فرانس جو کہ علمی اور ثقافتی لحاظ سے دنیا کے لئے قابل تقلید مقام رکھتاہے اور پیرس کے دانشور پورے عالم میں اپنے علم و دانش کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور تاریخ کے طالبعلم اس سے اپنے علم کی پیاس کوبجھاتے اور علم کی شمع کو روشن رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی ہماری پاکستانی کمیونٹی اور صحافی برادری کی جو اس علمی اور علم دوست معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اس سے فیضیاب نہیں ہو سکے بلکہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہماری سیاست اور صحافت درباری اورخوشامدی دور سے نہیں نکل سکی ۔کسی چیز کی نشاندہی کو اپنے اوپر تنقید اور تنقید کو تہمت سمجھا جاتا ہے اور سچ لکھنے والوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو دشمن اورقصیدہ گو درباری صحافیوں کو گود میں بٹھایا جاتا ہے اور ایسی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان پریس کلب پیرس فرانس ایک عشرہ قبل فرانس میں موجود شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کی مخلصانہ کاوشوں سے معرض وجود میں آیا اور پاکستانی کمیونٹی کے تمام طبقوں نے اسے سراہا۔ پریس کلب کی شہرت اور صحافیوں کے کمیونٹی میں اثر و نفوذ نے چندنام نہاد راہنماؤں کی نیندیں حرام کردیں۔جن لوگوں کو کمیونٹی میں کوئی جانتا نہ تھا جب ایسے لوگ صحافیوں کی بدولت کمیونٹی میں جانے پہچانے لگے تو پھر وہ صحافیوں کو ڈکٹیشن دینے لگے ۔ میرے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں اور جب صحافیوں نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا تو سازشوں کے تانے بانے شروع ہوگئے ۔دو برس قبل جب فرانس میں پہلی علاقائی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تو پریس کلب کے صحافیوں نے اپنی تحریروں میں متنبہ کیا کہ ایسی تنظیموں کے قیام سے کمیونٹی مزیدتقسیم ہوگی،یہ تنبیہ علاقائی لیڈروں کو پسند نہ آئی اور صحافیوں کو سچ کی سزا دینے کے لئے ہزاروں یورو خرچ کرکے ایک نئے پریس کلب پاک پریس کلب فرانس کی بنیاد رکھ دی گئی۔جس کی وجہ سے فرانس میں پاکستانی کمیونٹی جو کہ پہلے بھی انتشار کا شکار تھی مزید انتشار کا شکار ہو گئی۔پیرس میں دو پریس کلبوں کے قیام کے باوجود صحافیوں کی اکثریت نے آپس کے باہمی احترام میں کمی نہ آنے دی ، جسکی وجہ سے صحافیوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ صحافیوں کی تقسیم پوری پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ پاکستانی صحافیوں کے لئے بھی باعث ندامت تھی۔ اس تقسیم کو ختم کرنے کے لئے مختلف احباب نے کاوشیں کی لیکن کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی لیکن جب فرانس کی ممتاز صحافی اور سماجی خاتون رہنما اور پاک پریس کلب فرانس کی چئیر پرسن محترمہ شاہ بانو میر نے دونوں پریس کلب کے ارکان کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیا تو دونوں پریس کلب کے ذمہ داران نے خوشی اور آمادگی کا اظہار کیا ۔ محترمہ شاہ بانو میر کے گھر پر پہلی نشست 5 فروری کو ہوئی ، اس نشست میں ان کی معاونت سیاسی و سماجی شخصیت چوہدری صفدر برنالی نے کی ، اس میٹنگ میں تمام گلے شکوے سننے کے بعد تمام شرکا ء اس بات پر آمادہ دکھائی دئیے کہ صحافیوں کا ایک ہی پلیٹ فارم ہونا چاہئے جس میں سیاستدانوں کی مداخلت نہ ہو اور صحافی بھی کمیونٹی کے اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔پہلی نشست کے بعدمزید رابطوں اور گفت و شنید کے بعدگیارہ مئی کو ایک بار پھر محترمہ شاہ بانو میر کے ہاں رکھی گئی جسمیں پاکستان پریس کلب پیرس فرانس کے صدر صاحبزادہ عتیق الر حمن اور جنرل سیکریٹری میاں محمد امجد اور پاک پریس کلب فرانس کی چئیر پرسن محترمہ شاہ بانو میر ، صدر چوہدری شبیر بھدر اور سینئیر نائیب صدر مرزا خالد بشیر اور پیرس کی سیاسی اور سماجی شخصیت چوہدری صفدر برنالی بھی شریک تھے ۔ دو گھنٹے کی بحث و تمحیص کے بعد اصولی فیصلہ کیا گیا کہ تمام صحافی پاکستان پریس کلب پیرس فرانس رجسٹرڈ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے اور صحافیوں اور کمیونٹی کے اتحاد کے لئے اپنے تعلقات بروئے کار لائیں گے۔جسکے بعدایک مشترکہ منشو ر تیار کیا گیا۔تمام معاملات طے ہونے کے بعدایک پریس ریلیز تیار کی گئی جسے چوہدری شبیر بھدر صاحب نے تحریر کیا ، اور اس پریس ریلیز پر تمام لوگوں نے اپنے دستخط بھی کئے اور اس اتحاد پر ایک دوسرے کو مبارکباددی۔دوسرے دن جب یہ پریس ریلیز بمعہ تصاویر مختلف اخبارات اور ویب سائیٹس کی زینت بنی تو پاک پریس کلب سے وابستہ ایک سیاسی اورایک علاقائی تنظیم نے اس کو اپنے خلاف سمجھا حالانکہ اس میں کسی کے خلاف کچھ نہیں تھا اگر کچھ تھا تو صرف پاک پیرس کلب فرانس کے ارکان کا اعتراف حقیقت اور اس بات کا عز م تھا کہ وہ رجسٹرڈ پریس کلب کے تحت اکٹھے چلنے کواولیت دیتے ہیں۔ اتحاد کی خبر کی اشاعت کے بارہ گھنٹے کے اندر پاک پریس کلب کی ایگزیکٹو جو کہ ایک سیاسی اورعلاقائی تنظیم کے عہدیداروں پر مشتمل ہے نے ایک ہنگامی اجلاس میں پاک پریس کلب کے صدر چوہدری شبیر بھدر صاحب کو طلب کیا اور اس اتحاد کے حوالے سے ان سے سختی سے باز پرس کی جس پرپیرس کے سینئیرصحافی چوہدری شبیر بھدر صاحب نے اپنا استعفی پیرس کے سیاستدانوں کے حوالے کردیا اور سیاستدانوں کے شدید ترین دباؤ کی وجہ سے دوسرے دن اپنے ہی ہاتھوں سے لکھی ہوئی تحریر کی تردید کردی جسکا ہمیں نہایت افسوس ہے ۔انہی سیاستدانوں کے ایماء پر صحافیوں کے اس اتحاد کے خلاف خبریں بھی لگوائی گئیں اور اتحاد کی خبروں کو غلط ثابت کر نے کی کوشش کی گئی تاکہ صحافی ایک دوسرے کے خلاف ہوجائیں اور سیاستدان انکی لڑائی کا تماشہ دیکھیں۔ پاک پریس کلب کی ایگزیکٹو نے جب اتحاد کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا تو پاک پریس کلب کی چئیر پرسن محترمہ شاہ بانو میر اور سینئیر نائیب صدر مرزا خالد بشیر صاحب نے اتحاد کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے پریس کلب کی ایگزیکٹو کی ہٹ دھرمی کے خلاف اپنے استعفی دے دئے اور اخبارات کو بیانات بھی جاری کردئے کہ ہم نے جس دستاویز پر دستخط کئے ہیں ہم اس پر قائم ہیں ۔ محترمہ شاہ بانو میر اور مرزا خالد بشیر صاحب کے اس اصولی مؤقف اور اپنے درست فیصلے کیخلاف کسی بھی قسم کے ناروا دباؤ کو قبول نہ کرنے پر پوری پاکستانی کمیونٹی نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ اور ان کے استعفی ہمارے مؤقف کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ پاکستان پریس کلب پیرس فرانس کے پلیٹ فارم سے آج سارا سچ ہم نے پاکستانی کمیونٹی کے سامنے رکھ دیا ہے تاکہ سب کو پتہ چل جائے کہ صحافیوں نے اتحاد کے لئے مثبت کوشش کی اور کن لوگوں نے اسے سبوتا ژ کیا ۔ ہمارا عزم ہے کہ پاکستان پریس کلب پیرس فرانس کے اراکین ہمیشہ کی طرح کمیونٹی کے اتحاد کے لئے کام کرتے رہیں گے اور اپنے قلم سے کمیونٹی کی اچھائیوں کو اجاگر کرتے رہیں گے اور خامیوں کی نشاندھی کرتے رہیں گے اور قلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ صاحبزادہ عتیق الر حمن صدر پاکستان پریس کلب پیرس فرانس میاں محمد امجد جنرل سیکریٹری پاکستان پریس کلب پیرس فرانس |
The principles of humanity-those values which act as a common bond of responsibilities Shared by faith and cultures throughout the world common humanity, responsibilities, Respect, compassion, truth and integrity, human solidarity
Sunday, June 5, 2011
اور جب صحافیوں نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment