Friday, February 4, 2011

پی سی او ججوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ... اصلاح کے خواہشمند تمام طبقات عدلیہ کی ڈھال بن جائیں

سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس ایم اے شاہد صدیقی کی سربراہی میں قائم عدالت عظمٰی کے چار رکنی فل بینچ نے سپریم کورٹ کے 2؍ نومبر 2007ء کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرکے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے اعلیٰ عدلیہ کے 9 ججوں کی توہین عدالت کے نوٹسوں کیخلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے انہیں 21؍ فروری کو اظہارِ وجوہ کے حتمی نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ کیوں نہ ان کیخلاف توہینِ عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے‘ فاضل عدالت نے پی سی او نافذ کرنے اور اس پر عملدرآمد کرانے کی بنیاد پر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف‘ سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور اس وقت کے کور کمانڈروں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا معاملہ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری پر چھوڑ دیا اور سفارش کی کہ ان مدعا علیہان کے معاملہ کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے معاملہ سے الگ رکھا جائے۔ ان مدعا علیہان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا لاہور ہائیکورٹ کے دو پی سی او ججز شبّر رضا رضوی اور حسنات احمد خان کے وکیل ڈاکٹر باسط کی جانب سے کی گئی تھی۔ 
سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 2؍ نومبر 2007ء کی شب بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کی ایک درخواست پر متفقہ احکام جاری کئے تھے کہ عدلیہ کی آزادی کیخلاف کوئی ماورائے آئین اقدام نہ کیا جائے اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے جج پی سی او نافذ ہونے کی صورت میں اسکے تحت نیا حلف اٹھائیں۔ 3؍ نومبر 2007ء کو پی سی او کے تحت معزول ہونیوالی عدلیہ کی بحالی کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کی فل کورٹ نے 3؍ نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرکے انہیں بطور جج کام کرنے سے روک دیا تھا۔ ان میں سے دو ججوں نے فاضل عدالت عظمٰی سے غیرمشروط معافی مانگ لی‘ جبکہ باقیماندہ پی سی او ججوں نے اپنے خلاف توہین عدالت کے الزام کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلہ میں عدالتِ عظمٰی میں درخواستیں دائر کیں جن میں ان کیخلاف جاری توہین عدالت کے نوٹس ختم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران دو پی سی او ججوں کی جانب سے ڈاکٹر باسط نے ایک متفرق درخواست دائر کی کہ جنہوں نے 3؍ نومبر 2007ء کو پی سی او جاری کیا اور اسکے نفاذ میں مدد دی‘ ان کیخلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ 
آئین کی دفعہ 189, 190 کے تحت تمام ریاستی ادارے اور انتظامی مشینری بشمول صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائ‘ مسلح افواج اور وفاقی و صوبائی محکمے کسی بھی عدالتی فیصلہ کو لاگو کرنے اور اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرانے کے پابند ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے 2؍ نومبر 2007ء کے فیصلہ کی تعمیل کرنا بھی ریاستی اور حکومتی اداروں کی آئینی ذمہ داری تھی تاہم اس وقت کے صدر جنرل مشرف نے جو پہلے بھی اپنی مطلق العنانہ سوچ اور جرنیلی عزائم کے تحت چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کو معطل کرکے ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوا چکے تھے‘ جسے کالعدم قرار دیکر سپریم کورٹ کے وسیع تر بینچ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کر دیا تھا‘ دوبارہ عدلیہ کی آزادی پر شب خون مارا اور سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے 2؍ نومبر 2007ء کے فیصلہ کے باوجود 3؍ نومبر کو ملک میں ایمرجنسی اور پی سی او نافذ کر دیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھائے‘ انہیں فارغ کرکے گھروں پر نظربند کر دیا گیا۔ 
فوجی جرنیلوں کے ماورائے آئین اقدامات کو اگرچہ ماضی میں بھی عدلیہ کی جانب سے نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیکر پی سی او کے تحت حلف اٹھایا جاتا رہا ہے‘ تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جانب سے جرنیلی آمر اور انکے باوردی ساتھیوں کے سامنے ڈٹ جانے کے اقدام نے عدلیہ کی آزادی کی ایک واضح سمت کا تعین کر دیا جبکہ باوقار عدلیہ کی جانب سے ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کے جرأت مندانہ اقدام نے وکلاء برادری اور سوسائٹی کے دیگر طبقات میں بھی مہذب سول معاشرت کیلئے ایک نیا عزم اور حوصلہ پیدا کیا جو بالآخر موجودہ سلطانی ٔ جمہور میں معزول ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کی کامیابی پر منتج ہوا اور حکومت سول سوسائٹی کی اس تحریک کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور پی سی او کے تحت معزول ہونیوالے ججوں کو بحال کرنے پر مجبور ہوئی۔ 
چونکہ ماضی کا سارا گند صاف کرکے ہی قانون و انصاف کی حکمرانی کے تحت سسٹم کی اصلاح ممکن تھی‘ چنانچہ اس کا بیڑہ بھی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور انکے ساتھی فاضل ججوں نے اٹھایا اور اس کا آغاز اپنے گھر سے کیا‘ وہ سسٹم کی اصلاح سے متعلق اپنے عزم پر اب تک کاربند ہیں۔ اس تناظر میں عدالت عظمٰی کے گزشتہ روز کے احکام بھی سسٹم کی اصلاح کیلئے ممدومعاون ثابت ہونگے اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی تو اس سے آئین و قانون کی عملداری کا تاثر مزید مستحکم ہو گا اور آئندہ کیلئے عدلیہ کی جانب سے نظریہ ضرورت کے تحت کسی طالع آزماء جرنیل کی قبولیت کی گنجائش نہیں نکل سکے گی۔ آئین و قانون کی عملداری کے معاملہ میں جب عدلیہ خود کو مثال بنائے گی تو اس سے ہماری سیاست اور معاشرت میں بھی تطہیر کا عمل شروع ہو جائیگا اور پھر سسٹم کے استحکام کی فضا بھی مستحکم ہو جائیگی جس کی خاطر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف موجودہ کرپٹ حکمرانوں کو سہارا دینے کی مجبوری میں بندھے نظر آتے ہیں۔ 
یہ اچھی بات ہے کہ خود مدعا علیہ ججوں کی جانب سے عدالت عظمٰی کے فیصلہ کے برعکس پی سی او کے نفاذ اور اسکی قبولیت پر سابق صدر‘ وزیراعظم اور اس وقت کے کور کمانڈروں کیخلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لانے کی استدعا کی گئی۔ سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے یقیناً اسے مثالی کیس بنانے کی خاطر ہی متذکرہ تمام مدعا علیہان کیخلاف کارروائی کا معاملہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی صوابدید پر چھوڑا ہے۔ یہ ساری شخصیات انصاف کے کٹہرے میں آئینگی تو اس سے عدلیہ کی آزادی کا تصور بھی پختہ ہو گا‘ انصاف کا بھی بول بالا ہو گا اور حکومتی و ریاستی اداروں کی تمام متعلقہ شخصیات کو بھی آئندہ کیلئے کان ہو جائینگے کہ آئین کی دفعہ 189, 190 صرف آئین کی کتاب میں محفوظ رکھنے کیلئے نہیں بلکہ انہیں روبہ عمل لانا انکے قانونی آئینی فرائض میں شامل ہے۔ 
اگرچہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر بیگم عاصمہ جہانگیر نے پی سی او ججز کے کیس میں عدالتِ عظمٰی کے گزشتہ روز کے احکام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے‘ جن کے بقول ان احکام میں جنرل (ر) مشرف‘ شوکت عزیز اور دوسرے مدعا علیہان کو توہین عدالت کی کارروائی سے بچانے کی گنجائش موجود ہے تاہم یہ عاصمہ جہانگیر کی اپنی سوچ ہے اور متذکرہ مدعا علیہان کے بارے میں حتمی فیصلہ تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ہی کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے عدلیہ کے ادارے کو ماضی کے گند سے پاک کرنے کے عزم پر کاربند ہیں تو دیگر حکومتی ریاستی اداروں میں بھی قانون اور آئین کی عملداری ہی ان کا مطمع نظر ہے۔ اس سلسلہ میں ان تمام طبقات کو عدلیہ کی ڈھال بننا چاہیے‘ جو اس معاشرے اور سسٹم کو کرپشن کلچر اور ہر قسم کی بے ضابطگیوں سے پاک کرنے اور سسٹم کو ٹریک پر چڑھانے کی دردمندی رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس بارے میں جو شمع جلائی ہے‘ اسکی لَو مدھم نہیں ہونے دینی چاہیے ورنہ ماورائے آئین غیرجمہوری اقدامات کا خناس رکھنے والے طالع آزماء سسٹم کا کوئی بھی کمزور پہلو ڈھونڈ کر پھر اودھم مچا سکتے ہیں۔ انہیں قانون و آئین کی حکمرانی سے ہی نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔ 
مصر میں ملین ملین مارچ ہمارے حکمرانوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ 
مصر میں صدر حسنی مبارک کیخلاف ملین مارچ کی کال پر 30 لاکھ کے قریب افراد نے قاہرہ میں زبردست احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ حسنی مبارک فوری طور پر اقتدار چھوڑ دیں۔ حسنی مبارک نے فوری طور پر مستعفی ہونے سے انکار کیا ہے تاہم کہا ہے کہ وہ ستمبر میں ہونیوالے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اوباما کے ایلچی نے بھی حسنی مبارک کو یہی پیغام پہنچایا ہے کہ وہ ستمبر 2011ء کے انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ 
اسلامی ممالک میں تبدیلی کی لہر تیونس سے شروع ہوکر مصر، یمن اور اردن تک پہنچ چکی ہے اور بعید نہیں کہ یہ پاکستان تک بھی چلی آئے کیونکہ یہاں بھی مذکورہ ممالک کی طرح حالات بگڑے ہوئے ہیں۔ کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری سے لوگ پریشان ہیں۔ امریکہ کی خوشامد اور چاپلوسی بلکہ غلامی میں ہمارے حکمران دیگر اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ مشرف کی فوجی آمریت سے پاکستانیوں کی جان چھوٹی تو سیاسی آمریت مسلط ہو گئی۔
تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کے باوجود انکے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں جس محکمے، شعبے اور ادارے کو دیکھ لیجئے کرپشن اور بے انتہاء کرپشن نظر آتی ہے۔ بدنظمی ایسی کہ ریلوے، سٹیل مل اور پی آئی اے دیوالیہ ہونے کو ہیں۔
ریلوے فریٹ آپریشن تیل کی کمی کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 55 ارب کے سودے میں سے 40 ارب کا گھپلا کیا گیا۔ اوپر سے ڈرون حملوں سے عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں افراد مارے گئے ہیں۔ ان حملوں کے ردعمل میں پیدا ہونیوالے خودکش بمباروں نے پورے ملک کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ حکمران ہیں کہ ڈرون پر رسمی احتجاج بھی نہیں کرتے۔ 
ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ عالمی تناظر کو پیش نظر رکھیں۔ خدا نہ کرے کہ پاکستان میں تیونس اور مصر جیسے حالات پیدا ہوں۔ تاہم اگر حکومت نے عاقبت اندیشی سے کام نہ لیا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا۔ اس لئے عوامی مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے گو حکومت کے اسے امریکہ کے حوالے نہ کرنے کے بیانات مثبت ہیں مگر حکومت کے کچھ ذمہ دار لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈیوس کو سفارتی استثنا ثابت ہو گیا تو اسے رہا کرنا پڑیگا‘ ایسے بیانات سے لوگوں کے اندر کے شکوک شبہات کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ سینٹ کے ارکان نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ڈیوس کو پاکستانی قوانین کے مطابق سزا دی جائے۔ اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے ریمنڈ کو بیرون ممالک بھجوانے پر پابندی احسن اقدام ہے۔ بہرحال حکومت کو قومی ملکی اور عوامی مفادات کے پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں جو خود اسکے بھی مفاد میں ہے۔ 
شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر ٹیکس کی چھوٹ اچھا فیصلہ ہے
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر ٹیکسوں میں چھوٹ کی منظوری بھی دے رہی ہے۔
شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر ٹیکسوں کی چھوٹ کا فیصلہ اچھا ہے۔ اس سے انرجی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘ حکومت نے جہاں شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر ٹیکسوں میں چھوٹ دی ہے‘ وہیں اسکے پاور پراجیکٹس کی تنصیب کیلئے بھی معاونت کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں اوسطاً چودہ پندرہ گھنٹے سورج کی روشنی موجود رہتی ہے‘ یوں شمسی توانائی کا وسیع تر حصول ممکن ہے۔ آج چونکہ زراعت اور صنعت و حرفت سمیت ہر چھوٹے بڑے کاروبار کیلئے انرجی کی اہمیت بڑھ چکی ہے‘ اس لئے توانائی کے کسی ایک ہی ذریعے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان میں کوئلہ کے بے شمار ذخائر موجود ہیں‘ ایک سٹڈی کے مطابق کوئلہ سے 8 صدیوں تک مسلسل 100 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس پراسیس سے ڈیزل اور پانی بھی وافر مقدار میں حاصل ہو گا۔ پانی کے ذرائع کو استعمال کرنے کیلئے ڈیم بنائے جائیں‘ بالخصوص کالا باغ ڈیم فی الفور تعمیر کیا جائے۔ قومی سطح پر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیکر اس کی تعمیر میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں تاکہ ہمارے ملک میں توانائی کا جو بحران پیدا ہوا ہے اس سے چھٹکارا پایا جا سکے۔

No comments:

Post a Comment