سورۃ التین میں فرمایا‘ (ترجمہ) قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینین کی اور اس شہر امن کی‘ بلاشبہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق فرمایا۔ پھر اسے پست ترین سے پست مخلوق کی طرف موڑ دیا۔ سوائے انکے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے‘ تو ان کیلئے ایسا اجر ہے‘ جس میں کمی نہیں کی جائے گی۔ (التین: ۱ تا ۶)۔
اللّہ پاک جب کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے بطور ثبوت پیش فرما رہے ہیں۔ اس سورۃ میں ارشاد یہ ہے کہ اللّہ تعالٰی نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق فرمایا ہے۔ یعنی اس میں جملہ صلاحیتوں کا نہایت حسین امتزاج ہے اور وہ بلند ترین مراتب کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر اس میں پست ترین مخلوق سے بھی پست تر حالت میں گرنے کا رجحان بھی موجود ہے اور اس کے ثبوت میں چار چیزیں پیش کیں۔ التین سے مراد وہ جگہ جہاں نوحؑ وعظ و نصیحت کرتے رہے۔ وہاں عیسٰیؑ نے مشہور پہاڑی کا خطبہ دیا۔ طور وہ جگہ ہے جہاں حق تعالٰی نے موسیٰؑ کو شرف تکلّم سے نوازا۔ شہر امن مکہ مکرمہ ہے جہاں ہمارے رسولؐ پاک تشریف فرما ہوئے۔ حضرت نوحؑ اور حضرت عیسیٰؑ میں ایک گونہ مشابہت ہے کہ دونوں کے وعظ و نصیحت سے بہت کم لوگ ایمان لائے۔ موسیٰؑ اور جناب رسولؐ پاک میں ایک گونہ مشابہت ہے۔ حضرت موسیٰؑ بھی صاحب شریعت تھے۔ سورۃ المزمل میں ارشاد ہے (ترجمہ) ’’بے شک ہم نے تمہاری طرف رسولؐ بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔‘‘ (الزمل: ۵۱)
ان قسموں سے حضرت نوحؑ اور عیسیٰؑ اور موسیٰؑ اور جناب رسولؐ پاک کو بطور شواہد پیش فرمایا کہ ان شخصیتوں کو دیکھ لو۔ بلاشبہ انسان کی تقویم احسن ہے اور جن لوگوں نے ان حضرات کی مخالفت کی تھی‘ نوح کی قوم کے سردار‘ عیسٰیؑ کے یہودی دشمن‘ فرعون اور مکہ کے سردار ابوجہل‘ ابولہب اور ولید بن مغیرہ وغیرہ وہ پست ترین مخلوق سے بھی پست ہو گئے تھے۔ البتہ جو لوگ پیغمبروں پر ایمان لائیں اور اچھے اعمال کریں ان کیلئے ایسا اجر ہے جس میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے گا یعنی وہ اپنی احسن تقویم پر قائم رہیں گے اور بلند سے بلند تر مراتب کی طرف بڑھتے رہیں گے۔
دنیا بالعموم اسفل سافلین ہی کی بالادستی رہی ہے۔ صرف ہمارے رسول پاکؐ نے اپنی شخصیت عظیمہ کے زور سے قرآن پاک کی تعلیم پر مبنی ایسا معاشرہ اور ایسی مملکت قائم فرمائی جس میں آپؐ پر ایمان لانے والے حضرات صحابہؓ کرام کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوئیں اور ایسے انسان بااختیار ہوئے‘ جو احسن تقویم پر قائم رہے اور جن سے انسانیت کو فائدہ پہنچا۔
اللّہ پاک جب کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے بطور ثبوت پیش فرما رہے ہیں۔ اس سورۃ میں ارشاد یہ ہے کہ اللّہ تعالٰی نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق فرمایا ہے۔ یعنی اس میں جملہ صلاحیتوں کا نہایت حسین امتزاج ہے اور وہ بلند ترین مراتب کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر اس میں پست ترین مخلوق سے بھی پست تر حالت میں گرنے کا رجحان بھی موجود ہے اور اس کے ثبوت میں چار چیزیں پیش کیں۔ التین سے مراد وہ جگہ جہاں نوحؑ وعظ و نصیحت کرتے رہے۔ وہاں عیسٰیؑ نے مشہور پہاڑی کا خطبہ دیا۔ طور وہ جگہ ہے جہاں حق تعالٰی نے موسیٰؑ کو شرف تکلّم سے نوازا۔ شہر امن مکہ مکرمہ ہے جہاں ہمارے رسولؐ پاک تشریف فرما ہوئے۔ حضرت نوحؑ اور حضرت عیسیٰؑ میں ایک گونہ مشابہت ہے کہ دونوں کے وعظ و نصیحت سے بہت کم لوگ ایمان لائے۔ موسیٰؑ اور جناب رسولؐ پاک میں ایک گونہ مشابہت ہے۔ حضرت موسیٰؑ بھی صاحب شریعت تھے۔ سورۃ المزمل میں ارشاد ہے (ترجمہ) ’’بے شک ہم نے تمہاری طرف رسولؐ بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔‘‘ (الزمل: ۵۱)
ان قسموں سے حضرت نوحؑ اور عیسیٰؑ اور موسیٰؑ اور جناب رسولؐ پاک کو بطور شواہد پیش فرمایا کہ ان شخصیتوں کو دیکھ لو۔ بلاشبہ انسان کی تقویم احسن ہے اور جن لوگوں نے ان حضرات کی مخالفت کی تھی‘ نوح کی قوم کے سردار‘ عیسٰیؑ کے یہودی دشمن‘ فرعون اور مکہ کے سردار ابوجہل‘ ابولہب اور ولید بن مغیرہ وغیرہ وہ پست ترین مخلوق سے بھی پست ہو گئے تھے۔ البتہ جو لوگ پیغمبروں پر ایمان لائیں اور اچھے اعمال کریں ان کیلئے ایسا اجر ہے جس میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے گا یعنی وہ اپنی احسن تقویم پر قائم رہیں گے اور بلند سے بلند تر مراتب کی طرف بڑھتے رہیں گے۔
دنیا بالعموم اسفل سافلین ہی کی بالادستی رہی ہے۔ صرف ہمارے رسول پاکؐ نے اپنی شخصیت عظیمہ کے زور سے قرآن پاک کی تعلیم پر مبنی ایسا معاشرہ اور ایسی مملکت قائم فرمائی جس میں آپؐ پر ایمان لانے والے حضرات صحابہؓ کرام کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوئیں اور ایسے انسان بااختیار ہوئے‘ جو احسن تقویم پر قائم رہے اور جن سے انسانیت کو فائدہ پہنچا۔
No comments:
Post a Comment