وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ظفر قریشی کو بحال کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اُن کے خلاف محکمانہ تحقیقات کی جارہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے ظفر قریشی کو نیشنل انشورنس کمپنی لمٹیڈ یعنی این آئی سی ایل میں زمین سکینڈل کے مقدمے کی تحقیقات یکم جولائی کو دوبارہ سونپی تھی تاہم حکومت نے اگلے روز ہی انہیں معطل کر دیا۔
اس مقدمے میں حکمراں اتحاد میں شامل ہونے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ قاف کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے صاحبزادے اور پنجاب اسمبلی کے رکن چوہدری مونس الہی گرفتار ہیں۔
جمعہ کے روز اس مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے عدالت کو بتایا کہ ظفر قریشی کو اس مقدمے کی تحقیقات کے لیے بحال نہیں کیا جا رہا۔
عدالت نے ظفر قریشی کی معطلی سے متعلق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری داخلہ کو بھی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔
حالات کو اس نہج پر نہ لیکر جائیں جہاں پر واپسی کا راستہ نہ ہو۔ عدالت ہر اُس شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو بدعنوانی کے خلاف ہے لیکن عدالت بدعنوان شخص کی عزت نہیں کرتی چاہے وہ جو کوئی بھی ہو۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری
عدالت میں پیش کیے جانے والے ریکارڈ کے مطابق ظفر قریشی کی یکم جولائی کو اس مقدمے کی تفتیش پر بحالی کے بعد میڈیا پر بیان دینے پر اُن کے خلاف محکمانہ تحقیقات ہو رہی ہیں اور اس ضمن میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جو سمری بھیجی گئی تھی اُس کی وزیر اعظم نے منظوری دے دی تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ نے جب ظفر قریشی کے خلاف تمام محکمانہ تحقیقات کو معطل کردیا تھا تو پھر اُنہیں بحال کیوں نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت خود بھی ظفر قریشی کو اس مقدمے کی تحقیقات سونپنے سے متعلق احکامات جاری کرسکتی ہے لیکن وہ حکومت کو ایک اور موقع دینا چاہتی ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اُنہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حالات کو اس نہج پر نہ لیکر جائیں جہاں پر واپسی کا راستہ نہ ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ عدالت ہر اُس شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو بدعنوانی کے خلاف ہے لیکن عدالت بدعنوان شخص کی عزت نہیں کرتی چاہے وہ جو کوئی بھی ہو۔
بینچ میں شامل جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ بھارت میں تمام سیاسی جماعتیں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے متحد ہوگئی ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا تاثر دیا جارہا ہے جیسے بدعنوانی کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ این آئی سی اے کے مقدمے کی تفتیش سپریم کورٹ کے حکم پر کی جا رہی ہے اور عدالت اپنے حکم کا تحفظ کرنا جانتی ہے۔ اس مقدمے کی سماعت اٹھارہ جولائی تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اب مسلم لیگ قاف کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے حکومت کے پاس ظفر قریشی کی معطلی کو برقرار رکھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ اس جماعت کے بھی حکومت سے الگ ہونے کے بعد موجودہ حکومت اپنی اکثریت کھو دے گی۔
No comments:
Post a Comment