مستقل طور پر کھینچ لینا ہی ہمارا بہترین قومی مفاد ہے۔ اسلئے امریکہ کے ساتھ آئندہ ماہ کے سٹرٹیجک ڈائیلاگ اسی تناظر میں ہونے چاہئیں۔ اگر امریکہ کے ساتھ ہماری عسکری قیادتوں کی موجودہ کشیدہ صورت حال امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کرنے پر منتج ہوتی ہے تو ہمارے لئے اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں ہو گی۔
پارلیمنٹ اور افسران
قانون پرعمل یقینی بنائیں
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری ، شہریوں کے حقوق اور انکے تحفظ کی ذمہ داری ایگزیکٹو اتھارٹی اور انتظامیہ کی ہے،اگر قانون پرعمل نہ ہو تو پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ انتظامیہ کیخلاف کارروائی کرے جبکہ چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ جعلی ڈگری کیس میں کوئی رکن پارلیمنٹ پیش نہیں ہوتا مقدمات درج کرانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 14اپریل 1948 کو چٹا گانگ میں اعلیٰ گریڈ کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” تمام افسر عوام اور ملک کے خادم بن کر کام کریں سول سرونٹ کا تعلق کسی جماعت یا حکومت سے ہے اور نہ ہی ملازمت کو تجارت بنایاجائے، عوام کو حقیقی معنوں میں یہ محسوس کرایاجائے کہ آپ انکے خادم ہیں “ آج کے دور میں اس کے بالکل اُلٹ ہورہا ہے۔اعلیٰ افسران آئین و قانون کی پاسداری اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنیکی بجائے سیاسی جماعتوں سے تعلقات استوارکرکے سیاست دانوںکے منظور نظر افراد کو نوازنے کی کوشش کرتے ہیں،سیاسی بنیادوں پر افسران کی ترقیاں اور تنزلیاں ہوتی ہیں،سول سروسز کا معاشرے کی ترقی میں اہم رول ہے لیکن آج کسی نے ملازمت کو تجارت بنالیا ہے توکوئی سیاست کی چھتری تلے ترقیاں پارہا ہے،حقیقی معنوں میں عوام کا خادم کوئی نظر نہیں آتا۔
عدلیہ کہتی ہے کہ قانون پر عمل نہ ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرے جبکہ چیف الیکشن کمشن کہتے ہیں کہ جعلی ڈگری کیس میں کوئی رکن پارلیمنٹ پیش نہیں ہوتا، مقدمات درج کروانے پر مجبور ہوگئے ہیں،پارلیمان کی اگر یہ حقیقت ہے تو آزاد عدلیہ کوہی آئین و قانون کے مطابق عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے فیصلے دینے ہوں گے کیونکہ 16 مارچ 2009 کو عوام نے لانگ مارچ کرکے عدلیہ کو بحال کروایا، عوام آج بھی عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اگر پارلیمنٹ بھی عوامی مسائل پر توجہ نہیں دے رہی تو عوام کی توقعات عدلیہ کے ساتھ ہی وابستہ ہوں گی،عوامی طاقت اسکے ساتھ ہے، قائداعظمؒ کے فرمان کے مطابق پاکستان کومضبوط و مستحکم رکھنا ہے تو افسران کو عوام کا خادم بننا ہوگا، قائد کے یہ الفاظ ہمارے لئے مشعل راہ ہونے چاہئیں، قائد کے اقوال و افعال پر عمل کرکے ملک کو مضبوط سے مضبوط تر بنایاجاسکتا ہے ،پارلیمان اور افسران کو قانون کے مطابق چلناچاہئے یہی ملک و قوم کیلئے بہتر ہے۔
پاکستان مضبوط ایٹمی قوت ہے
برطانوی جریدے ” اکانومسٹ“ نے پاکستان کے حوالے سے شائع دو کتابو ں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کمزور ہوسکتا ہے لیکن ایک ناکام ریاست نہیں،پاکستانی معاشرہ مضبوط ہے اس قوم نے بہادری سے تین بار فوجی آمروں کا مقابلہ کرتے ہوئے جمہوریت کو ناکام بنانے کی کوششیں اکارت کی ہیں۔
پاکستان کمزور ہے نہ ہی ناکام ریاست، یہ ایٹمی قوت کی حامل ایک مضبوط اسلامی ریاست ہے۔اکتوبر2010 میں بھارت، آسٹریلیا، کینیڈا، یونائٹیڈ سٹیٹ سمیت دیگر ممالک کی فوجی مشقوں میں پاکستان کے بہادر فوجی جوانوں نے خداداد صلاحیتوںکا لوہا منوا کر گولڈ میڈل حاصل کیا، فوج کے جوان آج بھی دنیا کے بڑے سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیارہیں، پاکستانی معاشرہ نہ صرف مضبوط ہے بلکہ دیگر معاشروں پر فوقیت رکھتا ہے۔امریکہ اور برطانیہ کی آشیر باد سے تین مرتبہ فوجی آمروں نے آکر ملکی نظم و نسق کوکھوکھلا کیا ،لیکن بہادر قوم نے نہ صرف انکا مقابلہ کیا بلکہ نئے سرے سے جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھایا۔
پاکستانی قوم آج بھی دنیا کی بہادر قوم ہے لیکن بد قسمتی سے قائداعظمؒ کے بعد سے لیکر آج تک اسے کوئی اچھی اور مخلص قیادت میسر نہیں آئی آج بھی اگر اچھی لیڈر شپ مل جائے تو یہ قوم پوری دنیا کی قیادت کرنیکی صلاحیت رکھتی ہے،زمین کی اتھاہ پستیوں کی طرف لڑھکتی معیشت اور آسمانی بلندیوںکو چھوتی کرپشن کے باوجود قوم بہادری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور معاشرہ ترقی کر رہا ہے۔ جیسے ہی محب وطن رہبر مل جائیگا یہ اوج ثریا کو چھولے گی، برطانوی جریدہ حقائق سے نظریں مت چرائے، پاکستان کی جرا ¿ت بہادری سے مزین تاریخ کو بھی دیکھے۔
دوسری جانب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو دوبارہ ٹریک پر لانے کےلئے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا آج 11 اپریل کو واشنگٹن روانہ ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر بھی 20 اور 21 اپریل کو واشنگٹن میں وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام سے ملاقات کریں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے اور آئندہ ماہ مئی میں اسلام آباد میں ہونے والے پاکستان امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے دوسرے راﺅنڈ میں متوقع طور پر امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کریں گی۔
امریکی نائین الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد اس وقت کے امریکی وزیر دفاع اور نائب وزیر خارجہ کی ٹیلی فونک دھمکیوں کی بنیاد پر جرنیلی آمر مشرف نے جس وارفتگی کے ساتھ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا اور پھر اس کے ”ڈو مور“ کے تقاضوں کی فدویانہ تعمیل کی وہ ہماری آزادی و خودمختاری ہی نہیں، غیرتِ ملی کے تقاضوں کے بھی قطعی منافی تھا۔ مگر مشرف نے قومی مفادات کی پاسداری کی نہ شہری آزادیوں پر مبنی عوام کے حقوق کا خیال رکھا اور ڈالروں کے چند ٹکڑوں کے عوض ملک کے شہریوں کو چن چن کر امریکہ کے حوالے کیا جاتا رہا جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی انسانیت سوز سزائے قید ہماری ہزیمتوں کی بڑی مثال ہے اسی طرح امریکی ایماءپر ملک کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر قدیر خاں کو ٹی وی پر لا کر ان سے اعترافی بیان دلوایا گیا اور پھر انہیں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ عراق جنگ کے بعد نیٹو افواج نے جب افغانستان میں ڈیرے ڈالے، تو پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کی وجہ سے ہی انہیں اپنی زمینی اور فضائی کارروائیوں کےلئے پاکستان کی جانب سے ملنے والی لاجسٹک سپورٹ کے باعث افغان جنگ میں نمایاں کامیابیاں ملیں اور افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹوپل کرنا ان کےلئے ممکن ہوا جبکہ افغانستان میں امریکی پٹھو کرزئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغان باشندوں اور شدت پسندوں کی مزاحمت کو روکنے کےلئے بھی نیٹو فورسز کو اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کے تعاون کی ضرورت پڑی جس میں ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت کبھی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور انہیں اکثر اوقات مانگے سے بھی زیادہ تعاون ملتا رہا۔ اگر نیٹو افواج کو پاکستان کی جانب سے لاجسٹک سپورٹ حاصل نہ ہوتی جس میں تیل، خوراک، ادویات کی سپلائی بھی شامل ہے تو افغان دھرتی پر نیٹو فورسز کے قدم کبھی جم ہی نہیں سکتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے بدقسمتی سے نہ صرف امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا ساتھ دیا بلکہ اس جنگ کو اپنی جنگ بھی قرار دے ڈالا جس کے باعث اپنی دھرتی پر نیٹو افواج کی مزاحمت کرنے والے افغان باشندوں کے ذہنوں میں پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہونا فطری امر تھا جبکہ امریکہ کے ایماءپر قبائلی علاقوں میں ہماری سکیورٹی فورسز کی جانب سے شروع کئے گئے فوجی آپریشن کے باعث پاکستان کے عوام کا اپنی افواج کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بھی کمزور ہوا اور اس آپریشن کے ردعمل میں ملک کے مختلف شہروں میں خودکش حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جن میں بعد ازاں امریکی ڈرون حملوں کے باعث زیادہ شدت پیدا ہوئی چنانچہ حکمرانوں کے امریکی فرنٹ لائن اتحادی والے کردار نے نہ صرف ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کیا بلکہ ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ اہم سیاسی اور سکیورٹی فورسز کی شخصیات کا خونِ ناحق بہنے اور ملکی و قومی املاک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچنے کی صورت میں ملک میں عدم تحفظ کی فضا بھی پیدا ہوئی اور قومی ترقی کا پہیہ بھی جامد ہو گیا۔ ملکی اور قومی تباہی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اس کے باوجود واشنگٹن انتظامیہ نے اس خطہ میں اپنے مفادات کی جنگ میں پاکستان کے کردار پر کبھی اعتبار نہیں کیا اور اس کی ایجنسیوں نے اپنے مشاق اہلکاروں اور ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے حساس علاقوں میں پھیل کر ہماری سالمیت کے خلاف اپنی مذموم سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر دیا بالخصوص ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی اور تنصیبات کی جاسوسی ان کے پاکستان آپریشن کا حصہ ہے۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی مذموم سرگرمیاں بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھیں جس کے ہاتھوں لاہور میں دو شہریوں کے قتل کے بعد امریکی انٹیلی جنس کی خفیہ سرگرمیاں بے نقاب ہونے لگیں تو ملک کی سلامتی کی ذمہ دار ہماری سکیورٹی فورسز میں تشویش کی فضا پیدا ہونا بھی فطری امر تھا۔ چنانچہ اسی پس منظر میں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے مابین کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی جو ہماری سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے حوالے سے یقیناخوش آئند ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغان جنگ کے دوران بھی اور اب افغانستان سے نیٹو افواج کی محفوظ واپسی کے مراحل طے کرنے کےلئے بھی امریکہ کو ہر قدم پر پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو افغان دھرتی امریکی نیٹو افواج کا قبرستان بن جائے گی۔ چنانچہ اسی پس منظر میں امریکہ کے سول اور فوجی حکام اس وقت بھی پاکستان کے ساتھ لجاجت والا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تھے جب امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پاکستان کے اندر ایک چیک پوسٹ پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد ہماری عسکری قیادت کے دباﺅ پر پاکستان کے راستہ نیٹو فورسز کی سپلائی بند کی گئی جبکہ اب دتہ خیل امن جرگے پر ڈرون حملوں کے ردعمل میں ہماری عسکری قیادتوں نے امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں تو اس کے ہوش ٹھکانے پر آنے لگے ہیں اور ڈرون گرانے کی محض دھمکی پر اب تک امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ رکا ہوا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی مفادات کی جس جنگ میں ہمارے ملک کی پرامن دھرتی اپنے ہی شہریوں کے خونِ ناحق سے رنگین ہوئی ہے اور ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہے، اسے اپنے مفادات کی جنگ بنا کر اب تک اس میں شریک رہنا کیوں ضروری سمجھا جا رہا ہے جبکہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کے تحت تو اس جنگ کو ہمیں اپنی سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے خلاف اپنے مکار دشمن کی جنگ سمجھنا چاہئے اور اسی بنیاد پر دشمن کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔
اب جبکہ ملک کی عسکری قیادتوں کو مکمل ادراک ہو چکا ہے کہ امریکی نیٹو افواج کی اس خطہ میں موجودگی ہماری سلامتی کےلئے انتہائی خطرناک ہے تو ہماری حکومتی سیاسی قیادتوں کو بھی اس کا ادراک ہونا چاہئے اور امریکی مفادات کی جنگ سے خلاصی پانے کےلئے فوری اور مشترکہ حکمت عملی طے کی جانی چاہئے، اب تک جو ہو چکا سو ہو چکا مگر اب طوطا چشم امریکہ سے تعاون کا ہاتھ مستقل طور پر کھینچ لینا ہی ہمارا بہترین قومی مفاد ہے۔ اسلئے امریکہ کے ساتھ آئندہ ماہ کے سٹرٹیجک ڈائیلاگ اسی تناظر میں ہونے چاہئیں۔ اگر امریکہ کے ساتھ ہماری عسکری قیادتوں کی موجودہ کشیدہ صورت حال امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کرنے پر منتج ہوتی ہے تو ہمارے لئے اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں ہو گی۔
پارلیمنٹ اور افسران
قانون پرعمل یقینی بنائیں
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری ، شہریوں کے حقوق اور انکے تحفظ کی ذمہ داری ایگزیکٹو اتھارٹی اور انتظامیہ کی ہے،اگر قانون پرعمل نہ ہو تو پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ انتظامیہ کیخلاف کارروائی کرے جبکہ چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ جعلی ڈگری کیس میں کوئی رکن پارلیمنٹ پیش نہیں ہوتا مقدمات درج کرانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 14اپریل 1948 کو چٹا گانگ میں اعلیٰ گریڈ کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” تمام افسر عوام اور ملک کے خادم بن کر کام کریں سول سرونٹ کا تعلق کسی جماعت یا حکومت سے ہے اور نہ ہی ملازمت کو تجارت بنایاجائے، عوام کو حقیقی معنوں میں یہ محسوس کرایاجائے کہ آپ انکے خادم ہیں “ آج کے دور میں اس کے بالکل اُلٹ ہورہا ہے۔اعلیٰ افسران آئین و قانون کی پاسداری اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنیکی بجائے سیاسی جماعتوں سے تعلقات استوارکرکے سیاست دانوںکے منظور نظر افراد کو نوازنے کی کوشش کرتے ہیں،سیاسی بنیادوں پر افسران کی ترقیاں اور تنزلیاں ہوتی ہیں،سول سروسز کا معاشرے کی ترقی میں اہم رول ہے لیکن آج کسی نے ملازمت کو تجارت بنالیا ہے توکوئی سیاست کی چھتری تلے ترقیاں پارہا ہے،حقیقی معنوں میں عوام کا خادم کوئی نظر نہیں آتا۔
عدلیہ کہتی ہے کہ قانون پر عمل نہ ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرے جبکہ چیف الیکشن کمشن کہتے ہیں کہ جعلی ڈگری کیس میں کوئی رکن پارلیمنٹ پیش نہیں ہوتا، مقدمات درج کروانے پر مجبور ہوگئے ہیں،پارلیمان کی اگر یہ حقیقت ہے تو آزاد عدلیہ کوہی آئین و قانون کے مطابق عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے فیصلے دینے ہوں گے کیونکہ 16 مارچ 2009 کو عوام نے لانگ مارچ کرکے عدلیہ کو بحال کروایا، عوام آج بھی عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اگر پارلیمنٹ بھی عوامی مسائل پر توجہ نہیں دے رہی تو عوام کی توقعات عدلیہ کے ساتھ ہی وابستہ ہوں گی،عوامی طاقت اسکے ساتھ ہے، قائداعظمؒ کے فرمان کے مطابق پاکستان کومضبوط و مستحکم رکھنا ہے تو افسران کو عوام کا خادم بننا ہوگا، قائد کے یہ الفاظ ہمارے لئے مشعل راہ ہونے چاہئیں، قائد کے اقوال و افعال پر عمل کرکے ملک کو مضبوط سے مضبوط تر بنایاجاسکتا ہے ،پارلیمان اور افسران کو قانون کے مطابق چلناچاہئے یہی ملک و قوم کیلئے بہتر ہے۔
پاکستان مضبوط ایٹمی قوت ہے
برطانوی جریدے ” اکانومسٹ“ نے پاکستان کے حوالے سے شائع دو کتابو ں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کمزور ہوسکتا ہے لیکن ایک ناکام ریاست نہیں،پاکستانی معاشرہ مضبوط ہے اس قوم نے بہادری سے تین بار فوجی آمروں کا مقابلہ کرتے ہوئے جمہوریت کو ناکام بنانے کی کوششیں اکارت کی ہیں۔
پاکستان کمزور ہے نہ ہی ناکام ریاست، یہ ایٹمی قوت کی حامل ایک مضبوط اسلامی ریاست ہے۔اکتوبر2010 میں بھارت، آسٹریلیا، کینیڈا، یونائٹیڈ سٹیٹ سمیت دیگر ممالک کی فوجی مشقوں میں پاکستان کے بہادر فوجی جوانوں نے خداداد صلاحیتوںکا لوہا منوا کر گولڈ میڈل حاصل کیا، فوج کے جوان آج بھی دنیا کے بڑے سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیارہیں، پاکستانی معاشرہ نہ صرف مضبوط ہے بلکہ دیگر معاشروں پر فوقیت رکھتا ہے۔امریکہ اور برطانیہ کی آشیر باد سے تین مرتبہ فوجی آمروں نے آکر ملکی نظم و نسق کوکھوکھلا کیا ،لیکن بہادر قوم نے نہ صرف انکا مقابلہ کیا بلکہ نئے سرے سے جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھایا۔
پاکستانی قوم آج بھی دنیا کی بہادر قوم ہے لیکن بد قسمتی سے قائداعظمؒ کے بعد سے لیکر آج تک اسے کوئی اچھی اور مخلص قیادت میسر نہیں آئی آج بھی اگر اچھی لیڈر شپ مل جائے تو یہ قوم پوری دنیا کی قیادت کرنیکی صلاحیت رکھتی ہے،زمین کی اتھاہ پستیوں کی طرف لڑھکتی معیشت اور آسمانی بلندیوںکو چھوتی کرپشن کے باوجود قوم بہادری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور معاشرہ ترقی کر رہا ہے۔ جیسے ہی محب وطن رہبر مل جائیگا یہ اوج ثریا کو چھولے گی، برطانوی جریدہ حقائق سے نظریں مت چرائے، پاکستان کی جرا ¿ت بہادری سے مزین تاریخ کو بھی دیکھے۔
No comments:
Post a Comment